Episode 66 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 66 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

منزل سے نصف دُوری پر ثقافتی فتح اور اقتصادی شکست، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کا مقدر کیوں ؟(مائیکل کازن)
(مائیکل کازن جارج ٹاوٴن یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتے ہیں اور”ڈیسنٹDissent“ کے شریک ایڈیٹر ہیں۔ یہ مضمون ان کی تازہ ترین کتاب American Dreamers: How the Left Changed a Nation سے اخذ کیا گیا ہے)
 امریکہ کی دو بڑی اور اہم سماجی تحریکیں مخالف سمتوں میں آگے بڑھ رہی ہیں، حالانکہ دونوں ہی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کی شروع کردہ ہیں۔
حالیہ برسوں میں، خواتین ہم جنس پرستlesbian، مردہم جنس پرستgay،بیک وقت دونوں طرح کے جنسی اوصاف رکھنے والےbisexual،اور جنس تبدیل کرنے والےtransgender …(LGBT)گروہوں کے سرگرم کارکنوں نے ایک کے بعد ایک فتح حاصل کی ہے۔ ہم جنس پرست اب امریکی فوج میں کھلے عام خدمات انجام دے رہے ہیں اور وہ کم از کم 19 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیامیں قانونی طور پر شادی کرسکتے ہیں، اور عوامی زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ان کے خلاف امتیازی سلوک تیزی سے کم ہورہا ہے۔

(جاری ہے)

اور اسی دوران منظم کارکنوں (لیبر) کا تصور …جو بائیں بازو کی سیاست کا ایک اور (کم از کم سابق) ستون رہا ہے… یوں لگتا ہے کہ ایک گرداب میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ نجی شعبے کی مزدور یونینز اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں، اور منظم عوامی کارکن کسی ولن کی طرح متعدد گورنروں اور ریاستی قانون سازوں کا انتخاب بن گئے ہیں۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ ان دو عظیم تحریکوں کی قسمت اتنی ڈرامائی طور پرایک دوسرے سے مختلف کیوں ہوگئی ہے، تو اس سے جہاں ایک طرف آج کے امریکی معاشرے پر بائیں بازو کی سیاست کے حقیقی اثر و رسوخ کا پتا چلتا ہے، وہیں اس اثر و رسوخ کی حدود کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔
 تقریباً 200 سال پہلے سے ،جب اس کے ابتدائی علمبردار اُبھر کر سامنے آئے، امریکی بائیں بازو کی سیاست دو انتہائی اہم مقاصد کی پیروی کرتی آئی ہے: تاریخی طور پر ماتحت رہنے والے لوگوں (جیسے کہ خواتین، افریقی نژاد امریکی، اور حالیہ تارکین وطن ) کے انفرادی حقوق میں اضافہ کیا جائے اور ایک نیا اقتصادی اور سیاسی نظام پیدا کیا جائے ، جس کی بنیاد نتائج کی بنیاد پر برابری ہو اور یہ سماجی یکجہتی کے جذبہ کے ذریعے آگے بڑھے۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے، یا اصلاح پسند… جو دو نوں تاریخی مترادف رہے ہیں… مختصراً ، آزادی اور مساوات، یعنی امریکی سیاسی روایت میں دو مقدس ترین تصورات کے وعدہ کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اصلاح پسند سیاست دانوں کی مدد سے (جنہیں عام طور پر پروگریسوز یا لبرلز کے طور پر جانا جاتا ہے) اور بعض دفعہ، ایک ہمدرد ذرائع ابلاغ کے ماحول کے ذریعے، وہ دونوں شعبوں میں کچھ کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
لیکن بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو سب سے بڑی اور سب سے زیادہ پائیدار فتوحات ان دو طرح کی اصلاحات کے پہلے شعبے (آزادی)میں حاصل ہوئی ہیں… یعنی انفرادی آزادی اور احترام کے حوالے سے۔ اصلاح پسندوں نے غلامی کے خاتمے، عورتوں کو ووٹ کا حق دلانے ، پیدائش میں وقفے کو قانونی حیثیت دینے، سیاہ فام اوررنگدار نسلوں کے لئے شہری حقوق کے حصول، اور نسلی اقلیتوں کی شناخت کو تسلیم کرنے کے لئے شروع کی گئی تحریکوں میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
فریڈرک ڈگلس، مارگریٹ سینگر، اور بیٹی فرائیڈن جیسی مشہور شخصیات نے بائیں بازو کے حلقوں میں سرگرم کارکن کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا، اور اُس وقت انھیں قابل احترام رائے عامہ کی طرف سے جھٹلایا گیا اور سیاسی اقتدار کے حاملین کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان تینوں نے، امریکیوں کو، انفرادی حقوق سلب کرنے والے قوانین اور حکام سے آزادی دلانے کے لیے جو کوششیں کیں، آج ان کا اعتراف کیا جاتاہے۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو اس وقت بھی کامیابی ملی جب انھوں نے سیاسی فعالیت کے بجائے، ثقافت اور آرٹ کے ذریعے معاشرے کو متاثر کرنے کی کوشش کی ۔کئی دہائیوں تک، اداکاروں، ادیبوں، اور فنکاروں نے متنازعہ مسائل پر عوامی خیالات کو مرکزی دھارے میں منتقل کرانے کے لئے… نسل، جنس، جنسی عمل، اور معاشی انصاف کے بارے میں کبھی بنیاد پرست تصور کیے جانے والے خیالات کو متعارف کروایا ہے۔
صرف سیاسی طریقوں پر توجہ مرکوز کیے رکھنے کے بجائے ،ثقافتی ذرائع کو بروئے کار لانے کے طریقے نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے مقاصد کے ضمن میں لوگوں کی حمایت زیادہ بہتر طور پر حاصل کرنے، اور اپنے لیے زیادہ تیزی سے جگہ بنانے کے قابل بنایا ہے (اور سیاسی اشرافیہ کی حمایت حاصل کیے بغیر ایسا کرنے کے قابل بنایا ہے، جو عام طور پر اہم تبدیلی کے لئے ضروری عنصر سمجھا جاتا ہے )۔
حالیہ برسوں میں، انفرادی حقوق اور نسلی شناخت کی وکالت کرنے والے ،اپنی اس جدوجہد میں مجموعی مساوات کو فروغ دینے والوں سے زیادہ کامیاب رہے ہیں۔آخرکار امریکی اب ایک آزادانہ دور میں رہ رہے ہیں،جس میں لیبر سے متعلق پرانا قول ”ایک کا زخم سب کا زخم ہے“ اگر مکمل طور پر ناقابل عمل نہیں تو متروک ضرور محسوس ہوتا ہے۔
جوپیچھے چھوٹ گیا
LGBT(lesbian, gay, bisexual, and transgender) تحریک ،شخصی آزادی میں ثقافت اور اس کے ساتھ ساتھ سیاست کے ذریعے اضافے کے پیٹرن میں مضبوطی سے فٹ بیٹھتی ہے۔
1960 کی دہائی کے دوران ہم جنس پرست تحریک شروع کرنے والے مردوں اور عورتوں کو ایک جابرانہ سٹیٹس کو کا سامنا کرنا پڑا۔صرف ہم جنس پرست ہونے کی وجہ سے اپنی سرکاری نوکری سے نکال دیے جانے پر،ماہر علم ہےئت(astronomer) فرینک کامنی فوراً اپنا کیس سپریم کورٹ میں لے گئے،جس نے 1961 میں، یہ کیس سُننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد، وہ ساتھی کارکنوں کے ایک گروہ کے ساتھ ان ماہرین نفسیات کا سامنا کرنے نکل کھڑے ہوئے جنھوں نے ہم جنس پرستی پر ایک بیماری کا لیبل لگا دیا تھا اور ہاتھ سے لکھے خطوط پر دستخط کی مہم کے ساتھ، ہم جنس پرستوں کے لئے مکمل شہریت کا مطالبہ کرتے ہوئے صدر لنڈن جانسن کے وائٹ ہاوٴس کے سامنے دھرنا دیا۔
اسی دہائی کے اختتام پر، نوجوان بنیاد پرستوں نے ایک واضح انقلابی منصوبے کے طور پر جنوبی ویتنامی گوریلا تحریک ( جسے اس کے دشمن ویت کانگ کہتے تھے) نیشنل لبریشن فرنٹ کے نام پر،”گے لبریشن فرنٹ Gay Liberation Front“ قائم کردی۔ امریکی تنظیم کو ”سٹون وال Stonewall“ فسادات کے کئی دنوں بعد قائم کیا گیا تھا، ان فسادات کو اب پولیس اور ہم جنس پرست بار کے سرپرستوں کے درمیان گرین وچ مین ولیج میں جون 1969 کی ایک سخت رات میں شروع ہونے والے تصادم کے مشہور سلسلے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
مصنف پال برمن نے ”A Tale of Two Utopias“ میں اُس جذبے کی وضاحت کرتے ہوئے جس نے ابتدائی مرحلے کے دوران ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی حوصلہ افزائی کی تھی، لکھا کہ ”یہ دراصل محبت کا حق حاصل کرنے کے لئے شروع کی گئی ایک تحریک تھی“۔ اس وقت سے پہلے، چند انتہا پسندوں کا خیال تھا کہ جنسی آزادی ایک ترجیح ہونی چاہیے۔ کچھ نے اسے درمیانے درجے کے طبقہ کے زوال کی ایک شکل قرار دیکر اس کی مخالفت کی۔
لیکن LGBT کے سرگرم کارکنوں نے اس بات کو جھٹلاتے ہوئے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خوشی کے حصول کی آزادی سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں، آہستہ آہستہ احترام اور قانونی حیثیت حاصل کرلی۔ اس تبدیلی کے لئے… تمام امریکیوں کے لیے،خواہ وہ مختلف نسل سے تعلق رکھنے والے تھے یا غیر شادی شدہ ، قانون اور ثقافت میں اپنا جنسی ساتھی منتخب کرنے کے حق کا بڑھتا ہوا جواز… انتہائی اہم تھا ۔
1960کی دہائی کے بعد سے، لوگوں کی ایک بڑی تعداد، روزگار کھونے یا سماجی بائیکاٹ برداشت کرنے کے خوف کے بغیر اپنے جنسی رجحان کے ساتھ عوام میں جانے کے قابل ہوئی ہے۔ مقبول ٹیلی ویژن چینل Will & Grace جیسے پروگرام دکھاتے اور ایلن ڈی جنئریس، ایلٹن جان، اور سوز اورمن جیسی کھلے عام ہم جنس پرستی کا اعلان کرنیوالی معروف شخصیات کو دکھاتے ہیں،جو اس تبدیلی کو آگے بڑھاتے اور اس کی عکاسی کرتے ہیں۔
دوسری طرف، معاشی مساوات کے لیے سرگرم امریکی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کوزیادہ مضبوط اور پائیدار رکاوٹوں کا سامناکرنا پڑا ہے۔ انیسویں صدی کے دوران، ان میں سے بہت سے ایسی یونینوں میں سرگرم تھے جو بہت کم ایسے حقوق رکھتی تھیں کہ ان کے آجر یا وفاقی حکومت ان حقوق کے احترام کا خود کو پابند محسوس کرتیں۔ عدالتیں اکثر ان کی طرف سے ہڑتال یا بائیکاٹ کو غیر قانونی قرار دے دیتی تھیں، پولیس اور نیشنل گارڈ ان کی بڑے پیمانے پر ہونے والی ہڑتالوں کو ختم کروادیتے ، اور روزانہ چھپنے والے اخبارات باقاعدگی سے ان کے رہنماؤں کو آزاد کاروباری تنظیموں کو تباہ کرنے کے لیے باہر نکلنے والے آمر قرار دیکر ان کی مذمت کرتے تھے۔
بے شک، ان میں سے کئی رہنما سوشلزم کی کچھ شکلوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے بالاتر اُجرت کے نظام کا خواب دیکھا ، جس نے امریکیوں کی اکثریت کو چند لوگوں کے رحم و کرم پر لاکھڑا کیا۔ لیبر یونینز کو اس وقت تک خود کو تنظیم کی شکل میں منظم کرنے کا حق نہیں مل سکا تھا جب تک کہ 1935 میں نیشنل لیبر ریلیشنز ایکٹ منظور نہیں ہو گیا (جسے ویگنر ایکٹ کے طور پر جانا جاتا ہے)، اور وہ 1930 کی دہائی کے آخرتک اُجرت کمانے والوں کو ایک بڑے اقلیتی گروپ کے طور پر باقاعدہ شکل نہیں دے سکے تھے۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اقتصادی کارکنوں کو درپیش کچھ رکاوٹیں نظریاتی ہیں: امریکی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آزاد مارکیٹ پر مبنی معیشت میں ہر فرد کو کامیاب ہونے کا موقع حاصل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ، بہت سے سفید فام امریکیوں نے، واضح طور پر یا ڈھکے چھپے، طویل عرصہ تک اس خیال کی مخالفت کی ہے کہ سیاہ فام اقلیتوں کو بھی اتنے ہی مواقع ملنے چاہئیں جتنے کہ سفید فام لوگوں کو۔
آخر میں، دوسرے ممالک میں مضبوط سوشلسٹ اور کمیونسٹ تحریکوں نے یہ ثابت کرنا آسان بنادیا کہ ، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مقامی لوگوں کو امریکہ مخالف قرار دینا غلط ہے۔ آخر وہ لوگ ولادی میر لینن، ماؤ زے تنگ، اور فیڈل کاسترو کے جیسے خیالات رکھتے تھے…خواہ انھیں کارل مارکس کے نظرئیات کے پیروکار کچھ حکمرانوں کے اس طریقہ کار سے اختلاف بھی تھا کہ ان نظرئیات پر عملدرآمد کیسے ممکن بنایا جائے۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے اقتصادی ایجنڈا کو ساخت کے حوالے سے بھی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ امریکی آئین اُن لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، جو سماج کو تیزی سے یا مکمل طور پر تبدیل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ وائیومنگ کے جیسی ایک چھوٹی سی، زیادہ تر دیہی آبادی والی ریاست اُتنے ہی سینیٹرز کو منتخب کرتی ہے جتنی کہ کیلی فورنیا جیسی ایک بہت بڑی شہری آبادی رکھنے والی ریاست منتخب کرتی ہے۔
اور اس اصل آئینی دستاویز میں ترمیم کرنا انتہائی مشکل ہے جسے 200 سے زیادہ سال پہلے ملک کے سفید مردوں نے لکھا تھا۔اس کے علاوہ، نجی عطیات امریکی دو جماعتی نظام کو تقویت دیتے ہیں،اور یہ نظام امیرمردوں اور عورتوں کو،جو دولت کی ازسرنو تقسیم ہرگز نہیں چاہتے، کام کرنے والے طبقے کے امریکیوں سے زیادہ مُراعات یافتہ بنا دیتا ہے۔ آخر میں، امریکی قانونی نظام معاہدہ کی آزادی کو دوسرے تمام معاشی حقوق سے زیادہ اہمیت دیتا ہے، جس کی وجہ سے طویل عرصہ تک، کم از کم اُجرت مقرر کرنے، چائلڈ لیبر پر پابندی ، اور کام کی جگہوں کے حوالے سے قوانین وضع کرنے کے لیے قانون سازی کی کوششوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا رہا تھا۔
ان تمام عوامل نے مزدوروں کو، جومساوات پر مبنی معاشرے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے اہم تحریک کی حیثیت رکھتے ہیں، دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔حالیہ برسوں میں یونینز،جنہیں بڑے پیمانے پر اجتماعیت پسند،تشدد پسند، اوراپنے طبقہ تک محدودتصور کیا جاتا ہے،اُنھیں اپنا وجود قائم رکھنے کے حق اور کام کرنے والے لوگوں کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت کو بار بار ثابت کرنا پڑا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران،ہزاروں کی تعداد میں امریکی ملازمین کو صرف خود کو منظم کرنے کی کوشش کی پاداش میں ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا ہے، اور بہت کم آجروں کو ویگنر ایکٹ کی ان شقوں کی خلاف ورزیوں پر سزا دی گئی، جو واضح طور پر اس طرح کے ”غیر منصفانہ لیبر کے طریقوں“ پر پابندی عائد کر تی ہیں۔اور پھر بھی بہت کم امریکیوں کو یہ معلوم ہے کہ اس طرح کی خلاف ورزیاں واقع ہوئی ہیں۔
دوسری طرف ہم جنس پرستوں کے حقوق کے حوالے سے معاشرے کی موجودہ حساسیّت کو مدنظر رکھتے ہوئے یقینی طور سے کہا جاسکتا ہے کہ…ایسی خبر کہ ایک ممتاز شخصیت نے ہم جنس پرستوں کو بُرا بھلا کہا ہے،چند سیکنڈ میں سارے انٹرنیٹ پر پھیل جائے گی۔ ان دونوں تحریکوں کی صحت کے درمیان یہ فرق یقیناً بہت واضح نظر آتا ہے۔
بلاشبہ، اس پیٹرن کے خلاف اہم مثالیں بھی ہیں: وہ لمحات جب لاکھوں عام امریکی شہریوں نے خود کو اقتصادی نظام کی طرف سے ترک شدہ محسوس کیا اور پھر بھی انھوں نے اس پر عمل کیا، اور یوں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو تعداد اور اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کے قابل بنایا۔
1880کی دہائی میں بھی ایک ایسا ہی لمحہ آیا تھا جب عام لوگوں کا عدم اطمینان ایک لفظ کے ارد گرد مضبوط شکل اختیار کرگیا تھا اور وہ لفظ تھا ”اجارہ داری“۔اس وقت امریکی معیشت عروج پر تھی، لیکن اس عروج کا پھل مجموعی طور پر غیرمساوی حصوں کی صورت میں تقسیم کیا جارہا تھا۔سٹینڈرڈ آئل اور جنوبی پیسیفک ریلوے جیسی کمپنیاں مارکیٹ پر غیر معمولی غلبے کا لطف اُٹھارہی تھیں اور یونینوں پر کھلے عام دھاوا بولنے اور منافع خوری میں مصروف تھیں۔
ان اقدامات نے بہت سے شہریوں کو اس بنیادی امریکی عقیدے” کہ…محنت کا پورا صلہ ضرور ملے گا“… کے بارے میں سنجیدگی سے سوالات اُٹھانے پر مجبور کردیا۔
اصلاح پسند ایک نقطہ پر ڈٹ گئے جسے اُس وقت ”لیبر سوال“ کا نام دیا گیا۔جیسا کہ صحافی ہنری جارج نے 1886 میں ایک تقریر میں کہا تھا،”کام ہی تمام تر مال ودولت کی تخلیق کرتا ہے، پھر یہ کیسے ہوتا ہے کہ کام کرنے والا طبقہ(ورکنگ کلاس) ہمیشہ سب سے غریب تر طبقہ رہتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے ایسے منصوبے وضع کررکھے ہیں کہ جن کی مدد سے وہ اس کام پر عیش کرتے ہیں جو دوسرے اُن کے لیے انجام دیتے ہیں۔
“جارج، زمین کی نجی ملکیت کے حوالے سے ایک طویل تنقید پر مبنی کتاب” Progress and Poverty“ کے مصنف تھے،جس کی دنیا بھر میں انیسویں صدی کی کسی بھی دوسری اقتصادی تحریرسے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔ 1886 میں، ایک مقامی لیبر پارٹی کے امیدوار کے طور پر، وہ تقریباً نیو یارک شہر کے میئر منتخب کرلیے گئے تھے۔ (تھیوڈور روزویلٹ نامی ایک 28 سالہ ریپبلکن کافی پیچھے رہتے ہوئے تیسرے نمبر پر قرار پائے تھے)۔
احتجاج اور غصے میں، لاکھوں کارکنوں نے اس مدت کے دوران امریکی تاریخ کی سب سے بڑی پُرتشدد ہڑتالیں شروع کردیں۔ 1886 میں، دن میں آٹھ گھنٹے کام کے اوقات مقرر کرنے کے لئے ہڑتال کے باعث پورے مڈویسٹ میں فیکٹریاں اور ورکشاپس بند کردی گئی تھیں۔ 1894 میں، کارکنوں نے ملک کا زیادہ تر ریلوے کا نظام بند کردیا۔ اس بغاوت کو کچلنے کے لئے ہزاروں ریاستی ملیشیا اور وفاقی فوجیوں (اور درجنوں اموات) کو حصہ لینا پڑاتھا۔
اس وقت کی سب سے زیادہ ممتاز مزدور تنظیم”نائٹس آف لیبر“ نے ، افریقی نژاد امریکی مرد اور عورتوں سمیت ایک ملین سے زیادہ مزدوروں کو اپنا رُکن بنایا۔ بعدازاں 1886 میں عظیم جنوب مغربی ریلوے میں ایک تباہ کن ہڑتال اور اس کے بعد اندرونی تنازعات نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔طبقاتی انقلاب نے امریکیوں کو خوفزدہ کردیا تھا، لیکن اس نے ان میں سے بہت سوں کے ضمیر کو جھنجوڑا، بشمول وزیروں اور دینی علماء کے، جنھوں نے سوشل انجیل کے خیالات کی تبلیغ شروع کردی…یعنی ایک مذہبی تحریک شروع ہوئی جس کے تحت دلیل دی گئی کہ یہ عیسائیوں کا سب سے بڑا فرض ہے کہ وہ استحصال،اور کارکنوں اور مساکین کی مشکلات کے خاتمے میں مدد کریں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط