Episode 8 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 8 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

چنانچہ، وہ مماملات جو سویڈن یا جاپان میں ،بیوروکریسی میں موجود دلچسپی رکھنے والی پارٹیوں کے درمیان خاموش مشاورت کے ذریعے حل ہوجاتے ہیں، اُنھیں امریکہ میں عدالتی نظام کے تحت باقاعدہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے لڑ کر حل کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے، پبلک ایڈمنسٹریشن پر کئی بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو ایک ایسے عمل کی طرف لے جاتے ہیں جنہیں فرہنگ کے الفاظ میں،”غیر یقینی صورتحال، پیچیدہ عمل، فالتوپن، نہ ختم ہونے والے، انتہائی زیادہ تبادلہ کی لاگت رکھنے والے“ عمل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
قوانین کے نفاذ کی طاقت کو بیوروکریسی سے دُور رکھنا، نظام کو کم جوابدہ بھی بناتا ہے۔
 قانونی چارہ جوئی کے راستے کھول کر بہت سے پہلے خارج کیے گئے گروہوں کو بھی رسائی اور اس کے نتیجے میں طاقت دے دی گئی، جن کی ابتدا افریقی نژاد امریکیوں سے ہوئی۔

(جاری ہے)

اسی وجہ سے، قانونی چارہ جوئی اور مقدمہ کے حق کا بائیں بازو کی پروگریسیو جماعتیں انتہائی سختی کے ساتھ تحفظ کرتی ہیں۔

لیکن اس نے عوامی پالیسی کے معیار کے لحاظ سے بہت زیادہ اخراجات بھی ساتھ منسلک کردئیے ہیں۔ کاگن، کیلی فورنیا میں آکلینڈ کی بندرگاہ کی صفائی کا واقعہ بتاتے ہوئے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔1970 کی دہائی کے دوران، آکلینڈ کی بندرگاہ نے متوقع طور پر بڑے اور زیادہ تعداد میں آنے والے بحری جہازوں کے کنٹینرز کے لیے بندرگاہ کی صفائی کا فیصلہ کیا، یہ بڑے کنٹینرز والے بحری جہاز اس وقت کام کرنا شروع کرنے والے تھے۔
اب اس منصوبہ کی کئی وفاقی ایجنسیوں نے منظوری دینی تھی، جن میں آرمی کور آف انجینئرز، فش اینڈ وائلڈ لائف سروس، نیشنل میرین فشریز سروس، اور ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کے علاوہ کیلی فورنیا میں ان کی ہم منصب ایجنسیاں بھی شامل تھیں۔کیلی فورنیا کی بندرگاہ سے صفائی کرکے نکالے گئے زہریلے مواد کی تلفی کے لئے کئی باہم منسلک منصوبوں کو عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا، اور ہر باہم مسلسل منصوبے میں طویل تاخیر اور انتہائی زیادہ اخراجات کابوجھ اُٹھانا پڑا۔
ان مقدمات پرماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کا ردعمل دفاعی انداز میں جھک جانا اور کوئی اقدام نہ کرنا تھا۔ بندرگاہ کی صفائی کے حتمی منصوبہ پر کام کا آغاز 1994تک بھی ممکن نہیں ہوسکا تھا، جس کی لاگت اصل اندازوں سے کئی گنا زیادہ ہوچکی تھی۔ اس جیسے منصوبے کے تحت ہالینڈ میں راٹرڈیم پورٹ کی توسیع کا کام، انتہائی مختصر وقت میں مکمل کرلیا گیا تھا۔
اس طرح کی مثالیں امریکی حکومت کی تمام سرگرمیوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔فاریسٹ سروس کی بہت سی جانفشانی پر مبنی کوششوں کا ان طریقوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، جن کے ذریعے اس کے فیصلے عدالتی نظام سے گزرے ہونگے۔ اس نے انتہائی موثر طور پر 1990کی دہائی کے دوران چتکبری الو کو خطرات لاحق ہونے پر …جسے خطرے سے دوچار نسلوں کے قانون کے تحت تحفظ دیا گیا تھا…شمالی بحرالکاہل میں کام کرنے والی بیورو آف لینڈ مینجمنٹ کو اور زمینوں پر درختوں کی تراش خراش کے عمل کو روک دیا تھا۔
 
عدالتوں کو جب ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تو اُن کا کردار حکومت کی نگرانی سے ایک ایسے عمل میں تبدیل ہوگیا جس سے حکومت کا دائرہ کار بے حد وسیع ہوگیا۔ مثال کے طور پر، کانگریس کی طرف سے 1974میں ایک مہنگی قانون سازی کے بعددئیے گئے مینڈیٹ کے نتیجے میں ، 1970کی دہائی کے دوران معذور اور اپاہج بچوں کے لیے خصوصی تعلیمی پروگرام تعداد اور لاگت کے اعتبار سے بہت تیزی سے بڑھے ہیں۔
تاہم یہ مینڈیٹ وفاقی ضلعی عدالتوں کی طرف سے اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد دیا گیا تھا کہ ضرورت مند معذور بچے بھی حقوق رکھتے ہیں، جن کو دوسری اشیاء کے مقابلے میں مفادات کے پلڑے میں رکھ کر تولنا یا لاگت کے نفع سے مشروط کرنا انتہائی دشوار ہے۔
اس مسئلے کا حل ضروری نہیں وہی ہو جو بعض کنزرویٹو اور لبرٹیرین پیش کرتے ہیں،جن کے نزدیک حل یہ ہے کہ بس تمام ضوابط کا خاتمہ کیا جائے اور بیوروکریسی کو بند کردیا جائے۔
حکومت جو خدمات بجالا رہی ہے، جیسے کہ زہریلے فضلہ کے حوالے سے قوانین ، ماحولیاتی تحفظ یا خصوصی تعلیم کے قوانین،یہ سب اہم ہیں کیونکہ نجی مارکیٹوں کو اگر اُن کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو وہ مقصد کی پیروی نہیں کریں گی۔ کنزرویٹوز اکثر یہ دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ یہ دراصل حکومت کی بداعتمادی ہے جو امریکی نظام کو ، عدالتوں پر انحصار کے نسبتاً کم موثر طریقہً کار کی طرف لے جاتا ہے ، بہ نسبت اس کے جو دنیا کی دوسری جمہوریتوں میں مضبوط ایگزیکٹو برانچوں کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔
لیکن پروگریسیو اور لبرلز کا روئیہ بھی برابر درجے کا مسئلہ ہے۔ اُنھوں نے بھی بیوروکریسی پر بے اعتمادی دکھائی ہے، اس طرح کی بیوروکریسی پر جس نے جنوب میں الگ الگ قسم کا سکول سسٹم بنایا، یا اس طرح کی جو بڑے کاروباری اداروں کے شکنجے میں جکڑی ہے، اور جب قانون ساز معقول حد تک حمایت نہ کریں تووہ غیرمنتخب ججوں کو سوشل پالیسی کی تشکیل میں شامل کرنے پر بھی راضی ہیں۔
انتظامیہ کے لیے مرکز گریز قانونی طریقہ کار ، امریکی نظام کی دیگر نمایاں خصوصیات کے ساتھ ضم ہوچکا ہے…جس کی وجہ اس کا مفادات رکھنے والے گروہوں کے اثرورسوخ کے لیے آزادانہ طریقہ کار ہے۔ ایسے گروپ حکومت کے خلاف براہ راست ہرجانہ کا دعویٰ کرکے اپنا راستہ بناسکتے ہیں۔ مگر اُن کے پاس ایک اور، بلکہ اس سے بھی زیادہ طاقتور راستہ ہے، ایسا راستہ جو واضح طور پر زیادہ وسائل پر کنٹرول رکھتا ہے…یعنی کانگریس۔
آزادی اور مراعات
کچھ سفیروں اور سرکاری محکموں کے اہم ترین عہدوں پر فائز لوگوں کو چھوڑ کر، امریکی سیاسی جماعتیں اب وفادار سیاسی حامیوں کو سرکاری دفاتر کی تقسیم کا کاروبار نہیں کررہی ہیں۔ لیکن پیسے کے لئے سیاسی اثر و رسوخ کا لین دین پس پردہ ہورہا ہے، ایک ایسی شکل میں جو بظاہر بالکل قانونی ہے اور جسے ختم کرنا بہت مشکل ہے۔
جرم کے دائرے میں آنے والی رشوت کو امریکی قانون میں مختصراً رقم کی ایسی منتقلی قرار دیا گیا ہے، جس میں حکومت اور ایک نجی پارٹی واضح طور پر کچھ لو کچھ دو پر اتفاق کرلیتے ہیں۔ قانون میں جس چیز کی وضاحت شامل نہیں کی گئی اُسے ماہر حیاتیات باہمی ایثار کہتے ہیں، یا جسے ایک ماہر بشریات تحائف کا تبادلہ کہہ سکتا ہے۔ باہمی ایثار کے رشتے میں ایک شخص دوسرے کو یہ توقع رکھے بغیر فائدہ پہنچاتا ہے کہ بدلے میں اُسے بھی کوئی فائدہ پہنچے گا۔
چنانچہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی کسی کو ایک تحفہ دیتا ہے اور اس کے بعد فوری طور پر بدلے میں ایک تحفہ کا مطالبہ کرتا ہے تو بے شک،تحفہ وصول کرنے والا بُرا محسوس کرے گا اور تحفے کی پیشکش کو رد کردے گا۔گویا کے تحائف کے تبادلے میں تحفہ وصول کرنے والے پر کچھ مخصوص اچھا کرنے یا خدمات مہیا کرنے کی قانونی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، لیکن ایک اخلاقی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ اس فائدے کا بعد میں کسی شکل میں بدلہ چکا دے۔
یہ وہ تبادلہ کی قسم ہے جس کے گرد امریکی لابنگ کی صنعت بنائی گئی ہے۔
رشتہ داروں کا انتخاب اور باہمی ایثار انسانی سماجی تعلق کے دو قدرتی طریقے ہیں۔ جدید ریاستیں خاندان اور دوستوں کی حمایت کرنے کے رجحان پر قابو پا نے کے لیے سول سروس امتحانات، میرٹ پر مبنی قابلیت، مفادات کے ٹکراؤ کے ضابطے، اور انسداد رشوت و انسداد کرپشن سمیت دیگر سخت قوانین تشکیل دیتی اور مراعات دیتی ہیں۔
لیکن قدرتی سماجی تعلق کی طاقت اس قدر مضبوط ہے کہ یہ نظام میں گھسنے کے لیے ایک راستہ تلاش کرتی رہتی ہے۔
گزشتہ نصف صدی کے دوران، امریکی ریاست بالکل اسی طرح اختیارات کے محدود ہونے کا شکار ہوگئی ہے جیسے کہ چین کی ہان ریاست سلطنت کے آخری دنوں میں تھی،یاترکی میں مملوک حکومت عثمانیوں کے ہاتھوں شکست سے پہلے تھی، یا پھر ancien سلطنت کے تحت فرانسیسی ریاست تھی۔
اقربا پروری کو مسدود کرنے کے قوانین اب بھی اتنے مضبوط ہیں کہ وہ واضح اقربا پروری کو مسابقانہ امریکی نظام میں ایک عام سیاسی خصوصیت بنانے کی خواہش کو روک سکیں۔(اگرچہ یہ نوٹ کرنا دلچسپی کا حامل ہے کہ سیاسی خاندان بنانے کی خواہش کس قدر مضبوط ہے… اسی لیے تمام کینیڈی خاندان، بش خاندان اور کلنٹن خاندان اس کی مثالیں ہیں)۔سیاستدان عام طور پراپنے خاندان کے ارکان کو ملازمتوں کے ذریعے فائدہ نہیں پہنچاتے، بلکہ وہ اپنے افراد خانہ کی جگہ پر بُرے کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ان کے بچے اشرافیہ کے سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرسکیں، وہ مفادات رکھنے والے گروپوں اور لابی کرنے والوں سے پیسے وصول کرتے ہیں۔
باہمی ایثار، دریں اثنا، واشنگٹن میں روز بروز بڑھتا ہوا رجحان ہے اور یہ وہ اہم ترین طریقہ ہے جس کے ذریعے مفاد پرست گروپ حکومت کو کرپٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔جیسا کہ ماہرقانون لارنس لیسگ نشاندہی کرتے ہیں، مفاد پرست گروپ کانگریس کے ارکان کو قانونی طور پر زیر اثر لانے میں سادہ طور پر عطیات دیکر یا فائدے کی واپسی کا انتظار کرکے کامیاب ہوتے ہیں۔
اور کبھی کبھی، قانون ساز ہی تحائف کے تبادلے کی ابتدا کرنے والا ہوتا ہے، وہ کسی مفاد پرست گروپ کو اس لیے فائدہ پہنچاتا ہے کہ جب وہ ریٹائر ہوگا تو اس سے کسی طرح کا فائدہ لے سکے گا۔ واشنگٹن میں مفاد رکھنے والے گروہوں اور لابی کرنے والوں کی تعداد میں خاصا اضافہ حیران کُن ہے، جیسے کہ رجسٹرڈلابی کرنے والی فرموں کی تعداد جو 1971میں اندازاً 175تھی، صرف ایک دہائی بعد ان کی تعداد میں 25ہزار کا اضافہ ہوچکا تھا۔
اور پھر 2009میں یہ تعداد 13,700تک پہنچ گئی تھی جن پر3.5بلین ڈالر اخراجات ہورہے تھے۔ کچھ سکالرز نے اعتراض کیا ہے کہ اس سارے عمل اور پیسے کا نتیجہ اُن خطوط پر پالیسی کو تبدیل نہیں کرسکا، جن پر کہ لابی کرنے والے چاہتے تھے، جو نامعقول سی بات لگتی ہے۔ لیکن اکثر اوقات، مفاد رکھنے والے گروپوں اور لابی بنانے والوں کا مقصد نئی پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کرنا نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے موجود قوانین کو بدتر بنانا ہوتا ہے، جو دوسری صورت میں نہیں ہوسکتا ہو۔
امریکہ میں قانونی عمل پارلیمانی نظام اور منظم جماعتیں رکھنے والے دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ اُلجھا ہواہے۔ کانگریس کی بے شمار کمیٹیوں کا وجود اور ان کے باہم متصادم اختیارات، اکثر کئی طرح کے اور متضاد مینڈیٹ کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ مرکز گریز قانونی عمل بے ربط قوانین کو جنم دیتا ہے اور عملی طور پر مفاد رکھنے والے گروپوں کو مداخلت کی دعوت دیتا ہے، جو اگر قانون سازی کے پورے عمل کو تبدیل کرنے کی طاقت نہ بھی رکھتے ہوں تب بھی کم ازکم اپنے مخصوص مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں۔
 
مثال کے طور پر، 2010 میں اوباما انتظامیہ کی طرف سے پیش کیا گیا ہیلتھ کئیر بل، ڈاکٹروں سے لیکر انشورنس کمپنیوں اور دواسازی کی صنعت تک پھیلے دلچسپی رکھنے والے گروپوں کو جو مراعات اور ادائیگیاں کی جانی تھیں ان کے نتیجے کے طور پر قانون سازی کے عمل کے دوران ہی ایک عجیب و غریب صورت اختیار کرگیا تھا۔ کچھ دیگر معاملات میں، مفاد رکھنے والے گروپوں کے اثرات، اپنے مفادات کے لئے نقصان دہ قانون سازی کو روکنے کے لئے تھے۔
2008 کے مالیاتی بحران اور بڑے بینکوں کے انتہائی غیر مقبول ٹیکس ادا کرنے والوں کے بیل آؤٹ کا آسان ترین اور سب سے زیادہ موٴثر جواب ایسا قانون ہوتا، جس میں مالیاتی اداروں کے حجم پرایک سخت حدود کی پابندی عائد کی جاتی یا ایسا قانون جو ڈرامائی طور پر سرمایہ کی ضروریات کو اُبھارتا، جس کا تقریباً وہی اثر ہوتا۔اگر حجم کی حدود مقرر کی گئی ہوتیں توبے وقوفانہ خطرات مول لینے والے بینک نظام کو بحران میں ڈالے اور حکومتی بیل آوٴٹ کی نوبت آئے بغیر خود ہی دیوالیہ ہوجاتے۔
جیسے کہ کساد بازاری کے دور میں پیش کیا جانے والا ”گلاس۔سٹیگال ایکٹ“ تھا،ایک ایسا قانون جو صرف دو کاغذوں پر تحریر کیا جاسکتا تھا۔لیکن غالباً مالی ضابطوں پر کانگریس کی مشاورت کے دوران اس امکان پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا گیا۔
 اس کے بجائے جو قانون سامنے آیا وہ ”ڈوڈ۔فرینک وال سٹریٹ ریفارم اینڈ کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ“ تھا، جو کم ازکم کوئی ضابطہ قانون نہ ہونے سے تو بہتر تھا مگر یہ قوانین کے سینکڑوں صفحات پر پھیلا اورمزید کئی ذیلی قوانین کے انبار پر مشتمل تھا، جو اپنے دائرہ کار میں آنے والے بینکوں اور صارفین پر بھاری اخراجات مسلط کریں گے۔
بینکوں کے حجم پر حدود مقرر کرنے کے بجائے، اس نے ”فنانشل سٹیبلٹی اوور سائٹ کونسل “تخلیق کی،جسے نظام کو خطرات میں ڈال دینے والے اداروں کا پتہ لگانے اور ان کا انتظام کرنے کا انتہائی بڑا کام سونپ دیا گیا، یہ ایک ایسا اقدام تھا جس نے آخر میں”حجم میں بڑا ہونے کی وجہ سے بینک کے ناکام ہونے“ کے مسئلہ کو پھر بھی حل نہیں کرنا تھا۔ اگرچہ کوئی بھی ایسا ہتھیار تلاش نہیں کرسکتا جو کانگریس کے مخصوص ارکان کے ووٹ کے لئے بینکوں کی شراکت مہم کا تعلق ظاہر کرسکے، مگریہ قانون اس یقین کو غلط ثابت کردیتا ہے کہ بینکنگ انڈسٹری کے لیے لابی کرنے والوں کی کثیر تعداد کا اس معمولی حل کو روکنے میں اہم کردار نہیں تھا کہ بڑے بینکوں کو توڑ دیا جائے یا اُنھیں سرمایہ کی ضروریات کو بہت سخت ضابطوں کے تحت کرنے کا پابند بنایا جائے۔
عام امریکی مفاد رکھنے والے گروہوں کے اثرات اور کانگریس میں پیسے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔یہ تاثر کسی ایک سیاسی حلقے تک ہی محدود نہیں ہے کہ جمہوری عمل کو کرپشن کا شکار یا اغوا کرلیا گیا ہے…ٹی پارٹی ریپبلکن اور لبرل ڈیموکریٹس دونوں ہی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مفاد رکھنے والے گروپ غیر ضروری اثرو رسوخ ڈال رہے ہیں اور محض اپنے ”گھونسلے“ مضبوط کررہے ہیں۔
اس کے نتیجے میں، عوامی رائے کے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ کانگریس پر اعتماد تاریخی لحاظ سے کم ترین سطح پر آگیا ہے، بمشکل ایک ہندسہ پر مشتمل سطح سے کچھ ہی زیادہ رہ گیا ہے، اور اس پر ردعمل ظاہر کرنے والوں کے ہاتھ ایک نقطہ آگیا ہے۔ انقلاب سے پہلے فرانس کی قدیم اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے Alexis de Tocqueville نے کہا تھا کہ” ہم نے آزادی کو استحقاق سمجھ لیا تھا، یعنی اُنھوں نے اس ریاستی طاقت سے خود کو تحفظ دینے کی کوشش کی جو صرف اُن کے لیے مخصوص تھی نہ کہ یکساں طور پر تمام شہریوں کے لیے۔ عصر حاضر کے امریکہ میں، طبقہ اشرافیہ کے لوگ آزادی کی زبان بولتے ہیں لیکن اسے بطور استحقاق استعمال کرنے میں خوش ہیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط