Episode 30 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 30 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

اس دوران ایک بار بھی گو کہ اس نے نظریں نہیں اُٹھائی تھیں، مگر کسی کی گرم نگاہوں کی تپش اپنا احساس بخشتی رہی تھی۔ سب سے زیادہ اشعر نے اُسے داد دی۔
”بجا فرمایا…! بالکل بجا فرمایا…!“
فضہ مسکرانے لگی، ریلیکس سے انداز میں۔
”تھینک گاڈ…! تمہیں پسند تو آئی، ورنہ میں ڈر رہی تھی، ٹریجک شاعری ہے، کہیں تم لوگ خفا نہ ہونے لگو۔
”خفا کیوں ہوں گے…؟ ہر کسی کی اپنی پسند ہے۔ویسے خدا آپ کو ہمیشہ شاد و آباد، خوش و خرم رکھے، آمین…!“
عاقب کا انداز بزرگانہ سنجیدگی لئے ہوئے تھا۔ اشعر کو مصنوعی کھانسی نے آن لیا۔
”ایمی…! ہے کچھ یاد…؟“
فضہ نے بڑی نرمی سے ایمان کو مخاطب کیا تھا، وہ جو اپنے کسی خیال میں گم تھی، چونک اُٹھی۔
”سنادیتی ہوں۔

(جاری ہے)

”لیکن کھری کھری نہیں…! پلیز…! آخر میری بھی کوئی عزت ہے۔“
اشعرنے بے ساختہ دونوں ہاتھ اُٹھا دیئے۔
”جی جی…! ورنہ اس سے قبل ہم مشکوک تھے، ابھی ابھی پتا چلا ہے۔“
وہ ہنستے ہوئے اس کی درگت بنانے لگی۔ 
”اس بات کو چھوڑیں، اپنے ٹریک پر آئیں۔“
اشعر نے نخوت سے کہا تو ایمان نے کاندھے اُچکا دیئے۔
”میرے باطن کو ظاہر کی حمایت مار ڈالے گی
دلِ برباد تجھ کو تو یہ وحشت مار ڈالے گی
کسی ہم سر سے خائف ہوں نہ اندیشہ ہے دُشمن کا
میں انسان ہوں مجھے میری ہی نفرت مار ڈالے گی“
”بالکل بالکل…! بجا فرمایا۔
اگر ہم کہتے تو محترمہ نے غصہ کر لینا تھا۔“
اشعر نے بیٹھے بیٹھے بھنگڑا ڈالا۔
”یہ فاؤل ہے، یہ میری ذاتی کاوش نہیں ہے۔چپ کرکے سُنو…! ورنہ میں واک آؤٹ کر جاؤں گی۔“
ایمان نے چیخ کر کہا، مگروہ تھا نہ باز آنے والوں میں سے…“
”وہ کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے کہ
لاکھ پردوں میں رہوں، بھید میرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
”تو جناب…!اس شعر میں ہر خاص و عام کو شامل کیا گیا، بلکہ گھسیٹا گیا ہے، کیا سمجھیں…؟“
”تم چپ کر کے بیٹھو…! سمجھے…؟ بیچ میں ٹرٹر مت کرو۔
وہ جھڑک کر بولی تو اشعر بری طرح سے برا مان گیا۔
”ٹرٹر…؟ یعنی آپ نے مجھے مینڈک بنا دیا…؟“
وہ چیخا۔
”بنانے کی کیا ضرورت ہے…؟ تم ہو…!“
وہ اُسے چڑتا دیکھ کر اور چڑانے لگی۔ اصل بات بیچ میں ہی رہ گئی، جس کی طرف فضہ نے دھیان دلایا تو وہ پھر سے پڑھنے لگی۔
”لئے پھرتے ہیں ہاتھوں میں قضاکا پیش نامہ جو
انہیں اِک روز ہونے کی ندامت مار ڈالے گی
خفا ہو کر زمانے سے کہاں جائے گا میرے دل
تجھے پرُخار راہوں کی مسافت مار ڈالے گی
جلا رکھے ہیں راہوں میں دِیے جو رسمِ اُلفت کے
انہیں قاتل ہواؤں کی حقارت مار ڈالے گی
کہا اس نے جہاں چھوڑو فقط میرے ہی ہو جاؤ
تمہیں عیار دُنیا کی رفاقت مار ڈالے گی
میری تقصیر اتنی ہے میں رسموں کی نہیں قائل
مجھے اپنی ہی مٹی سے بغاوت مار ڈالے گی
تھکا ڈالا ہے جیون کو تیری مقروض سانسوں نے
مجھے اے زندگی! تیری ضرورت مار ڈالے گی“
”تھینک یو…! سو ویری مچ…!“
اشعر بے حد عاجزی سے کارنش بجانے لگا۔
”فار واٹ…؟“
وہ نخوت دہ انداز میں بھنوؤں کو جنش دے کر بولی۔
”بڑی بات ہے…! آپ نے ہماری بات مان لی۔ بھئی…! اونچے مجاجوں والی ہیں آپ…!“
اشعر کی وضاحت پہ اس نے گردن اکڑا لی۔
”ہاں بالکل…! یہ تو ہے…!“
فضہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔
”اب بس بھی کرو بونگیاں مارنا…!“
اس نے دونوں کو ایک ساتھ ٹوکا۔
”ویسے اگرہم اس وقت شاعری کے انتخاب میں ایورڈ دینا چاہیں تو کسے ملنا چاہئے…؟“
عاقب کی بات پہ سب سے پہلے اشعر کا ہاتھ اُٹھا۔
”مجھے…! مجھے…! اس کی وضاحت پیش کرتا ہوں کہ یہاں ساری بسورتی، روتی صورتیں بیٹھی ہیں، میں نے کامیڈی کلام پیش کیا ہے۔“
”جی نہیں…! بات معیار کی ہونی چاہئے۔ بہرحال آپ کا کلام ہرگز معیاری نہیں تھا۔“
ایمان نے ناک چڑھا کر کہا تو اشعر فوراً ہی لڑائی کو تیار ہوگیا تھا۔
”آپ کا تو جیسے بہت معیار تھا…؟ اونہہ…!“
”ایوارڈ کے لئے تو مینشن عاقب بھائی کریں گے۔
ایمان نے گویا اُسے چپ کرانا چاہا۔
”ایوارڈ کیا ہے…؟ پہلے یہ تو جان لو…!“
فضہ نے اہم نقطے کی سمت توجہ دلائی اور اشعر کھی کھی کرنے لگا۔
”بالکل بالکل…! بھلے یہ مونگ پھلی اور چلغوزوں کے چھلکے اُٹھا کر آپ کو پیش کر دیں۔“
اس کی بات پر ایک زبردست قہقہہ لگا۔ ایمان ایک لمحے کو کھسیا گئی۔ پھر عاقب کی سمت متوجہ ہو کر بولی۔
”پہلے ایوارڈ کی رونمائی کیجئے بھائی…!“
”چونکہ اس بات کی سمت پہلے توجہ نہیں تھی، لیکن ہم جیتنے والے کو کچھ نہ کچھ بہرحال ضرور دیں گے۔ ڈونٹ وری…!“
عاقب نے اس سنجیدگی سے جواب دیا، جس کا وہ اب تک مظاہرہ کر رہا تھا۔
”اوکے فائن…! تو بتائیے…! آپ کے خیال میں کون رہا ہے ونر…؟“
”ولید حسن…! ”گلابی پھول سی لڑکی“ میدان لوٹ لیا سچی یار…! تم نے۔
عاقب حسن نے بلا تخفیف کہا تو جہاں ولید چونکا تھا، وہاں ایمان کا منہ بن گیا۔ جبکہ عاقب، ولید کا شانہ تھپک رہا تھا۔
”اونہہ…! اپنے بھائی کو ہی جتایا ناں…؟“
وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔ اشعر بے ساختہ مسکرانے لگا، شوخ رنگ چھلکاتی مسکان۔
”یہ جیت بھائی کی نہیں، درحقیقت آپ کی ہے، اگر سمجھیں تو…!“
ذومعنی لہجہ ایمان کو ٹھٹکا گیا۔
اس نے دیکھا نہیں، ولید حسن نے اپنی جگہ پہ پہلو بدلا تھا اور بہت سنگین قسم کی نظروں سے ا شعر کو گھورا جس میں تنبیہ تھی۔ اشعر کا پتہ پانی ہو کر رہ گیا۔
”ایکسپلین کرو…! مطلب کیا ہے تمہارا…؟“
وہ تو جیسے اسی پل اس پہ چڑھ دوڑی تھی۔ تاثرات بے حد خوف ناک تھے۔
”آپ کو پتا ہے ناں…! زبان میں ہڈی نہیں ہوتی۔ بے چاری گوشت کا لوتھڑا، بے وجہ بھی پھسل جاتی ہے۔
میرا کوئی خاص مقصد نہیں تھا۔“
اپنی بات مکمل کر کے وہ رُکا نہیں، اُٹھ کر بھاگ گیا۔ ایمان اپنی شال میں اُلجھتی ہوئی اس کے پیچھے لپکی۔ عاقب گہرا سانس بھر کے رہ گیا۔ فضہ چائے کے برتن اکٹھے کر کے ٹرے میں رکھنے لگی۔ ولید اُٹھ کر چل دیا، مگر اس کی چال میں اضمحلال تھا۔
                                          ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط