جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اُٹھ کے میری ہر کتاب کر دے گا“
اگلی صبح اسے اُٹھنے میں اتنی دیر ہوئی تھی کہ تمام تر کوشش کے باوجود نماز ادا نہیں کر سکی۔ ولید آج کسی انٹرویو کے سلسلے میں شہر جا رہا تھا، جب تک وہ واش روم سے باہر آئی، وہ تیار ہونے کے بعد نیچے جا چکا تھا۔
ایمان نے پہلے اس کا پھیلا ہوا سامان سمیٹا، کمبل تہہ کر کے رکھا، بیڈ شیٹ درست کی، اس کے تولیے کو اُٹھا کر باہر بالکونی کی ریلنگ پر پھیلایا اور پرفیوم کے ساتھ مختلف لوشنز کی بوتلوں کو درست کر کے ڈائنگ ٹیبل پر رکھنے کے بعد شال لپیٹتی نیچے چلی آئی۔
(جاری ہے)
ولید بڑے کمرے میں عاقب اور اشعر کے ساتھ موجود تھا، مگر اخبار میں گم۔ عاقب ناشتہ کرنے میں مصروف تھا، جبکہ اشعر کو اس کی کتاب کھولے رٹا مارنے میں۔
وہ ایک نگاہ میں جائزہ لیتی ابھی پلٹ ہی رہی تھی کہ فضہ ناشتے کی ٹرے لئے چلی آئی۔
”ایمی…! پہلے ناشتہ کرو، پھر کچھ اور کرنا۔“
فضہ نے ٹیبل پر ناشتے کے لوازمات لگاتے ہوئے کہا تو ولید نے اخبار سے نگاہ اُٹھا کر دونوں کو دیکھا تھا۔
”اسے کب تک آپ نے چوتھی کی دُلہن بنائے رکھنا ہے بھابی…؟ کام کیوں نہیں کرواتی ہیں…؟“
جہاں فضہ چونکی تھی، ایمان ایک دم خفت زدہ نظر آنے لگی۔
”افوہ…! کرتی ہے کام، تمہیں اتنی فکر کیوں ہو رہی ہے…؟“
فضہ کا انداز ہلکا پھلکا ہی تھا۔
”میں تو ہر وقت آپ کو ہی کاموں میں لگے دیکھتا ہوں، یا پھر اماں کو۔ یہ تو پہلے کی طرح اب بھی بس عیش ہی کرتی ہیں۔“
اس کے لہجے میں اتنی بے زاری اور تلخی تھی کہ عاقب کے ساتھ ساتھ اشعر نے بھی ٹھٹک کر ولید کی صورت دیکھی تھی۔ جبکہ ایمان صبح صبح ہونے والی اس عزت افزائی پہ اپنی پیشانی جلتی ہوئی محسوس کر رہی تھی۔
”ولید…! کیا ہوگیا ہے یار…! رسم کے مطابق اماں پہلے ایمان سے میٹھا بنوائیں گی، پھر وہ کام بھی کیا کرے گی۔ یہ اتنا بڑا اِیشو تو نہیں ہے کہ تم یوں خفا ہونے لگے ہو…؟ بھئی…! وہ تو ہمارے لئے ابھی بھی وہی گڑیا سی ایمان ہے، جو بات بات پہ روٹھ جایا کرتی تھی۔“
عاقب نے پہلے رسانیت سمیت ولید کو ٹوکا، پھر گویا ماحول کی گمبھیرتا دُور کرنے کی خاطر کسی قدر خوش دلی سے ایمان کو دیکھ کر مسکرایا تھا، جو ہونٹ بھینچے آنکھوں میں اُمڈتے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش میں ہلکان ہو چکی تھی۔
”بالکل بالکل…! مجھے لگتا ہے رات بھائی کی ایمی جی سے لڑائی ہوئی ہے، جو صبح صبح انہیں ڈانٹنا شروع کر دیا ہے۔ ایمی جی…! آپ ذرا ابا اور ددا سے ان کی شکایت لگائیے گا۔“
اشعر نے بھی گفتگو میں حصہ لے کر گویا ایمان کو اس کیفیت سے نکالنا چاہا تھا، مگر اس کا چہرہ بتا رہا تھا، اشعر کی یہ کوشش کوئی اتنی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ فضہ خاموش تھی، مگر اس کے چہرے کے تاثر سے صاف اندازہ ہو سکتا تھا کہ اسے ولید کی یہ حرکت اتنی پسند نہیں آئی ہے۔
”میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ بھابی اس گھر کی ملازمہ نہیں ہیں۔ اگر یہ برابر کی اس گھر میں حیثیت پا رہی ہیں تو پھر کام…“
”ولید…! لیو دس ٹاپک یار…!“
عاقب نے اس مرتبہ کسی قدر جھلا کر کہا تو ولید ایک جھٹکے سے اُٹھ کر کمرے سے چلا گیا۔ ایمان کا زرد چہرہ سفید پڑنے لگا۔ کمرے میں موجود رہ جانے والے چاروں نفوس چند ثانیوں کو بالکل خاموش رہ گئے۔
”آئی تھنک…! ولی بھائی نے مائنڈ کیا ہے…؟“
فضہ کی قیاس آرائی کسی حد تک درست تھی۔
”آپ کو کیا ضرورت تھی بیچ میں بولنے کی…؟ میں کر رہی تھی ناں بات ایمان ان سے…؟“
فضہ جھلا کرعاقب سے اُلجھ پڑی تو اشعر گھبرا سا گیا۔
”پلیز…! اب آپ لوگ نہ لڑ پڑئیے گا…؟“
عاقب ایک دم خاموش ہوگیا۔
”یہ ولی بھائی کو اتنا غصہ کیوں آ رہا تھا…؟“
فضہ کی سوئی ایک ہی جگہ پر اٹک گئی تھی۔
اس کا دل انجانے خدشات کے پاتال میں ڈوبنے لگا۔
”ایمی…! تمہارے ساتھ تو کوئی جھگڑا نہیں ہوا ان کا…؟“
فضہ کے سوال پر ایمان کا رنگ ایک دم فق ہوا تھا۔ وہ اسے کیا بتاتی کہ رات وہ کس موڈ میں تھا…؟
”افوہ بھئی…! تم اب اسے خواہ مخواہ پریشان مت کرو۔ پتا ہے ناں تمہیں، اس کی آفیشل پرابلم چل رہی ہے۔ بندہ کبھی ٹینس ہو ہی جاتا ہے۔
ڈونٹ وری…! شام کو آئے گا تو بھلا چنگا ہوگا۔“
عاقب نے انپے ساتھ ساتھ انہیں بھی تسلی دی تو سب خاموش ہوگئے۔ یہ الگ بات کہ اپنی اپنی جگہ پر ہر کوئی پریشان رہا تھا۔ عاقب اور اشعر کے ساتھ ساتھ تاؤ جی کے بھی چلے جانے پہ جب ایمان برتن سمیٹ کر سنک میں رکھنے کی بجائے دھونے کھڑی ہوگئی تو فضہ نے آہستگی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔
”کیا کرتی ہو ایمی…؟ مجھے لگتا ہے، تم نے ولی بھائی کی بات کو کچھ زیادہ ہی دل پہ لے لیا ہے…؟“
اور ایمان مضمحل سے انداز میں مسکرا دی تھی۔
”وہ کچھ غلط تو نہیں کہہ رہے تھے فضہ…! مجھے خیال کرنا چاہئے تھا۔ ایسی حالت کے باوجود تم سارے گھر کا کام کرتی ہو۔ تھکن تو ہوتی ہوگی…؟“
”اپنوں کی محبت، ستائش اور دُعائیں مجھے تھکنے نہیں دیتیں ایمی…! پھر ڈاکٹر نے بھی تو مجھے کام کرنے کی تاکید کی ہے ناں…!“
اپنی بات کے اختتام پہ وہ دانستہ مسکرائی تھی۔
”ضرور کرو…! مگر سارا نہیں، صرف اتنا جتنا تم آسانی سے کر سکو۔“
رسانیت سے کہہ کر وہ برتن دھونے میں مشغول ہوگئی تھی۔ فضہ گہرا سانس کھینچ کر رہ گئی۔
###