”ماما…! مجھے گھر جانا ہے، ابھی اور اسی وقت…!“
اس کے تنک کر کہنے پہ ماما کے ساتھ تائی ماں نے بھی چونک کر اُسے دیکھا اور اس کا لال بھبھوکا چہرہ دیکھ کر گھبرا کر اُٹھیں۔
”کیا ہوا پُتر…؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ناں میری دھی کی…؟“
”جی نہیں…!“
اس نے نروٹھے پن سے، بے رُخی سے جواب دیا، پھرماما کا کاندھا ہلا کر بولی ۔
”میں کیا کہہ رہی ہوں ماما…؟“
”چلتے ہیں بیٹا…! ابھی تو رسم بھی نہیں ہوئی۔
“
ان کا لہجہ بظاہر نرم مگر انداز میں ناگواری تھی۔ انہیں ایمان کی یہ خودسری اب کھلنے لگی تھی۔
”مجھے کچھ نہیں پتا…! میں رسم تک ویٹ نہیں کر سکتی۔ آپ کسی سے کہیں، مجھے چھوڑ کر آئے، کل میرا پیپر بھی ہے۔“
اب کے اس کے انداز کی بدتمیزی اور تلخی تائی ماں نے بھی محسوس کی تھی جبھی بات سنبھالنے کو بولی تھیں۔
(جاری ہے)
”ہاں ہاں پُتر…! مجھے پتا ہے۔
میں بھیجتی ہوں تجھے گھر۔ بہن…! بچی کے امتحان ہو رہے ہیں، بہت لائق ہے۔ آنے کو مان ہی نہیں رہی تھی،میں ہی زبردستی لائی تھی۔ چل آ پُتر…! میں عاقب سے کہتی ہوں، تجھے گھر چھوڑ آئے گا۔“
تائی ماں نے اُٹھتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں سمدھن کو بھی مطمئن کیا جو مطمئن ہوئیں یا نہیں، البتہ سر ضرور اثبات میں ہلا دیا۔
”ولید…! عاقب کدھر ہے…؟“
تائی ماں نے اسی سمت آتے ولید کو پکار کر پوچھا تھا۔
”وہ تو مٹھائی کی ٹوکری بنوانے گئے ہیں شہر، بھائی صاحب کے ساتھ…! کیا بات ہے…؟ اگر کوئی کام ہے تو مجھے بتا دیں…؟“
وہ ایمان کے سرد تاثرات سے سجے چہرے پہ ایک گہری نگاہ ڈال کر بولا تھا۔
”بچی کو گھر بھجوانا تھا، چلو…! تم ہی چھوڑ آؤ…!“
تائی ماں کے انداز میں وہی سادگی تھی جو ان کی شخصیت کا ایک اہم حصہ تھی۔
”پہلے جانے والوں سے تو پوچھ لیں اماں…! انہیں میرے ساتھ جانے پر اعتراض تو نہیں ہے؟“
وہ کسی قدر طنز سے کہہ کر ایمان کے چہرے پہ بکھری تلخی و درشتی کو دیکھنے لگا۔
ایمان کی دھڑکنیں چٹخنے لگیں۔
”اگر آپ کو اعتراض ہے تو رہنے دیں۔“
ایمان کو عجیب سی توہین کا احساس ہوا تھا، جبھی پھنکار کر بولی ۔
”آئیے…!“
وہ اپنے تاثرات چھپاتا آگے بڑھ گیا۔ ایمان نے عجیب سی کیفیت میں اس کی تقلید میں قدموں کو موڑا۔ ابھی وہ دونوں آگے پیچھے دروازے تک ہی پہنچے تھے کہ فضہ اور اشعر انہیں پکارتے ہوئے تقریباً دوڑتے ہوئے ان کے پیچھے آگئے۔
”ہائیں ہائیں…! یہ آپ آدھی رات کو ایک نوجوان، خوب صورت، حسین لڑکی کو اپنے ساتھ کہاں لے جا رہے ہیں…؟“
اشعر نے قریب آتے ہی پھولے سانسوں سمیت کہا، فضہ کی ہنسی نکل گئی۔
”لڑکی اپنی مرضی سے جا رہی ہے۔ پوچھ لو…!“
فضہ کی آنکھیں جانے کسی احساس کے تحت چمک اُٹھی تھیں، جبکہ یہ لفظی چھیڑ چھاڑ ایمان کے اندر کڑواہت بھرگئی تھی۔
”واٹ نان سنس…!“
اس کا چہرہ آن کی آن میں جل اُٹھا، آنکھوں سے جیسے چنگاریاں نکلنے لگیں۔
”اماں نے کہا ہے، انہیں گھر پہنچا دوں۔“
ولید نے فضہ کی معنی خیز نگاہوں کے جواب میں سنجیدگی و متانت سمیت وضاحت پیش کی۔
”جائیے جائیے…! اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔“
اشعر خواہ مخواہ ہنسا۔ ولید کاندھے اُچکا کر آگے بڑھ گیا۔
”ہاہ…! کاش یہ محترم اور محترمہ زندگی کے سفر کے بھی ساتھی بن جائیں۔“
اشعر نے ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگی اور فضہ نے صدقِ دل سے آمین کہا۔
”میرے پاس بائیک ہے، گاڑی عاقب لے گیا ہے۔“
اس کے ہمراہ چلتا ہوا وہ جیسے خیال آنے پہ ڈیوڑھی میں رُک کر بولا اور اس کے قیامت خیز ہوشربا حسن سے نگاہ چرائی۔
”تو پھر…؟“
وہ ازحد بے زاری سے گویا ہوئی۔
”میں نے اس لئے بتایا ہے کہ آپ کو اعتراض نہ ہو۔“
وہ جواباً نخوت سے بولا۔ یہ لڑکی مسلسل اُسے ڈی گریڈ کر رہی تھی۔
”اعتراض تو مجھے آپ کے ساتھ آنے پر بھی تھا۔ مگر حالات ہمیں مجبور ہی نہیں، بے بس بھی کر دیتے ہیں۔“
وہ دروازے سے نکل کر اس کے پیچھے آتے ہوئے گویا صاف صاف اس پر جتا کربولی تھی۔ ولید کے چہرے پر ایک دم آگ سی دہک اُٹھی۔
گلی میں چارپائیاں بچھا کر مہمان وہیں براجمان تھے اور کل کے لئے تیار ہونے والے کھانے کے انتظامات دیکھ رہے تھے۔ دیگیں وغیرہ بھی وہیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ دانستہ خاموش رہا، مگر بائیک کے نزدیک آکر ملگجے اندھیرے میں اس کے سراپے پر نگاہیں جما کر بولا۔
”مگر میں حالات کے آگے مجبور اور بے بس ہونا پسند نہیں کرتا۔“
ایمان کے چہرے پر زہر خند پھیل گیا۔
”میں جانتی ہوں۔“
بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے ولید کو جھٹکا سا لگا۔ ایمان کے لہجے میں، انداز میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ وہ ٹھٹک گیا تھا۔
”کچھ نہیں جانتی ہیں آپ…!“
وہ اُسے بھرپور انداز میں جھٹلانے کو ٹھوس آواز میں بولا تو ایمان تلخی سے ہنس پڑی۔
”غلط خیال ہے آپ کا…! آپ کی بہت ساری کمزوریاں جانتی ہوں میں۔ میری خاموشی کو میری غفلت مت سمجھئے گا۔ یقینا آپ کو اپنے بارے میں انکشاف میرے منہ سے سننا اچھا نہیں لگے گا۔“
وہ ذرا سا اُچکی اور بائیک پر سوار ہوگئی۔ مگر اس طرح کہ اس سے واضح فاصلہ رکھ کر ولید اس سکتے سے نکلا تو کھولتے ہوئے دماغ کے ساتھ بائیک اسٹارٹ کی تھی۔
###