اُمید حسن کے نزدیک آنے پر وہ کسی قدر تلخی سے بولا تھا۔ اُمید حسن نے اس تلخی کو اپنی نادانی کے باعث محسوس نہیں کیا، البتہ اس کی غلط فہمی کو ضرور دُور کر دیا تھا۔
”مما تیار ہونے گئی ہیں پپا…! ابھی آتی ہیں۔“
اور ولید حسن ہونٹ بھینچے خاموشی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی تک آگیا تھا۔
”کسی قسم کی خوش فہمی کو دل میں جگہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
تمہاری اس عارضی رفاقت کو ناگواریت کو جبراً سہنے پہ میں اپنے بیٹے کی وجہ سے مجبور ہوا ہوں۔“
جس وقت وہ پیازی کلر کے سادہ مگر نفیس سوٹ میں آکر گاڑی میں بیٹھی، ولید حسن نے ونڈو اسکرین پر اپنی نگاہوں کو مرکوز رکھے اُسے جتانا ضروری خیال کیا تھا۔ ایمان کا چہرہ تمام تر ضبط کے باوجود پھیکا پڑ گیا۔
”پپا…! آج میں بہت خوش ہوں۔
(جاری ہے)
آج میں پپا اور ماما دونوں کے ساتھ ہوں ناں…! جیسے فاطمہ جیسے علی اور جیسے سرمد اپنے پاپا ماما کے ساتھ آؤٹنگ پر جاتا ہے۔
ہم واپسی پر آئس کریم بھی کھائیں گے ناں پپا…؟ ماما…! آپ پیچھے کیوں بیٹھ گئیں ہیں…؟ یہاں آگے آئیے ناں…! اور مجھے اپنی گود میں بٹھا لیں۔“
اُمید حسن نے چہک کر کہتے ہوئے ایک نئی فرمائش کر دی۔ اس کے معصوم چہرے پر ایسی طمانیت اور آسودگی تھی کہ ولید حسن چاہنے کے باوجود اُسے کسی بات پر ٹوک نہ پایا۔
”سردی بہت ہے سویٹ ہارٹ…! آئس کریم کھانے سے گلا خراب ہو جاتا ہے۔
ہم آپ کو ڈھیر ساری چاکلیٹ دلائیں گے، ٹھیک ہے…؟“
ولید حسن نے اس کی اہم فرمائش سے دھیان ہٹانے کی غرض سے بات پلٹ دی، مگر وہ بھی اسی کا بیٹا تھا، جو اس کی اگلی بات پر ثابت ہوگیا۔
”فائن پپا…! میں آئس کریم نہیں کھاتا، مگر گاڑی تو روکیں ناں، تاکہ ماما یہاں آکے بیٹھ سکیں۔“
ولید حسن دل ہی دل میں بل کھا کر رہ گیا، مگر چہرے پر کوئی تاثر نہیں آنے دیا تھا، اور گاڑی روک دی۔
”چلیں ناں ماما…! یہاں آئیں…!“
اُمید حسن کی فرمائش پر ایمان نے ہونٹ بھینچ کر اُسے دیکھا، پھر سر کو نفی میں جنبش دے کر بولی تھی۔
”اُمید بیٹا…! ماما یہاں ریلیکس ہیں، آپ ضد مت کرو۔“
”مگر ماما…! مجھے اچھا لگے گا، اگر آپ ہمارے ساتھ بیٹھو گی۔“
اُمید حسن نے ضد کی تھی، مگر ایمان کا اس کی اتنی مانتے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، وہ تو اس لمحے کو پچھتا رہی تھی جب اُمید حسن کے کہنے پر آنے کا فیصلہ کیا تھا۔
”میں آپ کے ساتھ ہی ہوں، ڈونٹ وری…!“
”لیکن وہاں نہیں، یہاں…!“
اُمید حسن کے انداز میں ہٹ دھرمی تھی۔ ولید حسن جو تب سے دونوں کی جرح سن رہا تھا، سخت متنفر ہوگیا۔
”کون سی اَنا کا پرچم بلند کرنے کی کوشش میں ہلکان ہیں محترمہ…! اتنی ہی ناک عزیز تھی تو ساتھ نہ آئی ہوتیں… اگر بچے کی خاطر یہ قدم اُٹھا ہی لیا ہے تو فضول کی ضد کیا معنی ر کھتی ہے…؟“
اس کے ہٹیلے انداز پر بھڑک کر وہ قہر سامان تاثرات سمیت گہرے طنز سے پھنکارا تھا۔
اس درجہ توہین پہ ایمان کا چہرہ جھلس کر بھاپ چھوڑنے لگا۔ آنکھیں یوں جل اُٹھیں جیسے کسی نے مٹھی بھر مرچیں جھونک دی ہوں۔
”آپ کو اس طرح سے میری اِنسلٹ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، سمجھے آپ…؟“
بھینچے ہوئے لہجے میں وہ تنک کر بولی تھی۔ ولید کے چہرے پر زہر سے بجھی مسکان پھیل گئی۔
”میں جانتا ہوں آپ نے اس قسم کے کیا، کسی قسم کے بھی حقوق مجھے نہیں دیئے۔
“
اس کے اندر کی کھولن بہت سرعت سے باہر آئی تھی اور اسی حساب سے ایمان کی اذیت میں اضافہ ہوا تھا۔
”اس کے باوجود آپ ہر قسم کے حق استعمال کرتے رہے… وائے…؟“
وہ غم و غصے سے جیسے پاگل ہوگئی تھی۔
”میں کب کا لعنت بھیج چکا ہوں تم پر…!“
کھولتے اعصاب پر قابو پا کر اب وہ بہت تضحیک آمیز انداز میں گویا ہوا تھا اور گویا ایمان کو سر تا پا سلگا دیا۔
”تو پھر چھوڑ کیوں نہیں دیتے مجھے…؟ کیوں اپنے ساتھ لٹکا رکھا ہے…؟ اگر اتنی ہی نفرت ہے مجھ سے تو…“
وہ جیسے بس سے باہر ہونے لگی۔
”چھوڑ دوں…؟تاکہ تم اپنی مرضی سے گلچھڑے اُڑا سکو…؟ میں تمہاری اس مکروہ خواہش کو کبھی پورا نہیں ہونے دوں گا۔“
ولید کا اشتعال عروج پر جا پہنچا۔ ایمان کو لگا تھا کسی نے یک لخت اس کے وجود کو کسی تیز دھار آلے سے دو ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا وہ۔
چھ سال بعد بھی اس پر وہی الزام بدستور تھا۔
وہ مر کیوں نہیں جاتی…؟ اس ذِلت سے کیا موت بہتر نہیں تھی…؟
اس نے شدید ذہنی ہیجان کے ساتھ سوچا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر مجنونانہ کیفیت میں سمت کا تعین کئے بغیر دوڑ پڑی۔ ولید حسن جو خود شدید طیش کی کیفیت میں تھا، اس کی اس حرکت پہ فوری طور پر اس لئے بھی متوجہ نہیں ہو سکا تھا کہ اس کی ساری توجہ اُمید حسن کی طرف ہوگئی تھی جو انہیں جھگڑتے ہوئے دیکھ کر پہلے تو سہمی ہوئی نظروں سے دونوں کو ٹکر ٹکر دیکھتا رہا تھا، پھر ولید حسن کے بازو سے چمٹ کر گھٹ گھٹ کر رونے لگا۔
ولید حسن اُسے چپ کرانے میں مصروف ہو چکا تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز پہ چونکا۔ گاڑی اس وقت سی سائیڈ کے نزدیک تھی اور ایمان کا رُخ سمندر کی طرف تھا۔ وہ اندھا دُھند، دیوانہ وار سمندر کی طرف لپکی جا رہی تھی۔
”پپا…! ماما…! ماما…!“
اُمید حسن کے چیخنے کی آواز پہ اس کے ایک دم جامد ہو جانے والے اعصاب خفیف سے جھٹکے سے بیدار ہوئے۔
اُمید حسن کو چھوڑے وہ دروازہ کھول کر باہر آیا۔ ایمان کے ارادے کی خطرناکی کا احساس ہوتے ہی اس کے وجود میں جیسے بجلی بھر گئی تھی۔ اگلے ہی چند لمحوں میں اس نے ایمان کو جا لیا تھا۔ اس کا بازو پکڑتے ہی ایک زناٹے کا تھپڑ اس کے چہرے پر دے مارا۔
”اتنا شوق تھا خودکشی کا تو چھ سال کا عرصے تھا تمہارے پاس، یا پھر میرے ساتھ ہی یہ دُشمنی بھی نکالنی تھی…؟“
اُسے وحشت بھرے انداز میں اپنے ہاتھوں میں بھینچے وہ غرا غرا کر بولا تھا۔
تیز چلتی ہوا سے پھڑپھڑاتے ایمان کے دوپٹے نے کچھ ہواؤں کی شوریدہ سری نے ولید کے الفاظ فضاؤں میں گم کر دیئے تھے، مگر ان کی بازگشت ایمان کی سماعتوں میں گویا ہمیشہ کے لئے ٹھہر گئی تھی۔
تضحیک اور اہانت کے احساس نے اس کے بپھرے وجود کو کچھ اور بھی وحشت عطا کر ڈالی۔ وہ اس کے حصار میں ماہی بے آب کی طرح مچلی۔
”چھوڑ دیں مجھے… مجھے زندہ نہیں رہنا۔“
وہ تڑپ تڑپ کر روئی تھی۔
”واپس چلو…! اپنے اس شوق کو گھر جا کے پورا کر لینا۔ ڈونٹ وری…! بہت سے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں خودکشی کے۔“
وہ اس کا بازو پکڑے پھنکار کر بولا اور گھسیٹتا ہوا اُسے اپنے ساتھ لے گیا۔ ایمان ایک دم گم سم ہوگئی تھی۔
###