Episode 69 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 69 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

مسئلہ کی وجوہات
آخر چیزیں کیوں بکھر نا شروع ہوئیں؟ مختلف وجوہات کی وجہ سے، جن میں سے کچھ بنیادی ساخت سے متعلق ہیں، اور دوسری مرضی کے فیصلوں کی پیدا کردہ ہیں۔ مثال کے طور پر، مشرق وسطیٰ میں،عالمی نظام کو … انتظامی افسران کی بڑی تعداد رکھنے والی، زیادہ تر بدعنوان، اور ناجائز حکومتوں؛ کم سے کم سول سوسائٹی، بے حساب توانائی کے وسائل کی لعنت (جس سے اکثر اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کی رفتار سُست ہوجاتی ہے)؛ غیرمعیاری تعلیمی نظام،اور مذہب سے متعلقہ مختلف مسائل، جیسے کہ فرقہ ورانہ تقسیم، اعتدال پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان جنگ، اور مذہبی اور سیکولر دائروں کے درمیان ایک واضح اور وسیع پیمانے پر قبول کی جاسکنے والی حد کی کمی…نے متاثر کیا ہے۔
لیکن بُرے انداز میں قومی سرحدوں کی تشکیل اور حالیہ مداخلت جیسے بیرونی اقدامات نے، مسائل میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

(جاری ہے)

ایک دہائی سے زیادہ کے تجربے کے ساتھ، صدام کو بے دخل کرنے اور عراق کی تشکیل نوکا امریکی فیصلہ اس وقت کے مقابلے میں اور زیادہ غلط دکھائی دیتا ہے۔ یہ صرف اس وجہ سے غلط دکھائی نہیں دیتا کہ جنگ کے لیے ظاہر کی گئی وجہ…صدام کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے محروم کرنا… ناقص ثابت ہوئی تھی۔
بلکہ جو چیز ماضی سے زیادہ تشویش کا باعث ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ صدام کو ختم کرنے اور عراق کی شیعہ اکثریت کو بااختیار بنانے کے عمل میں، یہ ملک ایران کے توسیعی عزائم کو توازن میں رکھنے والی قوت سے اسے فائدہ پہنچانے والا ملک بن گیا ہے، اور اس عمل کے دوران ملک کے اندر اور خطے کے بڑے حصے میں اس نے سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ بندی کے مسئلے کو مزیدہوا دی ہے۔
اور نہ ہی دو دیگر ممالک میں جہاں یہ تجربہ کیا گیا ،حکومت کی تبدیلی سے بہتر نتائج حاصل ہوسکے ہیں۔ مصر میں، امریکہ کی طرف سے صدر حسنی مبارک سے عہدہ چھوڑنے کے مطالبے نے معاشرے میں متضاد نظرئیات کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ، مصر ابھی جمہوری تبدیلی کے لیے تیار نہیں تھا۔ اور امریکہ کی جانب سے ایک دیرینہ دوست اور اتحادی کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینے سے دوسری جگہوں پر (سب سے اہم دوسرے عرب دارالحکومتوں میں) بھی امریکہ کے وعدوں پر اعتبار کے حوالے سے سوالات اُٹھائے گئے۔
اس دوران،لیبیا میں، امریکہ اور یورپی ممالک کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں معمر القذافی کی برطرفی سے بھی ایک ناکام ریاست ہی وجود میں آئی ہے، ایک ایسی ریاست جہاں مختلف لشکر اور دہشت گرد تیزی سے غلبہ حاصل کررہے ہیں۔ مداخلت کی ضرورت کا بذات خود غیر یقینی ہونا، موثر فالو اپ کی کمی کی وجہ سے مزید شدت اختیار کرگیا ، اور اس ساری مشق نے … جو قذافی کے اپنے غیر روایتی اسلحہ کے پروگرام کو ترک کرنے پر مجبور ہونے کے کچھ سال بعد سے چلی آرہی ہے… شاید جوہری ہتھیاروں کی تصوراتی اہمیت میں اضافہ کیا ہے اور دوسری ریاستوں کی طرف سے قذافی کی مثال کی پیروی کرنے کے امکانات کو کم کیا ہے۔
شام میں، امریکہ نے صدر بشار الاسد کی بے دخلی کے لیے حمایت کا اظہار کیا اور اس کے بعد اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت کم کوشش کی۔ اوباما نے ایک بُری صورتحال کو بدتر بنادیا، جب اُنھوں نے شام کی طرف سے کیمیائی گولہ بارود کے استعمال کے حوالے سے کچھ حدود پرمبنی سیٹ پیش کیا اور پھر ان حدود سے واضح طور پر تجاوز کیے جانے کے باوجود وہ کسی بھی عملی اقدام میں ناکام رہے۔
اس چیز نے وہاں جو بھی اپوزیشن موجود تھی اس کے جذبہ کو کم کیا، نیز حکومت کو کمزور اور خانہ جنگی کی رفتار کو تبدیل کرنے کے ایک غیر معمولی موقع کو گنوا دیا۔ اور ایک ایسے تناظر میں نئی شروعات کی بھرپور مدد کی جس میں دولت اسلامیہ عراق و الشام (ISIS)، جس نے خود کو اسلامی ریاست قرار دے رکھا ہے، پنپ سکتی۔ بیان بازی اور عمل کے درمیان فرق نے بھی امریکہ کے ناقابل بھروسہ ہونے کے بارے میں تصورات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ایشیا میں، بھی، امریکی پالیسی کے خلاف جو سب سے اہم تنقید کی جاسکتی ہے ، وہ منصوبوں کو ترک کردینے کے حوالے سے ہی ہے۔ جبکہ بنیادی رجحانات نے ریاستوں کے درمیان روایتی تنازعہ کے خطرات کو بڑھادیا ہے، امریکہ صورت حال کو مستحکم کرنے کے لیے پُرعزم انداز میں عمل کرنے میں ناکام رہا ہے…اس نے نمایاں طور پر اتحادیوں کے اعتماد کو بحال کرنے اور مخالفین کے حملوں کو روکنے کے لیے علاقے میں امریکی فوج کی موجودگی بڑھانے کے لیے اقدامات نہیں کیے،علاقائی تجارت کے معاہدے کے لیے ملک میں حمایت کے حصول کے لیے کچھ نہیں کیا،اور مقامی رہنماوٴں کی سوچ اور عمل کو مخصوص شکل دینے کے لیے، فعال یا مستقل مشاورت کے حصول کیلئے ناکافی اقدامات کیے ہیں۔
روس کے حوالے سے، اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے عوامل نے صورت حال کے بگاڑ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پوٹن نے ازخود اپنی سیاسی اور اقتصادی طاقت کو مضبوط بنانے کا راستہ چُنا ہے اور ایسی خارجہ پالیسی اپنائی ہے جو روس کو اُس عالمی نظام کا بہت زیادہ دشمن ظاہر کرتی ہے جسے امریکہ نے تشکیل دیا ہے اور وہی اس کی قیادت کررہا ہے۔ لیکن امریکہ اور مغرب کی پالیسی نے بھی ہمیشہ اپنے طور پر زیادہ تعمیری انتخاب کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔
ایک شکست خوردہ دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے، اس حوالے سے ونسٹن چرچل کے مشہور قول کو نظر انداز کرتے ہوئے، مغرب نے سرد جنگ میں اپنی فتح کے بعد بہت کم شریفانہ برتاؤ کا مظاہرہ کیا۔نیٹو کی توسیع کو بہت سے روسیوں نے بے عزتی، دھوکہ، یا دونوں کے طور پر دیکھا تھا۔”پارٹنرشپ فار پیس“، جو روس اور اس اتحاد کے درمیان بہتر تعلقات کے فروغ کے لئے ترتیب دیا گیا ایک پروگرام ہے، اس کے تحت مزیدبہت کچھ کیا جاسکتا تھا۔
 متبادل طریقے کے طور پر، روس کو نیٹو میں شامل ہونے کے لیے کہا جاسکتا تھا، کیونکہ نیٹو اب ماضی کی طرح کا الائنس کم اور ”دلچسپی رکھنے والوں کے اتحاد“ کے ممکنہ حصہ داروں کا جامد تالاب زیادہ بن چکا ہے۔ ہتھیاروں پر کنٹرول،یعنی اُن چند شعبوں میں سے ایک، جن کی بنیاد پر روس اب بھی ایک عظیم طاقت ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے، اسے بھی ایک طرف دھکیل دیا گیا ہے کیونکہ انفرادی فیصلوں اور کم سے کم مداخلت کے معاہدوں کا رواج زور پکڑ چکا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ اگر امریکہ اور مغرب مجموعی طور پر زیادہ کھلے دل کا مظاہرہ اور روس کو خوش آمدید کہتے، تب بھی روسی پالیسی ایسے ہی آگے بڑھتی جیسے وہ اب ہے، لیکن مغربی پالیسی نے بہرحال اس طرح کے نتیجہ کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
عالمی نظام حکومت کے ضمن میں، اکثر کئی وجوہات کی بناء پر بین الاقوامی معاہدے مشکل سے طے پاتے ہیں۔ریاستوں کی بہت زیادہ تعداد اتفاق رائے کو مشکل یا ناممکن بنا دیتی ہے۔
اسی طرح، مختلف قومی مفادات بھی اس کام کو مشکل بناتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، تجارت کا فروغ اور موسمیاتی تبدیلیوں کا راستہ روکنے کے لئے نئے عالمی ادارے تعمیر کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ کبھی کبھی یہ ممالک جو کام کرنا ہوتا ہے یا مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ کیاقربان کرنے کو تیار ہیں…اس پر ہی متفق نہیں ہوتے، یا وہ کسی نئے اقدام کی حمایت کرنے سے اس خوف کی وجہ سے ہچکچاتے ہیں، کہ اسے مثال بناکر بعد میں ان کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ فیصلہ کن طور پر جس قدر یہ جملہ استعمال کیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں ”بین الاقوامی برادری“ کا وجود بہت کم موجود ہے۔
 تاہم، حالیہ برسوں میں، ایک بار پھر، امریکی اقدامات اور نئے واقعات نے مسئلے کو مزید گمبھیر بنایا ہے۔ سرد جنگ کے بعد کا عالمی نظام امریکی برتری پر مبنی تھا، جو نہ صرف امریکی طاقت کا ایک عملی اظہار تھا بلکہ امریکی اثرو رسوخ کا بھی، جو دوسروں کی طرف سے امریکہ کی برتری کو قبول کرنے کی عکاسی کرتا تھا۔
یہ اثر و رسوخ اب مسلسل غلطیوں یا ناکامیوں کی وجہ سے خاصا متاثر ہوا ہے ، ان غلطیوں اور ناکامیوں میں…غیر محتاط اقتصادی قوانین جنھوں نے مالیاتی بحران میں اہم کردار ادا کیا ، ضرورت سے زیادہ جارحانہ قومی سلامتی کی پالیسیاں جنھوں نے بین الاقوامی اصولوں کو روند ڈالا ، اور ملکی انتظامی نااہلی اور سیاسی غیرفعالیت…شامل ہیں۔
 مختصراً، عالمی نظام کوتین رجحانات ملکر تقسیم کر رہے ہیں۔
دنیا میں طاقت کئی طرح کے متعدد کرداروں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ امریکی اقتصادی اور سیاسی ماڈل کے لئے احترام کم ہو چکا ہے۔ اور امریکہ کی طرف سے اختیار کی گئی مخصوص پالیسیوں کے انتخاب نے ،خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں اس نے جو پالیسیوں اختیار کی ہیں، انھوں نے امریکی فیصلے اور امریکہ کی دھمکیوں اور وعدوں پر بھروسہ کے حوالے سے شکوک و شبہات میں اضافہ کیا ہے۔
خالص نتیجہ یہ ہے کہ اگرچہ امریکہ کی مطلق طاقت کافی حد تک موجود ہے ، لیکن امریکی اثر و رسوخ کم ہوگیا ہے۔
کیا کِیا جائے؟
اگر اسے جُوں کا تُوں چھوڑ دیا گیا تو، دنیا کے موجودہ عدم استحکام کے خودبخود ختم یا حل ہوجانے کا امکان نہیں ہے۔ اگر امریکہ زیادہ سمجھداری پر مبنی اور زیادہ تعمیری فیصلوں کا انتخاب کرنے پر تیار نہ ہوا یا ان کو منتخب نہ کرسکا تو جو اس وقت بُرا ہے وہ آسانی سے بدتر بن سکتا ہے۔
چونکہ چیلنجز کی نوعیت مختلف خطوں اور مسائل کے لحاظ سے تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس لیے مسئلہ کا کوئی ایک خاص حل موجود نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ، ایک ایسی صورت حال کا کوئی حل نہیں ہوتا جس کے لیے انتظامات تو کیے جاسکتے ہوں مگر اسے ختم نہ کیاجا سکتا ہو۔
لیکن ایسے اقدامات ضرور موجود ہیں جو کیے جاسکتے ہیں اور کیے جانے چاہئیں۔مشرق وسطیٰ میں، امریکہ کے پاس کسی طبیب کا حلف اُٹھانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں اور اسے چاہیے کہ مزید کوئی نقصان نہ کرنے کی کوشش کرے۔
امریکی عزائم اور امریکہ کے عملی اقدامات کے درمیان فرق کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے، اور عام حالات میں موٴخر الذکر (عملی اقدامات )کو بڑھانے کے مقابلے میں اولذکر(عزائم) کو کم کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے معاشروں میں جمہوری تبدیلیوں کا حصول اکثر باہر کے ذرائع کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ تمام معاشرے یکساں طور پر کسی بھی وقت جمہوری بننے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔
ہوسکتا ہے کہ ان معاشروں میں جمہوریت کے بنیادی لازمی عناصر ہی موجود نہ ہوں؛ اسی طرح ایک منفی سیاسی کلچر بھی رکاوٹوں کا باعث بن سکتا ہے۔ صحیح معنوں میں لبرل جمہوریتیں بہتر بین الاقوامی شہریوں کی منزل حاصل کرسکتی ہیں ، لیکن دیگر ممالک کو اس سطح تک پہنچنے میں مدد دینا اکثر اس سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے جتنا کہ تصور کیا جاتا ہے… اور پھر ایسی کوششیں اکثر خطرناک ہوتی ہیں کیونکہ ناپختہ اور نامکمل جمہوریتوں کو بازاری لیڈر یا قوم پرست رہنما یرغمال بناسکتے ہیں۔
ریاستوں میں عالمی نظام کو فروغ دینا… ان کی اندرونی سیاست سے زیادہ ان کی خارجہ پالیسیوں کو مخصوص شکل دینا… امریکی پالیسی کے ہدف کے طور پر ایک خاصا جرات مندانہ مقصد ہے۔
لیکن اگر حکومت کی تبدیلی کے لیے کوششوں کو ترک کرنا ہو ، تب بھی، اس ضمن میں مقررہ تاریخوں پر مبنی وعدے کیے جانے چاہئیں۔ عراق میں امریکی مفادات ، وہاں پیچھے چھوڑی جانے والی امریکی فورس کی موجودگی کے انتظامات کے حوالے سے نااہلی کے باعث پورے نہیں ہوسکے تھے، یہ وہ فورس تھی جو عراقی دھڑوں کے درمیان تنازعات کو روکتی اور عراقی سیکورٹی فورسز کے لئے اشد ضروری تربیت فراہم کرسکتی تھی۔
ایسا ہی معاملہ افغانستان میں درپیش ہے، جہاں سے تمام امریکی افواج کو 2016کے آخر تک نکلنا ہے۔ایسے فیصلوں کو مقررہ وقت کے بجائے مفادات اور حالات کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہئے۔بہت کم کوشش کرنا بھی اُتنا ہی مہنگا اور خطرناک ہو سکتا ہے، جتنا کہ بہت زیادہ کوشش کرنا۔
دوسری ایسی چیزیں جو باہر والے موثر طور پر کرسکتے ہیں، اُن میں سول سوسائٹی کی حمایت اور اس کا فروغ، پناہ گزینوں اور بے گھر افراد کی مدد، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا تدارک، اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاوٴ کو روکنے کے لیے کام کر نا (جیسے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ایک بامعنی چھت تعمیرکرنے کی کوشش )شامل ہیں۔
آئی ایس آئی ایس کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے،عراق اور شام دونوں کے اندر اہداف کے خلاف امریکی فضائی قوت کے باقاعدہ استعمال کی ضرورت ہو گی، اس کے ساتھ رنگروٹوں اور ڈالر کے بہاوٴ کو روکنے کے لیے سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ ملکر مربوط کوششیں کرنا ہونگی۔ عراق میں تو زمین پر کئی ممکنہ پارٹنر ہیں، لیکن شام میں بہت کم ہیں…جہاں آئی ایس آئی ایس کے خلاف خانہ جنگی کے درمیان ہی کارروائی شروع کی جانی ضروری ہے۔
بدقسمتی سے،آئی ایس آئی ایس اور اسی طرح کے گروہوں کے خلاف جدوجہد مشکل، مہنگی، اور طویل رہنے کا امکان ہے۔
ایشیا میں، نسخہ کافی آسان ہے:یعنی موجودہ پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل درآمد۔ ایشیا کے لئے اوباما انتظامیہ کی ”محور(pivot)“، یا ”توازن کی درستگیrebalance“ کی پالیسیوں کے تحت تجاویز یہ تھیں کہ خطے کے تمام تر تنازعات کو حل اور ٹھنڈا کرنے کے لیے مسلسل اعلیٰ سطحی سفارتی رابطوں کو شامل کیا جائے گا؛ خطے میں امریکی فضائی اور بحریہ کی موجودگی میں اضافہ کیا جائے گا؛ اور ایک علاقائی تجارتی معاہدے کے لئے ملکی اور بین الاقوامی حمایت حاصل کی جائے گی۔
یہ تمام اقدامات، اعلیٰ انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل ہوسکتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ اسی طرح ایسے حالات کے قیام کے لیے خصوصی کوشش کی جانی چاہیے، جس کے تحت چین منقسم جزیرہ نما کوریا کے لئے اپنے عہد پر نظر ثانی کرنے پر تیار ہو سکتا ہو۔
روس اور یوکرائن کے ضمن میں، جس چیز کی ضرورت ہے اُس میں کئی طرح کی کوششیں شامل ہیں، جنھیں اس طرح ترتیب دیا جائے کہ ان کی وجہ سے یوکرائن کی معاشی اور عسکری طور پر مدد کی جاسکے، نیٹو کو مضبوط بنایا جاسکے، اور روس پرپابندیاں لگائی جاسکیں۔
اس کے ساتھ ہی، روس کو سفارتی طور پر انخلاء کا راستہ فراہم کیا جانا چاہیے، ایک ایسا راستہ جس میں روس کے لیے یقین دہانی شامل ہو کہ یوکرائن جلد کہیں نیٹو کا رُکن نہیں بنے گا اور نہ ہی یورپی یونین کے ساتھ خصوصی تعلقات میں شامل ہو گا۔ یورپ کے توانائی کی ضروریات کے لیے روس پر انحصار کو کم کرنا بھی ترجیح ہونی چاہیے…یہ ایسی چیز ہے جس میں لازماً ایک طویل وقت لگے گا لیکن اسے ابھی شروع کیا جانا چاہئے۔
اس دوران،روس اور دیگر طاقتوں کے ساتھ نمٹنے کے لیے، واشنگٹن کوعمومی طورباہم منسلک کوششوں سے بچنا چاہیے،اور کسی ایک شعبے میں تعاون کو دوسرے میں تعاون سے مشروط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان دنوں کسی بھی قسم کا تعاون کہیں بھی حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے ، کجا یہ کہ اسے ضرورت سے زیادہ کوششوں کی وجہ سے خطرے میں ڈال لیا جائے۔
عالمی سطح پر، امریکی پالیسی کا مقصد اب بھی باہمی انضمام ہونا چاہیے، جس کے تحت وہ موسمیاتی تبدیلی، دہشت گردی، ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاوٴ، تجارت، اورعوامی صحت جیسے عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے انتظامات میں دوسروں کو شریک کرنے کی کوشش کرے، اور مشترکہ ملکیت والے علاقوں کو محفوظ اور آزاد رکھے۔
جہاں تک یہ انتظامات عالمی ہو سکتے ہیں، اُتنا ہی اچھا ہے۔ لیکن جہاں وہ نہیں ہو سکتے، وہاں وہ علاقائی یا اختیاری ہونے چاہئیں، اور ان میں ایسے کرداروں کو شامل کیا جانا چاہیے جو اہم مفادات اور صلاحیت رکھتے ہیں اور جو کچھ حد تک پالیسی سے اتفاق رائے رکھتے ہیں۔
امریکہ کو اپنے ملک کی اندرونی حالت کو بھی منظم بنانے کی ضرورت ہے، امریکیوں کا معیار زندگی بڑھانے کے ساتھ ساتھ، ایک فعال عالمی کردار ادا کرنے کے لیے درکار وسائل پیدا کرسکے۔
ایک جامد اور غیر مساوی معاشرہ اپنی حکومت پر اعتماد یا بیرون ملک مضبوط کوششوں کی حمایت بہت کم کرے گا۔ تاہم، اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ دفاعی بجٹ کو خالی کردیا جائے؛بلکہ اس کے برعکس، اس حوالے سے ایک مضبوط کیس بنایا جائے کہ امریکی دفاعی اخراجات میں کسی حد تک اضافہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اچھی خبر یہ ہے کہ چونکہ اب تک وسائل کو مناسب اور موٴثر طریقے سے مختص کیا جارہا ہے، اس لیے امریکہ بندوقوں اور مکھن دونوں سے کام لے سکتاہے۔
ملک میں چیزوں کو درست کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ امریکیوں کے عدم تحفظ کو کم کیا جائے۔ امریکہ کے توانائی کے ذخائر کے تحفظ میں، حالیہ برسوں میں ڈرامائی طور پر تیل اور گیس کے انقلابات کی بدولت بہتری آئی ہے، لیکن دیگر ملکی مسائل کے حوالے سے ایسا نہیں کہا جاسکتا … جیسے کہ ملک کا عمررسیدہ عوامی انفراسٹرکچر، اس کی غیرتسلی بخش امیگریشن پالیسی، اور اس کی طویل مدتی عوامی مالیاتی سرمایہ کاری۔
جیسا کہ حال ہی میں ان صفحات میں بیان کیا گیا ہے ، طاقتور مفاداتی گروہوں، سیاسی فنانس کے قواعد، اور ڈیموگرافک تبدیلیوں کی وجہ سے،امریکہ کی سیاسی غیرفعالیت کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔وہ لوگ جو یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ملک سماجی ہم آہنگی سے صرف ایک بجٹ معاہدے کی دُوری پر ہے، بالکل اُسی طرح غلطی پر ہیں، جیسے وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ملک قومی اتحاد کی بحالی کے لیے صرف ایک بحران دُور ہے۔
دنیا یہ سب دیکھ سکتی ہے اور یہ بھی دیکھ سکتی ہے کہ قیادت کو تو چھوڑیں امریکی عوام کی اکثریت اب عالمی معاملات میں ملوث ہونے کے حوالے سے شبہات کا شکار ہے۔ اقتصادی مشکلات اور امریکہ کی حالیہ بیرون ملک مہمات کو مدنظر رکھا جائے تو اس طرح کا رویہ شاید ہی حیران کن لگے۔لیکن یہ اب صدر پر ہے کہ وہ جنگ سے بیزار امریکی معاشرے کو قائل کریں کہ…دنیا اب بھی اہمیت رکھتی ہے…اچھے یا بُرے کے لیے… اور ملکی بہبود کو نقصان پہنچائے بغیر ایک فعال خارجہ پالیسی کی پیروی کی جانی چاہیے۔
دراصل ، عقل و دانش پر مبنی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کو باہمی اتفاق رائے سے مضبوط کیا جا رہا ہے۔ ایک مستحکم دنیا ملک کے کے لیے بہتر ہے، اور ایک کامیاب ملکی صورت حال امریکہ کی عالمی قیادت کے لئے ضروری وسائل فراہم کرتی ہے: اس مقدمہ پر حمایت حاصل کرنا مشکل ہو گا، لیکن اسے آسان تر بنانے کا ایک راستہ یہ ہے کہ ایک ایسی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھایا جائے جو دنیا کو نئے سرے سے بنانے کے بجائے اسے دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کرے۔
لیکن اگر یہ بھی کرلیا جاتا ہے، تو بھی یہ عالمی نظام کو مزید کمزور ہونے سے بچانے کے لیے کافی نہیں ہوگا، جو کہ طاقت کی وسیع تر تقسیم اور فیصلہ سازی کے لیے مرکزیت کے خاتمے کی وجہ سے اتنا ہی کمزور ہوتا ہے، جتنا اس بات سے کہ امریکہ کے بارے میں کیا سوچا جاتا ہے اور وہ کیا عمل کرتا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیادنیا تقسیم ہوتی رہے گی، بلکہ یہ ہے کہ یہ کس قدر تیزی سے اور کس حد تک تقسیم ہوگی۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط