”تمہاری زندگی میں، میں کہاں پر ہوں
ہوائے صبح میں یا
شام کے پہلے ستارے میں
جھجکتی بوندا باندی میں
کہ بے حد تیز بارش میں
روپہلی چاندنی میں
یا کہ پھر تپتی دوپہروں میں
بہت گہرے خیالوں میں
کہ بے حد سرسری دُھن میں
تمہاری زندگی میں، میں کہاں پر ہوں
کارِ ہجوم سے گھبرائے ساحل کے کنارے پہ
کسی وِیک اینڈ کا وقفہ
کہ سگریٹ کے تسلسل میں
تمہاری اُنگلیوں کے بیچ کوئی
بے ارادہ ریشمیں فرصت
کہ جامِ سرخ سے یکسر تہی
اور پھر سے بھر جانے کا خوش آداب لمحہ
کہ خوابِ محبت ٹوٹنے اور
دوسرا آغاز ہونے کے مابین
اِک بے نام لمحے کی فراغت
تمہاری زندگی میں، میں کہاں پر ہوں“
فضہ نے نظم مکمل کی اور کسی قدر شوخی سے عاقب کو دیکھا جو مسکراہٹ ضبط کر رہا تھا۔
(جاری ہے)
”یار…! اس قسم کے سوال سب کے درمیان تھوڑا ہی کئے جاتے ہیں…؟“
وہ جیسے کنی کترا رہا تھا۔ فضہ اُسے گھورنے لگی۔ اس وقت وہ سب ٹی وی والے کمرے میں جمع تھے۔ یہ اتفاق تھا کہ ایمان اور فضہ کھانا کے بعد فرصت سے وہاں بیٹھ کر ڈرامہ دیکھنے لگی تھیں کہ اشعر نے آکر چینل بدل دیا۔
”مجھے میچ دیکھنا ہے۔“
”مگر ہمیں بھی ڈرامہ دیکھنا ہے۔
“
فضہ نے اُسے گھورا تھا۔
”چھوڑو یہ دونوں بھی دیکھنے کی چیزیں ہیں…؟ ٹاک شو دیکھتے ہیں۔“
عاقب نے آکر ایک نئی بات کر دی۔ اشعر بے ساختہ ہنسنے لگا۔
”یہ نقصان ہے ایک ٹی وی کا۔ ہر بندے کے مطلب کی تفریح فراہم نہیں کر سکتا ایک ٹائم میں بیچارہ…!“
”ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اسے دفعہ کرو…؟ ہم آج گزرے وقت کو یاد کرتے ہیں۔
“
عاقب کے آئیڈے پر اشعر نے آنکھیں پھیلائی تھیں۔
”کیا مطلب…؟ گزرا وقت…؟“
”یار…! جب شادی سے قبل ہم اپنے اپنے دلی جذبات شاعری کی زبان میں ایک دوسرے تک پہنچایا کرتے تھے۔“
وہ مسکرا رہا تھا۔ اشعر فوراً مان گیا۔ یوں ٹی وی آف ہوا اور وہ سب وہیں پر براجمان ہوگئے۔
”جاؤ اشعر…! ولید کو بلا کر لاؤ…!“
”انہیں تو بلا لاؤں، لیکن میرے والی کہاں چھپی بیٹھی ہے، کم بخت…! جسے ابھی تک میرا خیال نہیں آیا۔
“
اشعر کی بات پہ وہ سب ہنس پڑے تھے۔ چند لمحوں بعد ہی اشعر ولید کو کھنچ کھانچ کے لے آیا تھا۔
”خیریت…؟ کیوں بلوایا ہے…؟“
اس کے انداز میں کسی قدر تشویش تھی۔ نگاہ بے ساختہ سر جھکائے بیٹھی ایمان میں اُلجھی تھی۔
”بیٹھو یار…! تھینک گاڈ…! کہ ہر لحاظ سے خیریت ہے۔“
عاقب نے اُسے ایمان کے برابر دھکیل دیا۔ وہ گہرا سانس کھینچ کر رہ گیا تھا۔
”یہ جواب کہاں دیں گے…؟ میں بتاتا ہوں، بلکہ آپ کا کیا، ان کا بھی بتا سکتا ہوں۔“
اشعر نے آنکھیں مٹکا کر کہا تو فضہ نے بے ساختہ اس کی سمت دیکھا تھا۔
”ہاں بولو…!“
”آپ ان کے لئے جھجکتی بوندا باندی اور سرسری دُھن میں ہیں، جبکہ ولی بھائی کے لئے ایمان جی…“
اس نے بات اُدھوری چھوڑی اور دونوں پر ایک معنی خیز قسم کی نگاہ ڈالی۔
ایمان نے دانستہ نگاہیں اُٹھائیں جبکہ ولید سرسری انداز میں ضرور اشعر کی سمت متوجہ تھا۔
”روپہلی چاندنی میں ہیں۔“
اشعر نے کہا اور ایمان کا جانے کب کا اٹکا ہوا سانس بحال ہوا۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ ان کے مابین جو کچھ بھی تھا، اس پر پردہ پڑا ہوا تھا اور یہ ہی بہتر بھی تھا۔
”ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طول المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل تو رابد سے خالی
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں تو
سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا
ہم محبت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں کہ نشان سیر منزل پایا“
اشعر کے کہنے پہ وہ کسی کی سمت بھی دیکھے بغیر اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بہت جذب سے پڑھنے لگا تھا۔
اس کا موڈ کس قسم کا ہے، ایمان کو قطعی سمجھ نہیں آ سکی تھی۔
”ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
کنج ماضی میں ہیں
باراں زدہ طائر کی طرح آسودہ
اور کبھی فتنہٴ نارہ سے ڈر کر چونکیں
تو یہی سیاہ نگاہ بھاری پردے
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ایسے تاریک خرابے کہ جہاں
دُور سے تیز پلٹ جائیں ضیا کے آہو
بس ایک صدا گونجتی ہے
شب آلام کی یاہو یاہو
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگ دلدوز میں خوابوں کے شجر بوتے ہیں
سایہٴ ناپید تھا
سائے کی تمنا تلے سوتے رہے“
”افوہ…! آپ نے بھائی بیگم کی شان میں قصیدہ پڑھنے کی بجائے پھر المیہ شاعری کی سلیکشن کیوں کی…؟“
اشعر کو بے حد اعتراض ہوا تھا۔
عاقب نے شد و مد سے سر اثبات میں ہلا کر گویا اس کی تائید کی تو ولید نے کاندھے اُچکا کر لولی لنگڑی سی توجیح دی تھی۔
”ایکچوئلی مجھے قصیدہ خوانی کرنی نہیں آتی ناں…!“
”امیزنگ…! اتنی خوب صورت پیاری سی بیوی کو پہلو میں بٹھا کر بھی آپ یہ بات کہہ رہے ہیں۔“
اشعر نے آنکھیں پھیلا کر تحیر کا اظہار کرتے ہوئے باقاعدہ جرح کا آغاز کیا مگر وہ بڑی صفائی سے پہلو بچا گیا تھا۔
عاقب کا کاندھا ہلا کر یہ کہتے ہوئے
”چل یار…! تو کچھ سنا، میں اُسے مطمئن نہیں کر سکتا۔“
”تو یار…! تو اُسے کچھ اور سنا کر مطمئن کر دے ناں…!“
عاقب نے اُسے نئی راہ دکھائی تو وہ جیسے کچھ دیر کو کسی سوچ میں ڈوبا تھا، پھر گویا آمادگی ظاہر کر دی۔ ہلکا سا گلا کھنکارا اور اس مرتبہ اپنے پہلو میں بیٹھی گم سم نظر آتی ایمان کو دیکھتے ہوئے گنگنایا تھا۔
”وہ اِک معصوم سی چاہت
وہ اِک بے نام سی اُلفت
وہ میری ذات کا حصہ
وہ میری زیست کا قصہ
مجھے محسوس ہوتا ہے
وہ میرے پاس ہے اب بھی“
ایمان نے اس کا ہاتھ پکڑ لینے پہ چونک کر اُسے دیکھا تھا، مگر وہ اس کی سمت متوجہ نہیں تھا۔ اس کی کلائی میں پڑی چوڑیوں سے کھیل رہا تھا۔ ایمان کا دل اس کی آواز کے زیرو بم کے ساتھ ساتھ دھڑکنے لگا۔
”وہ جب جب یاد آتا ہے
نگاہوں میں سماتا ہے
زباں خاموش ہوتی ہے
مگر یہ آنکھ روتی ہے
میں خود سے پوچھ لیتا ہوں
اُسے کیا پیار تھا مجھ سے“