Episode 33 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 33 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

 نہ ہی اس بات کا کوئی واضح ثبوت موجود ہے کہ واشنگٹن کے بیرون ملک منصوبوں میں کمی، دوستوں اور حریفوں کو اس کی ساکھ پر سوال کرنے کے مواقع فراہم کرے گی۔ بعض منفی پیش گوئیوں کے باوجود، سرد جنگ کے بعد مغربی یورپ سے امریکی مسلح افواج کے انخلاء سے نہ تو نیٹو کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی امریکہ کی ساکھ خراب ہوئی۔امریکہ کے فوجی دستوں اور جنوبی کوریا میں نئے سرے سے تعینات کیے جانے والے فوجی دستوں میں کمی سے بعض اوقات واشنگٹن اور سیول کے درمیان کشیدہ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
اسی طرح جاپان سے زیادہ دفاعی بوجھ برداشت کرنے کے مطالبات نے امریکہ اور جاپانی فوج کے گہرے انضمام کی راہ ہموار کی ہے۔آگے بڑھ کر دفاع پر اعتقاد کا تصور سرد جنگ کا اثاثہ ہے جس کی جڑیں ، سنگدل دشمنوں اور کم ہوتے ماتمی لباسوں سے جُڑی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ دنیا کی مخالفانہ سیاست کے لیے مناسب نہیں، جہاں متوازن اتحادعام طور پر نظر نہیں آتے، اور نظریاتی تنازعات نسبتاً نرم ہیں۔


کچھ دوسرے لوگ انتباہ کرتے ہیں کہ امریکی سیاسی نظام بہت زیادہ بکھرا ہوا ہے اور اس میں تخفیف کی ایک مربوط پالیسی پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔ اس تناظر میں، اگرخارجہ پالیسی سے جُڑی ساری برادری متفقہ طور پر بھی اس حکمت عملی کو اپنالے تب بھی لابنگ گروپوں اور بیوروکریسی پر قابو پانا بہت مشکل ہوگا جو زیادہ جارحانہ طریقہٴ کار کی حمایت کرتے ہیں۔
انتخابی دباوٴ زوال پذیر وسائل کی تشخیص کے بجائے منافع بخش دفاعی معاہدوں اورذاتی تعریف پرمبنی رٹی رٹائی تقاریر پر مائل رکھتا ہے۔رہنماؤں کی ترجیحات جو بھی ہوں، نوکر شاہی روایتی فیصلوں، پالیسی تبدیل نہ کرنے اور بڑے بجٹ کو جاری رکھنے کے لیے ہی دباؤ ڈالتی ہے…جن میں سے کوئی بھی خود کو محدود رکھنے کے دور میں زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکتی۔
 تاہم اس گہری جانبدار تقسیم کے باوجود، جب خارجہ پالیسی کی بات ہو تو، ریپبلکن اور ڈیموکریٹس اکثر ان اختلافات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے پہلے ادوار کے الگ تھلگ رہنے کے نظرئیے کو دوبارہ نہیں اپنایا…دونوں جماعتوں نے سوویت یونین کا راستہ روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر پروگرام شروع کرنے کی حمایت کی۔
1960 کی طوفان خیزدہائی کے دوران، سوویت یونین کے ساتھ اچھے تعلقات بڑھانے کے حق میں ایک اتفاق رائے اُبھر کر سامنے آیا تھا۔ نائن الیون کے حملوں نے القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کارروائی کے لئے دونوں جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کیا۔ پھر، 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے تناظر میں، ہر طرف کے سیاستدانوں نے افغانستان اور عراق کی جنگوں کو ختم کرنے کے کی ضرورت کو تسلیم کیا۔
جب خارجہ پالیسی کے محاذ پر مشکل چیلنج درپیش ہو تو، امریکی سیاستدان عام طور پر نظریاتی تقسیم کو ایک طرف رکھ کرمشترکہ پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں، جن کے تحت بعض اوقات امریکہ کے عالمی منصوبوں کو توسیع دی جاتی ہے اور کبھی ان کو محدود کیا جاتا ہے۔
آج، انتخابی دباوٴ خارجہ امور کے لئے ایک زیادہ درمیانے نقطہ نظر کی حمایت کرتا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کی 2009 کی ایک تحقیق کے مطابق، 70 فیصد امریکی اس حق میں تھے کہ ، امریکہ یا تو عالمی قیادت میں دیگر ممالک کو حصہ دار بنائے یا پھر اسے جانے دے۔
اور شکاگو کونسل آن گلوبل افےئرزکی 2010 کی ایک رپورٹ نے واضح کیا کہ ان(امریکی عوام) میں سے 79 فیصد یہ سوچتے تھے کہ امریکہ نے ضرورت سے زیادہ دنیا کے ”پولیس مین“ کا کردار ادا کیا ہے۔ یہاں تک کہ دفاعی بجٹ جیسے نازک امور پر بھی، عوام نے کمی کے حوالے سے غور کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ میری لینڈ یونیورسٹی کے عوامی مشاورت کے لئے پروگرام کے تحت 2010 میں کئے گئے ایک مطالعہ میں، 64 فیصد جواب دینے والوں نے کم سے بیس لائن دفاعی بجٹ میں 109 ارب ڈالر کی اوسط کٹوتی کی حمایت کرتے ہوئے، دفاعی اخراجات میں کمی کی توثیق کی۔
اصلاحات کی راہ میں ادارہ جاتی رکاوٹیں بہرحال موجودہیں۔ لیکن اس کے باوجود جب بھی صدور نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے، نوکر شاہی نے بڑی حد تک ان کی پیروی کی ہے۔صدر رونالڈ ریگن سے شروع ہوکر، مسلسل تین حکومتیں کانگریس کی مخالفت کو اپنے حق میں کرنے اورنئے سرے سے منصوبوں کو ترتیب دینے کے پروگرام کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہی ہیں، جس نے نتیجتاً بالآخر 100 فوجی اڈوں کی بندش کے ذریعے 57 ارب ڈالر کی بچت ممکن بنائی۔
اپنے 2010 کے دفاعی بجٹ میں، اوباما انتظامیہ شدید لابی کرنے والوں ، کانگریس کے ارکان، اور فضائیہ کی شدید مزاحمت کے باوجود اضافی ایف۔ 22 ریپٹرطیارے حاصل کرنے کے منصوبوں کو منسوخ کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ 2010 کے بجٹ میں بحریہ کے سٹیلتھ ٹکنالوجی کو تباہ کرنے والے بیڑوں، اور فوج کی انسان کی مدد سے چلنے والی زمینی گاڑیوں کی اگلی نسل کے مختلف پُرزوں کی خریداری میں کمی جیسے اقدامات بھی شامل تھے۔
چنانچہ، یہ دعوے بے بنیاد ہیں کہ تخفیف کی پالیسی سیاسی طور پر نا قابل عمل یا ناممکن ہے۔بالکل اسی طرح جیسے ایک زیادہ شائستہ خارجہ پالیسی سے عدم استحکام آئے گا اور نہ ہی زوال، اسی طرح ملک کے سیاسی عوامل بھی انتہائی اہم اصلاحات کو بروقت کرنے سے نہیں روکیں گے۔ ایک نیا راستہ بنانے کے لیے، امریکہ کے پالیسی سازوں کو صرف دُور اندیشی اور پختہ ارادے کی ضرورت ہوگی۔
حد میں رہنے کے فائدے
تخفیف کی پالیسی پر عمل درآمد کرنا ممکن ہو،تو بھی سوال یہ کہ، کیا یہ کام کرے گی؟ تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کام کرے گی۔ 1870 کے بعد سے، ایسے 18واقعات ہوئے ہیں جن میں ایک عظیم طاقت نے دوسری عظیم طاقتوں کے مقابلے میں جی ڈی پی کے معیار کے لحاظ سے اپنا مقام کھو دیا۔ ان زوال پذیر طاقتوں میں سے پندرہ نے تخفیف کی حکمت عملی کو کسی نہ کسی شکل میں اختیار کیا تھا۔
اس پالیسی نے ان ریاستوں کو زیادہ جارحیت سے دُور لے جاتے ہوئے فوجی تنازعات سے بچنے کی طرف مائل کیا، اور یہ پندرہ عظیم طاقتیں، تخفیف کی حکمت عملی پر عمل نہ کرنے والی دیگر تین طاقتوں…1880کی دہائی میں فرانس،1930کی دہائی میں جرمنی اور1990 کی دہائی میں جاپان… کی نسبت اپنے سابقہ مقام کو بحال کرنے میں کامیاب رہیں ۔یہ ریاستیں، ان 15 ریاستوں میں سے، تخفیف کی حکمت عملی اختیار کرنے والی تقریباً نصف ریاستوں کے برعکس، کبھی بھی اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل نہیں کرسکیں…مثال کے طور پر،1880کی دہائی میں روس اور بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں برطانیہ۔
 
تخفیف کی حکمت عملی کئی طریقوں سے کام کرتی ہے۔ ان میں سے ایک،وسائل اور منصوبوں کو بیرونی مفادات کے بجائے بنیادی مفادات کی طرف منتقل کرنا اورسب سے زیادہ اہم جغرافیائی اور فعال علاقوں میں سرمایہ کاری کو محفوظ بنانا، ہے۔ یہ حادثاتی جھڑپوں کے امکانات میں کمی کے ساتھ ساتھ علاقائی طاقتوں کی مخالفانہ انداز میں پیش آنے کی ترغیبات کو بھی کم کرتے ہوئے، بہت سے ممکنہ جنگ کے مقامات کو اُبھرتے ہوئے دشمنوں کے ساتھ جوڑنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
بلند ترین مرتبہ کسی ریاست کو وسیع اور مشکل علاقے کے دفاع پر مجبور کرتا ہے جبکہ تخفیف کی پالیسی اسے اہم خطرات کے خلاف اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر کارروائی کے قابل بناتی ہے۔تنازعہ بہرحال مکمل طور پر اختیاری نہیں ہوجاتا کہ بنیادی مفادات کو لاحق خطرات کے خلاف اقدامات ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن امریکہ کے لیے، تخفیف کی حکمت عملی مجموعی دفاعی بوجھ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ، ایک معمولی دلدل میں پھنسا شکار بننے کے خطرے کو بھی کم کرے گی۔
یہ امریکہ کے اتحادیوں کی بھی اجتماعی سلامتی کی مزید ذمہ داری سنبھالنے کے لئے حوصلہ افزائی کرے گی۔ اس طرح کا بوجھ کا اشتراک، امریکی ٹیکس دہندگان کے لئے زیادہ منصفانہ ہو گا، جو آج دنیا کو محفوظ بنانے کی خاطر ایک غیر متناسب بوجھ اپنے کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہیں۔ کیٹو انسٹیٹیوٹ کے کرسٹوفر پریبل کے مطابق، وہ ہر سال قومی دفاع کے اخراجات پورے کرنے کے لیے، ٹیکسوں میں سے ہر فرد کے لیے اوسطاً 2,065 ڈالرادا کرتے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں برطانوی باشندوں کے لیے فی فرد1,000 ڈالر،جرمن باشندوں کے لیے 430ڈالر اور جاپانی باشندوں کے لئے 340 ڈالر ادا کیے جاتے ہیں۔
دفاع پر کہیں کم خرچ کرنے کے باوجود، امریکہ کے روایتی حلیفوں کواپنے اہم مفادات کے تحفظ کے لئے بہت کم تکلیف اُٹھانا پڑتی ہے۔ کوئی ریاست مصدقہ طور پر مغربی یورپ کے ممالک یا جاپان کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہے، اور امریکی اتحادیوں کو اپنے وطن کی حفاظت کے لئے طاقت کے اظہار کی آزادانہ صلاحیتوں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
لیبیا میں نیٹو کی مداخلت کے حوالے سے بہت سے معاملات میں غلطی کی گئی ہے، لیکن اس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یورپی رکن ممالک ، امریکہ کے ثانوی کردار کے باوجود، پیچیدہ فوجی آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آگے بڑھتے ہوئے، امریکہ کی تخفیف کی حکمت عملی، امریکہ کے اتحادیوں کو مجبور کرے گی کہ وہ اپنی موجودہ صلاحیتوں میں اضافہ کریں اور اپنی جائز خواہشات کے اخراجات برداشت کریں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بنیادی طور پر ایک ہی مقاصد ہیں …جمہوریت، استحکام، اور تجارت۔ لیکن امریکہ دنیا بھر میں بیک وقت کئی کام انجام دینے کی وجہ سے ، اور بہت سی ریاستوں کو اُن کی سرزمین پر، یا اس کے نزدیک موجودگی کے سبب پریشان کرنے کی وجہ سے بھی، عجیب پوزیشن میں ہے۔کچھ ذمہ داریاں اتحادیوں کو سونپنے سے امریکی حکومت، مستحکم اور خوشحال معیشت کو یقینی بنانے جیسے اہم مقاصد پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہوسکے گی۔
علاقائی اتحادی، جو مقامی چیلنجز کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتے ہیں اوران سے اُن کے مفادات بھی وابستہ ہیں،اُنھیں زیادہ ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔ دوسروں کی طرف سے زیادہ اقدامات اور اپنی کم ناگوار موجودگی کے ساتھ، تخفیف کی حکمت عملی امریکہ کو اپنے قائدین کی ”چمک“ بحال کرنے کے قابل بھی بنائے گی۔
 زیادہ کفایت شعاری پر مبنی مستقبل
تخفیف کی پالیسی نافذ کرنے کے لیے امریکہ کو تین اہم اقدامات کرنے ہونگے: اپنے عالمی فوجی اثرات کو کم کرنا ہوگا، امریکی فوج کے حجم اور ساخت میں تبدیلی، اور اس پالیسی کے نتیجے میں ”تخفیف کے ثمرات“ کوملک میں اقتصادی بحالی کو فروغ دینے کے لیے استعمال میں لانا ہوگا۔
سب سے پہلے، امریکہ کواپنی مستقبل کی مہمات پر ضرور نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اولین ترجیح ،یورپ اور ایشیا میں اس کے اہم اقتصادی شراکت داروں کے خلاف جارحیت کی روک تھام ہونی چاہیے۔ یہ کام خاص مشکل نہیں ہے… ان علاقوں میں امریکی اتحادیوں کے لیے چند ہی مصدقہ خطرات ہیں، اور ان ریاستوں کو امریکہ کی مدد کی بہت کم ضرورت ہے۔
اگرچہ روس اپنے آس پاس کے علاقوں میں مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس نے فوری طور پر اپنے ہمسایہ ممالک کو مجبور کرنے کے لئے تیل اور گیس کی پابندیاں عائد کردی ہیں، مغربی یورپ کے وسائل جارح روس کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی سے زیادہ ہیں۔
ایک زیادہ خود مختار یورپ کو ایک مربوط سیکورٹی اور دفاعی پالیسی تیار کرنے کے لئے کچھ وقت لگے گا اورپھر وہ ہمیشہ واقعات کو واشنگٹن کی عینک کی مدد سے ہی نہیں دیکھا کرے گا۔ لیکن امریکہ پر یورپ کے انحصار کو کم کرنے سے یورپی ریاستوں کے لیے، دفاع پر زیادہ خرچ کرنے،اپنی فوجوں کو جدید بنانے، اور اپنی پالیسیوں اور صلاحیتوں کو بہتر طور پر باہم مربوط کرنے کے لئے مضبوط موقع پیدا ہو گا۔
یورپی سلامتی پر کوئی سمجھوتاکئے بغیر، یورپی تھیٹر میں امریکی فوج کو محفوظ طریقے سے40 سے50 فیصد کم کیا جا سکتا ہے۔
ایشیا بھی امریکی فوج کی موجودگی میں کمی کے لئے تیار ہے، اور واشنگٹن کو آہستہ آہستہ اپنی فوجیں واپس نکالنی شروع کر دینی چاہئیں۔اگرچہ چین نے اپنی فوج کو جدید بنانے کی ایک جرات مندانہ پالیسی اپنارکھی ہے اور وہ جنوبی بحر چین میں متواتر مشقوں میں مصروف ہے… تاہم، اس کے پاس طاقت کے اظہار کی صلاحیتیں محدود ہیں۔
جاپان اور جنوبی کوریا پہلے ہی دفاعی بوجھ کو اس کی نسبت کہیں زیادہ برداشت کررہے ہیں، جتنا وہ سرد جنگ کے دوران اُٹھا رہے تھے۔ بھارت، فلپائن، اور ویتنام …امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ علاقائی سلامتی کو فروغ دینے میں مشترکہ مفاد کو دیکھتے ہوئے، ان تعلقات کو ،سرد جنگ کی طرح فوجوں کی غیر معینہ تعیناتی اور لامحدود منصوبوں کے بجائے، دوطرفہ سیاسی اور اقتصادی معاہدوں کے ذریعے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
ایسی کسی بھی صورت میں کہ اگر چین بے قابوہو جاتا ہے، اس کی سرحدوں پر موجود امریکی اتحادی ایک قدرتی ابتدائی انتباہ کے نظام اور پہلی دفاعی لائن کے طور پر کام کرینگے، اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی ضروری امریکی ردعمل کے لئے مرکز رسد اور مالی امداد فراہم کریں گے۔تاہم ابھی تک ایسے حالات کا وقوع پذیر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔موجودہ حالات کے لئے،بہت کم خرچ متبادل موجود ہیں جو موجودہ دفاعی حدکو مضبوط کر سکتے ہیں، جیسے کہ ٹیکنالوجی کی منتقلی، ہتھیاروں کی فروخت، اور سفارتی ثالثی ۔
جاپان اور جنوبی کوریا کی علاقائی سالمیت کے دفاع اور چین یا شمالی کوریا کی جارحیت کی روک تھام کے لیے مضبوط وسائل کی حامل برق رفتاری سے جواب دینے کی صلاحیت رکھنے والی فوج کی ضرورت ہے، نہ کہ 30ہزار فوجیوں کی، جو فی الوقت ہر ملک میں تعینات ہیں۔ ان فوجوں کے 20فیصد کو نکال کر ،جبکہ دیگر کو گوام یا ہوائی میں ازسر نو تعینات کرکے زیادہ موٴثر طریقے سے یہی نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
 
غیرممالک میں ان مہمات کو کم کرکے نمایاں بچت ہوسکے گی۔ دفاع کے متبادل طریقوں پر پروجیکٹ کی طرف سے 2010 میں شائع ہونے والی مشترکہ ٹاسک فورس کی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا کہ صرف یورپ اور ایشیا میں تعینات 50 ہزارحاضر ڈیوٹی فوجیوں کو واپس بُلا کر کم از کم 12 ارب ڈالر سالانہ بچائے جاسکتے تھے۔ امریکی فوج کی تعداد میں کمی سے بالواسطہ طور پر بھی کئی چیزوں کی بچت ہوگی، جیسے کہ اہلکاروں ، بحالی کے کام، اور سامان کی لاگت میں کمی۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط