وہ جواب میں اُسے پھاڑ کھانے کو دوڑا۔ ایمان کو ایک دم چپ سی لگ گئی۔
اور یہ کتنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے ناں، زندگی کا جب جان سے پیارے رشتے خفا ہو جائیں۔ زندگی ایک دم کتنی پھیکی، کتنی بے رونق اور مضمحل سی لگنے لگتی ہے۔ وہ اُسے منانا چاہتی تھی، مگر بے بسی کی انتہا تھی کہ وہ منا نہیں پا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں اس بے بسی کے احساس سمیت بھیگ رہی تھیں، جب ولید نے گاڑی گیٹ سے نکالتے ہوئے اس کا دُھواں ہوتا چہرہ دیکھا تھا اور بغیر کسی تاثر کے منہ پھیر لیا۔
ایمان نے بھینچے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ سر جھکا لیا تھا۔
”میں اس کے سارے روّیوں پہ معترض ہوئی
میری طرح سے مگر تھا دُکھا ہوا وہ بھی
میں اس کی کھوج میں دیوانہ وار پھرتی رہی
اسی لگن سے کبھی مجھ کو ڈھونڈتا وہ بھی
گلی کے موڑ پہ دیکھا اسے توکیسی خوشی
کسی کے واسطے ہوگا رُکا ہوا وہ بھی“
اس کے آنسو پہ آنسو گرتے رہے تھے۔
(جاری ہے)
اس کے سامنے رو کر وہ اُسے مزید طیش میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ولید حسن نے سگریٹ سلگا لیا تھا، ساتھ ہی گویا وہ بھی سلگ اُٹھی تھی۔ وہ جانتی تھی اس کے پھیپھڑوں میں انفیکشن ہے، اور ڈاکٹر نے اُسے سگریٹ نوشی سے سختی سے منع کر رکھا ہے۔ تاؤ جی تو خاص پہرہ کرتے تھے اس کا۔ مجال تھی جو وہ ان کے سامنے سگریٹ پی لیتا، بلکہ ان کے پاس جانے سے قبل وہ ہر ایسا آثار مٹا دیا کرتا تھا جس سے انہیں شک بھی گزرے۔
”کیوں کر رہے ہیں یہ بے احتیاطی…؟ آپ کو پتا ہے ناں اسموکنگ ٹھیک نہیں ہے آپ کے لئے…؟“
جب اس نے دوسرے کے بعد تیسرا سگریٹ سلگایا تو ایمان کا ضبط بالآخر چھلک گیا تھا۔ یہ اس کی اوقات سے بہت بڑی جرأت تھی کہ اس نے ولید کے ہاتھ کی اُنگلیوں میں دبے سگریٹ کو چھین کر کھڑکی کے رستے باہر اُچھال دیا تھا۔ ولید پہلے تو اس کی حرکت پہ دنگ رہ گیا تھا، پھر گویا اپنے حواسوں میں نہیں رہا تھا۔
سب سے پہلے اس نے سائیڈ پہ کر کے گاڑی روکی تھی، پھر اُلٹے ہاتھ کا تھپڑ ایمان کے چہرے پر دے مارا تھا۔
”ہاؤ ڈیئر یو…؟“
اُسے کاندھوں سے دبوچ کر اپنی جانب گھسیٹتا ہوا وہ قہر بن کر چیخا تھا۔ ایمان کے گال پہ اس کی اُنگلیاں ہی ثبت نہیں ہوئی تھیں، اس کے ہونٹ کا کنارہ بھی پھٹ گیا تھا، جس سے خون رِسنا شروع ہوگیا تھا۔ وہ ایک دم بے اوسان اور سراسیمہ ہو کر ہراسگی کے عالم میں اُسے تکنے لگی۔
اشتعال اوروحشت سے بپھرا ہوا اس کا روپ اب اس کے لئے پتا نہیں جانے کیا تھا، اس پل اس کی پھیلی پھیلی نگاہوں میں کہ ولید نے اُسے قہر بھرے انداز میں واپس اس کی سیٹ پر پٹخ دیا۔
کچھ دیر گہرے گہرے سانس بھر کے اپنے وحشی جذبوں کو قابو کیا، پھر ڈیش بورڈ پہ پڑے سگریٹ کیس اور لائٹر کی سمت اشارہ کرتا ہوا تحکم بھرے خشک انداز میں گویا ہوا۔
”سگریٹ اُٹھاؤ وہاں سے اور اُسے میرے ہونٹوں کے درمیان رکھ کر لائٹر سے اسے سلگاؤ، ورنہ…“
ایمان جو ہونٹ بھینچے خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی، اس نئے آرڈر پر ٹھٹکی۔
”ورنہ کیا…؟“
وہ گویا اس کی وحشت کی انتہاء دیکھنا چاہتی تھی۔ ولید نے اپنی جلتی آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑھ دیں۔
”ورنہ یہ کہ آج میری ضد ہے کہ تم ایسا کرو گی، ہر صورت، ہر قیمت…!“
وہ اس کی کلائی پکڑ کر مروڑتے ہوئے پھنکارا۔
اس کی گرفت میں ٹوتتی چوڑیوں کی کرچیاں ایمان کی کلائی کو زخمی کرنے لگی مگر وہ ضبط کئے رہی تھی۔
”اگر میں ایسا نہ کروں تو…؟“
ایمان کو بھی جیسے ضد ہوگئی تھی۔ ولید نے کچھ کہے بغیر محض سرد نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔
”تم ایسا کرو گی۔“
اس نے ڈیش بورڈ پہ پڑی سگریٹ کی ڈبیا اُٹھا کر اس کی گود میں پھینکی اور اسی سرد آواز میں بولا تھا۔
”نکالو اس میں سگریٹ اور ویسا ہی کرو جیسا میں نے کہا ہے۔ ورنہ میں ابھی اسی وقت تمہیں طلاق دے دوں گا۔ اپنی انسلٹ کابدلہ تو لے چکا ہوں ناں تم سے، پھر تم جہاں مرضی دفعان ہونا، مجھے اس سے غرض نہیں ہوگی۔“
اندر اُمڈتا جلال دبائے بغیر وہ درشتی سے کہتا ایمان کو لمحوں میں زیر کر گیا۔ ایمان کا چہرہ سبکی سے ہی نہیں، شدتِ غم سے بھی سرخ ہوا تھا۔
ایک لفظ بھی کہے بغیر اس نے کانپتے ہاتھوں سے کیس کھول کر سگریٹ نکالا تھا اور اس کے ہونٹوں کے درمیان رکھ کر لائٹر اُٹھا لیا۔
ایک شعلہ بھڑکا، صرف سگریٹ ہی نہیں، ایمان کا دل بھی اس آنچ سے جھلس گیا تھا۔ کیسا مشینی عمل تھا یہ سارا، جس میں جذبات کا کوئی عمل دخل ہی نہ رہا تھا۔ وہ جیسے اس پل کسی پتھر کی مورتی میں ڈھل گئی تھی۔ ولید نے اپنی فتح پہ جتلانے والی نگاہوں سے اُسے دیکھا، مگر وہ اس کی سمت متوجہ کہاں تھی…؟
”حیرت ہے، ویسے میرا تو خیال تھا، یہ میری بات سن کر تم سگریٹ کیس اور لائٹر کھڑکی سے باہر پھینک دو گی، اور مجھے اپنی بات رکھنے کی خاطر تمہیں طلاق دینا پڑتی۔
افوہ یار…! کتنا سنہرا چانس مِس کر دیا تم نے…؟“
وہ اب نئے انداز میں اس کا تمسخر اُڑا رہا تھا اور ایمان سوچنے پہ مجبور ہوگئی تھی۔ آیا اس نے کبھی محبت کی بھی تھی…؟ شاید نہیں…! یا پھر شاید اس کی محبت ہمیشہ درجہٴ دوم پر رہی تھی۔ اس کی محبت اور اَنا میں پہلی ترجیح ہمیشہ اَنا ہی رہی تھی۔ یہ بات نئی تھوڑا ہی تھی، مگر وہ پتہ نہیں کیوں پھر بھی نئے سرے سے دُکھی ہو رہی تھی…؟
###