”افسانے محبت کے یوں اُدھورے تو نہ چھوڑ
جرمِ وفا کا مجھ سے ہر بیان لیا کر
مدت ہوئی اس آس پہ ٹھہرا ہوا ہوں میں
بھولے سے کبھی تو بھی میرا نام لیا کر
تو اپنی ذات سے وابستہ کر مجھے
ہو کر خفا مجھ سے نہ یوں جان لیا کر“
پوری طرح وہ اس گیت میں گم ہو چکی تھی، جب دروازے پر ہونے والی دستک پر ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔
”کون ہے…؟“
تائی جی کی تاکید کے مطابق اس نے ڈیوڑھی میں آنے کے بعد بند دروازے کے پار سے پوچھا۔
”دروازہ کھولو…!“
ولید کی آواز پہ اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ جلدی سے لپک کر دروازہ وا کیا تو ولید بائیک گھسیٹتا ہوا اندر چلا آیا۔
”آپ تو آفس میں تھے ناں…؟“
دروازہ بند کئے بنا وہ بھاگ کر اس کے نزدیک آئی تھی۔
(جاری ہے)
اسے روبرو پا کر کیسا طمانیت سے بھرپور احساس دل میں جاگزیں ہو اُٹھا تھا۔
”میرے آتے ہی آپ کے حفاظتی انتظامات ختم ہوگئے کیا…؟“
کسی قدر جھلا کر کہتا بائیک اسٹینڈ کرنے کے بعد وہ خود دروازہ بند کرنے لگا۔
ایمان بجائے خفیف ہونے کے، زور سے ہنس پڑی۔ اس کی وجہ سے وہ آفس چھوڑ کر چلا آیا تھا، بہت کیف آگہی احساس تھا۔
”سب لوگ کہاں ہیں…؟“
اس کو بھی گھر میں چھائی خاموشی کا احساس ہوا تھا۔
”تاؤ جی کھیتوں پر، جبکہ تائی ماں اور عاقب بھائی، فضہ کو چیک اَپ کے لئے لے کر گئے ہیں شہر۔“
ایمان نے اس کے فریش چہرے پہ نگاہ جما کر تفصیلی جواب دیا۔
”آئی سی…! جبھی آپ کا دل گھبراہٹ کا شکار ہو رہا تھا تنہائی میں…؟“
وہ واش بیسن پہ منہ ہاتھ دھونے لگا۔
”آپ کے لئے چاؤ بناؤں…؟“
دانستہ اس کی بات کا جواب گول کر کے اس نے کچن کی سمت جاتے ہوئے پوچھاتھا۔
”خالی چائے نہیں، ساتھ کچھ کھانے کو بھی لانا۔“
اسٹینڈ سے تولیہ کھینچ کر منہ پونچھتا ہوا وہ سیڑھیوں کی سمت بڑھ گیا تھا۔
ایمان کچن میں آئی اور فریج کھول کر جائزہ لینے لگی۔ کچھ سوچا، پھر کباب فرائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ کام نسبتاً آسان تھا۔ دوسری طرف اس نے چائے کا پانی رکھ دیا، جب سے اس نے کام کرنا شروع کیا تھا، تاؤ جی نے عاقب سے کہہ کر سلنڈر پر ڈبل چولہے کا انتظام کروا دیا تھا۔ تیل گرم ہو کر کڑکڑانے لگا تھا، تب اس نے اس میں کباب ڈالے تھے۔
تمام تر احتیاط کے باوجود بھی جانے کیسے گرم گرم گھی کی چھینٹ اس کے ہاتھ پر آ گری۔
تکلیف کی شدت سے اس کی جان نکل گئی، مگر ہونٹ بھینچ کر خود پہ ضبط کر لیا۔ مگر متاثرہ جگہ پہ جیسے کسی نے چھری سے کٹ لگا کر مرچیں بھر دی تھیں۔ اس کی آنکھوں کی سطح اس اذیت کو سہتے بہت تیزی سے بھیگی، سب کچھ یوں ہی چھوڑ چھاڑ کر سنک کی ٹونٹی کھول کر ہاتھ پانی کی دھار کے نیچے کر کے کھڑی ہوگئی۔ کچھ سکون ہوا، مگرمعمولی۔
ادھر کباب شاید جل رہے تھے، اس نے ٹونٹی بند کی اور پلٹ کر چولہے کی آنچ کم کر دی۔
چمچ کی مدد سے کباب پلٹے اور کھولتے ہوئے پانی میں پتی اور چینی ڈالنے لگی۔ ہاتھ کی تکلیف سے اس نے دانستہ توجہ ہٹا لی تھی۔ حالانکہ تپش کے نزدیک آجاے سے تکلیف کا احساس بڑھ گیا تھا، مگر اس نے ہونٹ بھیچ لئے تھے۔ سب کچھ تیار ہوا تو سلیقے سے ٹرے سجا کر اوپر لے آئی۔ ولید پلنگ پہ تکیوں کے سہارے لیٹا ہوا کسی کتاب کے مطالعہ میں محو تھا۔ اسے دیکھا تو کتاب رکھ دی۔
”آپ کا دل کیوں گھبرا رہا تھا…؟ اب بتائیے…!“
کباب اُٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے وہ چائے کا مَگ ہاتھ میں لے کر ریلیکس انداز میں بیٹھ گیا۔ اب پوری کی پوری توجہ اس پر تھی۔ ایمان نے سر جھٹک دیا اور دراز سے زخم پہ لگانے کو مرہم ڈھونڈنے لگی۔
”حلیہ تو درست رکھا کرو، فقیرنی لگ رہی ہو بالکل…!“
ولید نے اس کے حلیے پہ چوٹ کی۔
ایمان نے ایک نگاہ اپنے گیلے میلے کپڑوں پر ڈالی تھی، پھر نخوت سے بولی۔
”جب کام کرنا ہو تو پھر ایسا حلیہ ہی ہوتا ہے۔“
”احسان کرتی ہو کام کر کے…؟“
عادت کے مطابق اسے لمحہ لگا تھا، بھڑک اُٹھنے میں۔
”نہیں…! اپنی اوقات پہچان گئی ہوں۔“
اس کی آواز ایک دم بھیگ گئی۔ ولید نے چونک کر اسے دیکھا کہ وہ زخم پر مرہم لگا رہی تھی۔
”کیا ہوا ہے…؟“
ولید نے مَگ واپس ٹرے میں رکھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کے آنسو اتنی سی توجہ پا کے ہی گالوں پہ اُتر آئے۔ ولید نے ٹھنڈا سانس بھر کے اسے دیکھا تھا۔
”ابھی جلا کے آئی ہو…؟“
”دوا لگا لی ہے ناں، اور جلاؤں گی کیوں…؟“
وہ بری طرح زِچ ہوگئی۔
”ہاں…! کیوں جلاؤ گی بھلا…؟ تمہارا میری جان چھوڑنے کا ارادہ کیوں ہوگا…؟“
ولید نے دانستہ چھیڑا تھا اسے، مگر وہ جانے کیوں اتنی رقیق القلب ہو رہی تھی کہ بے ساختہ رو پڑی۔
”بے فکر رہیں، چھوڑ دوں گی آپ کی جان، پھر خوشی کے شادیانے بجاتے رہئے گا۔“
آنسو موتیوں کی طرح ٹوٹ کر اس کے گالوں پہ بکھرے تھے، ولید نے ٹھٹک کر اسے دیکھا تھا، پھر آہستگی و نرمی کے ساتھ اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے لیا۔ مگر وہ تو بری طرح سے مچل اُٹھی تھی۔
”ہٹیں، چھوڑیں مجھے…! کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے جھوٹی تسلی دینے کی۔
“
اس کی زبردست مزاحمت کے نتیجے میں وہ پیچھے کی جانب چت ہوا تھا، مگر برا منائے بغیر ہنس پڑا۔
”بڑی طاقت ہے اس دھان پان سے نازک وجود میں…؟ کیا کھاتی ہو…؟ سچ بتاؤ…!“
”ان باتوں پہ دھیان مت دیں۔ اس وقت میرا حلیہ گندا ہو رہا ہے، اس لئے چھوڑ دیں مجھے۔“
اس نے واقعی اس کی بات کو دل پہ لے لیا تھا۔ ولید گہرا سانس بھر کے رہ گیا۔
”چھوڑیں ناں…! آپ تو ویسے بھی اپنے مطلب کے وقت نزدیک ہونا پسند کرتے ہیں میرے۔ اتنی ہی نفرت کرتے ہیں ناں مجھ سے…؟“
وہ تلخی سے کہتی خود اذیتی کا شکارہونے لگی۔
”تو پھر سمجھ جاؤ، مجھے اس وقت بھی تم سے اپنی غرض ہی پوری کرنی ہے۔“
سرد، کاٹ دار نظریں، اس نے ایمان کی بات کی تردید ضروری نہیں سمجھی تھی۔ ایمان کا دل اس درجہ توہین پہ سلگ اُٹھا، آنکھیں آنسوؤں سے دُھندلا گئیں، مگر مزاحمت دم توڑ گئی تھی۔
”میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے نفرت ہے، جبھی میری قربت میں ہمیشہ آنسو ہی بہائے ہیں تم نے۔“
ولید نے اس کے گالوں پہ پھسلتے آنسوؤں کو اپنی انگشت شہادت سے جھٹکتے ہوئے سرد لہجے میں کہا اور اپنے بازو اس کے وجود سے الگ کر لئے۔ ایمان اسی الزام پہ سُن ہوگئی تھی۔
”ہے کوئی جواز تمہارے پاس…؟“
وہ اس پر تیکھی کاٹ دار نظریں جما کر بولا۔
”آپ محبت کے دعویدار تھے ناں مجھ سے…؟ مگر کبھی اپنے سلوک پہ غور کیا آپ نے…؟ مجھے کبھی بھی آپ کی قربت میں یہ احساس نہیں ملا کہ میں آپ کی بیوی ہوں، جس سے کبھی آپ نے محبت کی تھی۔ اس کے باوجود میں نے کبھی شکوہ نہیں کیا اور نہ ہی احتجاج۔ اگر آپ ذرا سا غور کرتے تو جان سکتے تھے، یہ میری محبت ہی تھی جس نے آپ کا ہر ستم مجھے خاموشی سے سہنے کا ظرف بخشا تھا۔“
اپنی بات مکمل کر کے وہ رُکی نہیں تھی، منہ پر ہاتھ رکھے سسکیاں دباتی اُٹھ کر بھاگ گئی۔ ولید ساکن لیٹا تھا۔
###