”تم نے گرتے ہوئے پتوں کو تو دیکھا ہوگا
اپنی ہر سانس وہ ٹہنی پہ گنوا دیتے ہیں
کیا خوب سجاتے ہیں وہ بہاروں میں شجر کو
کڑی دُھوپ میں اپنا آپ جلا دیتے ہیں
کتنے بے رحم شجر ہیں نئے پتوں کی خاطر
پرانے پتوں کی وفاؤں کو بھلا دیتے ہیں“
باتھ لیکر نکلی تو اس کا جسم سردی محسوس کرنے لگا۔ اس نے آگے بڑھ کر پہلے ہیٹر آن کیا تھا، پھر تولیے میں قید لانبے بالوں کو جھٹک کر پشت پر گرانے کے بعد ڈائنگ ٹیبل کے سامنے آکر برُش اُٹھایا اور بال سلجھانے لگی۔
اس کی آنکھوں کے زیریں کنارے اور ناک کی پھنک سرخ ہو رہی تھی۔ کل شام سے اُسے زُکام تھا، ابھی کچھ دیر قبل وہ اپنا جسم بھی گرم ہوتا محسوس کر چکی تھی۔ مگر پرواہ نہیں کی اور باتھ لے لیا۔
اسی کا شاید نتیجہ تھا کہ اُسے یکے بعد دیگرے چھینکیں آنے لگی تھیں۔
(جاری ہے)
بال سلجھ گئے تو اس نے اِنٹرکام پہ ملازمہ کو چائے کے ساتھ ڈسپرین لانے کا کہا تھا۔
کچھ دیر بعد دروازے پہ دستک کی آواز سن کر وہ گیلے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے دروازے کی سمت آئی اور ناب گھما کر دروازہ کھول دیا۔ مگر اگلا لمحہ اُسے شاک میں مبتلا کرنے کو آیا تھا۔
کھلے دروزے کی چوکھٹ پر ولید حسن کو ایستادہ پا کے اس کے اعصاب کو دھچکا لگا تھا۔ وہ آئے گا، یہ جانتی تھی وہ، مگر یوں اس طرح رات کے وقت، اس کا اندازہ نہیں تھا۔
جبھی کچھ لمحوں کو ساکن رہ گئی تھی۔ ولید حسن کی خاموش نگاہوں نے اس کا سر تا پا جائزہ لیا تھا۔
ٹی پنک اور بلیو پرنٹ کا اسٹائلش سوٹ گیلے، کھلے بال بغیر دوپٹے کے اس کا دلکش تباہ کن حشر ساماں سراپا۔
”نظریں ہمیشہ جھوٹے لوگ چرایا کرتے ہیں، یو نو…؟“
وہ ہونٹ بھینچ کر سرعت سے پلٹی، بیڈ کے سرہانے پڑا اپنا دوپٹہ اُٹھا کر اوڑھ رہی تھی، جب ولید حسن کی کاٹ دار آواز پہ گردن موڑ کر اُسے دیکھنے لگی۔
”باہر چلئے…! ڈرائنگ روم میں یا پھر ہال کمرے میں۔ آپ کو جو کچھ بھی کہنا ہے، میں وہیں آکر آپ کی بات سنتی ہوں۔“
اس نے جواب میں رسانیت سے کہا تھا اور ولید حسن کا ضبط پارہ پارہ ہوگیا تھا۔ اس نے شدید غیض بھرے انداز میں اس کی کلائی اپنی آہنی گرفت میں جکڑی تھی اور اُسے ایک ہی جھٹکے میں اپنے برابر کھینچ لیا تھا۔
”اگر تمہارا مقصد مجھ پہ میری حیثیت واضح کرنا ہے تو میرا تم پہ کس قسم کا استحقاق ہے، یہ میں تم پر یہیں کھڑے کھڑے ثابت کر سکتا ہوں۔
“
اس کا تحقیر آمیز انداز ولید حسن کو آتش فشاں بنانے کا باعث بنا تھا۔
”انہی حقوق کو ختم کرنا چاہتی ہوں میں بھی، میں آپ کو پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ مجھے طلاق…“
اس کی بات ولید حسن کے زناٹے دار تھپڑ کی وجہ سے اُدھوری رہ گئی تھی۔
”آج کے بعد اگر یہ منحوس لفظ تمہارے منہ سے نکلا تو میں تمہاری زبان کھینچ لوں گا۔ سمجھی تم…؟“
شدید جلال میں آتا وہ اُسے گھورتے ہوئے بولا تھا۔
ایمان گال پہ ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے کچھ دیر اُسے دیکھتی رہی، یوں جیسے یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ اس پر ہاتھ اُٹھا چکا ہے۔
”بیوی ہو تم میری…! بے غیرت نہیں ہوں میں کہ تمہیں بے مہار چھوڑ دوں۔ جب تک تم پہ کوئی حق نہیں تھا، کبھی تمہیں ٹوکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اور یہ رشتہ زبردستی طے نہیں ہوا تھا، یاد کرو…! تم ہی مری جا رہی تھیں مجھ سے تعلق جوڑنے پر۔
“
وہ بولنے پہ آیا تو غضب سے بپھر کر بولتا چلا گیا۔ اس کی چمکدار آنکھوں میں ڈولتی حد درجہ تندی اور سرد مہری میں غیض و غضب تھا، اشتعال تھا۔ ایمان نے دانستہ نگاہ جھکا لی۔
”اسی غلطی پہ پچھتا رہی ہوں۔ رشتے زبردستی تو نہیں جوڑے جاتے۔ میں آپ کے ساتھ نہیں چلنا چاہتی، پھر آپ زبردستی کرنے والے کون ہوتے ہیں…؟“
وہ بے ساختہ چیخ پڑی تھی۔
ولید حسن نے جلتی ہوئی آنکھوں سے اُسے دیکھا تھا۔ پھرقدم بڑھا کر اس کے بالکل سامنے آگیا۔
”میں تمہاری غلطی کو تمہارا عمر بھر کا پچھتاوا بنا دوں گا۔ بہت مان ہے تمہیں خود پہ، جو چاہو کر لو گی…؟ نہیں ایمان…! مزید تمہاری نہیں، میری مرضی چلے گی۔ تم میری پابند ہو۔ میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اس لئے نہیں کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں، وہ محبت تو اپنی موت اسی وقت مر گئی تھی، جب تم نے اس کا مضحکہ اُڑایا۔
ایک حقیر کھلونے سے بڑھ کر تو نہیں تھی ناں میری حیثیت تمہاری نظروں میں، جو ایسی کیفیت میں تمہیں بھا گیا تھا، جب زندگی کے تمام رنگ پھیکے تھے۔ تم نے میرے وجود کو، میری محبت کو اپنایا، اپنا دل بہلایا اور… اور اب اس سے جان چھڑا لیناچاہتی ہو…؟
تو ایسا نہیں ہوگا۔ میں تمہیں بتاؤں گا کہ بساط پہ بچھے مہرے ہمیشہ آپ کو فتح سے ہی نہیں، شکست سے بھی کبھی دوچار کر سکتے ہیں۔
“
احساسِ ذِلت کے احساس نے ولید پہ جیسے خون سوار کر دیا تھا۔ اس کے ہاتھوں کا آہنی وحشیانہ دباؤ ایک ایک کر کے ایمان کی ساری مدافعانہ صلاحیتوں کو بے کار کرتا چلا گیا۔ اس کا اُلجھتا ہوا پرُتپش تنفس اُسے اپنے چہرے پہ بھاپ کی طرح محسوس ہوا تھا۔
”ایسا مت کریں، مجھ پہ رحم کریں، پلیز…!“
وہ اس کی گرفت میں مچلتی بے ساختہ بے بسی سے رو پڑی۔
”رحم کروں تم پہ…؟ تم ہو اس قابل…؟“
وہ اُسے جھٹک کر تحقیر آمیز نگاہوں سے گھورنے لگا۔
”اگر آپ زبردستی کریں گے تو میں خودکشی کر لو ں گی، مگر آپ کو آپ کے ارادوں…“
”تم خود کشی کرو گی…؟ میں خود جان سے مار دوں گا تمہیں۔“
وہ بھڑک کر اس کی سمت لپکا تو ایمان بری طرح سراسیمہ ہوگئی کہ اس کی نگاہوں کی جارحیت اور سفاکی نے اُسے متوحش کر ڈالا تھا۔
ولید حسن اُسے قہر بھری نگاہوں سے گھورتا ہوا ایک جھٹکے سے پلٹ گیا۔ ایمان بری طرح سے سسک اُٹھی۔ کون جانتا تھا ان آنسوؤں کی المناکی کا سبب…؟
کچھ پل اس کو اور دیکھ سکتے
اشکوں کو مگر گوارہ کب تھا
ہم خود بھی جدائی کا سبب تھے
اس کا قصور سارا کب تھا
###