Episode 97 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 97 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

واپسی کا جائزہ،عراق سے انخلاء کی بدانتظامیاں(رِک برینن)
(رِک برینن،رانڈ کارپوریشن میں سینئر ماہرِسیاسیات ہیں،انھوں نے 2006 سے 2011 تک عراق میں امریکی فوج کے ایک سینئر مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں)
14 دسمبر، 2011 کو فورٹ بریگ میں ایک تقریر کے دوران، صدر باراک اوباما نے اعلان کیا تھا کہ امریکی فوج جلد ہی امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگوں میں سے ایک کا اختتام کرتے ہوئے، عراق سے نکل آئے گی۔
اوباما نے کہا تھاکہ،” امریکہ اپنے پیچھے ایک خود مختار، مستحکم، اور خود پر بھروسہ کرنے والا عراق چھوڑ کر جائے گا، ایک نمائندہ حکومت کے ساتھ جسے خود اس کے عوام نے منتخب کیا ہے“۔ چار دن بعد، آخری امریکی فوجی یونٹ بھی عراق سے نکل کر کویت پہنچ گئی اور امریکی مسلح افواج نے اپنی تاریخ کے فوج سے سویلین حکام کو اختیارات کی منتقلی کے پیچیدہ ترین عمل کو انجام دیتے ہوئے اپنی تمام تر ذمہ داریاں ، عراق کی مرکزی حکومت، امریکی مرکزی کمان، یا بغداد میں امریکی سفارت خانے کے سپرد کردیں۔

(جاری ہے)

اگلے دن، عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے…جو 2006 کے بعد سے عراق کے کردوں اور سنی عربوں کے مفادات کو داؤ پر لگا کر اپنے ذاتی اور شیعہ مذہبی جماعتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے آئے ہیں… عراق کے سنی نائب صدر طارق الہاشمی پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاکر اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے۔ایک بحران اُس وقت اُٹھ کھڑا ہوا جب ہاشمی کے سنی اکثریتی سیاسی دھڑے نے قومی اتحاد پر مبنی اس حکومت کا بائیکاٹ کردیا جسے صدر اوباما نے حال ہی میں ذمہ دار اورعراقی عوام کو ساتھ لے کر چلنے والی حکومت کے طور پر پیش کیا تھا۔
 اسی ہفتے، بغداد 17 دھماکوں سے لرز اُٹھا، جن کے نتیجے میں کم از کم 65 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے؛ عراق میں القاعدہ کے گروپ ( اے کیو آئی) نے بعد میں ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ایرانی پشت پناہی کے ساتھ، مالکی کی حکومت نے دہشت گردی یا کالعدم بعث پارٹی کے ساتھ مبینہ وابستگی کے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر منظم طریقے سے سنی اشرافیہ کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
فرقہ وارانہ تشدد پر مبنی واقعات بھی جلد ہی شروع ہوگئے، اور مئی 2013 تک، یہ اُس سطح پر پہنچ چکے تھے جو 2003 میں امریکی حملے کے بعد عراق کو لپیٹ میں لے لینے والی خانہ جنگی کے آخری دنوں کے بعد سے نہیں دیکھے گئے تھے۔
دریں اثنا، مالکی نے اُن باصلاحیت سنی اور کرد افسران کی جگہ جن پر وہ اعتماد نہیں کرتے تھے، اپنے ذاتی وفادار شیعہ افسران کا تقرر کرکے عراقی انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز پر اپنی گرفت کو مضبوط بنالیا۔
انہوں نے دفاع،داخلہ اور عراقی نیشنل سیکورٹی کونسل کے مستقل وزیروں کی تقرری سے انکار کردیا اور اس کے بجائے ان وزارتوں کو ایک غیر آئینی ادارے جسے آفس آف دی کمانڈر ان چیف کہا جاتا تھا، کے ذریعے کنٹرول کرنا شروع کردیا۔ اپریل 2012 میں،کرد رہنما مسعود بارزانین نے اعلان کیا کہ عراق واپس آمریت کی طرف بڑھ رہاہے… یہ وہ چیز تھی جو اُن کے مطابق اُنھیں کردوں کی آزادی کے لیے کوشش کرنے کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرسکتی تھی۔
اوباما نے عراق میں جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا، لیکن عراقیوں کو یہ پیغام نہیں ملا تھا۔ 2013کے وسط تک یوں معلوم ہورہا تھا کہ ملک (عراق) ٹکڑوں میں تقسیم ہونے والا ہے…اور اس سے بھی بُرے حالات کا سامنا کرنا ابھی باقی تھا۔ 2014 کے موسم گرما تک، مالکی کی بدانتظامیوں نے ملک کی سیکورٹی فورسز کو کھوکھلا اور عراق کے سنیوں کو الگ تھلگ کرکے رکھ دیا تھا، جس نے اے کیو آئی کے جانشین،سنی جہادی گروپ اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ الشام(آئی ایس آئی ایس، یا اسلامی ریاست) کے لئے ، جنگ زدہ شام میں اپنے مضبوط گڑھ سے سرحد عبور کر کے اہم عراقی شہروں کی ایک بڑی تعداد پر قبضہ کرنا بہت آسان بنا دیا۔
آئی ایس آئی ایس نے مذہبی اقلیتوں، شیعوں، اور اپنے راستے میں کھڑے ہونے والے سنیوں کو بے دردی سے ذبح کیا ہے؛ اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں رہنے والے عتاب زدہ لوگوں پر اسلامی قانون کو سفاکانہ انداز میں نافذ کیا ہے ؛ اور امریکی اور دوسرے مغربی یرغمالیوں کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل کی لرزہ خیز ویڈیوز جاری کی ہیں۔
ہر لحاظ سے، امریکہ کے بعد عراق کے حالات المناک رہے ہیں۔
لیکن یہ حقیقت اس المیہ کو مزید گہرا کردیتی ہے کہ 2011کے بعد سے تقریباً جو کچھ بھی ہوا ہے ،اُس کے بارے میں پہلے ہی اندازہ تھا…اور،حقیقت میں،امریکی فوجی منصوبہ سازوں اور کمانڈروں کی طرف سے اس کی پیش گوئی کی گئی تھی، جنھوں نے کئی سال پہلے ہی تقریباً 50 ہزارامریکی فوجیوں کے مکمل انخلاء کے خلاف خبردار کیا تھا جو 2011تک عراق میں موجود تھے۔
2006 سے 2011 کے آخر تک ، عراق میں امریکی فوج کے ایک سینئر سویلین ایڈوائزر کے طور پر میں نے اوباما اور ان کی قومی سلامتی کی ٹیم کے سینئر ارکان کو عراق کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچنے میں ناکام ہوتے دیکھا جس سے بقایا امریکی فوج کو عارضی طور پر وہاں رہنے کی اجازت مل جاتی، اور میں نے اُنھیں اس بارے میں حکمت عملی قائم کرنے میں بھی ناکام ہوتے دیکھا کہ عراق سے کس طرح اس انداز میں نکلا جائے جس سے اُن برسوں کے دوران وہاں حاصل کیے گئے فوائدضائع نہ ہوں۔
عراق، اس کے ہمسایہ ممالک، امریکہ، اور باقی دنیا اب ان ناکامیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
اس غلطی سے جو بھی اسباق حاصل کیے جاسکتے ہیں وہ صدر اوباما کی ”آئی ایس آئی ایس کونیچا دکھانے اور بالآخر تباہ کردینے“ کے لیے کی جانے والی حالیہ کوششوں میں زیادہ مدد گار نہیں ہوں گے۔ لیکن یہ سبق شاید اس سوال پر براہ راست لاگو ہوسکتے ہیں کہ نائن الیون کے بعدامریکہ کی طرف سے افغانستان میں شروع کردہ زیادہ طویل جنگ کو کیسے انجام دینا ہے۔
وہاں، اوباما کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ انہی غلطیوں اور غلط اندازوں کے ارتکاب سے بچیں جو عراق میں پھر اُن کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں، اور یہ کہ اگر موجودہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی تو گویا امریکہ پھر سے اُن کا ارتکاب کرنے کے لئے تیار ہے۔ ایسا کرنے(یعنی غلطیوں کے ارتکاب سے بچنے) کے لئے، اوباما کو اپنے اندر پہلے کی گئی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی سیاسی ہمت پیدا کرنی ہوگی اور انھیں دہرانے سے بچنا ہوگا۔
ان کی انتظامیہ کو افغانستان میں نیٹو مشن اور 2016 کے آخر تک ملک سے تمام امریکی فوجیوں کو واپس بُلانے کی منصوبہ بندی کا مکمل طور پر ازسرنو جائزہ لینا ہوگا، کیونکہ یہ عمل اس سے طویل عرصہ پہلے ہوگا جب تک کہ اکثر ماہرین کے مطابق افغان حکومت کے اپنے طور پر سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کا کوئی امکان ہوسکے گا۔ اس وقت، افغانستان میں امریکی جنگ کی آخری کارروائیاں حیرت انگیز طور پر اسی طرز پر جاری ہیں جیسے کہ عراق میں کی گئی تھیں؛ اوباما کو اس بار ایک مختلف انجام تک پہنچنے کے لیے ہر وہ اقدام کرنا چاہیے جو اُن کے بس میں ہے۔
بتائیے یہ ختم کیسے ہوسکتی ہے
جنگ کے لئے جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے انتہائی احتیاط اور زبردست قسم کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنگ اکثر اوقات ملکوں کی داخلی سیاسی اور سماجی جہتوں کو تبدیل کردیتی اور علاقائی و بین الاقوامی سلامتی کو متاثر کرتی ہے۔ ایک جنگ جس طریقے سے لڑی جاتی ہے، وہی جنگ کے بعد سلامتی کے ماحول کی تشکیل کرتا ہے۔
اور لڑائی شروع ہونے سے کافی عرصہ پہلے ہی، رہنماوٴں کو اس بات پر غور کرلینا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیسا ہوگا۔ جیسا کہ 2003میں جب امریکی فوجیں بغداد میں جنگ لڑنے جارہی تھیں،اُس وقت کے میجر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے معروف انداز میں کہا تھا کہ:”مجھے بتائیے یہ ختم کیسے ہوسکتی ہے“
 جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ بش انتظامیہ اور امریکی فوج مناسب طریقے سے اس سوال پر غور کرنے میں ناکام رہی تھی۔
عراق پر امریکی حملے کے کے ابتدائی 42 دنوں کے اندر، امریکی افواج نے اپنے تمام جنگی مقاصد حاصل کرلیے تھے۔ لیکن پنٹاگان نے لڑائی کے بعد استحکام اور امدادی کارروائیوں کے لئے بہت ہی کم منصوبہ بندی کی تھی، اور امریکی افواج عراقی حکومت کے انہدام کے بعد کی لاقانونیت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔واشنگٹن کی طرف سے بعث پارٹی کی مخالفت،عراقی فوج کو غیرموثر کرنے، اور قومی مفاہمت میں بہت کم دلچسپی رکھنے والے شیعہ سیاستدانوں کی پشت پناہی پر مبنی پالیسی اختیار کرنے کے فیصلوں نے جلد ہی ایک زبردست سنی شورش کی راہ ہموار کردی۔
دریں اثنا، انتہا پسند شیعہ ملیشیاوٴں کی طرف سے سنیوں کے ہاتھوں ظلم و جبر کی کئی دہائیوں کا بدلہ لینے کے عزم…اور اس کے ساتھ ایک نئے سفاک سنی جہادی گروپ ، اے کیو آئی کی تشکیل نے…غیرمعمولی خونریزی کو جنم دیا۔ 2006 تک، عراق ایک مکمل فرقہ وارانہ خانہ جنگی کا شکار ہوچکا تھا۔صدر بش کے پاس دو بُرے راستے باقی بچے تھے: امریکی فوجوں کو عراق سے نکال لیا جائے اور خانہ جنگی کو بھڑکنے دیا جائے، یا پھر عراق میں بنیادی سیکورٹی بحال کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اپنائی جائے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن وسائل بروئے کار لانے کا عہد کیا جائے۔
بش نے انسداد بغاوت حکمت عملی اختیارکرنے اور 30 ہزار اضافی امریکی فوجیوں کے ساتھ ایک عارضی ”سرج آپریشن“ پر مبنی زیادہ مضبوط راستے کا انتخاب کیا۔ اضافی امریکی فوجیوں، سفارتکاروں، اور فنڈنگ نے،دوسرے کئی عوامل کے ساتھ ملکر…جن میں سنی بیداری کے نام سے شروع کی جانے والی مہم بھی شامل تھی، جس سے سنی قبائل اے کیو آئی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے…عراق کو انتشار کی کیفیت سے باہر نکالا۔
دسمبر 2008 تک، نئی امریکی حکمت عملی نے اس قدر سیکورٹی مہیا کردی تھی کہ سیاسی استحکام ایک حقیقی امکان لگنے لگا تھا۔ عراق اس وقت بھی ایک خطرناک اور غیر فعال جگہ تھی، لیکن جب صدر بش نے اپنا عہدہ چھوڑا، وہ یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتے تھے کہ نئی حکمت عملی نے عراق کے تباہی کی طرف تیزی سے بڑھنے کے عمل کو واپس موڑ دیا تھا اور ملک کی بقا اور ممکنہ سیاسی ، سماجی، اور اقتصادی ترقی کے لئے ضروری حالات پیدا کردئیے تھے۔
 حتمی کامیابی کی راہ میں دو اہم رُکاوٹیں اب بھی کھڑی تھیں۔ پہلی فرقہ وارانہ تقسیم تھی۔ مالکی ، شیعہ سنی حقیقی مصالحت کے لیے کسی بھی طرح کے سنجیدہ اقدامات کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس کے بجائے، انھوں نے واشنگٹن کے مضبوط سہارے کے مزے لوٹتے ہوئے ، سرج کی کامیابی کو بغداد میں اپنی طاقت مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ لیکن انھوں نے کم متنازع انداز میں حکومت کرنے اور سیاسی عمل میں سنی اقلیت کو شامل کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی امریکی درخواستوں کو زیادہ ترنظر انداز کردیا۔
مالکی ،عرب۔ کرد تقسیم کو پاٹنے میں بھی ناکام رہے تھے اور اس کی بجائے انھوں نے کردستان کی علاقائی حکومت اور اس کی سیکورٹی فورسز کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی۔ آخر میں، مالکی نے ایران کو عراقی سرزمین استعمال کرتے ہوئے عراق کی سخت گیر شیعہ ملیشیا کو ہتھیاروں کی فراہمی ،تربیت ، اورانھیں لیس کرنے کی اجازت دی۔ ان سب چیزوں نے ملکر گزشتہ موسم گرما میں آئی ایس آئی ایس کی تیزی سے پیش قدمی اور ملک کے ممکنہ انتشار کے لئے راہ ہموار کی۔
دوسری رکاوٹ، 2008 کا سٹریٹجک فریم ورک کا معاہدہ اور عراق اور امریکہ کے درمیان ایک متعلقہ سیکورٹی معاہدہ تھا… جس نے امریکی فوجیوں کو اس سال کے اختتام(جب اُن کی موجودگی کی منظوری دینے والی اقوام متحدہ کی قرارداد کی میعاد ختم ہوجاتی) کے بعد بھی عراق میں موجود رہنے کی اجازت دے دی…تمام امریکی فوجیوں کے ممکنہ انخلا، کے لئے ایک ٹائم ٹیبل مقرر کیا ، لیکن یہ امریکی فوج کی سرگرمیوں کا انتظام کرنے کے حوالے سے فوجوں کی مستقل حیثیت کے معاہدے کو انجام دینے میں ناکام رہا۔
عارضی سیکورٹی معاہدہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ امریکہ 2009 کے آخر تک آبادی کے تمام مراکز سے اور 2011 کے آخر تک پورے ملک سے اپنی افواج واپس نکال لے گا۔ ان شرائط کو محفوظ بنانے کے لیے واشنگٹن کو اپنا یہ اصرار چھوڑنا پڑنا تھا کہ امریکی افواج کو عراقی قانون سے مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔ اس کے بجائے، کسی حد تک مبہم اصطلاح میں، معاہدے نے عراقی حکام کو ایسے مقدمات میں قانونی دائرہٴ اختیار دے دیا جن میں امریکی سروس کے ارکان پر امریکی حدود سے باہر ڈیوٹی پر نہ ہوتے ہوئے سنگین، سوچے سمجھے جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا گیا ہو۔
اس سال کے اوائل میں شائع ہونے والی اپنی یادداشتوں کی کتاب” ڈیوٹی“ میں، سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے انکشاف کیا کہ پنٹاگان کے وکلاء نے سمجھوتے کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ لیکن گیٹس وضاحت کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے اگر اس کا مطلب یہ تھا کہ امریکی افواج 2008کے بعد بھی عراق میں رہ سکتی ہیں تو یہ خطرہ مول لینے کے قابل تھا۔ میدان میں موجود کمانڈرز کو بھی سمجھوتے پر کوئی اعتراض نہ تھا؛ آخر کار، امریکی مسلح افواج کے ارکان دن میں 24 گھنٹے ڈیوٹی پر ہوتے ہیں اور انھیں اڈوں کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی جب تک کہ وہ کسی خاص مشن پر نہ ہوں، اس لیے اس بات کا بہت کم امکان تھا کہ امریکی بحریہ کا کوئی اہلکار یا سپاہی کبھی بھی عراقی حکام کے ہاتھ لگ جاتا۔
گیٹس کے مطابق، واشنگٹن اور بغداد دونوں ہی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ 2008 ء کا معاہدہ ایک عبوری قدم ہے جس پر 2011 میں انخلا کی ڈیڈ لائن سے پہلے اس طرح نظر ثانی کی جائے گی کہ یہ کچھ امریکی فوجیوں کو اپنے عراقی ہم عصروں کو مشورے اور مدد دینے کے لئے عراق میں ہی رہنے کی اجازت دے گا۔ لیکن بعد کے سالوں میں، عراق میں بقایا فوج چھوڑنے کے حوالے سے اوباما انتظامیہ کی رضامندی کے بارے میں غیر یقینی صورتحال ، ہنگامہ خیز عراقی سیاسی نظام، اور امریکی فوجی اہلکاروں کے لئے قانونی استثنیٰ کے حساس مسئلہ نے، ایک طویل مدتی انتظام کی تشکیل میں سنجیدہ رکاوٹیں پیدا کردیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط