Episode 36 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 36 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

چوتھی ترجیح کے طور پر، اوباما اور مودی کو ملکر بھارت کے نزدیک جنوبی ایشیائی علاقوں میں استحکام کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے، یہ وہ شعبہ ہے جسے بھارتی وزیراعظم پہلے ہی اپنی اہم ترجیح قرار دے چکے ہیں۔ اوباما کو چاہیے کہ وہ سری لنکا میں انسانی حقوق کی افسوس ناک صورتحال پر سری لنکن حکومت پر دباؤ ڈالنے، بنگلہ دیش میں اسلامی انتہا پسندی کے خلاف حفاظتی قدامات، اور نیپال میں زیادہ سے زیادہ سیاسی استحکام کو فروغ دینے کے لیے مودی کی کوششوں کی حمایت کریں۔

تاہم اُن کا سب سے اہم علاقائی منصوبہ افغانستان ہونا چاہیے۔بھارت اس وقت افغانستان کو اقتصادی امداد فراہم کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے، اور بھارتی فرمز افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں سرگرم ہیں۔

(جاری ہے)

ماضی میں، بش اور اوباما انتظامیہ نے پاکستانی مخالفت کی وجہ سے، افغانستان کی بحالی کی کوششوں میں بھارت کی شمولیت کو محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔

لیکن 2016 کے آخر تک، امریکہ کو نومنتخب افغان حکومت کا ایک اہم پارٹنر بننے کے لئے بھارت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، جس میں افغان فوج کو تربیت دینے میں بھارت کا اہم کردار بھی شامل ہو۔ واشنگٹن کو بھارتی عہدیداروں سے ر ابطہ قائم کرکے اُنھیں کمزور افغانستان کے استحکام کی اپنی طویل مدتی منصوبہ بندی میں شامل کرنا چاہیے۔ 
جنوبی ایشیاء میں استحکام کا دارومدار سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ،ہمیشہ سے مسائل کا شکار پاک بھارت تعلقات پر ہی ہوگا۔
صدر اوباما کو پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی طرف سے باہمی تجارت کے لیے کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے۔بدقسمتی سے امریکہ یا کسی بھی تیسرے فریق کی جانب سے کشمیر کے مسئلہ پر مصالحت کی کوشش پر، بھارت مزاحمت جاری رکھے گا۔
 صدر اوباما کی ٹیم کو سابق وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس کی اختیار کردہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کو ”الگ الگ نکات کی روشنی میں استوار کرنے کی“پالیسی پر دوبارہ عمل کرنا چاہیے۔
کئی دہائیوں تک یکے بعد دیگرے امریکی حکومتیں بھارت اور پاکستان سے متعلق پالیسی کو ایک ہی یونٹ کے طور پر دیکھتی رہیں۔ مگر کونڈالیزا رائس نے 2005میں اس سے مختلف راستہ اختیار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے لیے آزادانہ اور کافی حد تک مختلف پالیسیاں اختیار کیں۔ مثال کے طور پر اس پالیسی نے بُش انتظامیہ کو پاکستان کے ساتھ مساوی معاہدے کرنے کے لیے مذاکرات پر مجبور ہوئے بغیر،بھارت کے ساتھ سول جوہری معاہدہ کرنے کی اجازت دی۔
 اگرچہ امریکہ کے لیے پاکستان کے ساتھ موثر شراکت قائم رکھنا ضروری ہے، مگر بھارت کے ساتھ ایک پا ئیدار شراکت قائم کرنا آنے والے وقت میں زیادہ بڑے سٹریٹجک ثمرات کا حامل ہوگا۔ آخر میں، امریکہ اور بھارت کو اہم بین الاقوامی سیاسی مسائل سے زیادہ موثر طور پر نپٹنے کے لیے ملکر کام کرنے کی راہیں تلاش کرنی چاہئیں۔ امریکی عہدیدار کافی عرصہ سے اس حقیقت کی وجہ سے پریشانی محسوس کرتے آرہے ہیں کہ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان ایک قریبی دوطرفہ دوستی ہے، مگر وہ اقوام متحدہ میں اور دیگر کثیر جہتی اداروں میں زیادہ تر اختلاف رکھنے والے پارٹنرز ہی ہوتے ہیں۔
اوباما اور مودی اس سال دو بڑے مسائل کے بارے میں ملکر کام کرنے کے راستے تلاش کرکے اس تاثر کو تبدیل کرسکتے ہیں…یہ دو مسائل، موسمیاتی تبدیلیاں اور ایران ہیں…یعنی وہ دو مسائل جن کے حوالے سے بھارت تاریخی طور پر امریکہ کا کمزور اتحادی رہا ہے۔ یہ کام فوری یا آسان نہیں ہونگے۔ ایک آزاد ملک کے طور پر وجود میں آنے کے بعد سے ہی، بھارت غیروابستہ تحریک اور مزاحمت کا، جسے اس کے سفارتکار اکثر امریکی پالیسیوں سے مطابقت کے دبنگ دباوٴ کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک فخرمند اور پُرجوش حامی رہا ہے۔
اب یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کیا عمل پسند نریندرا مودی، جبکہ ہر دوسری شے اُن کی پلیٹ میں موجود ہے، وہ کئی دھائیوں سے جاری بھارتی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے کے لیے بھارتی بیوروکریسی سے ٹکر لیں گے؟۔ لیکن بہرحال دونوں حکومتوں کو موسمیاتی تبدیلیاں روکنے اور ایران پر ایٹمی پروگرام کی وجہ سے دباوٴ ڈالنے کے لئے زیادہ موٴثر طریقے سے کام کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
 
آگے کا راستہ
جب امریکہ اور بھارت ملکر زیادہ قریبی طور پر کام کریں گے، تو دونوں کو اپنے اپنے راستے کی مشکلات سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ بھارتی رہنماؤں کو اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے تجارتی محاذ پر آگے بڑھ کر نصف راستے میں امریکہ سے ملنا ہوگا۔ اگر بھارت نے بامعنی بین الاقوامی تجارتی آزادی کی مخالفت جاری رکھی، تو دونوں ملک بنیادی طور پر مشکلات کا شکار رہیں گے۔
بھارتی عہدیداروں کو سمجھنا چاہیے کہ نئی دہلی کے خلاف امریکہ کی تجارتی شکایات اُن کے ملک کو کمزور کرنے کی کسی سیاسی مہم کا حصّہ نہیں ہیں،جیسا کہ وہ بعض اوقات الزام لگاتے ہیں۔ صدر اوباما اس حوالے سے امریکہ اور کینیڈا، نیز امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی لڑائیوں کی مثال دے سکتے ہیں کہ امریکہ نے اپنے مضبوط ترین اتحادیوں کی تجارتی پالیسیوں کا بھی بھرپور مقابلہ کیا ہے۔
امریکہ کو اپنے طور پر بھارت کے ساتھ زیادہ موثر طور پر کام کرنے کا چیلنج درپیش ہے، یعنی اسے اس عظیم قوت کے ساتھ تعلقات کی منفرد نوعیت کو سمجھنا ہوگا۔ امریکہ کی کسی دوسرے ملک کے ساتھ اس طرح کی شراکت داری نہیں ہے۔ بھارت اس قدر بڑا اور فخرمند ملک ہے کہ وہ جاپان اور جرمنی کی طرح امریکہ کا باقاعدہ معاہدے کے تحت اتحادی نہیں بن سکتا۔
مثال کے طور پر، بھارت… روس کے ساتھ اپنے مضبوط فوجی تعلقات برقرار رکھنے اور ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھنے پر اصرار کرے گا۔ امریکہ…یورپ اور مشرقی ایشیاء میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ معاملات میں تمام فیصلے خود لینے کا عادی ہے۔ مگر یہ پالیسی بھارت کے ساتھ نہیں چل سکے گی، جو امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر کھڑے ہونے کے لیے اصرار کرے گا۔
چنانچہ نئی دہلی کے ساتھ زیادہ موثر طور پر کام کرنے کے لیے امریکی سفارت کاروں کو بھارتیوں کے لیے حساس معاملات پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، اور یہ حقیقت پسندانہ سوچ اپنانا ہوگی کہ موجودہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں کیا ممکن ہے اور کیا نہیں۔بھارت اور امریکہ کی اس بہتر شراکت داری کو چین اور پاکستان زیادہ پسند نہیں کریں گے۔ مگر اُن کی بے چینی کے جو بھی نتائج ہوں امریکہ اُن کا انتظام کرسکتا ہے… بھارت اس سے کہیں زیادہ قابل اعتبار اور بھروسہ مند پارٹنر ثابت ہوگا جتنا کہ پاکستان یا دوسرے اتحادی آج تک ہوئے ہیں، اور بھارت کے ساتھ مضبوط فوجی تعلق سے بیجنگ کو بھی ایک فائدہ مند اور اہم پیغام ملے گا… کہ خطے کے جمہوری ممالک طاقتور اور متحد رہیں گے۔
خوش قسمتی سے، واشنگٹن کی طرف سے بھارت پر از سر نو توجہ مرکوز کرنے کے حوالے سے امریکہ میں زیادہ مخالفت نہیں ہونی چاہیے۔ صدر اوباما بڑھتی ہوئی اور انتہائی کامیاب ہندوستانی امریکی برادری کی پُرجوش حمایت پر اعتماد کر سکتے ہیں ۔ امریکی اور بھارتی عوام مستقل طور پر مختلف سروے رپورٹس میں دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ کہ اوباما اُس خاص فائدے پر بھی بھروسہ کرسکتے ہیں جو اُنھیں خارجہ پالیسی کے کسی بھی دوسرے ایشو پر حاصل نہیں رہا…اور وہ ہے دونوں بڑی جماعتوں کی حمایت۔ بل کلنٹن، بُش اور اوباما نے گذشتہ 15برس کے دوران امریکہ بھارت تعلقات کو بلندی پر لے جانے کے لیے یکساں طور پر کام کیا ہے۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کے اس بہت کم دیکھنے میں آنے والے اتفاق رائے کی وجہ سے، کہ امریکہ کو اپنی توجہ کا مرکز نئی دہلی کو بنانا چاہیے… بھارت کو آنے والی کئی دھائیوں تک امریکہ کی ایشیاء کے لیے حکمت عملی میں سب سے نمایاں حیثیت حاصل ہوسکے گی۔
نیو ورلڈ آرڈر
طاقت کے قانون پر مبنی معیشت میں لیبر، سرمایہ اورنئے خیالات کا کردار
(ایرک برائن جولفس سن…اینڈریو مکیفی‘ مائیکل سپینس)ایرک برائن جولفس سن ایم آئی ٹی سلون سکول آف مینجمنٹ میں شوسیل فیملی پروفیسر آف مینجمنٹ سائنس اور ڈیجیٹل اکانومی پر ایم آئی ٹی کے اداروں کے شریک بانی ہیں۔ اینڈریو مکیفی، ایم ائی ٹی سلون اسکول آف مینجمنٹ کے ایم ائی ٹی سینٹر برائے ڈیجیٹل بزنس میں پرنسپل ریسرچ مینجمنٹ کے سائنسدان اور ڈیجیٹل معیشت پر ایم آئی ٹی کے انیشی ایٹو کے شریک بانی ہیں ۔
مائیکل سپینس نیویارک یونیورسٹی سٹرن سکول آف بزنس میں ولیم آربا ر کلے پروفیسر ان اکنامکس ہیں۔۔۔۔۔
ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہوئی حالیہ تحقیقات نے لیبر اور سرمایہ دونوں کے لیے ہی ایک تیزی سے بڑھتی متحد عالمی مارکیٹ کی راہ ہموار کردی ہے۔ یہ دونوں عناصر چونکہ استعمال کے لحاظ سے کسی خاص مقام سے قطع نظر اہمیت رکھتے ہیں، اسی وجہ سے دنیا بھر میں ان کی قدر یکساں طور پر بڑھ رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں اس کثیر جہتی قدرمیں برابر ی نے اُن ممالک کو فائدہ پہنچا یا ہے جن کے پاس کثیر تعداد میں سستی لیبر موجود ہے اور جن کی رسائی سستے سرمایہ تک ہے۔ اس حوالے سے بعض لوگ اس بات کے داعی ہیں کہ تیزرفتار تکنیکی ترقی کے موجودہ دور سے لیبر کو فائدہ پہنچا ہے اور بعض اس بات پر دلیل دیتے ہیں کہ اس کا فائدہ سرمائیہ کو پہنچا ہے۔ بہرحال جس بات پر دونوں طرف کے لوگ متفق ہیں وہ یہ حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی نہ صرف لیبر اور سرمایہ کے موجودہ ذرائع کو باہم مربوط کررہی ہے بلکہ نئے ذرائع بھی پیدا کررہی ہے۔
مشینیں پہلے سے کہیں زیادہ کئی طرح کی انسانی لیبر کی جگہ لے رہی ہیں۔ جُوں جُوں یہ خود کو تبدیل کررہی ہیں۔ اُن کی وجہ سے مزید سرمایہ حاصل ہورہاہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مستقبل میں اصل فاتح سستی لیبر مہیا کرنے والے یا معمولی سرمایہ رکھنے والے نہیں ہوں گے جو کہ دونوں ہی مشینی نظام کی وجہ سے سکڑ کررہ جائیں گے بلکہ خوش قسمتی ان دونوں کے بجائے ایک تیسرے گروپ کا مقدر ہوگی۔
یعنی اُن کا مقدر جو کہ نئی اختراعات کرسکتے ہیں اور نئی مصنوعات‘ خدمات اور کاروباری ماڈلز تخلیق کرسکتے ہیں۔
اس تخلیقی طبقہ کے لیے خاص طورپر منافع کی تقسیم طاقت کے قانون کی شکل اختیارکر لے گی، جس میں سب سے زیادہ انعامات پر فاتحین کی ایک مختصر تعداد کاقبضہ ہوگا اور ان کے پیچھے شرکاء کی بڑی تعداد ہوگی۔ چنانچہ مستقبل میں نئے خیالات( آئیڈیاز) دنیا میں حقیقی اہم چیز ہوں گے۔
لیبر اور سرمایہ سے بھی زیادہ اہم…اور وہ چند لوگ جو اپنے نئے خیالات (آئیڈیاز) مہیا کریں گے، وہ بہت بڑے انعامات کے حق دار ہوں گے۔ اس لحاظ سے آنے والے برسوں میں ایسے نئے خیالات نہ رکھنے والوں کے لیے زندگی کے معیار کو قابل قبول بنانا اور مشترکہ شمولیت والی معیشتوں اور معاشروں کی تعمیر چیلنج بن جائے گی ۔
لیبر کا مسئلہ
آپ اپنا آئی فون کھولیں اوراس پر آپ وہ آٹھ الفاظ پر مبنی کاروباری منصوبہ پڑھ سکتے ہیں جس نے ایپل کمپنی کو بہت ہی موثرانداز میں فائدہ پہنچایاہے۔
وہ فارمولہ یہ ہے: ”ایپل کیلی فورنیا کا ڈیزائن کردہ، چین میں اسمبل شدہ“ ۔500ارب ڈالر کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے ساتھ ایپل دنیا کی سب سے زیادہ قدروقیمت والی کمپنی بن چکی ہے۔ اس حکمت عملی کے مختلف طریقوں نے نہ صرف ایپل اور دیگر بڑے عالمی اداروں کے لیے موثر طورپر کام کیا ہے بلکہ یہ درمیانے درجے کی فرموں، حتیٰ کہ مائیکروملٹی نیشنل اداروں کے لیے بھی کار آمد ثابت ہوئی ہے۔
بے شمار کمپنیاں ہمارے عہد کی دو اہم طاقتو ر چیزوں کو اپنا رہی ہیں۔یعنی ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن … اور ان کے ذریعے منافع کمارہی ہیں! 
ٹیکنالوجی نے گلوبلائزیشن کو تیزرفتاری سے آگے بڑھایا ہے، جس سے پیغام رسانی (مواصلات) اور لین دین کے اخراجات ڈرامائی طورپر کم ہوئے ہیں اور یہ (ٹیکنالوجی )…لیبر، سرمایہ اور پیداوار کے دیگر عناصر کی ایک ہی بڑی عالمی منڈی کے طورپر دنیا کو باہم قریب لانے کا سبب بنی ہے۔
اگرچہ افرادی قوت( لیبر) مکمل طورپر آزادانہ نقل و حرکت کی حامل نہیں ہے تاہم پیداوار کے دوسرے عناصر بہت زیادہ حد تک ہیں چنانچہ اُس مسئلے کے حل کے لیے عالمی سپلائی چین کے مختلف اجزاء معمولی زحمت یا قیمت برداشت کرکے لیبر کے مقام تک منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ ترقی یافتہ معیشتوں کی قریباً ایک تہائی مصنوعات اور خدمات قابل تجارت ہیں اور یہ مقدار بڑھ رہی ہے اور عالمی مسابقت کا اثر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کی معیشت رکھنے والے ممالک میں معیشت کے ناقابل تجارت حصے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔
یہ مقابلہ نہ صرف اثر پذیری اور منافع کے مواقع پیدا کرتا ہے بلکہ اس سے مقام وجگہ کی منتقلی کے بھی بے انتہا مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے کہ اگر ایک کارکن چین یا بھارت میں و یسا ہی کام کرسکتا ہے جیسا کہ ایک کارکن امریکہ میں کرتاہے تو پھر معیشت کا قانون کہتا ہے کہ اُن دونوں کو ایک ہی جتنی اُجرت ملے گی( قومی پیداوارمیں کمی دوسرے اختلافات کے لحاظ سے ایڈجسٹ کرکے) ۔
یہ ترقی پذیر ممالک کے ہنر مندوں‘ صارفین اور اچھی اقتصادی کارکردگی رکھنے والوں کے لیے تو اچھی خبر ہوسکتی ہے مگر ترقی یافتہ ممالک کے کارکنوں کے لیے نہیں جنہیں اب کم لاگت کے مقابلے کا سامناہے۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے قابل تجارت سیکٹر ز گزشتہ دودہائیوں سے روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں کررہے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ ملازمتوں کے مواقع اب تقریباً صرف بڑے ناقابل تجارت سیکٹر میں ہی پیدا ہورہے ہیں، اور اس سیکٹر کے ملازمین کی اُجرتوں میں قابل تجارت سیکٹر کے دوسرے مقامات پرموجود ملازمین کی طرف سے بڑھتے مقابلے کی وجہ سے نمایاں کمی ہوئی ہے۔
ابھی عالمگیریت ( گلو بلائزیشن) کا معاملہ چل رہاہے کہ ایک اس سے بھی بڑا دوسرا معاملہ سامنے آنے لگاہے۔ خود کار مشینوں کامعاملہ… جن میں مصنوعی انٹیلی جنس ‘ روبوٹس کے ذریعے افعال کی انجام دہی‘ تھری ڈی پرنٹنگ اور ایسی دیگر چیزیں شامل ہیں۔ اور یہ دوسرا معاملہ پہلے پر غالب آرہاہے اور اس کے کچھ سنگین اثرات ترقی پذیر ممالک کے نسبتاً کم ہنرمند ملازمین کو تیزی سے لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط