”قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی
پر میں کیا کرتی زنجیر تیرے نام کی تھی
جس کے ماتھے پہ میرے بخت کا تارہ چمکا
چاند کے ڈوبنے کی بات اسی شام کی تھی
یہ ہوا کیسے اُڑا کے لے گئی آنچل میرا
یوں ستانے کی عادت تو میرے گھشام کی تھی“
وہ یوں بیٹھی تھی جیسے سب کچھ کھو کر خالی ہاتھ ہو۔ عجیب سی کیفیت رقم تھی چہرے پر، عجیب خالی پن تھا آنکھوں میں۔
کوئی دیکھ لیتا تو چونک اُٹھتا مگر صد شکر کہ اس پل اس کے آس پاس کوئی نہ تھا۔
ولید چلا گیا تو ماما پپا کے ساتھ وہ بھی واپس آگئی تھی اپنے گھر، جہاں اُسے جاتے اور واپسی وہاں آنے کی خواہش سہی، اس نے کتنا واویلا مچایا تھا۔ مگر جب یہ خواہش پوری ہوئی تھی تو اس کی حیثیت بے معنی ہو کر رہ گئی تھی۔
(جاری ہے)
”ماما…! فضہ کو ہی بلوا لیں ناں کچھ دنوں کو، کچھ دل تو لگے۔
“
اس نے گھبرا کر ماما سے کہا اور وہ ہنس پڑی۔
”اگر پھر بھی دل نہ لگا تو…؟سویٹ ہارٹ…!آپ کے دل کا اطمینان تو ولید حسن لے گیا ہے اپنے ساتھ، سات سمندر پار۔“
”ارے…!“
وہ ماما کی بات پر اتنا جھینپی تھی کہ پھر ان سے یہ فرمائش ہی نہیں کی تھی۔ چند دن گزرے اور اس کا یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہوگیا اور وہیں اس کی ملاقات موسیٰ سے ہوئی تھی۔
وہ نیہاں کے ساتھ پہلی کلاس لے کر نکلی تھی جب وہ اچانک اس کے سامنے آیا اور اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔
”کیسی ہیں آپ…؟“
اور ایمان جو پہلی نگاہ میں اُسے پہچان نہیں پائی تھی، کسی قدر استعجاب سے اُسے تکتی رہ گئی تھی۔
”یقینا آپ نے پہچانا نہیں ہوگا۔ آئی ایم موسیٰ کادوانی…! آپ کے گھر آئے تھے ناں ہم…؟“
وہ اُسے یاد دلا رہا تھا اور وہ یاد کرنے کے باوجود اُلجھن و حیرت میں مبتلا تھی۔
”جی…! مگر اس وقت اس جگہ پہ روکنے کا مقصد…؟“
ایمان کے لہجے کی سختی نے موسیٰ کے چہرے کے تمام تر نرم تاثرات کو لحظہ بھر میں غائب کر دیا تھا۔
”سارے مقصد آپ سے ہی تو ہیں میم…! ویسے سسٹر کی شادی مبارک ہو…! ہمیں نہ بلا کر آپ نے غیریت کی انتہا کر دی۔ جہاں مستقبل میں روابط اور تعلقات قائم ہونے ہوں، وہاں ایسی بے رُخی نہیں برتی جاتی۔
“
جہاں قائم ہونے ہوں وہاں ناں…؟یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے مسٹر…! پاپا آپ لوگوں کو منع کر چکے ہیں، پھر اس قسم کی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔ مائنڈ اٹ…! آئندہ میرا راستہ روکنے کی کوشش مت کیجئے گا۔“
ایمان نے بے رُخی اور نخوت سے کہہ کر قدم بڑھانا چاہے تھے کہ وہ ایک بار پھر راستے میں آگیا۔
”آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ نے بات ختم کی اور بات ختم ہوگئی…؟نو…! نیور…! ہارون کادونی کسی عام سے انسان کا نام نہیں ہے۔
وہ جس چیز کو دیکھتے ہیں، وہ ان کی ہوجاتی ہے۔“
اس کی آنکھیں ایک دم دہک اُٹھیں۔اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جو ایمان کے ساتھ کھڑی نیہاں کو بھی ٹھٹکا گیا تھا۔ ایمان کو اس کی بات نے سر تا پا جھلسا کے رکھ دیا۔ وہ ایک دم آؤٹ ہوئی تھی۔
”لیکن ایمان ارتضیٰ شاہ بھی کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ یہ بات آپ بھی سمجھ لیں اور اپنے بھائی کو بھی سمجھا دیجئے گا۔
