Episode 10 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 10 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

اختیارات کی مختلف سیاسی اداروں میں تقسیم اُنھیں پورے نظام کی کارروائی روکنے کے قابل بھی بنادیتی ہے۔ امریکی سیاسی نظام میں یہ چیک اینڈ بیلنس (پابندیاں) جنہیں ماہرسیاسیات ”ویٹو پوائنٹس“ کہتے ہیں، دیگر ہم عصر جمہوریتوں سے کہیں زیادہ ہیں، جو اجتماعی عمل کی لاگت کو بڑھادیتی ہیں اور بعض معاملات میں تو اسے بالکل ہی ناممکن ہی بنادیتی ہیں۔
امریکی تاریخ کے پہلے ادوار میں، جب کوئی جماعت غالب رہتی یا دوسری، تو اس نظام نے عوام کی اکثریت کی مرضی کو اعتدال میں رکھنے کا کام کیا، اور اسے مجبور کیا کہ وہ اقلیت کی طرف اتنی زیادہ توجہ دے، جتنی شاید دوسری صورت میں وہ نہ رکھ پاتی۔لیکن زیادہ یکساں طورر پر متوازن، ایک انتہائی مسابقتی پارٹی نظام میں،جو 1980کی دہائی کے بعد وجود میں آیا ہے،یہ ایک تعطل کا فارمولہ بن گیا ہے۔

(جاری ہے)


 اس کے برعکس،نام نہاد ویسٹ منسٹر نظام، جو انگلینڈ میں 1688 کے انقلاب کے بعد کے شاندار برسوں کے دوران اُبھر کر سامنے آیا، وہ جمہوری دنیا میں سب سے زیادہ فیصلہ کن ہے کیونکہ اپنی خالص شکل میں، یہ بہت ہی کم ویٹو پوائنٹس رکھتا ہے۔برطانوی شہریوں کے پاس، حکومت کی جانچ پڑتال کا ایک ہی بڑا اور رسمی طریقہ ہے، یعنی ایک مقررہ مدت کے بعد پارلیمان کو دوبارہ منتخب کرنے کی طاقت۔
(برطانیہ میں آزاد میڈیا کی روایت ایک اور اہم رسمی جانچ پڑتال کا طریقہ ہے)۔ تاہم دیگر تمام معاملات میں، نظام طاقت کو کم کرنے کے بجائے اس پر توجہ مرکوز کرتا ہے ۔ خالص ویسٹ منسٹر نظام میں صرف ایک، سب سے زیادہ طاقتور، ایوان زیریں ہے۔کوئی علیحدہ ایوان صدارت، کوئی طاقتور ایوان بالا، کوئی تحریری آئین اور اسی وجہ سے کوئی عدالتی نظرثانی، اور کوئی وفاقی یا علاقائی اختیارات کی آئینی طور پر لازمی منتقلی نہیں ہے۔
اس کا کثرت رائے پر مبنی ووٹنگ کا نظام ہے، جو مضبوط پارٹی ڈسپلن کے ساتھ ملکر، دو جماعتی نظام اور مضبوط پارلیمانی اکثریت پیدا کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔ cloture کی طرزکے برطانوی قانون کے لئے پارلیمنٹ کے ارکان کی صرف سادہ اکثریت کا سوال کے لیے موجود ہونا ضروری ہے… امریکی طرز پر مجلس قانون ساز میں اقلیتی گروہ کی موجودگی کی اجازت نہیں ہے۔
پارلیمانی اکثریت مضبوط انتظامی قوت کی حامل حکومت کا انتخاب کرتی ہے، اور جب یہ حکومت ایک قانون سازی پر مبنی فیصلہ کرتی ہے، تو اسے عام طور پر عدالتوں، ریاستوں، بلدیات، یا دیگر اداروں کی طرف سے تعطل کا شکار نہیں کیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ برطانوی نظام کو اکثر ایک ”جمہوری آمریت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ویسٹ منسٹر نظام اپنی تمام تر مرکوز قوتوں کے باوجود بنیادی طور پر جمہوری رہتا ہے کیونکہ،اگرووٹر اپنی منتخب کردہ حکومت کو پسند نہ کریں تو وہ ووٹ کے ذریعے اسے اختیارات سے محروم کرسکتے ہیں۔
بلکہ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وہ صدارتی مدت کے ختم ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے ایسافوری طور پر کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں کسی مفاد رکھنے والے(انٹرسٹ) گروپ یا لابی کی نسبت خاص طور پر اپنی عمومی کارکردگی کے تاثر کے بارے میں زیادہ حساس ہیں۔
ویسٹ منسٹر نظام امریکہ میں تشکیل پانے والی حکومتوں سے زیادہ مضبوط حکومتیں پیدا کرتا ہے، جیسا کہ ان کے بجٹ کے عمل کا موازنہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔
برطانیہ میں قومی بجٹ کابینہ اور وزیر اعظم کی ہدایات کے تحت پیشہ ور سرکاری ملازمین تیار کرتے ہیں۔اس کے بعد بجٹ خزانے کے چانسلر کی طرف سے ہاؤس آف کامن میں پیش کیا جاتا ہے، جو ہاتھ اُٹھانے یا نیچا رکھنے کے سادہ طریقے سے ووٹنگ کے ذریعے اس کی منظوری دیتا ہے، عام طور پر ایک یا دو ہفتے کے اندر۔
امریکہ میں، اس کے برعکس، کانگریس کو بجٹ پر سب سے امتیازی حق حاصل ہے۔
امریکی صدور ابتدائی تجاویز ضرور پیش کرتے ہیں، لیکن یہ زیادہ تر خواہشات پر مبنی دستاویزات ہوتی ہیں جو آخر میں اُبھر کر سامنے آنے والی بات کا تعین نہیں کرتیں۔ایگزیکٹو برانچ کے مینجمنٹ اور بجٹ کے ادارے کوبجٹ پر کوئی رسمی اختیار حاصل نہیں ہے، اور وہ ایک عام لابنگ تنظیم کے طور پرکام کرتے ہوئے صدر کی ترجیحات کی حمایت کرتا ہے۔ بجٹ… کمیٹیوں کی ایک پیچیدہ سیٹ کے ذریعے کئی ماہ کے عرصے میں اپنا راستہ بناتا ہے، اور جو آخر میں کانگریس کے دونوں ایوانوں کی طرف سے منظوری کے لئے اُبھر کر سامنے آتا ہے،وہ ماورائے شمار معاہدے کی صورت میں ہوتا ہے،جو انفرادی ارکان کو اپنی حمایت کی حفاظت کرنے پر مجبور کردیتے ہیں…کیونکہ کوئی جماعتی نظم و ضبط نہ ہونے کی وجہ سے، کانگریس کی قیادت اپنی ترجیحات کی حمایت کرنے پر اراکین کو مجبور نہیں کر سکتی۔
امریکی بجٹ کے عمل کا آزادانہ پن اور کبھی نہ ختم ہونے کے کردار،لابی کرنے والی تنظیموں اور مفاد رکھنے والے (انٹرسٹ گروپوں) کو ایک سے زیادہ ایسے نقاط فراہم کردیتا ہے کہ جن پر وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکے۔ زیادہ تر یورپی پارلیمانی نظاموں میں،مفاد رکھنے والے گروپ کا پارلیمنٹ کے ایک انفرادی رکن کے لیے لابی کرنا غیرمنطقی ہے، کیونکہ پارٹی کے نظم و ضبط کے قواعد قانون ساز کو پارٹی قیادت کی پوزیشن پر کوئی زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے نہیں دے گا۔
امریکہ میں، اس کے برعکس ، ایک بااثر کمیٹی کی چےئرمین شپ کے پاس قانون سازی میں تبدیلی کرنے کے انتہائی زیادہ اختیارات ہیں، اسی لیے وہ لابنگ کی سرگرمیوں کا ہدف بن جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ جمہوریتوں کو درپیش چیلنجز میں سے، ایک سب سے اہم مسئلہ موجودہ فلاحی ریاست کے لیے اپنے وعدوں کو مستحکم بنانا ہے۔معاصر فلاحی ریاستوں میں موجودہ اہم سماجی معاہدہ پر کئی نسلوں پہلے گفت و شنید کرلی گئی تھی، اس وقت جب شرح پیدائش بلند تھی، عرصہ حیات کم تھا، اور اقتصادی ترقی کی شرح مضبوط تھی۔
سرمایہ کی دستیابی نے تمام جدید جمہوریتوں کو اس مسئلے کو مستقبل کی طرف کھینچتے رہنے پر مائل رکھا ہے،لیکن کسی نہ کسی موڑ پر، بنیادی آبادیاتی حقیقت سامنے آجائے گی۔
یہ مسائل ایسے نہیں ہیں کہ جنہیں حل نہ کیا جاسکے۔ برطانیہ اور امریکہ دونوں کے ہی جی ڈی پی پر قرضوں کی شرح دوسری عالمی جنگ سے باہر آنے پر اس سے کہیں زیادہ تھی جتنی آج ہے۔
سویڈن، فن لینڈ، اور دیگر سکینڈی نیوین ممالک نے 1990 کی دہائی کے دوران آنے والے بحران میں ہی اپنی بڑی فلاحی ریاست کو حاصل کیا اور وہ اپنے ٹیکس اور اخراجات کی سطح کو ٹھیک کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ آسٹریلیا نے اس صدی کے ابتدائی سالوں کے دوران، بھاری وسائل کے عروج سے بھی پہلے، اپنے تقریباً تمام بیرونی قرضوں کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
لیکن ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک صحت مند، اچھی طرح سے کام کرنے کے قابل سیاسی نظام کی ضرورت ہوتی ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پاس فی الحال نہیں ہے۔ کانگریس نے اپنی سب سے اہم بنیادی ذمہ داریوں سے انحراف کیا ہے،اور وہ مسلسل کئی سال سے منظم طور پر بجٹ کی منظوری کے اپنے قوانین پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
 کلاسک ویسٹ منسٹر نظام اب برطانیہ سمیت دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔
کیونکہ برطانیہ نے آہستہ آہستہ زیادہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو اپنالیا ہے۔ بہر حال، برطانیہ اب بھی اس سے کہیں کم ویٹو پوائنٹس رکھتا ہے جتنے کہ امریکہ میں ہیں یا یورپ اور ایشیا کے زیادہ تر پارلیمانی نظام رکھتے ہیں۔ (کچھ لاطینی امریکی ممالک کو،جنہوں نے انیسویں صدی میں امریکہ کے صدارتی نظام کی نقل کی تھی، ایسے ہی تعطل اور سیاسی انتظامیہ کے مسائل درپیش ہیں۔
)
بجٹ ہی حکومت کا وہ پہلو نہیں ہے، جسے امریکہ میں مختلف طور پر سنبھالا جاتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں، زیادہ ترقانون سازی ٹیکنوکریٹس کے ساتھ ملکرمستقل سرکاری ملازمین کے ذریعے انجام پاتی ہے۔ وزارتیں ،اُن وزیروں کے ذریعے جو ان کے سربراہ ہیں…پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں، اور اس وجہ سے بالآخر ووٹروں کو جوابدہ ہیں۔ لیکن اس طرح کا درجہ بندی پر مبنی نظام ایک طویل المیعاد اسٹریٹجک نقطہ نظر اور زیادہ مربوط قانون سازی کا باعث بن سکتا ہے۔
واشنگٹن کے سیاسی کلچر کے لیے ایسا نظام بالکل اجنبی ہے جہاں کانگریس انتہائی تنگ نظری سے اپنے قانون سازی کے حق کی حفاظت کرتی ہے…حالانکہ اکثر ایک بے ربط پیداوار ہی وہ چیز ہے جو ایک بڑی،بے ڈھنگی اور کم جواب دہ حکومت کا باعث بنتی ہے۔ کانگریس کی مشترکہ کمیٹیاں اکثر ایک جیسے اور ایک دوسرے سے متصادم پروگرام ترتیب دیتی ہیں، یا ایک ہی مقصدکے لیے کئی کئی ایجنسیاں بنادیتی ہیں۔
مثال کے طور پر پنٹاگان، قریب 500منصوبوں کے مینڈیٹ کے ساتھ بے شمار ایشوز پر سالانہ کانگریس کو رپورٹ کرتا ہے۔ یہ ذمہ داریاں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور انکو جاری رکھنے پر بہت سا وقت اور قوت صرف ہوتی ہے۔ کا نگریس نے ملازمین کی ازسر نو تربیت کے 50اور اساتذہ کا معیار بہتر بنانے کے لیے 82 الگ الگ منصوبے تشکیل دے رکھے ہیں۔
مالیاتی شعبے کے قوانین… فیڈرل ریزرو، محکمہ خزانہ، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، فیڈرل ڈپازٹ انشورنس کارپوریشن، نیشنل کریڈٹ یونین ایڈمنسٹریشن، کماڈٹی فیوچر ٹریڈنگ کمیشن، فیڈرل ہاوٴسنگ فنانس ایجنسی، اور بینکنگ سیکٹر کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرنے والے ریاستی اٹارنی جنرل حضرات کے تحت تقسیم ہیں۔
وفاقی ایجنسیوں کی نگرانی کانگریس کی مختلف کمیٹیاں کرتی ہیں،جو اپنا دائرہ اختیار کسی زیادہ مربوط اور متحد ریگولیٹر کو دینا پسند نہیں کرتیں۔ یہ نظام اتنا آسان تھا کہ کھیل کھیل ہی میں، 1990کی دہائی کے اواخر میں مالیاتی شعبے کی ڈی ریگولیشن کردی جاتی،مگرحالیہ مالیاتی بحران کے بعد اسے دوبارہ ریگولیٹ کرنا بہت زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے ۔
کانگریس کے وفود
ویٹوکریسی، امریکی سیاسی نظام کی صرف آدھی کہانی ہے۔دوسرے معاملات میں، کانگریس ایگزیکٹو برانچ کو بہت زیادہ اختیارات منتقل کرتی ہے، جو موخرالذکر( ایگزیکٹو برانچ) کو تیزی سے اور کبھی کبھی بہت کم سطح کی جواب دہی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔اس طرح کے اختیارات کی منتقلی کے شعبے…جن میں فیڈرل ریزرو، انٹیلی جنس ایجنسیاں، فوج،نیم خودمختارکمیشن اور ریگولیٹری ایجنسیاں شامل ہیں، جو ایک دوسرے کے ساتھ ملکر وہ بڑی انتظامی ریاست قائم کرتے ہیں…جو ترقی کی طرف سفر کے دور اور اور نیوڈیل کے دوران اُبھر کر سامنے آئی۔
 
 جبکہ امریکہ کی لبرل اور کنزرویٹو دونوں جماعتوں کے بہت سے لوگ مکمل طور پر ان ایجنسیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں، یہ دیکھنا بہت مشکل ہے کہ ان کے بغیر جدید حالات کے تحت مناسب طریقے سے حکومت کرنا کیسے ممکن ہوسکے گا۔ امریکہ آج ایک غیر معمولی پیچیدہ قومی معیشت رکھتا ہے، جو بہت تیز رفتار سے آگے بڑھتی ایک گلوبلائزڈ دنیا کی معیشت سے جُڑی ہے۔
لیاتی بحران کے شدید مرحلے کے دوران، جو ستمبر 2008 میں لیہمن برادرز کے خاتمے کے بعد سامنے آیا،فیڈرل ریزرو اور محکمہ خزانہ کو راتوں رات بڑے پیمانے پر فیصلے کرنے پڑے، ایسے فیصلے جو مارکیٹوں میں لیکویڈیٹی کی مد میں کھربوں ڈالر فراہم کرنے، انفرادی بینکوں کو سہارا دینے اور نئے ضابطے نافذ کرنے سے متعلق تھے۔ بحران کی شدت نے کانگریس کو مشکلات کے شکار ایسیٹ ریلیف پروگرام کے لئے 700 ارب ڈالر جاری کرنے پر مجبور کردیا، جو زیادہ تر بش انتظامیہ کے کہنے پر کیا گیا۔
اس مدت کے دوران انفرادی فیصلوں کے حوالے سے بہت سے دوسرے اندازے لگائے گئے ہیں، لیکن یہ خیال کہ اس طرح کے بحران کا حل حکومت کے کسی بھی دوسرے حصّے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے ، انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ یہی اصول قومی سلامتی کے مسائل، پر لاگو ہوتا ہے۔جہاں عملی طور پر صدر کو یہ فیصلے کرنے کا اختیارسونپا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر لاکھوں امریکیوں کی زندگی کو متاثر کرنے والے جوہری اور دہشت گردی کے خطرات کا جواب کس طرح دیناہے، اسی وجہ سے فیڈرلسٹ پیپر نمبر 70میں، الیگزینڈر ہیملٹن، نے ”ایگزیکٹو میں قوت“ کی ضرورت کی بات کی تھی۔
امریکہ میں اعلیٰ اداروں کے بارے میں شدید عوامی بد اعتمادی پائی جاتی ہے، اور اس کے ساتھ انہیں ختم کرنے( جیسے کہ فیڈرل ریزرو کے معاملے میں) یا زیادہ شفاف بنانے کا مطالبہ پایا جاتا ہے۔تاہم،ستم ظریفی یہ ہے،کہ عوامی رائے پر مبنی سروے خاص طور پر ان اداروں کے لئے منظوری ظاہر کرتے ہیں، جو فوری جمہوری نگرانی کے ضمن میں کم اہم ہیں،جیسے کہ ملٹری یا ناسا۔
جس وجہ سے اُن کی تعریف کی جاتی ہے اُس کا کچھ تعلق اس سے ہے کہ وہ درحقیقت کام کر سکتے ہیں۔اس کے برعکس، سب سے زیادہ جمہوری ادارہ، یعنی ایوان نمائندگان، پریشان کن طور پر کم درجے کی منظوری حاصل کرپاتا ہے، اور کانگریس کو زیادہ وسیع پیمانے پر(جو غلط نہیں ہے) ایک باتیں کرنے والی دکان تصور کیا جاتا ہے، جہاں حمایت حاصل کرنے کا کھیل کسی بھی مفید کام کو ممکن ہی نہیں ہوتا۔
مکمل تناظر میں، امریکی سیاسی نظام ایک پیچیدہ تصویر پیش کرتا ہے،جس میں چیک اور بیلنس کا طریقہ کار اکثریت کی طرف سے فیصلہ سازی پر ضرورت سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، لیکن جس میں غیر تسلی بخش جوابدہ اداروں کو ممکنہ طور پر خطرناک اختیارات دئیے جانے کے بہت سے واقعات بھی ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اختیارات کی منتقلی کے عمل کو شاذ و نادر ہی شفاف بنایا جاتا ہے۔
کانگریس اکثر واضح قانون سازی پر مبنی رہنمائی فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری میں ناکام رہتی ہے کہ کسی خاص ایجنسی کو اپنا کام کیسے انجام دینا ہے، اور وہ یہ کام خود اسی ایجنسی پر چھوڑ دیتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرے۔ایسا کرتے ہوئے کانگریس یہ اُمید کرتی ہے کہ اگر کام درست طریقے سے نہ ہوا تو عدالت خلاف ورزیوں کو درست کرنے کے لیے مداخلت کرے گی۔
اس طرح ضرورت سے زیادہ اختیارات کی منتقلی اور ویٹوکریسی آپس میں گڈمڈ ہوجاتے ہیں۔
پارلیمانی نظام میں، اکثریتی جماعت یا اتحاد براہ راست حکومت کو کنٹرول کرتا ہے…پارلیمنٹ کے ارکان وزیر بن جاتے ہیں،جو اپنے زیر کنٹرول بیوروکریسی کے قوانین کو تبدیل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔پارلیمانی نظام،اس وقت رُک سکتا ہے جب جماعتیں زیادہ بکھری ہوئی اور اتحاد غیر مستحکم ہوں جیسا کہ اٹلی کا معاملہ رہا ہے۔
لیکن ایک بار جب پارلیمانی اکثریت قائم ہوجائے،توایگزیکٹو ایجنسی تک نسبتاً براہ راست اختیارات منتقل ہوجاتے ہیں۔
تاہم صدارتی نظام میں اس طرح اختیارات کی منتقلی مشکل کام ہے۔کسی قانون ساز کے کام کرنے کی نااہلی کا واضح حل یہ ہے کہ کسی الگ طور پر منتخب ایگزیٹو کو ختیارات منتقل کردئیے جائیں۔ لاطینی امریکہ کے ممالک صدارتی نظام کے ساتھ تعطل اور غیر موٴثر قانون سازوں کے لئے بدنام ہیں اور اکثر پریشان کن حالات میں صدور کو ہنگامی اختیارات دیتے رہے ہیں۔
جنھوں نے نتیجتاً دوسری قسم کی خلاف ورزیوں کو جنم دیا ہے۔تقسیم حکومت کے ضوابط کے تحت ، جب کانگریس کے دونوں ایوانوں کو کنٹرول کرنے والی جماعت،ایوان صدارت کو کنٹرول کرنے والی جماعت سے مختلف ہو…تو کانگریس کی قیمت پر ایگزیکٹو کو مضبوط کرنا، حمایت کے حصول کے لیے جماعتی سیاست کا معاملہ بن جاتا ہے۔صدر باراک اوباما کو زیادہ اختیارات منتقل کرنا وہ آخری کام ہے جو آج ہاوٴس آف ریپبلکن کرنا چاہتا ہے۔
بہت سے معاملات میں، چیک اینڈ بیلنس پر مبنی امریکی نظام پارلیمانی نظام کے مقابلے میں ناموافق ثابت ہوتا ہے، خاص طور پر جب قانون اور احتساب کے ساتھ مضبوط ریاستی کارروائی کی ضرورت کو متوازن بنانے کی صلاحیت کا معاملہ درپیش ہو۔ پارلیمانی نظام تقریباً اسی طرح انتظامی معاملات کو عدالتی کارروائی سے مشروط نہیں کرتے ہیں…جتنا کہ اُنھوں نے سرکاری ایجنسیوں کو کم وسیع کیا ہے ،وہ زیادہ معقول قانون سازی لکھتے ہیں، اور مفادات رکھنے والے (انٹرسٹ) گروپ کے اثر و رسوخ کا کم نشانہ بنتے ہیں۔
جرمنی، ہالینڈ، اور سکینڈی نیوین ممالک، خاص طور پر حکومت پر اعتماد کی بہترین سطح قائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں، جو عوامی معاملات کا انتظام کم معاندانہ، زیادہ اتفاق پر مبنی، اور عالمگیریت کے بدلتے ہوئے حالات کو اپنانے کے بہتر قابل بناتا ہے۔(تاہم اعتماد کی بلند سطح نسبتاً چھوٹے اوریکساں معاشروں میں بہترین طور پر کام آتی ہے،اور یہ چیزیں ان ملکوں میں معدوم ہوتی لگ رہی ہیں کیونکہ ان کے معاشرے امیگریشن اور ثقافتی تبدیلی کے نتیجے میں زیادہ متنوع بن گئے ہیں )۔
یہ تصویر یورپی یونین کے معاملے میں مجموعی طور پر تھوڑا سی مختلف لگتی ہے۔مثال کے طور پر،حالیہ دہائیوں کے دوران یورپ میں لابنگ گروپوں کی تعداد اوران کی نفاست میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان دنوں، کارپوریشنز، تجارتی انجمنیں، اور ماحولیات، صارفین، اور مزدوروں کے حقوق کے گروپ ، تمام قومی اور یورپی یونین کی وسیع سطح پر کام کررہے ہیں۔
اور پالیسی بنانے کا کام، ان ممالک کے دارالحکومتوں سے دُور برسلزمیں منتقل ہونے کے ساتھ، مجموعی طور پر یورپی نظام مایوسانہ طریقے سے امریکہ کی مشابہت اختیار کرنا شروع ہوگیا ہے۔ ہوسکتا ہے،یورپ کے انفرادی پارلیمانی نظام ، چیک اینڈبیلنس پر مبنی امریکی نظام کے مقابلے میں کم ویٹو پوائنٹس مہیا کرتے ہوں، لیکن ایک بڑی یورپی تہہ کے ساتھ، اس میں بہت زیادہ ویٹو پوائنٹس شامل کردئیے گئے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ یورپی انٹرسٹ گروپ تیزی سے اپنی دکان سجانے کے قابل ہورہے ہیں…اگروہ قومی سطح پر سازگار سلوک حاصل نہیں کر سکتے، تو وہ برسلز جاسکتے ہیں، یا اس کے برعکس معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین کی ترقی نے بھی عدالتی کردار کے اعتبار سے یورپ کو امریکہ نما کردیا ہے۔اگرچہ یورپی جج اپنے امریکی ہم منصبوں کے مقابلے میں خود کو سیاست میں ملوث کرنے سے زیادہ تر گریزاں رہتے ہیں،یورپی قوانین کے نئے ڈھانچے نے،اپنے ایک سے زیادہ اور باہم متصادم درجوں کے ساتھ نظام میں عدالتی ویٹوز کو کم کرنے کے بجائے ان کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط