Episode 108 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 108 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

 پاکستان کی لیڈی کیڈٹس سے ملئیے،پاکستان کی ملٹری اکیڈمی میں خواتین کی آزمائشیں اور کامیابیاں(عائلیہ حسین)
(عائلیہ حسین(Aeyliya Husain) ٹورانٹو میں مقیم دستاویزی فلم ساز ہیں)
وردہ نور نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ ایک سپاہی بن جائے گی۔اور، دس سال پہلے تک، وہ ایسا کربھی نہیں سکتی تھی۔
لیکن اسکے باوجود وہ وہاں موجود تھی ،ہمالیہ کی چھوٹی پہاڑیوں کی ٹھنڈی ہواؤں میں،چلّا کر حکم دیتے حوالداروں اور تیزی سے صفیں بناتے کیڈٹس کے درمیان۔
وہ ایک ہی قدم پر گھومتی،مُڑتی، اور مارچ کرتی ہیں۔اگرچہ اُنھیں تربیت حاصل کرتے صرف چار ہفتے ہوئے ہیں، وہ قدم سے قدم ملانے کے لئے جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔
نور کا تعلق ایک چھوٹے سے، ایلیٹ گروپ سے ہے… 2013 کے ”لیڈی کیڈٹس“ گروپ سے، جیسا کہ انھیں پکارا جاتا ہے…2006میں جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں عورتوں کی تربیت کے آغاز کے بعد سے، یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے والا خواتین کا تازہ ترین بیچ ہے۔

(جاری ہے)

ہر سال سینکڑوں خواتین یہاں ایک نشست حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرتی ہیں، حالانکہ اُن کے لیے صرف 32 نشستیں رکھی گئی ہیں۔مردوں کے لئے اکیڈمی میں 2ہزار نشستیں مخصوص ہیں۔ اور، مرد اگرچہ ہائی اسکول کے بعد ہی اندراج کرا سکتے ہیں، لیکن خواتین کے لیے پہلے ایک بیچلر ڈگری حاصل کرنا اور روانی سے انگریزی بولنا ضروری ہے۔یہ امتیازات یہیں ختم نہیں ہوجاتے: داخلہ مل جانے کے بعد،مرد کیڈٹس میدان جنگ کی تربیت پر دو سال خرچ کرتے ہیں، جبکہ خواتین ریکروٹوں کو صرف چھ ماہ کے لیے تربیت دی جاتی ہے اور انھیں براہ راست لڑائی سے منع کر دیا جاتا ہے۔
اس کے بجائے، وہ زیادہ ترانجینئرنگ،آئی ٹی، یا مواصلات کے شعبوں میں فوج کی معاونت پر مبنی خدمات میں فارغ التحصیل ہوتی ہیں۔
پھر بھی، خواتین کیڈٹس کا کہنا ہے کہ ،یہ بھی ایک پیش رفت ہے۔
دُبلی پتلی اور سنجیدہ 24 سالہ نور، پاکستان کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ڈگری کے ساتھ ،تقریباً 300 میل کا سفر طے کرکے،وادی سے قریب 4 ہزارفٹ اونچائی پر، یہاں کاکول میں تربیت لینے آئی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ،”یہ موقع میرے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا تھا۔ ”مجھے اس کے لئے مقابلہ کرنا پڑا تھا“۔
نور اکیڈمی تک منڈی بہاوٴالدین کے راستے پہنچی تھی، جو مرکزی صوبے پنجاب کا ایک چھوٹا اور پُرانی طرز کا شہر ہے، جہاں گھوڑے سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد اب بھی گاڑیوں سے زیادہ ہے ، اور جہاں لڑکیوں کے پاس ہائی سکول کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
جب نور 16 سال کی تھی ، تو اس کے والد سارے خاندان کو لیکرراولپنڈی آگئے، جو اسلام آباد کے قریب واقع ایک بڑا شہر ہے، جہاں وہ اسکول میں تعلیم جاری رکھ سکتی تھی۔ اس کے مصائب غیر معمولی نہیں تھے: دنیا کے تمام ملکوں میں سے، پاکستان سکولوں تک رسائی نہ رکھنے والے بچوں کی دوسری سب سے بڑی تعداد رکھتا ہے…یعنی 5.4 ملین…جس میں پرائمری سکول جانے کی عمر والی 75 فیصد لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
زیادہ تر خواتین کو ملازمتیں تلاش کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، اور بہت سی عورتوں کو اساتذہ یا گھریلو خاتون بننے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
فوج میں شامل ہوکر، نور اور دیگر خواتین کیڈٹس نے، کم از کم اگلے سات سال کے لئے روزگار کی ضمانت حاصل کرلی ہے، جو اس سروس کی ضروری شرط ہے۔
اسی لیے یہ ایک تلخ مگر مشیریں فتح ہے، کیونکہ ایک عورت ہونے کی وجہ سے سکول سے باہر اور اس کے اندر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ: بلال،جو ایک مرد کیڈٹ ہے اورنور کے ساتھ ہی گریجویشن کرے گا، اور اس نے اپنا پورا نام نہیں بتایا، نے کہا ہے کہ وہ ایک خاتون سپاہی سے کبھی شادی نہیں کرے گا۔اس نے کہا کہ”میں اسے ایسی صورت میں زیادہ ترجیح دیتا اگروہ کسی اورچیز میں دلچسپی رکھتی ہوتی۔کسی کو تو بچوں کو بھی دیکھ بھال کرنی ہے“۔
لیکن نور ایسے تبصروں پر اعتراض نہیں کرتی۔
پہلے سے ہی شادی کی قومی اوسط عمر سے گزر جانے کے باعث، اسے ایک گھریلو خاتون بننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔وہ فوج کے نظم و ضبط کو ترجیح دیتی ہے، اور وہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ تسلیم کرے گی کہ وہ وردی کے بغیر نامکمل ہے۔ 
حفاظت سب سے پہلے
2006 میں خواتین کیڈٹس کی پہلی کلاس کے داخلوں کے بعد سے، تقریباً 330 خواتین اکیڈمی سے گریجویشن کرچکی ہیں۔
لیکن یہ تعداد ہزاروں مرد گریجویٹس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔نور کہتی ہے کہ، اقلیت میں ہونا تکلیف دہ ہوسکتا ہے، خاص طور پر جب مرد کیمپس میں گھُس آتے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ ”ہمیں ہمیشہ عدم تحفظ کا احساس رہتا ہے“ ۔
اگرچہ،اکثر، آرام کے بارے میں سوچنے کے لئے بہت کم وقت ہوتاہے۔ کیڈٹس کو سب سے پہلے، قومی سلامتی کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے۔
2012 میں، پاکستان دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں دہشت گرد حملوں کا زیادہ ہدف تھا، اور سکول کے ارد گرد کے پہاڑوں میں مسلسل دہشت گردی کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اکیڈمی ایک متنازعہ علاقے کے مرکز میں واقع ہے، ایبٹ آباد کے شمال میں، جہاں امریکی بحریہ کی سیل فورس نے 2011 میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔
گذشتہ 67 سال میں، 1947 ء میں بھارت سے پاکستان کی علیحدگی کے بعد سے، اس کی فوج ملک کے سب سے طاقتور ترین ادارے کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے، اوریہ ہر سال امریکہ کی طرف سے 2 ارب ڈالر تک کی بڑی امداد حاصل کرتی ہے۔
آج یہ دنیا میں ساتویں سب سے بڑی فوج ہے۔
یہاں، شاہراہ ریشم کے داخلی راستے پر قائم یہ اکیڈمی قوم کے کچھ بہترین افسروں کو تیار کررہی ہے، جن میں سے بہت سے خواتین کو کلب میں شامل کرنے کی اجازت دینے سے ہچکچا تے ہیں۔جب جنرل پرویزمشرف نے آٹھ سال قبل خواتین کے لیے اکیڈمی کے دروازے کھولے، تو لیفٹیننٹ کرنل عثمان کیانی جیسے آفیسرزاس پر تحفظات رکھتے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ،”ہماری تمام ترفوج مردوں پر مشتمل تھی، اور فوجی تربیت ہمیشہ سے صرف مردوں کے لئے ہی ہے“۔لیکن، بہت کم آفیسرز اس بارے میں مشرف سے سوال کرسکتے تھے، جو اُس وقت ملک کے صف اول کے جرنیل تھے، چنانچہ یوں عورتوں نے تربیت حاصل کرنا شروع کردی ، اور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے لگیں، نیز زیادہ تر، وہی کام انجام دئیے جو مرد کررہے تھے۔
چار ماہ کی تربیت کے بعد، نور کا کیڈٹوں کا بیچ میدان میں دی جانے والی مشقوں کی طرف منتقل ہو گیا۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں ، وہ، خندقیں کھودتی، دفاعی مشقوں کی منصوبہ بندی کرتی، اور انتہا پسندوں پر نظر رکھتی ہیں۔ یہاں، ستمبر کی چل چلاتی دھوپ کے نیچے ،جہاں درجہ حرارت وسط دوپہر کے وقت 100 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے، کلاس روم میں سیکھنے کے مہینے آزمائش بن جاتے ہیں۔
ٹینکوں،لڑاکا طیاروں، اور آرٹلری کی آگ کے ساتھ جنگ کا کھیل کھیلتے ہوئے،ان خواتین کو ہر ممکن طور پر میدان جنگ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
میدان میں، جاسوسی کے مشن کی قیادت کرنا نور کے ذمہ ہے… جو دراصل کلاس روم میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے کی وجہ سے انعام کے طور پر اسے تفویض کیا گیا ہے۔ یہ ایک نازک کام ہے، کیونکہ بہت سی کیڈٹس اس بات پر ناخوش ہوتی ہیں کہ اس نے اتنی زیادہ ذمہ داریاں حاصل کرلی ہیں۔
لیکن نور اچھی طرح جانتی ہے کہ کب سختی کرنی ہے اور کب ان کے تیز نظروں سے گھورنے کو نظر انداز کرنا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ، وہ کسی بھی چیز کو اپنے امتیاز کے ساتھ گریجویشن کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہونے دے گی۔چنانچہ، وہ جنگ کی منصوبہ بندی اور نقشوں کا تجزیہ کر نے کے لیے نیند ترک کرکے خندقوں میں رہنے والی اپنی ہم جماعتوں کی رہنمائی کرتی ہے۔
ایک رات، وہ پانچ کیڈٹوں کے گروپ کی قیادت کرتے ہوئے اگلے دن کے حملے کے لئے سب سے بہتر منصوبہ کا جائزہ لینے کے مشن پر جاتی ہے۔وہ مکمل اندھیرے میں کھیتوں کے اندر راستہ تلاش کرتی ہیں، جبکہ اُن کے پاس رہنمائی کے لیے صرف نور کا نقشہ اور دُور بین موجود ہوتی ہے۔ نور کی قیادت میں، ٹیم ممکنہ دشمن کی چوکی کا پتا لگا لیتی ہے اور حملے کے لیے ایک قابل عمل منصوبہ تیار کرتی ہے۔
 پلاٹون کمانڈر عروج عارف، جنہوں نے دو سال قبل اس فوجی اکیڈمی سے گریجویشن کی اور اب نئی رنگروٹوں کو تربیت دیتی ہیں، کہتی ہیں کہ ”وردہ میں ایک اچھی لیڈر بننے کی صلاحیتیں موجود ہیں،وہ شروع سے ہی بہت اچھی تھی“۔
میدان میں پانچ روز گزارنے کے بعد، کیڈٹس اکیڈمی میں واپس آ گئی ہیں اور خود کو گریجویشن کی تکمیل کے لئے تیار کررہی ہیں۔
اس کی دیگر ہم جماعتوں کے ساتھ ، نور کو بھی اس کی پوسٹ گریجویشن کی اسائنمنٹ تفویض کردی جاتی ہے: وہ پنجاب کے ایک گنجان آباد شہر راولپنڈی میں فوج کے ایک انجینئر کے طور پر کام کرے گی ، جہاں وہ میدان جنگ سے حاصل کردہ تھرمل تصاویر کا تجزیہ کرے گی۔جب تک قانون تبدیل نہیں ہوتا، لڑائی کے ساتھ اس کا تعلق بس اتنا ہی تھا۔

یہی وہ گھڑی ہے
گریجویشن سے ایک دن پہلے،یعنی 11 اکتوبر، 2013، ایک تناؤ سے بھرا دن ہے۔
ہاسٹل میں، خواتین کیڈٹ اپنے سوٹ کیس باندھ اور آپس میں ای میل ایڈریس کا تبادلہ کررہی ہیں۔ کل، ان کے والدین، چچا، چچی اور کزنز اکیڈمی کے لان میں ہونے والی تقریب میں پاکستان کی دورے پر آئی ممتاز شخصیات اور اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے ساتھ شریک ہونگے۔ اور نور کو معلوم ہوجائے گا کہ کیا آرمی چیف اُسے کمانڈنٹ کی چھڑی سے نوازیں گے، جوسال کی سب سے بہترین خاتون کیڈٹ کے لیے مخصوص اعزاز ہے۔
تین دیگر انعامات بھی دئیے جائیں گے ، لیکن یہ وہ واحد اعزاز ہے جو ایک خاتون کیڈٹ کو دیا جائے گا۔
”میں آج رات سو نہیں پاؤں گی“ نور اپنی وردی بچھاتے ہوئے کہتی ہے،” جب میں چھوٹی تھی، تو میں ٹیلی ویژن پر یہ تقریب دیکھنے کے لیے جلد بیدار ہوجایا کرتی تھی۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن میں اس کا ایک حصہ بن جاؤں گی“۔
وہ سوئی یا نہیں، کل کا دن آپہنچتا ہے۔
کیڈٹس ہال میں بھاگتی پھر رہی ہیں، اُن کے یونیارم صاف اور اکڑے ہوئے ہیں، اور انھوں نے اپنے لمبے بال جُوڑے کی شکل میں فوجی ٹوپیوں کے نیچے کھینچ کر باندھ رکھے ہیں۔ وہ آخری لمحات میں سب ٹھیک کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں: بالوں کی ٹائی کو درست کرتی،کالر سیدھے کرتی اوربیلٹ ٹائٹ کرتی ہیں۔اسی وقت ایک ہجوم ڈرل کے احاطے کے ارد گرد موجود سٹینڈ میں آ پہنچتا ہے۔
یہی ہے وہ… وہ دن جس کے لیے یہ عورتیں کام کرتی رہی ہیں، اور وہ پریڈ جسے بہت سے لوگ ملک میں سب سے زیادہ متاثر کن تصور کرتے ہیں۔
کپڑے پہن چکی اور بالکل تیارخواتین، اپنے ہاسٹل کے باہر قطار بنالیتی ہیں، جہاں عملے کی ایک افسر، اُن کا معائنہ کرنے کے لیے انتظار کر رہی ہے۔ایک بار منظوری ملنے کے بعد، یہ خواتین مرد کیڈٹس کے سمندر میں ایک چھوٹا سا بیڑا بناتی ہوئی، ڈرل کے لیے مخصوص احاطے کی جانب مارچ کرتی پہنچ جاتی ہیں۔
نور کہتی ہیں کہ،”جب ہم مارچ کرتی ہوئی چلتی ہیں، توہمارے ذہنوں میں جو پہلی چیزہے وہ یہ کہ، ’یہی وہ لمحہ ہے‘ہر کوئی پُرجوش ہے، ہر کوئی بے چین ہے“۔
احاطے میں پہنچ کر، نور تلوار کی علمبردار کے طور پر اپنی جگہ لے لیتی ہے اور اعلان کا انتظار کرتی ہے۔ اس کے کمانڈر یوں بولنا شروع کرتے ہیں: بہت سی ایسی خواتین ہیں جو تعلیمی میدان میں آگے نکلتی ہیں، یاجو فوجی مشقوں میں آگے بڑھ جاتی ہیں، یا پھرجوجسمانی ٹیسٹ میں آگے نکل جاتی ہیں ، لیکن ایسی خاتون صرف ایک ہے جو ہر شعبے میں یکساں طور پر آگے ہے ، جو بہترین ہے“۔
پھر وہ نور کا نام پکارتے ہیں۔ اور وہ ذرا سیدھی کھڑی ہوتی ہوئی اعزاز حاصل کرنے کے لیے مارچ کرتی ہوئی چل پڑتی ہے۔
بعد ازاں، جشن ویسا ہی ہوتا ہے جیساکسی بھی دوسری جگہ ہوسکتا ہے۔ کیڈٹس روتی ہیں،دوستوں کو گلے لگاتی ہیں، اور لان پر مسکراتی ہوئی اپنے والدین کو تلاش کرتی ہیں۔ نور کی والدہ اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتی ہیں۔ اس کے والد فخر کے جذبات سے لبریز ہوجاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ”یہ ایوارڈ جیتنا اتنا آسان نہیں ہے،اس کا مطلب ہے کہ ، وہ ایک فوجی ہی پیدا ہوئی تھی“۔
اپنے کمرے میں واپس پہنچ کر، نور اپنی وردی بدل کر سویلین کپڑے پہن لیتی ہے : ایک شوخ کُرتی اور جاذب نظر ٹراؤزر۔ وہ اپنی فوجی ٹوپی کی جگہ حجاب اوڑھ لیتی ہے۔ پھر، وہ اپنا ڈفل بیگ اُٹھاتی اور دروازہ بند کرنے سے پہلے کمرے پر آخری بار نظر ڈال لیتی ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط