وہ سیڑھیاں اُتر کر نیچے آیا تو ہال کمرے میں ہی وہ سب جمع تھے۔ اشعر، اسماء، عاقب، فضہ، تینوں بچے بھی وہیں تھے۔ البتہ وہ نظر نہیں آئی، جس کی تلاش میں وہ آیا تھا۔ جبھی دوسرے ہی لمحے قدموں کو موڑ لیا، مگر اشعر کی آواز پہ تھمنا پڑا تھا۔
”کہا ں جا رہے ہیں…؟رُکیں ناں…! ہمیں جوائن کریں کہ
رات بھی خوب ہے، پاس محبوب ہے…!“
وہ شوخی سے گنگنانے لگا۔
ولید حسن کے ہونٹوں پرمسکراہٹ کا اُسے شائبہ ہی ہوا تھا۔
”بے شک…! مگر ان کا تو نہیں ہے ناں جن کو آپ دعوت دے رہے ہیں…؟“
اسما نے اس کی شوخی و شرارت کے سلسلے کو آگے بڑھاوا دیا۔
”نہیں ہے تو کیا ہوا…؟ ان کا محبوب بلکہ محبوبہ بھی ابھی تشریف لائیں گی، کچے دھاگوں سے بندھی۔“
اشعر نے ہنوز اسی شوخی سے کہا، مگر اس وقت اس کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب ولید حسن آکر ان کے بیچ بیٹھ گیا۔
(جاری ہے)
”کچھ سنائیں گے…؟“
اشعر اس کی سمت جھکا، جس پر اس نے کاندھے اُچکا کر گویا آمادگی ظاہر کر دی۔ دل خوش تھا تو خوشی کو ظاہر کرنے میں کیا حرج تھا بھلا…؟ مگر اب کے اشعر کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
”بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں
دل کی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں“
اشعر کی گنگناہٹ پر ولید حسن نے بے نیازی کا تاثر دیا تھا۔
عاقب کی نگاہوں میں بھی خوش گوار حسرت کا عکس تھا۔ مگر کچھ کہنے سے احتراز برتا کہ بہرحال وہ اس کے مزاج کے موسموں سے آشنا نہیں رہا تھا۔
”چلیں…! آغاز آپ ہی کریں۔“
اشعر نے مونگ پھلی کا لفافہ بیچ میں رکھتے ہوئے اُسے دعوت دی۔ ولید کی نگاہیں دروازے پہ بھٹک رہی تھیں۔ ایمان کوچائے کی ٹرالی گھسیٹتے دیکھا تو گلا کھنکار کر سیدھا ہوا۔
”اُداس لوگوں کی بستیوں میں
وہ تتلیوں کو تلاش کرتی
وہ ایک لڑکی
جس کی صاف رنگت خیالی آنکھیں
جوکرتی رہتیں ہزارباتیں
مزاج سادہ وہ دل کی سچی
وہ ایک لڑکی!“
ایمان اُسے وہاں دیکھ کر ٹھٹکی تھی، وہ نہ صرف موجود تھا، بلکہ اپنا انتخاب بھی پیش کر رہا تھا۔ ناقابل یقین منظرتو تھا، مگر اب وہ اس کے حوالے سے ہر احساس سے بے نیاز ہو جانا چاہتی تھی، جبھی ٹرالی درمیان میں لا کر چھوڑ دی۔
چائے اس لئے نہیں بنائی کہ اُسے دینا بھی پڑتی اور وہ اب کچھ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”وہ محبتوں کے نصاب جانے
وہ جانتی ہے عہد نبھانے
وہ اچھی دوست
وہ اچھی ساتھی
وہ ایک لڑکی
وہ جھوٹے لوگوں کو سچا سمجھے
وہ ساری دُنیا کو اچھا سمجھے
وہ کتنی سادہ
وہ کتنی پگلی
وہ ایک لڑکی!“
ایمان خاموشی سے جا کر اُمید حسن کے پاس بیٹھ گئی جسے اب نیند آنا شروع ہو چکی تھی۔
ایمان نے اپنا سر اس کی گود میں رکھ لیا اور آہستگی و نرمی سے اس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرنے لگی۔ ولید کی بے تاب مچلتی نگاہیں اس کے چہرے پر بھٹک رہی تھیں جسے اس کے سوا باقی سب نے نوٹ کیا اور حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی کے احساس میں گھِرنے لگے۔
”بھابی…! آپ کچھ سنائیے ناں…! مجھے آپ کا دھیما اور نرم لہجہ بہت اچھا لگتا ہے۔ پلیز…!“
اسما کی فرمائش پہ وہ پہلے چونکی، پھر گڑبڑا گئی۔
”مم… میں…؟ یہ… اُمید حسن کو نیند آرہی ہے، میں تو اُسے سلانے کے لئے بیڈ روم میں جا رہی ہوں، پھر کبھی سہی…!“
اس نے گویا جان چھڑانا چاہی تھی، مگر… مگر اسما کے ساتھ ساتھ اشعر اور فضہ کا اصرار بھی بڑھا تو اسے اُلجھن ہونے لگی۔
”مجھے اس وقت کچھ بھی ڈھنگ کا یاد نہیں آ رہا ہے۔“
اس نے ایک اور بہانہ بنانا چاہا۔ ولید حسن کی موجودگی میں وہ ہرگز کچھ سنانے پہ آمادہ نہیں تھی۔
”جو بھی سنائیں گی، جیسا بھی ہوگا، ہمیں دل و جان سے قبول ہوگا، سو پلیز…!“
اسما کے اس قدر اصرار پر مزید انکار اس سے دوبھر ہوگیا۔
”کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ، کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو! خاموش رہو، ہاں اے لوگو! خاموش رہو
سچ اچھا پر اس کے جلو میں زہر کا ہے اِک پیالہ بھی
پاگل ہو، کیوں ناحق کو سقراط بنوں، خاموش رہو“
ولید حسن کے چہرے پر تمتماہٹ اُتر گئی اور اُسے لگا وہ اس سے تمام تر بے نیازی برتنے کے باوجود بھی گویا در پردہ اسی پر طنز کر رہی ہے۔
”حق اچھا پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا
تم بھی کوئی منصور ہو جو سولی پہ چڑھ
ان کا یہ کہنا سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے
سر آنکھوں پر سورج ہی کو گھومنے دو خاموش رہو
مجلس میں کچھ حبس ہے اور زنجیر کا آہن چبھتا ہے
پھر سوچو، ہاں پھر سوچو، ہاں پھر سوچو خاموش رہو
گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بگیا کے بھید نہ کھولو، سیر کرو خاموش رہو
آنکھیں موندھ کنارے بیٹھو، من کے رکھو بند کواڑ
انشاء جی لو دھاگہ لو لب سی لو خاموش رہو“
”ویری ویری ویل ڈن…! اینڈ بنڈل آف تھینکس…! سو سویٹ…! بھابی جی…! رئیلی…! آپ نے تو مجھے انشاء جی کا عاشق بنا دیا ہے۔
آپ کے پاس ان کی کوئی بک ہے تو مجھے ضرور دیجئے گا۔“
اسما اتنی خوش ہوئی تھی کہ فرطِ جذبات میں آکر اس کا ہاتھ پکڑ کر بڑا والہانہ قسم کا بوسہ ثبت کیا۔ جہاں ایمان جھینپی تھی، وہاں اشعر بدک گیا تھا۔