اس نے کسی قدر نخوت سے کہا اور بیگ وہیں چھوڑ کر دوبارہ سیڑھیاں چڑھ گئی۔ وہ ہونٹ بھینچے اُسے جاتے دیکھتا رہا تھا۔
”تھینک گاڈ…! وہ مانی تو…؟ ورنہ مجھے ایک فیصد بھی اُمید نہیں تھی۔“
”آپ نے واقعی معرکہ مارا ہے ولید بھائی…!“
فضہ جو کچھ فاصلہ پہ کھڑی دم سادھے کسی فیصلے کی منتظر تھی، چہکتی ہوئی نزدیک آکر بولی۔ وہ چونکا تھا اور خالی سے نظروں سے اُسے دیکھ کر کچھ کہے بغیر پلٹ کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
کون جانتا تھا کہ اس نے آج کے دن مزید کیا کیا کھو دیا تھا…؟
پھر کتنے سارے دن گزر گئے۔ وہ خود کو دانستہ محدود کر چکی تھی۔ پہلے جو اشعر کے ساتھ کچھ دوستی ہوئی تھی، وہ بھی اس تلخی کی نظر ہوگئی۔ فضہ نے متعدد بار اُسے اُکسایا کہ وہ اس کے ساتھ اس کی دِلچسپیوں میں شریک ہو، مگر اس نے صاف انکار کر دیا تھا۔
(جاری ہے)
اس وقت بھی وہ ایسے ہی اپنے کمرے میں گھسی بیٹھی تھی جب کوئی دروازہ کھول کر اندر آگیا۔
وہ سیل فون پہ گیم کھیل رہی تھی۔ سرسری سا متوجہ ہوتی، مگر اپنے سامنے حرا آپی کو دیکھ کر مروتاً مسکرانا پڑا۔
”بیٹھئے ناں…! کیسی ہیں آپ…؟“
اس نے سیل فون ایک سائیڈ پہ رکھ دیا تھا۔
میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں۔ تم نظر ہی نہیں آتیں…؟ کل بھی شام کو فضہ آگئی تھی، اشعر اور عاقب کے ساتھ، تم کیوں نہیں آئیں…؟“
وہ اس کے نزدیک ہی بیٹھ گئیں تھیں۔
”بس یوں ہی…! میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔“
اس نے بہانہ گھڑا۔ مگر گویا پھنس گئی کہ وہ فوراً الرٹ ہوئی تھیں۔
”کیا ہوا…؟ بخار تو نہیں ہو رہا…؟ دکھاؤ تو…!“
وہ اس کی پیشانی چھو کر دیکھنے لگیں۔
”سر میں درد تھا آپا…! وہ بھی کل ہی ٹھیک ہو گیا تھا۔ آپ سنائیے ناں…! بچے کیسے ہیں…؟“
وہ ان کا دھیان بٹانے کو موضوع بدل گئی۔
”سب ٹھیک ہیں۔بچے اپنی چھوٹی خالہ کو یاد کر رہے تھے۔بھئی…! وہ سب تو تمہارے دیوانے ہوگئے ہیں۔“
وہ ہنس کر بتا رہی تھیں۔ ایمان بے دلی سے مسکرا دی۔ پھر ان کا دل رکھنے کو بولی تھی۔
”بہت پیارے بچے ہیں آپ کے۔ لائیے گا انہیں…!“
”ارے…! اب انہیں نہیں، تمہیں آنا ہے۔میں خاص دعوت دینے آئی ہوں۔ ویسے تو تم نے آنا نہیں ہے…؟“
”ارے نہیں…! میں آؤں گی آپا…!“
وہ خفیف سی ہو کر وضاحتیں دینے لگی۔
”سو سو بار آنا، مگر کل تو لازماً آنا ہے، ورنہ میں روٹھ جاؤں گی تم سے۔“
وہ اس سے وعدہ لے کر ہی اُٹھی تھیں۔ وہ ان کے خلوص کی قائل ہو کر رہ گئی۔ مگر اگلے دن وہ سرے سے بھول بھی گئی تھی۔
”تم کون سے کپڑے پہن کر جاؤ گی…؟ نکال دو استری کر دوں۔“
وہ ابھی نہا کر نکلی تھی، تو لیے سے بال خشک کرتے چونک گئی۔
”کہاں جانا ہے…؟“
”حرا آپا کے گھر دعوت پہ…! بھول بھی گئیں کیا…؟“
فضہ کے کہنے پہ اس نے گہرا سانس کھینچا تھا۔
اگر وعدہ نہ کر لیا ہوتا تو لازماً انکار کر دیتی۔
”کوئی سے بھی کر دو اپنی مرضی سے…!“
اس نے رکھائی سے کہا اور برش اُٹھا کر بال سلجھانے لگی۔ فضہ نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا تھا۔ وہ بہت بجھی بجھی سی نظر آرہی تھی۔ اُجلے چہرے کی تمام جاذبیت جیسے اُداسی کے گھمبیر پردے میں جا چھپی تھی۔
”کیا بات ہے ایمی…؟ اتنی خاموش کیوں رہنے لگی ہو…؟“
”خوش ہونے والی کوئی بات بھی تو نہیں ہے…!“
اس نے تڑخ کر کہا تھا۔
فضہ نے کچھ کہے بغیر اس کے لئے الماری سے اسکن براؤن اور میرون کمبی نیشن کا ملتانی سوٹ نکالا جس کی شرٹ کے دامن اور دوپٹے کے پلوؤں پہ بہت خوب صورت بلوچی کڑھائی تھی۔ یہ سوٹ پاپا پچھلے سال اسلام آباد سے اس کے لئے لائے تھے، جسے ایمان نے صرف ایک بار پہنا تھا اور وہ اُسے پہن کر بہت کیوٹ لگی تھی فضہ کو۔
”اس دن تم نے ولید بھائی کی بات مان لی…؟ مجھے قطعی اُمید نہیں تھی۔
“
”جانا بھی کہاں تھا…؟ ہمارا اپنا ٹھکانہ ہی نہیں، اپنی عزتِ نفس بھی شاید کھو بیٹھے ہیں…؟ مجھے سرنڈر کرنا ہی تھا…؟“
اس کی آواز پہ آنسوؤں کا غلبہ تھا، فضہ نے محسوس کیا تو تڑپ کر اُسے گلے لگا لیا۔
”ایمی…! ایمی…! میری جان…! کیوں اتنی معمولی باتوں کو جان کا روگ بنا رہی ہو…؟“
فضہ کی اپنی آواز بھی بوجھل ہونے لگی تھی۔
”مجھے لگ رہا ہے میں مرجاؤں گی۔ بہت گھٹن ہو رہی ہے میرے اندر۔ پاپا نے بہت زیادتی کی ہے ہمارے ساتھ، ہم سے ہماری انا چھین کر۔ دو ٹکے کی حیثیت ہو کر رہ گئی ہے۔ ورنہ کس کی جرأت تھی اتنی کہ ایمان ارتضیٰ کی انسلٹ کی جاتی اور وہ اُسے بخش دیتی…؟ مگر اب ہماری حیثیت اور ہے۔“
”کیا ہوا ہے ایمی…؟ کسی نے کچھ کہا تمہیں…؟ کس نے…؟“
فضہ ٹھٹک کر رہ گئی تھی۔
اس کے لہجے میں غیر یقینی اضطراب تھا۔ ایمان ایک دم سنبھلی۔ وہ اتنی خودار تھی۔
اپنی انا اتنی عزیر تھی کہ اپنی اس انسلٹ کا احوال وہ اپنی ماں جائی سے بھی نہیں کہہ پائی تھی۔
”کچھ نہیں…! بس یوں ہی…!“
اس نے پھر سے خود کو مضبوط کر لیا۔
”تم کچھ چھپا رہی ہو…؟“
فضہ مشکوک ہوئی۔ مگر وہ ٹال گئی تھی۔ اور جس پل وہ تیار ہو کر سیڑھیوں سے نیچے اُتر کر آئی، سب سے پہلے سا منا تائی ماں سے ہی ہوا تھا، جنہوں نے اس کے نازک سراپے پہ ایک پیار بھری نگاہ ڈالی تھی۔
پھر بے ساختہ لپٹا کر چٹاچٹ پیار کیا تھا۔
”ماشااللہ…! دیکھ تو میری دھی کتنی سوہنی لگ رہی ہے۔ پتر…! ایسے ہی کپڑے پہنا کر میری دھی…!“
انہوں نے اُسے مخاطب کیا تھا۔ وہ قطعی نہیں سمجھ سکی، البتہ ان کی محبت کے مظاہرے پہ بے زار ضرور ہوگئی تھی۔ جبھی ان سے الگ ہو کر فاصلے پر ہوتی ہوئی بولی تھی۔
”آپ تیار نہیں ہوئیں…؟ کب تک جانا ہے…؟“
اس کے لہجے میں محسوس کی جانے والی رکھائی اور انداز میں بے زاری اور اُکتاہٹ تھی، مگر تائی ماں نے اپنی فطری سادگی میں سرے سے محسوس نہیں کیا تھا۔
”ناں پتر…! میں وہاں جا کے کیا کروں گی…؟تم لوگ چلے جاؤ…! میں گھر پہ رہوں گی، تیرے تاؤ اور دادا کے پاس…!“
وہ ابھی بھی اُسے پیار بھری لگاوٹ آمیز نظروں سے تک رہی تھیں۔ ایسی نظریں جن میں محبت کے سوتے پھوٹتے تھے، جن میں شفقت تھی، مامتا تھی۔اُسے جھلاہٹ محسوس ہونے لگی تو کچھ کہے بغیر دادا کے کمرے کی جانب بڑھ آئی۔
کمرے میں کوئلوں کی انگیٹھی ان کے بستر کے پاس ہی پڑی رہتی تھی۔
اس وقت بھی انگیٹھی میں کوئلے دہک رہے تھے۔ دادا اپنے لحاف میں بیٹھے تسبیح پڑھنے میں مشغول تھے۔ اُسے دیکھا تو شفقت سے مسکرا دئیے۔
”آؤ پُتر…! آؤ میری سوہنی دھی…!“
انہوں نے اُسے دیکھ کر تسبیح سائیڈ پہ رکھ دی۔
”تو بالکل اپنے باپ کی تصویر ہے۔ تجھے دیکھ کر مجھے ارتضیٰ کی جوانی یاد آجاتی ہے۔ وہ بھی اتنا ہی سوہنا تھا۔
“
وہ ان کے پہلو میں بیٹھی تو دادا نے اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کے مدہم لرزتی آواز میں کہا۔ اس نے دیکھا کہ ان کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔
”پاپا آپ سے ملنے بھی نہیں آتے تھے…؟“
اُسے ان کی دلی کیفیت کا اندازہ ہوا تو پاپا پہ غصہ آنے لگا۔
”بڑا آدمی بن گیاہے۔ اُسے فرصت کہاں ہے…؟“
وہ مسکرائے۔ ان کے لہجے میں نارسائی کی سلگن تھی۔ وہ کچھ کہے بغیر ان کے لحاف کے ڈیزائن کو گھورنے لگی۔