مگر ہماری یہ خوشی اس وقت بری طرح غارت ہوگئی، جب آپ لوگوں کی طرف سے صاف ایمان کے رشتے سے انکار کر دیا گیا۔ لالہ نے جیسے بھی ضبط کیا، مگر میں بھڑک اُٹھا تھا۔ شاید وہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے، جوانی کا نیا نیا اُبال دُنیا کی تسخیر کو بہت آسان بنا کر دکھاتا ہے۔ لالہ کی آنکھوں کی پھر سے بجھی روشنیوں نے میرے اندر انتقام کو ہوا دی تھی، مگر کیسے…؟
اس بات پر غور کرتے مجھے بہت دن لگے تھے۔
مگر جب ایمان کو اپنی ہی جامعہ میں دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں دیکھا تو مجھے یہ کام آسان ہوتا محسوس ہوا تھا۔ پہلے پہل میں نے محض انہیں دھمکایا، مگر جب میں نے ان کی آنکھوں میں اپنا خوف اُترتا ہوا محسوس کیا تو گویا نہ صرف میری جرأت بڑھی، بلکہ مجھے اور بھی شہ مل گئی۔
مجھے یہ اندازہ لگانے میں قطعی دُشواری نہیں ہوئی تھی کہ ایمان کی سب سے بڑی کمزوری آپ ہیں۔
(جاری ہے)
میں گو کہ آپ کے نکاح کی بابت جان گیا تھا، اس کے باوجود شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ میں نے ایمان کی کمزوری کو پایا اور اس کی دُکھتی رَگ کو بے دردی سے جکڑ لیا۔ تھوڑی سی معلومات سے میرے لئے یہ جاننا قطعی دُشوار نہیں تھا کہ آپ ملک سے باہر ہیں اورکس ملک میں ہیں…؟
مگر میں نے ایمان پہ نفسیاتی دباؤ ڈالا اور انہیں کہا، میں آپ کے ٹھکانے سے آگاہ ہوں اور اتنی سورس رکھتا ہوں کہ یہاں بیٹھے بیٹھے ولید حسن کو وہاں شوٹ کروا سکتا ہوں۔
میری توقع کے عین مطابق ایمان میرے لئے وہ کٹھ پتلی ثابت ہوئیں جس کی ڈوری میرے ہاتھ میں تھی۔ مجھے پتا بھی نہ چلا اور میں شیطانی فعل میں ملوث ہوتا چلا گیا۔
آپ کو پتا ہے، شیطان کے نزدیک سب سے پسندیدہ انسانی عمل کون سا ہے…؟
دو میاں بیوی کے درمیان رخنہ اور جدائی ڈالنے کا عمل…!
اور میں یہی عمل کرتا چلا گیا۔ اس میں ایمان کا قصور کہیں بھی نہیں نکلتا ولی بھائی…! وہ آپ کی محبت میں بے بس تھیں۔
آپ کو کھونے کے نقصان سے بچنے کی خاطر ہی انہوں نے خاردار راستوں کا انتخاب کر لیا۔ اِسے لالہ کی قسمت کہہ لیں کہ ایمان کی طرف سے بھرپور کوشش کے باوجود آپ نے انہیں طلاق نہیں دی۔
پھر جس روز آپ ایمان کو رُخصت کروا کے گھر لے کر گئے، مجھے لگا تھا، اپنی پسند کی بساط پہ میں بری طرح سے ہارا ہوں۔ اپنی اس ہار کا انتقام میں نے ایمان کو ٹینس کر کے لینا شروع کر دیا۔
مجھے نہیں پتا، آپ تک وہ بات کس طرح اور کس انداز میں پہنچی کہ آپ ایمان سے متنفر ہو کر انہیں چھوڑ کر چلے گئے… مگر جب مجھے پتا چلا تو مجھے لگا تھا جیسے میں نے اپنے لالہ کی زندگی سے چھن جانے والی خوشی کا انتقام پورا کر لیا۔
یہ محض میرا خیال تھا، آپ انجان تھے اور ایمان صبر کرنے والوں میں شامل تھی۔ مگر میرا ربّ تو وہ محتسب ہے جو نہ صرف سارے حساب رکھتا ہے بلکہ زمین پر اکڑ کر چلنے والوں کو منہ کے بل گرانے پہ بھی قادر۔
میری فتح کا خمار ابھی اُترا نہیں تھا کہ ایک ایکسیڈنٹ نے میرا غرور ہی نہیں، مجھ سے میری دونوں ٹانگیں بھی چھین لیں۔ وہ بات جو میں شاید کبھی نہ سمجھ سکتا، خدا نے لمحوں میں ہی سمجھا دی، جتلا ڈالی، اور میں نے اشکِ ندامت بہا کر اپنی خطا کی معافی مانگی، تب مجھ پہ کھلا، خدا بھی اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک وہ انسان نہ معاف کرے جس سے ہم زیادتی کے مرتکب ہو چکے ہوں۔
میرے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں لالہ پہ ساری بات واضح کرتا اور یوں ایمان سے معافی مانگنے کی سبیل ہوتی، مگر اس مشکل گھڑی میں ایک بارپھروہی ربّ میرے کام آیا جو ندامت محسوس کرنے والے اپنے بندے کو بلاتوقف قبول کرتا ہے۔
آپ کے برادر کے ذریعہ لالہ تک یہ بات پہنچی اور میں نے اپنے گناہ کا اعتراف کرکے ایمان سے روبرو معافی مانگنے کی خواہش ظاہر کر دی۔
مگر جب انہوں نے اتنی اعلیٰ ظرفی سے مجھے معاف کیا تو ان کے ظرف کے سامنے مجھے اپنا آپ بہت حقیر سا لگا تھا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے بعد مجھے سکون میسر آجاتا، مگر ایسا نہیں ہوا تھا، تو وجہ ڈھکی چھپی تو نہ تھی۔ زمین میں فساد پھیلانا جتنا سہل، اس بربادی کے آثارمٹا کر پھر سے ویسی خوش حالی کو قائم کرنا اتنا ہی مشکل ہوا کرتا ہے۔
میں نے چھ سال سولی پر گزارے ہیں ولی بھائی…! مجھے اس بات پر اللہ کو منانے میں چھ سال لگ گئے، تب مجھے آپ کی یہاں آمد کی اطلاع ملی۔
آپ سے صرف اتنی گزارش ہے کہ مجھے معاف کر دیں…! اس لئے نہیں کہ میں پرُسکون ہونا چاہتا ہوں، اس لئے کہ اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اور ہاں…! ایمان کی طرف سے ہر بدگمانی کو جھٹک دیں کہ آپ کا شمار ان خوش بختوں میں ہوتاہے، جنہیں اچھی اور نیکو کار، فرمانبردار عورت آسمانی تحفے کی طرح ملی ہے۔
آپ کا گنہگار و شرمسار
موسیٰ کادوانی…!“
اب کیا کرنا ہے…؟ کیسے ایمان کو منانا ہے کہ زیادتیوں کی ایک طویل فہرست تھی، الزامات کی ایک بوچھاڑ تھی…؟
اور ابھی یہ تازہ زخم جو ابھی رِستا تھا، کیسے ایک دم گئی تھی وہ
اس کا دل اس کی کیفیت کو یاد کر کے رُک رُک کر دھڑکنے لگا۔
###