”اب وہ میری ضرورت بن گیا ہے
کہاں ممکن رہا اس سے نہ بولوں
تیری خوشبو بچھڑ جانے سے پہلے
میں اپنے آپ میں تجھ کو سمو لوں“
”اور فضہ پوچھتی ہے، میں اس سے بات کر لوں گی…؟ میں تو اس سے آج بھی جھگڑوں گی۔ مگرآج کی لڑائی کا انداز اور ہوگا۔ میں اس سے پوچھوں گی۔ اس نے مجھے کسی اور کو سونپنے کی گستاخانہ جرأت کیسے کی…؟ کہ وہ اَنا کا قیدی تو ہو، مجھے اپنی محبت کی بقاء عزیز ہے۔
“
وہ اپنی سوچوں پہ خود کو داد دیتی رہی، مسکراتی رہی۔
###
”کن لکیروں کی نظر سے تیرا رستہ دیکھوں
نقش معدوم ہوتے جاتے ہیں ان ہاتھوں کے
تو مسیحا ہے بدن تک ہے تیری چارہ گری
تیرے امکاں میں کہاں زخم کڑی باتوں کے“
وہ بے حد مضمحل تھا۔
(جاری ہے)
آج گویا اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی بازی بھی ہار دی تھی۔
پتا نہیں اس نے اَنا کو محفوظ رکھ کر دل کو کیوں دار پہ لٹکا دیا تھا، جو سسک سسک کر کہے جاتا تھا۔
”اِک بار تو کوشش کی ہوتی
شاید وہ مل جاتی
قسمت یاوری بھی تو کر سکتی تھی
نارسائی نصیب نہ ہوتی“
”بھلے ہو بھی جاتی مگر تم تو یہ ظلم نہ کرتے۔“
سوچیں اُسے اضطراب بخش رہی تھیں۔ وہ بے طرح تھک گیا تھا۔ بے مقصد بائیک کو سڑکوں پر دوڑا دوڑا کر گھر جانے سے خائف تھا۔
حقیقت سے فرارچاہ رہا تھا جو تلخ تھی، مگر کب تک…؟
اب جبکہ یہ فیصلہ کیا تھا تو پھر اس پہ ڈٹ جانا بھی ضروری تھا۔
وہ ہارا تھا پر اپنی ہار کسی پہ آشکار نہیں کرناچاہتا تھا، جبھی خود کو مضبوط بناتا گھر چلا آیا تھا۔ گھر میں مہمانوں کی آمد کے آثار نمایاں تھے۔ خصوصی صفائی کی گئی تھی۔ کچن سے اشتہا انگیز خوشبوؤں کا ایک طوفان سا اُٹھ رہا تھا۔
وہ ایک اچھی فیملی تھی، اس کے مطابق شاید تاؤ جی اور تائی ماں نے اہتمام کیا تھا۔ انہوں نے تو ایمان پہ کئے گئے احسان کے پیش نظر یہ عزت افزائی دینا تھی کہ یہ اصل بات تو صرف ولید کو ہی پتا تھی، اور ولید کے بعد فضہ کے علم میں آئی تھی۔ مگر اب وہ بھی ایمان سے بات کلیئر کرا لینے کے باعث بے حد ریلیکس تھی۔
مگر ولید کے سر کا درد شدید ٹیسوں میں ڈھل گیا تھا۔
بائیک ڈیوڑھی میں کھڑی کر کے وہ سرعت سے اپنے کمرے کی سمت جا رہا تھا، جب تائی ماں نے اُسے دیکھ کر پکار ا۔
”بیٹا…! کب تک آ رہے ہیں مہمان…؟ کوئی فون آیا تمہیں…؟“
اور اس کی جان جل کر خاک ہوگئی تھی، ان کے لہجے کی بے تابی و اشتیاق پہ۔
”جی نہیں…!“
اصل بات وہ اُگل نہیں سکا کہ اپنا سیل آف کر رکھا ہے۔ اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ فریش ہونے اور چینج کرنے کی بجائے، تھکے ماندے انداز میں بستر پہ ڈھے گیا۔
تبھی دروازہ ناک ہوا اور کوئی اندر چلا آیا۔ مگر اس کی پوزیشن میں فرق نہیں آیا تھا۔
”ولی بھائی…!“
فضہ کی آواز پہ وہ اپنی سرخ دہکتی آنکھیں ذرا کی ذرا کھول کر اُسے تکنے لگا۔
”چائے لے لیجئے…!“
وہ جھک کر کپ تپائی پہ رکھ رہی تھی۔
”تھینکس…!“
ولید کی آواز بے حد بوجھل تھی۔
”چائے پی لیں تو ایمان کی بینڈیج چینج کر دیجئے گا یاد سے۔
“
”اس بار کی کیا گارنٹی ہے کہ اب وہ مجھ سے جھگڑیں گی نہیں…؟“
اس نئے آرڈر پر ولید کے اندر جیسے صدیوں کی تھکن اُتر آئی تھی۔
”یہ آپ سے اس کی آخری لڑائی ہوگی، آئی تھنک…! سو پلیز…! اُسے معاف کر دیجئے گا۔“
فضہ نے آہستگی سے کہا اور پلٹ کر باہر نکل گئی۔ وہ چاہتی تھی ولید ہر بات ایمان کے منہ سے سنے تاکہ ان کی زندگی کے یہ لمحے یادگار ٹھہریں۔
مگر تازہ ترین صورتِ حال سے بے خبر ولید حسن فضہ کی بات پہ جیسے پل صراط سے گزرگیا۔ اس نے ہونٹ اتنی سختی سے دانتوں سے کاٹے کہ منہ میں لہو کا ذائقہ گھلنے لگا۔
اس کی چائے جس کی کچھ دیر قبل اُسے شدید طلب تھی، پڑے پڑے ٹھنڈی ہوگئی۔ تب اس نے خود کو کمپوز کیا تھا اور اُٹھ کر کمرے سے باہر آیا۔ برآمدے اور صحن کو عبور کیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا آیا۔
البتہ اس کے کمرے کے سامنے رکھ کر اُسے ایک بار پھر اپنے حوصلے جوڑنے پڑے تھے۔دروازہ ناک ہونے پر ایمان جو دل و جان سے اس کی منتظر تھی، بے اختیار سیدھی ہو بیٹھی۔
”فضہ نے بھیجا تھا مجھے کہ آپ کی بینڈیج چینج کر دوں۔“
اُس سے نظریں چار کئے بنا وہ کسی قدر خشک انداز میں بولا۔ ایمان نے بہت دھیان سے اُسے دیکھا تھا۔
”جی…! میں نے کہا تھا اُسے۔
آپ کھڑے کیوں ہیں…؟ پلیز…! تشریف رکھئے ناں…!“
اس درجہ عزت افزائی پہ ولید چونک کر متوجہ ہوا۔ وہ اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔ نگاہیں چارہونے پر دلکشی سے مسکرائی۔ ولید نے ہونٹ بھینچتے ہوئے نگاہ کا زاویہ بدل ڈالا اور کرسی گھسیٹ کر ذرا تکلف سے بیٹھا۔ ایمان اس کی ایک ایک جنبش کو بغور تکتی رہی۔
”میرا پلاسٹر کب تک کھل جائے گا…؟“
”پتا نہیں…! اپنے معالج سے پوچھئے…!“
وہ ناگواری سے بولا اور ایمان نے مسکراہٹ چھپائی۔
”میرے معالج تو آپ بھی ہیں۔“
”مگر یہ پلاسٹر میں نے نہیں چڑھایا تھا۔“
وہ بدمزگی سے بولا تو ایمان نے منہ پھلا لیا۔
”آپ کا موڈ کیوں اتنا بگڑا ہوا ہے…؟“
”آپ کا موڈ جو خوش گوار ہے۔“
وہ کانچ کی طرح سے تڑخا۔
”حالانکہ خفا ہونے کا حق تو میرا تھا۔ آپ نے کس حساب میں ہارون کادوانی کو پرپوزل لے کر آنے کی اجازت دی تھی…؟ کیا آپ جانتے نہیں کہ میں آل ریڈی انگیجڈ ہوں…؟“
###