Episode 99 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 99 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”اب اس کے پیچھے مت پڑے رہنا کام کرنے کے لئے، ایک ادھ دن میں، میں خود آکے سنبھالوں گی اپنی دِھی کو۔“
انہوں نے ولید کو جتایا تھا۔ اس نے سینے پہ ہاتھ رکھ کر جھک کر گویا ایک بار پھر اپنی سعادت مندی کا یقین دلایا اور جب وہ اس کے ہمراہ ہاسپٹل کی طویل سیڑھیاں اُتر رہی تھی، ولید کا بس نہ چلتا تھا، اسے گود میں اُٹھا لے۔ وہ اس کی ایسے ہی کیئر کر رہا تھا جیسے کوئی نازک آبگینے کی۔
”تشریف رکھئے…!“
گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر اس نے کسی قدر شوخی سے کہا تو ایمان نے لرزیدہ پلکیں اُٹھا کر بغور اس کے فریش چہرے کو دیکھا تھا۔
”خوش ہیں ناں آپ…؟“
”نہ خوش ہونے کی وجہ بھی تو نہیں ہے۔ ویسے اگر ابھی تو کیا، کبھی بھی یہ خوش خبری نہ ملتی، تب بھی میں دوسری شادی نہ کرتا۔

(جاری ہے)

ڈرائیونگ سیٹ پر آکر گاڑی اسٹارٹ کرتا ہوا وہ پتا نہیں اسے چھیڑ رہا تھا کہ یقین کا سرا تھما رہا تھا۔
”مرد کی کسی بات پہ کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔“
ایمان نے جواباً سنجیدگی سے کہا تو ولید کے چہرے کے تاثرات ایک دم بدل گئے۔
”اعتبار تو مجھے بھی تمہاری کسی بات کا نہیں کرنا چاہئے، مگر کر رہا ہوں۔“
اس کے لہجے میں کڑاوہٹ بھری تھی۔ ایمان کو جیسے سانپ نے سونگھ لیا۔ وہ ایک دم گم سم ہوئی تھی۔ سوچوں کے اس بھنور سے وہ تب اُبھری تھی جب گاڑی ایک جھٹکے سے رُکی۔
 
ایمان نے نگاہ اُٹھائی، سامنے ایک مشہور شاپنگ آرکیڈ تھا۔ ولید اسے اُترنے کا اشارہ کرتا ہوا اپنی سمت کا دروازہ کھولنے لگا۔ ایمان نے تقلید کی تھی، مگر دانستہ کسی قسم کا استفسار نہیں کیا۔ اس کے ہمراہ سیڑھیاں چڑھ کر وہ روشنیوں سے جگمگاتی شاپ میں آئی تو ہر سمت برائٹ کلرز کی گویا بہار آئی ہوئی تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی اور اسٹائلش لباس، ولید خاموشی سے گھوم پھر کر کپڑے دیکھتا رہا۔
”سر…! آپ کو کس قسم کا ڈریس چاہئے…؟ پارٹی، یا پھر برائیڈل…؟“
سیلز گرل گویا اس کی ہیلپ کو آگے بڑھی تھی۔
”پارٹی…!“
ولید نے اس کی بات کا جواب دیتے خود ہاتھ بڑھا کر ایک ہینگر نکال لیا۔ سی گرین اور ڈل اورنج کلر کا سوٹ جس کی اورنج شرٹ پہ سی گرین بارڈر تھا، اور اس پر بہت جھلملاتا ہوا سا کام بنا ہوا تھا۔
”فنٹاسٹک…آپ ان کے لئے لے رہے ہیں ناں…! بہت سوٹ کرے گا ان کو۔
سیلز گرل مسکراتے ہوئے بولی تھی۔ ولید نے ایمان کو دیکھا جو سپاٹ چہرہ لئے خاموش نظر آ رہی تھی۔ اس نے کچھ کہے بغیر سوٹ سیلز گرل کی سمت پیک کرنے کو بڑھا دیا۔
”پہلے تمہاری وجہ سے میں اپنی شادی پہ جو میری زندگی کا بہت اہم موقع تھا، خوش نہیں ہو پایا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھ میری زندگی کے دوسرے اہم موقع پر کوئی رخنہ ڈالو۔“
ماتھے پہ تیوریاں لئے وہ سلگتے ہوئے لہجے میں کاٹ سمو کر برہمی سے بولا تو ایمان نے کسی قدر شاکی ہو کر اسے دیکھا۔
”آپ کی خوشی میری خوشی نہیں ولید…؟“
”مجھے اتنا کچھ نہیں پتا، میں تمہارے دل میں گھس کر نہیں بیٹھا ہوا۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تم فی الوقت اپنا موڈ درست کرو…!“
اسی نخوت سے وہ تنک کر کہہ رہا تھا۔ ایمان نے ہونٹ بھینچ لئے۔ ولید نے کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کی تھی، پھر اسے لئے باہر آگیا۔ اس کے بعد وہ اس کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں آیا تھا اور کولڈ ڈرنک کے ساتھ باربی کیو آرڈر کیا۔
”میری زندگی میں میری اپنی ذات کی بہت اہمیت ہے۔ چونکہ یہ خوشی میری ہے، جبھی میں تم سے کوئی تمہاری پسند کی بابت نہیں پوچھوں گا، بھلے تم مائنڈ کرو۔“
اس نے جو توجیح دی تھی، وہ ایمان کے لئے تکلیف دہ اور توہین آمیز تھی۔ مگر وہ ضبط کئے بیٹھی رہی تھی۔
”کھاؤ ناں…! ڈاکٹر نے سنا ہے ناں کیا کہا ہے…؟ تمہیں بہترین ڈائٹ کی ضرورت ہے۔
وہ خود رغبت سے کھاتے ہوئے اسے ٹوک کر بولا تو ایمان کا ضبط جواب دے گیا تھا۔
”مجھے صرف ڈائٹ کی ہی نہیں ولید…! آپ کی توجہ اور محبت کی بھی ضرورت ہے۔ اگر آپ سمجھیں تو…؟“
وہ پھٹ پڑی تھی۔ آنکھیں بھیگ بھیگ گئی تھیں۔
”دے تو رہا ہوں توجہ…! اور محبت کی بات مت کرنا میرے ساتھ، یاد ہے ناں، کیا کیا ہے تم نے میرے ساتھ…؟“
اس کے لہجے میں بیک وقت بلا کا طنز اور زہریلا پن تھا۔
اس کے جارحانہ تیوروں کی تاب نہ لاتے ہوئے ایمان نے سرعت سے نگاہ جھکا لی۔ پھر کچھ توقف سے روہانسی ہو کر بولی تھی۔
”آپ بھول کیوں نہیں جاتے ہیں اس بات کو…؟ معاف کر دیں مجھے…!“
”نہیں کر سکتا۔ کوئی اپنی توہین بھلا سکتا ہے بھلا…؟ کھیلی ہو تم میرے خالص کھرے جذبوں سے۔ اگر میں نے ہٹیلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمہیں نہ چھین لیا ہوتا تم سے تو آج تم پتا نہیں کہاں ہوتیں…؟ تم بتا سکتی ہو تم نے میرے اوپر کس چیز کو ترجیح دی تھی…؟“
اس کے دبنگ لہجے میں کرب کے شعلے تھے، شکست تھی، بے اعتنائی کا دُکھ تھا۔
ایمان کو پہلی بار اس کی کیفیت سمجھ آئی۔ اسے پہلی بار اس کا دُکھ محسوس ہوا تو کچھ کہے بغیر سر جھکا لیا۔ وہ جلتی آنکھوں سے کتنی دیر اسے تکتا گویا جواب کا منتظر رہا تھا، پھر چھری اور کانٹا دونوں پلیٹ میں پٹخ دیئے تھے اور اشارے سے ویٹر کو بلایا۔
”آج یہ بات بھی کنفرم ہوگئی کہ تمہیں میری خوشی سے نفرت ہے۔“
ویٹر بل لایا تو والٹ سے نوٹ نکا کر پلیٹ میں پٹختے ہوئے وہ بھینچی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔ ایمان اُٹھ کر اس کے ساتھ چلی تو چال میں بے حد تھکن اور پژمردگی تھی۔
                                    ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط