”لٹھے دی چادر اُتے سلیٹی رنگ ماہیا
آوؤ سامنے کولوں دی رُس کے نہ لنگ ماہیا“
ڈھولک پر پڑنے والی تھاپ کے ساتھ بہت ہی بلند آواز میں سر ہلایا گیا تھا۔ ایمان جو ثانیہ کو تیار کر رہی تھی، بے ساختہ مسکرا دی، اور لپ اسٹک کا ایک اور ٹچ دینے لگی۔ ثانیہ تیکھے نقوش کی سانولی مگر پرُکشش لڑکی تھی، ذرا سے سنگھار نے ہی گویا اُسے ایک دم جگمگا ڈالا تھا۔
”تیری ماں نے پکائے انڈے
اساں منگے تے پے گئے ڈنڈے
لٹھے دی چادر اُتے سلیٹی رنگ ماہیا
آوؤ سامنے کولوں دی رُس کے نہ لنگ ماہیا“
اب کی مرتبہ آواز کچھ اور بھی پاٹ دار تھی۔ اُسے پہچاننے میں ایک لمحہ لگا۔ گویا ڈھولک کی اشعر کے ہاتھوں کم بختی آگئی تھی۔
”عاشو بھائی…! بہت شرارتی اور مخولی ہیں۔
(جاری ہے)
“
اس کی مسکراہٹ کو دیکھتے ثانیہ نے اپنی رائے دی۔
ایمان کی مسکان گہری ہوگئی۔ تب ہی بند دروازے پر دستک ہوئی ۔ ایمان نے ثانیہ کا دوپٹہ اُٹھا کر سیٹ کرتے ہوئے مصروف سے انداز میں آنے والے کو اندر آنے کی اجازت دی۔
”یہ پھولوں کے گجرے امی نے بھیجے ہیں۔ امی کہہ رہی ہیں، ان میں آپ کے بھی دوگجرے ہیں۔“
حرا آپا کا چھ سالہ بیٹا پھولوں کے زیورات کا شاپنگ بیگ لئے اندر آیا تھا۔
”اوکے…! تھینکس…!“
ایمان نے شاپنگ بیگ لیتے ہوئے بچے کا گال نرمی سے چھوا۔
وہ شرما کر بھاگ گیا۔
”آپ تو پہلے ہی اتنی پیاری لگ رہی ہو باجی…! پھول پہن کر تو پرَی لگو گی، پرَی…!“
ثانیہ کی آنکھوں میں اس کے دلکشی و رعنائی سے بھرپور نازک سراپے کے لئے ستائش ہی ستائش بھری تھی۔ وہ آہستگی سے مسکرا دی۔
”تم تیار ہو، یہ زیورات گہنے وغیرہ تمہیں باہر رسم کے دوران پہنائے جائیں گے۔ آج تم اتنی کیوٹ لگ رہی ہو کہ کوئی تمہیں پہچانے گا بھی نہیں۔
“
سائیڈ پر پڑا اپنا دوپٹہ اُٹھا کر شانوں پر پھیلاتے ہوئے اس نے ایک طرح سے اس کی تعریف کی تھی۔ ثانیہ کی خواہش پہ اس نے ثانیہ کو تیارکیا تھا، ورنہ اُسے ان کاموں کا ہرگز شوق نہیں تھا۔
”یہ اپنے گجرے تو پہن لیں باجی…!“
ثانیہ نے شاپنگ بیگ سے مہکتے ہوئے چنبیلی اور گلاب کے تازہ گجرے نکال کر اس کی سمت بڑھائے تو وہ دروازے سے پلٹ کر گجرے لیتی ہوئی باہر چلی آئی، مگر اس طرح کہ ساتھ ساتھ کلائی پہ گجرا باندھنے کی کوشش بھی جاری تھی۔
”یہ شہری کڑی کون ہے…؟ کتنی موہنی ہے۔“
اس نے اپنے عقب میں یہ آواز سنی تھی، مگر پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔
”حرا کے چاچے کی دِھی ہے جو شہر میں ہوتا ہے۔ جتنی سوہنی ہے ناں، نخرہ اس سے دس گناہ زیادہ ہے۔ کیسا کڑیل ہے ولید باؤ، سارے پنڈ کی کڑیاں جان وارتی ہیں اس پہ، دل ہی دل میں پسند کرتی ہیں اُسے، مگر اس نے کسی کوکبھی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔
پر اس کے آگے تووہ ہارا ہوا لگتا ہے۔“
ایمان کے اُٹھتے قدم ٹھٹک گئے۔ اعصاب جیسے سُن ہوگئے ۔ وہ جو کوئی بھی تھیں، آپا کے سسرالی عزیزوں سے تعلق رکھتی تھیں یا محلے سے آئی تھیں۔ اس وقت برآمدے میں رکھی کرسیوں پر بیٹھی بڑی فراخ دلی سے اس پر تبصرے کرنے میں مصروف تھیں۔ گجرا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ وہ خالی خالی نظروں سے اپنے پیروں کے درمیان گرے گجرے کو تکتی رہی جس کی کچھ پتیاں ٹوٹ کر آس پاس بکھر گئی تھیں۔
”ہائیں…؟ تجھے کیا الہام ہوگیا کہ ولید باؤ بھی اُسے پسند کرنے لگا ہے…؟“
دوسری آواز میں محسوس کی جانے والی تلخی اور ناگواری شامل تھی۔ ایمان اپنی جگہ ساکن رہ گئی۔
”محسوس کرنے والی آنکھ چاہئے ہوتی ہے۔ کبھی شامل ہوا ہے وہ ایسی دعوتوں میں…؟ آج دیکھ کیسی سج دھج سے آیا ہوا ہے، اور یہ جدھر جاتی ہے ناں…! اس کی نگاہیں ساتھ ساتھ سفر کر رہی ہیں۔
تجھے اس لئے بتا رہی ہوں کہ اب تو عقل کو ہاتھ مار، سدھر جا، وہ تجھے ملنے والا ہرگز نہیں…!“
”خود ہی تو کہہ رہی ہے، اس لڑکی میں نخرہ ہے، وہ اُسے کسی قابل نہیں سمجھتی…؟“
وہی لڑکی بے بسی سے کہہ رہی تھی۔ دوسری زہرخند سے لہجے میں ہنسی۔
”اس سے تو نے کیا سمجھا کہ وہ تجھ سے شادی کر لے گا…؟ اکڑ تو ولید باؤ میں بھی بہت ہے۔ بھلے دل میں اُسے جتنا بھی پسند کرتا ہو، مگر اظہار کبھی نہیں کرے گا۔
یہ تو میں بھی جانتی ہوں۔“
”اچھا ہے…! اللہ کرے ایسا ہی ہو۔“
پہلی والی نے رقت آمیز انداز میں بآواز بلند کہا۔
”نی چپ کر نی…! وہ دیکھ رُک گئی ہے وہ، بھلے ہماری باتیں سن لی ہوں… اڑئیے…! میں نے سنا ہے، بڑی اتھری ہے۔ باؤ ولید سے بھی کئی بار پنگا لے چکی ہے۔ کسی سے نہیں ڈرتی۔ میں تو چلی، اگر کچھ کہے تو، تو ہی نپٹنا۔“
ایمان نے بھینچے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ قدموں کی دُور ہوتی آہٹ سنی اور جھک کر گجرا اُٹھا لیا۔
رسم کے لئے انتظام کھلے آنگن میں ٹینٹ لگا کر کیا گیا تھا۔ وہیں دریاں بچھا کر کرسیاں بھی رکھی گئی تھیں اور اسٹیج بھی وہیں بنایا گیا تھا۔ اس وقت سب خواتین وہیں موجود تھیں۔ برآمدے میں ایک آدھ بچے کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ بے لاگ تبصرے میں مشغول تھیں۔ وہ اُلجھے ہوئے ذہن کے ساتھ پلٹ کر دیکھے بنا پنڈال کی سمت چل دی تھی، جہاں سے اشعر کی آواز ابھی بھی آ رہی تھی۔
”تیری ماں نے پکائی کھیر وے
اساں منگی تے پَے گئی پیڑ وے
لٹھے دی چادر اُتے سلیٹی رنگ ماہیا
آوؤ سامنے کولوں دی رُس کے لنگ ماہیا“
ٹینٹ کے داخلی دروازے کے عین درمیان دو سو پاور کا بڑا بلب روشن تھا جس کے گرد چکراتے پروانے ہرآنے جانے والے پہ جل جل کر گرتے۔ وہ اپنے بڑے سے دوپٹے کو سنبھالتی کسی گوشے میں اپنے بیٹھنے کی جگہ تلاشنے لگی۔
اشعر کے اس اشارے کو اس نے سرے سے اِگنور کر دیا تھا جو اُسے دیکھتے ہی اپنے پاس بلاے کو اس نے کیا تھا۔
”بلے بلے بھئی ٹور پنجابن دی
جوتی کھل دی مروڑا نہیوں جھل دی
ٹور پنجابن دی ، او بلے بلے“
اشعر نے اُسے دیکھ کر شرارت بھرے انداز میں نئی تان اُڑائی تھی۔ فضہ بھی اس کے ساتھ تھی۔ ایمان کو دروازے کی سائیڈ پہ آخر میں ایک خالی کرسی نظر آگئی۔
وہ جا کر اس پر بیٹھ گئی۔ ان لڑکیوں کی آواز کی بازگشت جیسے اس کے تعاقب میں لپکتی ہوئی ساتھ ساتھ آئی تھی۔
”اور یہ جدھر جاتی ہے ناں…! اس کی نگاہیں ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں۔“
اس نے ہونٹ بھینچ لئے۔ پتا نہیں کس حد تک صداقت تھی ان باتوں میں…؟ مگر ولید حسن کی ذرا سی لغزش نے اس کی ذات کو ضرور افسانہ بنا ڈالا تھا۔ معاً کسی خیال کے تحت اس نے پورے پنڈال میں اُسے کھوجا۔
وہ اُسے آپا اور ان کی ساس کے ساتھ کھڑا باتیں کرتا نظر آگیا۔
بلیک کُرتا شلوار، سلیقے سے بنے بال، ست رنگا چمکدار پٹکا جسے وہ ٹائی کے انداز میں گلے میں لٹکائے ہوئے اپنی بے پناہ وجاہت کے ساتھ گویا پورے ماحول پہ چھا رہا تھا۔ ذرا سا غور کرنے پر اس پہ یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ وہاں ہر عمر کی لڑکیوں کی توجہ کا مرکز وہی تھا۔ جبکہ اس کی توجہ کا مرکز صرف وہی۔
اس کی بھٹکی نگاہیں باربار اس کے سراپے کا احاطہ کر رہی تھیں۔ ایمان کے اندر جیسے کوئی برق اُترنے لگی۔ ہونٹ بھینچے وہ شعلہ بار نظروں سے اُسے گھورنے لگی۔
”بلے بلے بھئی او تیرا کیہ لگ دا
بڑا ہسدی ایں نین ملا کے
او تیرا کیہ لگ دا، او بلے بلے“
اشعر جو اس کی تاک جھانک میں مصروف تھا، اس کی نگاہوں کا مفہوم سمجھے بغیر گلا پھاڑ کر چنگھاڑتے ہوئے اس پر بہت کچھ جتانے لگا۔ بظاہر وہ گانا گا رہا تھا، ایمان کی پیشانی تپ اُٹھی۔ ضبط کی انتہاء بھی ہوگئی تو یوں ہی دانتوں پر دانت جمائے، مٹھیاں بھینچے تنک کر مما کے پاس آگئی جو تائی ماں اور حرا آپا کی ساس کے ساتھ بیٹھی باتوں میں مصروف تھیں۔