Episode 31 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 31 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

راستے جو اختیار نہیں کیے گئے
10اگست سے پہلے،ٹرومین اور اُن کے معاونین نے ایٹم بم کے استعمال سے بچنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ نتیجتاً انھوں نے غیرفوجی اہداف پر ایٹم بم کے مظاہرے کے امکان کو باآسانی مسترد کردیا۔ بلاشبہ ہیروشیما پر بم حملے کے بعد جاپان کے فوجی رہنماؤں کی طرف سے ایک شاندار حتمی جنگ کے مطالبے ظاہر کرتے ہیں کہ اس طرح کا مظاہرہ شاید اُنھیں جلد ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہ کرتا۔
اور امریکی رہنماؤں نے بھی دیگر راستوں پر غور نہیں کیا…شہنشاہ کو برقرار رکھنے کی ضمانت پر اپنے غیرمشروط ہتھیار ڈالنے کے مطالبہ کو تبدیل کرسکتے تھے ،سوویت یونین کے جنگ میں شامل ہونے کا انتظار کرتے، یا پھرسخت بحری ناکہ بندی کے ساتھ شہروں پر بھاری روایتی بمباری کرتے۔

(جاری ہے)

 ٹرومین اور بائی ارنس کو یقین نہیں تھا کہ غیرمشروط ہتھیار ڈالنے کے فارمولے میں تبدیلی سے جاپانیوں کو جلد ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ممکن ہوسکے گا۔
اُن کا خیال تھا کہ شہنشاہ کو برقرار رکھنے کی ضمانت امریکیوں کے غیض وغضب پر مبنی فوری ردعمل کا سبب بنے گی جو ہیروہیٹو کو جنگی مجرم گردانتے تھے، اور انھیں یہ بھی خوف تھا کہ اس طرح کی رعایت سے شاید جاپانی فوج کے رہنماؤں کو شہ ملے گی اور وہ مزید رعایتوں کی توقع کریں گے جس سے جنگ طول پکڑے گی۔نتیجتاً صدر اور ان کے وزیر خارجہ نے سٹیمسن کی طرف سے شہنشاہ کو برقرار رکھنے کی ضمانت دینے کی درخواستوں کو آسانی سے مسترد کردیا۔
اسی طرح زیادہ تر امریکی رہنماؤں کو یقین نہیں تھا کہ بحرالکاہل کی جنگ میں سوویت یونین کے شامل ہونے سے فیصلہ کن فرق پڑے گا اور اس سے جاپان بہت تیزی سے ہتھیار پھینک دے گا۔ عمومی طور پر، اُن کا خیال تھا کہ روس کی شمولیت سے جنگ کے خاتمے میں مدد ملے گی…بہتر طور پر، کیوشو پر بڑے حملے سے پہلے۔ وہ اگست کے وسط میں ماسکو کی مداخلت کی توقع کررہے تھے، مگر روسیوں نے اپنا شیڈول 8اگست تک ملتوی کردیا، غالباً ہیروشیما پر بم چلائے جانے کی وجہ سے، اور سوویت یونین کی شمولیت نے 14اگست کو جاپان کے ہتھیار ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ایٹم بم کے بغیر سوویت یونین کی شمولیت شاید نومبر سے قبل جاپان کا ہتھیار ڈالنا ممکن بنادیتی۔ 
امریکہ کا مقصد یہ تھا کہ اگر ممکن ہوتو ،یکم نومبر کو حملہ کرنے سے بچنا تھا، جس میں 7لاکھ67ہزار فوجی شامل ہوتے اور اس کے نتیجے میں پہلے تیس دنوں کے دوران اندازاً 31ہزار ہلاکتیں ہوسکتی تھیں ، اور اندازاً امریکیوں کی مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 25ہزار تک پہنچ جاتی۔
اور امریکی رہنما یقینی طور پر اس منصوبے کے دوسرے حصے سے بچنا چاہتے تھے، جو ٹوکیو پلین پر یکم مارچ 1946 کو حملے سے متعلق تھا، جس میں اندازاً 15سے 20ہزار مزید امریکی ہلاک ہوسکتے تھے۔ 1945کے موسم بہار اور موسم گرما میں ،کوئی امریکی رہنما یہ نہیں سوچتا تھا…جیسا کہ بعض رہنماؤں نے بعد میں غلط طور پر دعویٰ کیا تھا… کہ انھوں نے نصف ملین امریکیوں کو بچانے کے لیے ایٹم بم چلانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
مگر اس وقت حب الوطنی کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے، اس بارے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ تھی کہ بہت سے جاپانیوں کو مارنے کے لیے ایٹم بم استعمال کیا جائے ،25ہزار سے 46ہزار امریکیوں کو بچانے کے لیے…جو دوسری صورت میں حملے کے دوران مارے جاتے۔ زیادہ کھلے الفاظ میں، جاپانیوں کی جان…بشمول عام شہریوں کی جان…سستی تھی، اور کچھ امریکی رہنماؤں، اوربہت سے عام شہریوں نے ملکر جاپانیوں کو ایٹم بم سے سزا دینے کا لطف لیا ہو۔
 
ٹرومین، بائی ارنس اور دوسرے رہنماؤں کو یہ خطرہ یاد دلانے کی ضرورت نہ تھی کہ اگر اُنھوں نے بم استعمال نہ کیا اور حملہ ناگزیر ہوگیا تو اس سے امریکہ میں شدیدسیاسی ردعمل ہوگا۔حتیٰ کہ اگر وہ اسے استعمال کرنے سے بچنے کی خواہش بھی رکھتے ہوتے… جو وہ نہیں رکھتے تھے…تو بعد میں ہلاک ہونے والے امریکی نوجوانوں کے روتے والدین اور پیاروں کو دیکھ کر بھڑکنے والے عوامی غیض و غضب کا خوف، امریکی رہنماؤں کو جاپان پر ایٹم بم چلانے پر مجبور کردیتا۔
 
واشنگٹن میں سرکاری سطح پر کوئی یہ توقع نہیں رکھتا تھا کہ ایک یا دو ایٹم بم جنگ کو جلدی ختم کرادیں گے۔ وہ توقع کررہے تھے کہ اُنھیں کم ازکم تیسرا یا اس سے بھی زیادہ چلانے پڑیں گے۔اور ناگاساکی پر بم چلائے جانے کے اگلے روز تک، اُن کی سوچ میں کبھی بھی ایٹم بم یا روایتی بموں کے درمیان انتخاب کی بات نہیں رہی تھی، بلکہ دونوں کا ہی انتخاب رہا تھا…یعنی ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے بڑی تعداد میں بم برسانا۔
ایٹم بم اور روایتی بموں کو ایک دوسرے کا متبادل نہیں بلکہ اضافی قوت کا باعث تصور کیا جاتا تھا۔ جاپانی شہروں پر روایتی بموں کے ذریعے بھاری تعداد میں بمباری شاید اگلے چند ماہ میں لاکھوں لوگوں کو ہلاک کردیتی، اور شاید جیسا کہ خواہش تھی،یکم نومبر سے پہلے جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیتی۔ان متبادل طریقوں …جاپان کی شہنشاہیت کو برقرار رکھنے کا وعدہ کرلینا، روس کی شمولیت کا انتظار کرنا،اور زیادہ روایتی بمباری…میں سے کچھ طریقوں کو ایک ساتھ ملا کر اختیار کرنا بہت ممکن تھا کہ خوف ناک حملے سے پہلے ہی جنگ کو ختم کردیتا۔
لیکن پھر بھی شواہد… ایف ڈی آر سے ایک جملہ اُدھار لیکر کہا جائے تو…”یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا“ جیسے ہیں اور جاپانی فوجی افسروں کی ہٹ دھرمی دیکھنے والے کسی بھی شخص کو ان دیگر طریقوں پر پورا بھروسہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔لیکن ہمیں ساتھ ساتھ یہ افسوس ضرور ہونا چاہیے کہ ان متبادل طریقوں میں سے کسی کو اختیار نہیں کیا گیا اور یہ کہ پہلے ایٹم بم کو استعمال کرنے سے بچنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی یقیناً دوسرے کے استعمال سے۔
 
پہلے ایٹم بم کی ضرورت کے حوالے سے کوئی کچھ بھی سوچتا ہو، دوسرا ایٹم بم…جو 9اگست کو ناگاساکی پر چلایا گیا…وہ تقریباً یقینی طور پر غیرضروری تھا۔ یہ اس لیے استعمال کیا گیا تھا کیونکہ ائرفورس کو دئیے جانے والے اصل احکامات میں یہی ہدایت تھی کہ ”جیسے ہی وہ تیار ہوں“بم چلادئیے جائیں،اور حتیٰ کہ ہیروشیما پر بم گرائے جانے کے بعد بھی، واشنگٹن میں کوئی بھی جاپانیوں کی طرف سے فوری ہتھیار ڈالنے کی توقع نہیں کررہا تھا۔
جاپانی حکومت میں پیش رفت کے حوالے سے شہادتیں اب دستیاب ہیں…جن میں سب سے نمایاں ناگاساکی پر بم چلائے جانے سے پہلے شہنشاہ کا امن کی التجا کے لیے خفیہ فیصلہ ہے… جو واضح کردیتا ہے کہ دوسرے بم کے استعمال سے بلاشبہ بچا جاسکتا تھا۔ کم ازکم 35ہزار جاپانی اور ممکنہ طور پر اس تعداد سے دوگنا، نیز ان کے ساتھ ساتھ کئی ہزار کورین باشندے بھی غیرضروری طور پر ناگاساکی میں ہلاک کردئیے گئے۔
 انتظامی رہنماؤں نے ایٹم بم کے استعمال سے بچنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ وہ تو حتیٰ کہ یہ سوچ رکھتے تھے کہ اس کا فوجی استعمال شاید اضافی قوت مہیا کرے گا…سوویت یونین کے لیے انتباہ کی صورت میں، بائی ارنس کے الفاظ میں اُنھیں خاص پیغام دیکر ”زیادہ انتظام کے قابل“ بنائے گا، بالخصوص مشرقی یورپ میں۔اگرچہ یہ اس ہتھیار کو استعمال کرنے کا اہم ترین مقصد نہیں تھا ، تاہم یہ یقینی طور پر مضبوط تصدیق کا ذریعہ ضرور تھا۔
اگر ٹرومین اور ان کے ساتھی، شکاگو کے غیرمتفق سائنسدان کی طرح، پہلے ہی یہ دیکھ لیتے کہ جاپان پر ایٹم بم کا استعمال روسیوں کو زیراثر لانے کے بجائے خودسر بنادے گا، تو شاید امریکی رہنما اپنے فیصلے پر غوروفکر کرتے۔لیکن اصل میں چونکہ امریکی رہنما یہ توقع کررہے تھے کہ ایٹم بم کا استعمال سوویت یونین کو مشرقی یورپ میں اپنی پالیسی نرم کرنے پر مجبور کردے گا، لہٰذا ان کے ایٹم بم چلانے کے ارادے کے بارے میں سوال اُٹھانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔
حتیٰ کہ اگر وہ ایسا کرتے ، تب بھی حتمی فیصلہ وہی رہنا تھا۔ایک طاقتور احساس کے ساتھ،ایٹم بم کا استعمال ایک مفروضہ کا عملی ا ظہار تھا…ایک ایسا مفروضہ جو ٹرومین نے سہولت کے ساتھ صدر روزویلٹ سے وراثتی طور پر حاصل کیا تھا۔ ہیروشیما کو ایٹم بم کا نشانہ بنانا ٹرومین کے لیے ایک آسان فیصلہ تھا۔ 
اخلاقیات کی نئی تعریف
صرف چندسال بعد، جب حکومت کے پرانے ریکارڈ کھل گئے، جنگ کے زمانے کی نفرتیں ماند پڑگئیں، اور احساسات تبدیل ہوگئے، تب امریکیوں نے سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا کہ کیا جوہری بموں کا استعمال ضروری، اخلاقی طور پر درست اور ناگزیر تھا۔
کئی دوسروں کے علاوہ ایڈمرل ولیم لیہی اور جنرل ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کی جنگ کے بعد کی یادداشتوں کی بنیاد پر، جاپان کے خلاف ایٹم بم کے استعمال کے بارے میں شکوک و شبہات ابھر کر سامنے آنا شروع ہوگئے۔ برسوں گزرنے پر، امریکیوں کو پتا چلا کہ ایٹم بم، 1945 کے جون اور جولائی کے مہینوں میں امریکی فوج کے اعلی سطحی تخمینے کے مطابق، حملوں میں نصف ملین امریکی جانوں کو محفوظ نہیں کر سکتے تھے، جیسا کہ بعض اوقات ناگاساکی پر ایٹمی حملے کے بعد ٹرومین کا ماننا تھا، بلکہ یہ شاید 50ہزار سے بھی کم جانیں بچاسکتے تھے۔
امریکیوں نے آہستہ آہستہ دوسری جنگ عظیم کی بربریت کو بھی تسلیم کرنا شروع کردیا، خاص طور پرعام شہریوں پر بمباری سے بڑے پیمانے پر ہونے والے قتل عام کو۔یہ اخلاقیات کی نئی تعریف ہی تھی جس نے ہیروشیما اور ناگاسا پر ایٹمی حملوں کو ممکن بنایا اور ایٹمی عہد میں ایک خوفزدہ کردینے والے انداز میں سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ 
اخلاقیات کی نئی تعریف دوسری جنگ عظیم کی پیداوار تھی، جس میں جرمنی کی طرف سے چھ ملین یہودیوں کے سوچے سمجھے قتل اور جاپان کی نان کنگ میں اجتماعی عصمت دری جیسی بربریت کی مثالیں موجود تھیں۔
اگرچہ سب سے بدترین مظالم کا مظاہرہ تو محور کی جانب سے کیا گیا مگر تمام اہم قومی ریاستوں نے اخلاقی قانون کو پارہ پارہ کیا… اکثر اوقات اپنے رہنماؤں اور عام شہریوں دونوں کے یکساں مطالبہ پر۔ 1945تک لڑائی میں جو اب ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کرچکی تھی،بہت کم اخلاقی رکاوٹیں باقی رہ گئیں تھیں۔ حتیٰ کہ ایف ڈی آر کی طرف سے جنگ سے پہلے دشمن کے عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچانے کے حوالے سے تحفظات کو ایک طرف پھینک دیا گیاتھا۔
اس طرح کے نئے اخلاقی ماحول میں،کوئی بھی ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک شاید اسے دشمن کے خلاف استعمال کردیتا۔ برطانوی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ جوزف سٹالن نے بھی اس اقدام کی حمایت کی تھی۔ جرمنی اور جاپان کے رہنما بھی اسے یقیناً شہروں کے خلاف استعمال کرنے سے دریغ نہ کرتے۔ امریکہ بھی اخلاقی اعتبار سے منفرد نہ تھا…اسے صرف ٹکنالوجی کے اعتبار سے انفرادیت حاصل تھی۔
بس اس کے پاس یہ بم تھا اور اس نے بس اسی لیے اس نے اسے استعمال کرلیا۔ 
اس تاریخی تناظر کو سمجھنے کے لیے اس چیز کی ضرورت نہ تھی کہ امریکی شہری یا دوسرے لوگ اس کی منظوری دیں۔ مگر اس بات کی ضرورت ضرور ہے کہ وہ یہ جان لیں کہ1945میں ہیروشیما پر ایٹم بم کے حملے سے پہلے اور بعد اختلاف بہت کم تھا۔ بلاشبہ اس وقت بھی چند لوگوں نے پوچھا تھا کہ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم استعال کیوں کیا۔
لیکن اگر ایٹم بم استعمال نہ کیا جاتا، تو بے شمار غصے میں بپھرے ہوئے امریکی شہریوں سمیت بہت سے دیگر لوگ ،انتہائی تلخ لہجے میں یہ سوال ٹرومین کی انتظامیہ سے پوچھتے۔
1945میں، زیادہ تر امریکی وہی احساسات رکھتے تھے جو صدر ٹرومین نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے حملوں کے بعد ، فیڈرل کونسل آف چرچز آف کرائسٹ کو خط لکھتے ہوئے نجی طور پر استعمال کیے تھے۔
صدر نے لکھاتھا” میں جاپانیوں کی طرف سے پرل ہاربر پر بلااطلاع حملے اور اُن کی طرف سے ہمارے جنگی قیدیوں کو ہلاک کیے جانے پر بہت پریشان تھا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ صرف وہی زبان سمجھتے تھے جو ہم ان پر بمباری کرکے استعمال کررہے تھے۔ جب آپ کا سامنا وحشی درندے سے ہو تو آپ کو اس کے ساتھ وحشی درندے کی طرح کا سلوک ہی کرنا چاہیے۔“

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط