”ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
چٹخ کے ٹوٹ گیا دل کا سخت ایسا تھا
یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
دل نہ سہہ سکے لہجے کرخت ایسا تھا“
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، جب وہ اس کے جوتے پالش کر رہی تھی۔ ولید سے اسے ابھی کچھ دیر قبل ہی زبردست جھاڑ پڑی تھی۔ کل وہ اس کا نمبر ٹرائی کرتا رہا تھا جو مسلسل آف جا رہا تھا۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب موسیٰ کی کال کے بعد اس نے سیل فون بند کر دیا تھا۔
بس…! اتنی سی بات پہ وہ اس کی اچھی خاصی اِنسلٹ کر چکا تھا، جس نے ایمان کا دل ایک دم ہی اس سوچ کے ساتھ ویران کر دیا تھا کہ اب ساری زندگی ہی کیا، وہ اس کی محبت چاہت اور احترام جیسے جذبے کو ترستی رہے گی…؟
اس کا دل ایک بار پھر موسیٰ کو بددُعائیں دینے لگا تھا، جس کی انتہاء پسند سوچ نے اسے ولید جیسے شقی انسان کی نظروں سے گرا دیا تھا۔
(جاری ہے)
”پاگل ہوگئی ہو کیا…؟ بے وقوف عورت…! کب سے ایک ہی جوتے پہ برُش پھیر رہی ہو…؟“
ولید کی درشت آواز پہ وہ چونکی۔ وہ کچھ غلط نہیں کہہ رہا تھا، مگر لہجے کی حقارت اور تلخی اس کا دل زخمی کر گئی تھی۔ اس نے کچھ کہے بغیر دوسرا جوتا اُٹھا لیا۔ مگر ولید نے اس کے ہاتھ سے بوٹ جھپٹ لیا تھا۔
”رہنے دو…! یہ احسان نہ کرو مجھ پہ۔“
وہ پھنکار کر بولا تھا۔
ایمان نے آنسوؤں سے جل تھل ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھنا چاہا، مگر اس کا عکس دُھندلا گیا تھا۔
”جاؤ…! ناشتہ لے آؤ، یا پھر میرے سر پہ ہی کھڑی رہو گی…؟“
وہ اس بدمزاجی سے بولا تھا، ایمان ہونٹ بھینچتی نیچے آئی، پہلے واش بیسن پر رُک کر ہاتھ صابن سے دھوئے، پھر کچن کی سمت آگئی۔ فضہ ناشتے کے لوازمات ٹرے میں لگا رہی تھی۔
”میں بنا لیتی ناشتہ…!“
اس نے فضہ سے نگاہیں چار کئے بنا کسی قدر خفت سے کہا تو فضہ نے آہستگی سے اس کا گال تھپکا تھا۔
”اس قسم کی فارمیلٹیز میں نہ پڑا کرو جان…! اب لے جاؤ فٹافٹ، ٹھنڈا ہو رہا ہے۔“
اس اپنائیت، محبت اور خلوص پہ ایمان کی آنکھیں بہت سرعت سے چھلکی تھیں، جنہیں فضہ کی نگاہ کی زد سے بچانے کی خاطر ٹرے اُٹھاتے جلدی سے نکل گئی۔ اوپر کمرے میں آئی تو ولید بلیک جینز شرٹ میں تیار بال بنا رہا تھا۔ ایمان نے ٹرے لا کر میز پر رکھ دی اور خود بکھرا ہوا کمرہ سمیٹنے لگی۔
ولید نے برُش رکھا اور ٹیبل کی سمت آگیا۔
”تم نے ناشتہ کر لیا ہے کیا…؟“
سلائس اُٹھاتے ہوئے اس نے ایک نگاہ ایمان پر ڈالی تھی۔ بھیگی بھیگی نم پلکیں، آنکھوں کے زیریں کنارے شدتِ ضبط سے سرخ ہو رہے تھے۔ اس کا یہ سوگوار سا روپ بے حد اٹریکٹیو تھا۔ ولید کو ایک دم ہی اپنی زیادتی کا احساس جاگ اُٹھا۔ پتا نہیں اسے دیکھتے ہی کیوں اس کا خون کھولنے لگتا تھا…؟ حالانکہ یہ وہی چہرہ تھا جسے ایک نگاہ دیکھنے کو بھی اسے جتن کرنے پڑا کرتے تھے، مگر عزتِ نفس پہ لگائی گئی چوٹ سب کچھ اُلٹ پلٹ کر کے رکھ گئی تھی۔
”نہیں…!“
مختصر جواب آیا تھا، وہ بھی اس کی سمت دیکھے بغیر۔ آواز کے بھاری پن نے ولید کا دل کچھ اور بھی پشیمان کیا۔
”تو آجاؤ ناں…! میرے ساتھ ناشتہ کر لو…!“
ہاتھ روک کر وہ اسے منتظر نظروں سے دیکھنے لگا۔ ایمان نے اب کے اچھا خاصا چونک کر اسے دیکھا تھا۔ اس کی توجہ پا کر دھڑکنیں چٹخ اُٹھیں۔
”اس نوازش کے لئے شکریہ…! جو کچھ آپ مجھے دے رہے ہیں، میرے لئے وہی بہت ہے۔
“
اس نے کسی قدر تلخی سے کہا اور ایک جھٹکے سے پلٹ کر کمرے سے نکل گئی۔ غم، غصہ، مایوسی، بے بسی، افسردگی، کتنے احساس تھے اس کے ہمراہ، جنہوں نے آنکھوں کے سامنے آنسوؤں کی چادر سی تان دی تھی کہ سیڑھیاں اُترتے بے دھیانی میں اس کا پیر رپٹ گیا۔ یقینا سنبھلنے کی کوشش بھی کرتی، تب بھی گر جاتی، اگر جو اس کے پیچھے آتے ولید نے بروقت اسے نہ تھام لیا ہوتا۔
”دھیان کہاں ہوتا ہے تمہارا…؟“
وہ خوف سے آنکھیں میچ چکی تھی، مگر ولید کی بات پہ اس کا دماغ جیسے اُلٹ کر رہ گیا۔
”کم از کم آپ میں نہیں ہوتا۔“
بھڑک کر کہتے وہ اس سے دُور ہٹنا چاہتی تھی، مگر ولید نے اُلٹا اسے بازوؤں میں محصور کر کے زبردستی اپنے ساتھ لگا لیا۔ گرفت میں استحقاق اور گرم جوشی تھی، مگر جب بولا تو لہجہ اس کے متضاد کسی قدر طنزیہ تھا۔
”شکر ہے…! تم نے سچ بولنے کی ہمت تو کی۔“
ایمان کے وجود میں کرب آمیز شکست کے شعلے بلند ہوئے تھے۔ مضطرب آنکھوں، بے قابو ہوتی دھڑکنوں اور نم پلکوں سمیت اس نے کرنٹ کھانے والے انداز میں خود کو اس کی گرفت سے نکالنے کو مزاحمت کی۔
”یوں لمحہ لمحہ سلگا کر مارنے سے بہتر ہے، آپ مجھے ایک ہی بار ختم کر دیں۔ کیا جائے گا آپ کا…؟ مقصد تو جان چھڑانا ہے ناں…؟“
وہ بے بسی کے شدید احساس سمیت سسک اُٹھی تھی۔
ولید کا موڈ جانے کیوں آف ہوا تھا…؟
”یہ بیڈ روم نہیں ہے تمہارا…! یہ کام کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھو۔“
اس کی جھلستی نگاہ ایمان کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں پر تھی۔ ایمان جیسے سر تا پا جل اُٹھی۔
”مجھے بھی آپ کو یہی بتانا ہے کہ یہ آپ کا بیڈ روم نہیں ہے، چھوڑیں مجھے۔“
وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر باقی ماندہ سیڑھیاں پھلانگ گئی۔ ولید نے ہونٹ بھینچ کر خود پہ ضبط کیا تھا، اگر وہ کچن میں نہ گھس گئی ہوتی تو اس بدتمیزی پر وہ یقینا اس کا حشر کر چکا ہوتا۔
###