میں آپ سے پھر کہوں گی، آئندہ میراراستہ روکنے کی کوشش مت کیجئے گا۔“
وہ بولی نہیں، غرائی تھی۔ مقابل کے لہجے کا تکبر و نخوت اُسے مشتعل کرنے کو کافی ثابت ہوا تھا۔ اُسے گویا ساری زندگی کا غصہ اسی لمحے میں آیا تھا۔
”ہم راستہ نہ بھی روکیں تو آپ کے تمام راستے ہماری طرف آتے ہیں۔ بہت پراؤڈ ہیں آپ…! مگر آپ ابھی ہمیں جانتی نہیں ہیں۔
ہم ایک بار جو کہہ دیں، وہ کروانا بھی جانتے ہیں۔ یاد رکھئے گا۔“
اُنگلی اُٹھا کر باور کرتا ہوا وہ لمبے ڈگ بھرتا پلٹ کر دُور ہوتا چلا گیا تھا۔ جبکہ وہ دونوں وہیں کھڑی رہ گئی تھیں۔ ایمان نے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے اور آنکھوں میں طیش کی حدتیں تھیں۔ ہوا اس کے اطراف میں خشک پتے اُڑا رہی تھی،جب نیہاں نے بہت تشویش بھری نظروں سے تکتے اس سے وہ سوال کیا تھا، جس سے وہ اس پل خود کترا رہی تھی۔
”کون تھا یہ…؟اور یہ اس قسم کی دھمکیاں کیوں دے رہا تھا…؟“
ایمان نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔ وہ خائف نہیں تھی مگر ڈسٹرب ضرور ہوگئی تھی۔ جبھی باقی کی تمام کلاسز ریجیکٹ کرتی، گھر لوٹ آئی تھی۔
اور اگلے دن وہ اس بات پر سر جھٹک چکی تھی۔ مگر یہ سر جھٹکنے والی بات نہیں تھی کہ اگلے روز جب وہ اُسے یکسر فراموش کر چکی تھی، تب وہ پھر اسی دھڑلے، نخوت اور اعتماد کے ساتھ اس کے روبرو تھا۔
”پھر کیا سوچا آپ نے…؟“
ایمان کا ماتھا اُسے دیکھتے ہی ٹھنکا تھا۔ اس وقت وہ کینٹین میں تھی اور ٹیبل پہ اکیلی تھی۔ اتفاق تھا کہ آج نیہاں یونیورسٹی نہیں آئی تھی۔
”یہ بات میرے نزدیک اتنی اہمیت ہرگز نہیں رکھتی تھی کہ میں اس پر سوچنا گوارہ کرتی۔“
اُسے دیکھتے ہی گویا ایمان کا طیش اُمڈ آیا تھا۔ موسیٰ نے اس کے حقارت زدہ تاثرات کو بہت گہری نگاہ سے دیکھا تھا۔
پھر نگاہ کا زاویہ بدل کر اطراف میں نظریں دوڑاتا ہوا بظاہر بے نیازی سے بولا تھا۔
”اس طرح کا روّیہ مت رکھیں کہ بعد میں آپ کو پچھتانا پڑے۔“
”میں تم سے ڈرتی نہیں ہوں۔ دھمکیاں مت دو، ورنہ میں تمہاری شکایت پرنسپل صاحبہ سے کر دوں گی۔“
اس کے لہجے کی سنگین دھمکی پہ وہ غضب سے بپھر کر بولی اورایک جھٹکے سے کرسی چھوڑ کر اپنا بیگ اُٹھانا چاہا تو یہ دیکھ کر اس کی پیشانی پر ناگواری کی سلوٹیں اُبھر آئی تھیں کہ موسیٰ نے اپنا بھاری بھر کم ہاتھ اس کے بیگ پر رکھ کر گویا اس کی اس کوشش کو ناکامی سے دوچار کر دیا تھا۔
”بہتر ہوگا میم…! کہ آپ سیدھے طریقے سے ہی مان جائیں۔ میرا آپ کا احترام کا رشتہ ہے، اور میں کوئی گستاخی آپ کی شان میں کرنا نہیں چاہتا۔“
اس کا کھٹور لہجہ بلا کا سرد اور سفاک تھا۔ ایمان کی ریڑھ کی ہڈی میں پہلی بار خوف کی لہر اُٹھی۔چند ثانیوں کو وہ حرکت کرنے کے قابل بھی نہیں رہی تھی۔
اگلے دن وہ دانستہ یونیورسٹی نہیں گئی۔
وہ کبھی اس بات کو لے کر اس قدر مضطرب نہ ہوئی۔ اگر جو ولید حسن اس کی زندگی میں اپنی تمام تر اہمیت کے ساتھ شامل نہ ہوگیا ہوتا۔
وہ شام کاوقت تھا، وہ ماما کے ساتھ لونگ روم میں چائے پی رہی تھی جب ملازمہ اس کا سیل فون اُٹھائے چلی آئی تھی۔
”چھوٹی بی بی…! آپ کا فون بج رہا ہے۔“
اس نے موبائل لے کر اسکرین پر نگاہ کی۔ جلتی بجھتی اسکرین پر ”ولید کالنگ“ کے الفاظ دمک رہے تھے۔