”السلام علیکم…!“
اس نے کال ریسیو کی تو ولید کی چہکتی، پرُجوش آواز جیسے اس کے اندر زندگی کا احساس بن کر اُتری تھی۔
”وعلیکم السلام…! کیسے ہیں…؟“
وہ بے اختیار مسکرا دی۔
”آپ کے بغیر جیسے ہو سکتے ہیں، ویسے ہی ہیں۔“
جواباً وہ ٹھنڈی آہیں بھرنے لگا اور وہ جھینپ کر ہنس دی تھی۔
”کیا ہو رہا تھا اس وقت…؟ کیسے یاد آگئی…؟“
”ہمیں تو ہر وقت آپ کی یاد آتی ہے۔
تم سناؤ جانِ من…! تم کیا کرتی رہتی ہو…؟“
”کم از کم آپ کی طرح سے ہر وقت آپ کو یاد نہیں کرتی۔“
اس کا لہجہ صاف صاف چڑانے والا تھا۔ ولید حسن نے جواباً ٹھنڈا سانس بھرا اور گویا ہوا۔
”ہاں صحیح کہتی ہیں میم کہ
کسی کا عشق، کسی کا خیال تھے ہم بھی
گئے دنوں میں بہت با کمال تھے ہم بھی
ہماری کھوج میں رہتی تھیں تتلیاں اکثر
کہ اپنے شہر کا حسن و جمال تھے ہم بھی
زمیں کی گود میں سر رکھ کر سو گئے آخر
اس کے ہجر میں کتنے نڈھال تھے ہم بھی
اور مزید یہ کہ
کچھ اور سوچنے کی ضرورت نہیں مجھے
تیرے سوا کسی سے محبت نہیں مجھے
رہتا ہے مجھے بس دن رات تیرا خیال
میں تجھ کو بھول جاؤں طاقت نہیں مجھے
کل شب تمہاری یاد میں آنسو چھلک پڑے
اب اور کچھ بھی کہنے کی حاجت نہیں مجھے
کس کو سناؤں جا کے میں اپنا حالِ دل
تو نے تو کہہ دیا ہے فرصت نہیں مجھے“
”افوہ…! سوری بھئی…! آپ نے تو دل پہ ہی لے لیا۔
(جاری ہے)
اب ایسی بات بھی نہیں ہے۔ میں بھی آپ کو یاد کرتی ہوں۔“
وہ ہنسنے لگی تھی۔ ولید نے ایک اور سرد آہ بھری۔
”میں کیسے یقین کروں بھلا…؟“
”اب آپ کو یقین دلانے کو مجھے کیا کرنا پڑے گا…؟“
”کوئی دیوان نذر کرو ہماری۔“
وہ پھیلا اور ایمان پھنس گئی۔
”اُف…! اتنی کڑی سزا…؟“
اس نے مصنوعی خفگی سے کہا اور ولید خفا ہونے لگا۔
”یہ سزا ہوگی تمہارے لئے…؟“
”نہیں…! سعادت ہوگی۔“
وہ ہنس پڑی۔ بڑی خوش گوار، پیاری سی ہنسی ہسی تھی، جس میں ولید کا قہقہہ بھی شامل ہوگیا۔
”چلو پھر اس سعادت کو حاصل کرو۔ آپ فون بند کریں، میں سینڈ کرتی ہوں آپ کو۔“
”نہیں…! خود سناؤ…!“
ولید نے صاف انکار کیا تو وہ بسوری تھی۔
”مجھے شرم آئے گی ولید…! ماما سامنے بیٹھی ہیں۔
“
اور ولید نے خاصی دیر تک اس کا ریکارڈ لگایا تھا، پھر مانا تھا۔اس کے فون بند کرتے ہی ایمان مسکراتے ہوئے نظم ٹائپ کرنے لگی۔
”بہت یاد آنے لگے ہو
بچھڑنا تو ملنے سے بڑھ کر
تمہیں میرے نزدیک لانے لگا ہے
میں ہر وقت خود کو
تمہارے جواں بازوؤں میں پگھلتے ہوئے دیکھتی ہوں
میرے ہونٹ اب تک
تمہاری محبت سے نم ہیں
تمہارا یہ کہنا غلط تو نہ تھا کہ
میرے لب تمہارے لبوں سے ہی گلنار ہیں
تو خوش ہو
کہ اب تو میرے آئینے کا بھی یہی کہنا ہے
میں ہر بار بالوں میں کنگھی اُدھوری ہی کر پا رہی ہوں
تمہاری محبت بھری اُنگلیاں روک لیتی ہیں مجھ کو
میں اب مانتی جا رہی ہوں
میرے اندر کی ساری اُمیدیں اور باہر کے موسم
تمہارے سبب سے تمہارے لئے تھے“
اس نے ولید کے نمبر پہ یہ نظم سینڈ کی اور پھر کچھ سوچ کر مزید ٹائپ کرنے لگی۔
”ورق ورق یہ تیری عبارت، تیرا فسانہ، تیری حکایت
کتابِ ہستی جہاں سے کھولی، تیری محبت کا باب نکلا“
اس نے یوں ہی مسکراتے ہوئے یہ شعر بھی ولید کو سینڈ کیا ہی تھا کہ اسی پل اس کے سیل پہ کسی انجان نمبر سے کال آنے لگی۔ اس نے دیکھا، ماما اُسے مصروف پا کر وہاں سے اُٹھ کر جا رہی تھیں۔ اس نے چائے کا مَگ اُٹھاتے ہوئے مصروف سے انداز میں کال پِک کی تھی۔
”السلام علیکم…!“
اجنبی آواز، شائستہ لہجہ، وہ قدرے چونکی۔
”وعلیکم السلام…! جی فرمائیے…!“
اس کے انداز میں اُلجھن تھی۔
”اجی…! ہم کیا عرض کریں…؟ فرمانا تو آپ نے ہے۔“
دوسری جانب سے بڑے ہی انداز سے کہا گیا۔ ایمان کے اعصاب کو دھچکا لگا تھا۔ اس نے سیل فون کان سے ہٹا کر یوں دیکھا، بلکہ گھورا جیسے سیل فون نہ ہو، کال کرنے والا بدتمیز ہو۔
”آئی ایم سوری…! میں نے آپ کو پہچانا نہیں، کس سے بات کرنا ہے آپ کو…؟“
اب کے اس کا لہجہ کڑا تھا۔ دوسری جانب گہرا سانس بھرا گیا۔
”موسیٰ کادونی…! آپ کے ہونے والے دیور۔ آج یونیورسٹی نہیں آئیں آپ…؟ہم انتظار کی زحمت میں مبتلا رہے۔“
اعتماد قابل دید تھا، مگر ایمان کو اس کے الفاظ نے آگ لگا دی تھی۔
”تم ساری زندگی بھی اس زحمت میں مبتلا رہو تو میری جوتی کو پرواہ نہیں ہے لعنتی…! پیچھا چھوڑ دو میرا۔
“
شدید غصے کی لہر نے اس کا دماغ دہکا ڈالا تھا۔ وہ قہر بھرے انداز میں جو منہ میں آیا، بولتی چلی گئی۔
”دھیرج میم…! دھیرج…! میں نے اسی روز بھی آپ کو سمجھایا تھا کہ ہمیں آپ کی عزت کرنا اچھا لگتا ہے۔ ایسا برہم روّیہ اپنائیں گی تو کہیں آپ کو پچھتانا نہ پڑ جائے۔“
ایمان اتنا جھلائی کہ سلسلہ منقطع کر ڈالا۔ اس کا موڈ اتنا خراب ہوا تھا کہ ولید کے مسیج بھی نظر انداز کر دیئے اور اس کی مزید بدتمیزی سے بچنے کی غرض سے سیل آف کر کے ایک سمت ڈال دیا تھا۔
###