Episode 87 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 87 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”سجناں نے پھُل ماریا میری روح پلک تک روئی
لوکاں دے پتھراں دی مینوں پیڑ ذرا وی نہ ہوئی“
ددا کے ریڈیو پہ گیت چل رہا تھا جس کی آواز کھلے دروازے سے اس تک بآسانی پہنچ رہی تھی۔ چاول صاف کرتے اس کے ہاتھ اس زاویے پہ ساکن ہوگئے۔ سوز و گداز سے پُرلہجے کا رچاؤ الفاظ کی کرب ناکی نے لمحے کے ہزارویں حصے میں اس کی آنکھوں کو بھگو ڈالا۔
”پیار کسی کو کبھی نہ ربّا! ایسے موڑ پے لائے
بھولنا چاہے بھی تو دل اس کو بھول نہ پائے
مجھ جیسا درد ملا ایسی چوٹ نہ کوئی کھائے
سجناں نے پھُل ماریا میری روح پلک تک روئی“
”ٹپ…! ٹپ…!“
دو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر چاولوں کی پرات میں گرے اور اسے خبر بھی نہ ہو سکی۔
اسی پل کچن کی سمت آتے ولید نے یہ منظر دیکھا تھا اور وہ وہیں رُک گیا تھا۔

(جاری ہے)

تبھی اس سے بے رُخی سے پوچھنے لگا۔

”کیوں رو رہی ہو…؟“
وہ جو اس کی آمد سے بھی بے خبر تھی، آواز پہ اس بری طرح سے ڈر کر اُچھلی کہ گود میں پڑی پرات چاولوں سمیت نیچے جا گری۔ فرش پہ جابجا چاول بکھر گئے، جبکہ پرات زمین پہ ایک آدھ چکر کھانے کے بعد اوندھی جا پڑی تھی۔
ولید کی آنکھوں میں تمسخر جبکہ ایمان کے چہرے پر تاسف اور پشیمانی جھلکنے لگی۔
”کیوں کرتی ہو وہ کام جو تمہارے بس کا روگ نہ ہو…؟“
ایمان نے ہونٹ کاٹ کر اسے دیکھا۔ بے بسی، خفت، گھبراہٹ اور خجالت نے مل جل کر اسے روہانسا کر دیا تھا۔ وہ جھکی تھی اور بکھرے ہوئے چاول اکٹھے کرنے لگی۔
لانبی اُنگلوں والے گلابی ہاتھ مصروفِ عمل تھے اور ولید کی نگاہ اس منظر میں اٹکنے لگی تھی۔
شریر لٹیں جنہیں وہ اسی مصروفیت کے عالم میں کانوں کے پیچھے اڑستی اور وہ پھر مچل کر اس کے گال چومنے لگتیں۔ ولید کا اپنا دل بھی انہی لٹوں کی طرح مچلا تو بے ساختہ نگاہ پھیرتے ہوئے ہونٹ بھینچ لئے۔
”میں چائے کی خاطر آیا تھا، یہاں پہ اُفتاد آ پڑی۔ بھابی کہاں ہیں…؟“
اپنی جھنجلاہٹ کو اس نے اس ذریعے سے نکالا،ایمان کی خفت دوچند ہوگئی۔
”میں ابھی بنا دیتی ہوں۔“
اس کام کو اُدھورہ چھوڑتی وہ مستعدی سے بولی۔
”مجھے چائے چاہئے میم…! جوشاندہ نہیں…!“
اس کے طنزیہ لہجے پہ ایمان کا سارا جوش دھرا رہ گیا۔
”اب کس سوچ میں گم ہوگئی ہو…؟ بناؤ گی یا میں خود کچھ کر لوں…؟“
وہ جانے کیوں اتنا جھلا رہا تھا…؟ ایمان نے جھلملاتی نظروں سے اسے دیکھا اور آگے بڑھ کر چائے کے لئے پانی رکھنے لگی۔
”ذرا اسٹرانگ قسم کی بنانا۔“
وہ ہدایات کرتا وہیں پیڑھی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ ایمان نے سر ہلایا تھا۔
”آپ کے انٹرویو کا کیا بنا…؟“
چائے بن گئی تو چھان کر کپ میں نکالنے کے بعد اس کے آگے رکھتے ہوئے ایمان نے کسی قدر جھجک کرپوچھا تھا۔ اپنی بات کے جواب میں ولید کے چہرے پر پھیلتے سکوت کو دیکھ کر ایمان کچھ خائف ہوگئی تھی۔
جانے اب وہ کیا اُلٹا سیدھا جواب دیتا…؟
”انٹرویو تو ہوگیا ہے، دُعا کرنا اللہ بہتر کرے…!“
کبھی کبھار وہ اتنا مہربان ہوجاتا ہے کہ نارمل انداز میں بھی جواب دے دیا کرتا اور یہ کبھی کبھار آنے والا لمحہ ہی ایمان کو پھول کی طرح مہکا دیتا تھا، کھلا دیتا تھا۔
”کیوں نہیں…! میری ساری دُعائیں نیک تمنائیں آپ کے لئے ہی تو…“
معاً اس کی پیشانی کو شکن آلود اور آنکھوں کو دہکتا محسوس کر کے ایمان کی زبان گنگ ہونے لگی۔
وہ کچھ کہے بغیر اُٹھا تھا اور لمبے ڈَگ بھرتا چلا گیا۔ چائے کا مگ وہیں رہ گیا تھا۔ ایمان کے اندر واضح شکست کے احساس نے ٹوٹ پھوٹ پیدا کی تھی۔ ہونٹ بھینچ کر اس نے آنسو ضبط کرنا چاہے تھے مگر آنسو بہت سرعت سے اس کے چہرے کو بھگوتے جا رہے تھے۔
                                           ###
”کیا اس نے کوئی ایسا نہیں اپنا جسے مانوں 
کہا میں نے میرے شانے پہ سب آنسو بہا لو تم
کہا اس نے محبت زندگی میں درد لاتی ہے
کہا میں نے معجزے بھی تو محبت ہی دکھاتی ہے
کہا اس نے محبت میں فقط آنسو ہی آنسو ہیں
کہا میں نے کہ ہنسنا بھی محبت ہی سکھاتی ہے
کہا اس نے دُعائیں زندگی کو مانگتے کیوں ہو
کہا میں نے میری اس ذات سے منسوب تم ہونا
کہا اس نے جنت میں خدا سے کس کو مانگو گے
کہا میں نے میرے ہمدم میرے محبوب تم ہو نا
کہا اس نے تمہیں سجنا سنورنا کیوں نہیں بھاتا
کہا میں نے میری چاہت میرا سنگھار ہی تو ہے
کہا اس نے بھلا مجھ میں تمہیں کیا چیز بھاتی ہے
کہا میں نے تمہیں دیکھوں تو جان میں جان آتی ہے“
ولید کے کسی دوست کی شادی تھی، وہ اسے ساتھ لے کر جانا نہیں چاہتا تھا، مگر دوست کا اصرار اتنا تھا کہ اسے مجبوراً حامی بھرنا پڑی۔
اسے تیار ہونے کا کہہ کر وہ خود نہانے گھس گیا تھا۔ جب باتھ لے کر نکلا تو ایمان کو چند سوٹ سامنے رکھے کچھ پریشان پایا تھا۔
”تم ابھی تک یوں ہی بیٹھی ہو…؟ شہر جانا ہے ہمیں محترمہ…!“
وہ کسی قدر درشتی سے جتا کر بولا تھا۔ ایمان اس کے موڈ کی خرابی کے خیال سے ہی گڑبڑانے لگی۔
”مجھے سمجھ نہیں آ رہی، کون سا لباس پہنوں…؟ فضہ کہہ رہی ہے، ساڑھی پہن لوں۔
وہ قدرے جھجک کر بولی۔ ولید نے برُش ٹیبل پر اُچھال کر اس کی سمت دیکھا۔ ریشمی بالوں کا آبشار پشت پر گرائے اپنی دمکتی ہوئی رنگت کے ساتھ وہ اس اُلجھن میں مبتلا کتنی انوکھی سی لگ رہی تھی۔
”ہاں…! تو پہن لو ناں…! اس میں اتنا متردد ہونے والی کون سی بات ہے…؟“
اس نے کام نپٹانے والے انداز میں کہا اور الماری کھول کر اپنے لئے کپڑے سلیکٹ کرنے لگا۔
ایمان قدرے مطمئن ہوئی تھی اور ساڑھی اُٹھا کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ ولید نے وائٹ پینٹ کوٹ نکالا اور تیار ہونے لگا، اور جس پل وہ خود پہ فراخ دلی سے پرفیوم اسپرے کر رہا تھا، تب ہی ایمان نے ساڑھی کا پلّو سنبھالتے ہوئے اندر قدم رکھا تھا۔
لچکی ڈال کی مانند ڈولتا ہوا اس کا سانچے میں ڈھلا ہوا مومی سراپا بلیک کامدار ساڑھی میں ایک دم نمایاں ہو کر غضب ڈھانے لگا تھا۔
سیاہ نیٹ کی ہاف سلیو بلاؤز میں اس کا نگاہوں کو خیرہ کرتا ہوا حسن گویا لشکارے مار رہا تھا۔ گلابی فریش چہرے پر بلا کی جاذبیت اور مسحور کر دینے والی معصومیت تھی۔ وہ صحیح معنوں میں ماحول سے بے گانہ ہو کر رہ گیا تھا۔
ایمان نے اس کی نگاہوں کے ارتکاز کو محسوس کیا تو بکھرتی دھڑکنیں کچھ اورمنتشر ہونے لگیں۔ اس کی نگاہوں کی حرارت سے پگھلتی وہ بے ساختہ نظروں کو جھکا گئی۔
ولید کو اس کے ہاتھوں میں بج اُٹھنے والی چوڑیوں کی جلترنگ نے چونکایا تھا۔ اپنی بے خودی پہ وہ بے ساختہ خفت زدہ نظر آیا۔
”یہ پہن کے جاؤ گی تم وہاں…؟“
”جج… جی…! آپ نے خود ہی تو کہا تھا۔“
وہ اس کی ترچھی کاٹ دار نظروں کی آنچ پہ سٹپٹا کر نظریں چرانے لگی۔
”تب مجھ کو تھوڑا ہی پتا تھا کہ تم…“
معاً اس نے ہونٹ بھینچ کر سر کو جھٹکا۔
پھر کسی قدر برہمی سے بولا تھا۔
”جاؤ اور فوراً سے بیشتر چینج کرو اسے۔“
”جج… جی بہتر…!“
وہ اتنی آسانی سے جان چھوٹ جانے پہ سرعت سے اندر بھاگی اور چینج کر کے جب یہ پوچھنے کو واپس آئی کہ اب کون سا ڈریس پہنے، تو پتا چلا وہ اکیلا ہی جا چکا ہے۔ ایمان ٹھنڈا سانس بھر کے رہ گئی تھی۔
                                          ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط