Episode 61 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 61 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

جانسن کی نظر میں، سرد جنگ کا خاتمہ امریکہ کے لیے عالمی حکمرانی کے موقع اور بحران دونوں کی نمائندگی کرتا تھا…ایک موقع اس لیے کیونکہ سوویت یونین کے حلقہ اثر میں شامل ممالک اب عالمی شاہی توسیع کے لیے کھلے تھے،اور بحران اس لیے کیونکہ سوویت یونین کے زوال نے بحری اڈوں، ہوائی راستوں، فوج چھاوٴنیوں، رابطے سننے کے جاسوسی نظام، اور اسٹریٹجک محصور علاقوں کا جواز ختم کردیا۔
یہ بحران بالآخر 11 ستمبر(نائن الیون) کے دہشت گرد حملوں کے ساتھ ہی حل ہوسکا۔صدر بش کے ہاتھ اچانک امریکی فوجی تسلط کو بڑھانے کے لئے ایک بہانا آگیا تھا۔ 11 ستمبر(نائن الیون) نے امریکہ کو اتحاد پر مبنی شراکت داری کے پردوں کو ہٹادینے کا موقع بھی فراہم کردیا۔ واشنگٹن اب بین الاقوامی وعدوں، معاہدوں، اور قانون سے خود کو ماورا قرار دیتے ہوئے براہ راست سامراجی حکمرانی شروع کر سکتا تھا۔

(جاری ہے)


بدقسمتی سے، جانسن اس بارے میں کوئی معقول نظرئیہ فراہم نہیں کرتے کہ امریکہ سلطنت کے قیام کی کوشش کیوں کرتا ہے۔ ایک جگہ، وہ کہتے ہیں کہ امریکی فوجی سلطنت”مفادات، وعدوں، اور منصوبوں کے ایک وسیع پیچیدہ نظام“پر قائم ہوچکی ہے۔ اڈوں پر مشتمل سلطنت فوجی اسٹیبلشمنٹ میں باقاعدہ ادارہ کی صورت اختیار کرچکی ہے اور وہ اپنے طور پرزندہ ہے۔
تاہم،امریکی سیاست کے اندر موجود طاقتوں میں سلطنت کی حمایت یا مخالفت کے حوالے سے کوئی بحث نہیں پائی جاتی،جس سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے جانسن ہر جگہ اور ہر اس کام میں جو امریکہ کرتا ہے، سامراجی نظام پاتے ہیں،آزاد مارکیٹ اورعالمی اقتصادی انضمام کو گلے لگانے سے لیکر محدود اقتصادی فوائد کی پالیسی اختیار کرنے جیسے اقدامات میں بھی۔
جانسن اُن معاشروں کے بارے میں بھی تھوڑا بہت اظہار خیال کرتے ہیں جنہیں واشنگٹن کے انگوٹھے کے نیچے تصور کیا جاتا ہے۔
بلاشبہ تسلط اور استحصال، ہمیشہ واضح طور پر آشکار نہیں ہوا کرتے ہیں۔فوجی معاہدے اور سیکورٹی شراکت داری واضح طور پر امریکہ کی عالمی طاقت کے ڈھانچے کا حصہ ہیں، اور وہ امریکی اثر و رسوخ کو فروغ دینے کے لئے اکثر نازک اور بدعنوان حکومتوں کو مضبوط بناتے ہیں۔ لیکن یہ ممالک امریکہ کے ساتھ سیکورٹی تعلقات کو اپنے فائدہ کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
جیسے ہوسکتا ہے جاپان امریکہ کا ماتحت سیکورٹی پارٹنر ہو، لیکن امریکہ جاپان اتحاد نے ٹوکیو کو فوج کی صلاحیت میں مہنگے اضافے کو بھول جانے کے قابل بنادیا ہے، جو مشرقی ایشیا کو غیر مستحکم بھی کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ان ممالک کے پاس دوسرے راستے بھی موجودہیں، وہ امریکی تسلط سے بچنے کے لیے امریکہ کو اپنے ملک سے نکلنے کے لیے کہہ سکتے ہیں اور ایسا اکثر کرتے بھی ہیں: فلپائن نے ایسا ہی کیا تھا، اور جنوبی کوریا ایسا کرنے والا اگلا ملک ہو سکتا ہے۔
دوسری ریاستوں کے ساتھ امریکہ کے مختلف قسم کے اور پیچیدہ سیکورٹی تعلقات، فوجی حکمرانی سے متعلق جانسن کے سادہ نقطہ نظر کو گمراہ کن بنادیتے ہیں۔
اصل میں، امریکی اتحاد کے نظام نے…نصف صدی کے بعد بھی نمایاں طور پر برقرار رہتے ہوئے… ایک مستحکم، آزاد سیاسی جگہ بنانے میں مدد دی ہے۔باہمی تعاون پر مبنی سیکورٹی صرف امریکی تسلط کا ہتھیار نہیں ہے،بلکہ یہ سیاسی طرزتعمیر کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
لیکن جانسن امریکہ کی حمایت پر مبنی بین الاقوامی نظام کو گہرائی اور پیچیدہ شکل دینے والے کثیر جہتی قوانین اور اداروں کی وسیع تر پیچیدگی کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ آخر میں، یہ واضح نہیں ہوتا کہ امریکہ کیا کر سکتا ہے۔نہ تو وہ اپنی سرحدوں میں واپس پیچھے جاسکتا ہے اور نہ ہی باہر نکلنے سے رُک سکتا ہے…تو پھر جانسن کی مذمت سے اس کو کیا چیز بچائے گی۔
 امریکی امن
Colossus میں، نی آل فرگوسن دلیل دیتے ہیں کہ امریکہ یقیناً ایک سلطنت ہے اور ایک طویل عرصہ سے ہے۔تاہم فرگوسن کے نزدیک،یہ ایک لبرل سلطنت ہے جو قوانین اور اداروں کو برقرار رکھتی ہے اور، امن برقرار رکھتے ہوئے بحری و فضائی آزادی کو یقینی بناتی، بین الاقوامی تجارت اور مالیات کے نظام کے انتظام کے ذریعے عوامی مال کے حقوق تسلیم کرتی ہے۔
امریکہ ،برطانیہ کے عالمی نظام حکومت کا نامکمل لیکن قدرتی وارث ہے،یہ زیادہ آزادی پسند اورسب کو ساتھ لیکر چلنے والا ہے اور غیر رسمی اصولوں کی طرف مائل ہے۔ اسی کے مطابق، فرگوسن کو زیادہ یہ فکر نہیں ہے کہ دنیا بہت زیادہ امریکی سلطنت بن جائے گی بلکہ یہ ہے کہ اسے کافی کچھ نہیں ملے گا۔ امریکی رہنما، اپنے تمام تر رحم دلانہ جذبات پر مبنی ارادے لئے، کبھی کبھارمعمولی توجہ دیتے ہیں اور”ڈانواڈول“ طریقے سے کام کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔
 فرگوسن کے خیال میں،امریکہ ماضی کی سلطنتوں جیسی بہت سی خصوصیات رکھتا ہے۔ روم کی طرح،یہ قابل ذکر طور پر آزاد شہریت کا اصول رکھتا ہے۔ فرگوسن لکھتے ہیں”جامنی دل اور امریکی شہریت، گزشتہ سال عراق میں تعینات فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو ایک ساتھ دیئے گئے تھے، بالکل اسی طرح جیسے لشکر میں خدمات انجام دینا کبھی رومن شہری بننے کا ایک راستہ تھا“۔
”بے شک، دارالحکومت کے کلاسیکی فن تعمیر اور اپنے آئین کی ریپبلکن ساخت کے اعتبارسے، امریکہ کسی بھی سابقہ سلطنت کی نسبت شاید ”نیا روم“ زیادہ ہے…البتہ ایک ایسا روم، جس میں سینیٹ نے اس طرح اب تک اپنی گرفت کو برقرار رکھا ہے جیسے شہنشاہ رکھتے ہونگے۔“امریکہ کی زبان، خیالات، اور ثقافت کے پھیلاوٴ نے بھی عروج زمانہ کے روم سے اس کے موازنے کو دعوت دی ہے۔
 
لیکن برطانوی سلطنت کے ساتھ زیادہ مماثلت نے بھی فرگوسن کی توجہ مبذول کی ہے۔ووڈرو ولسن، فرینکلن روزویلٹ، اور جان ایف کینیڈی سے لیکر رونالڈ ریگن، بل کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش تک امریکی صدور، اپنی طاقت کو… اقتصادی کشادگی، جمہوریت، محدود حکومت، انسانی وقار اور قانون کی حکمرانی جیسے عظیم لبرل نظریات کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں…یعنی ” کشادہ دلی پر مبنی پالیسی“ جو نمایاں طور پر برطانوی سلطنت سے مماثلت رکھتی ہے،فرگوسن انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں برطانوی سلطنت کی خواہشات کے حوالے سے، دلیل دیتے ہیں۔
آخر یہ نوجوان ونسٹن چرچل تھے جنھوں نے یہ دلیل دی تھی کہ، برطانوی سامراج کا مقصد ”متحارب قبائل میں امن کا قیام، تشدد کے شکار علاقوں میں انصاف کا نظام مہیا کرنا،غلامی کی زنجیروں کو توڑنا،زمین سے دولت کھینچ باہر نکالنا، تجارت اور تعلیم کے ابتدائی بیج بونا،تمام لوگوں میں خوشی کے حصول کے لئے ان کی صلاحیتوں میں اضافہ اور ان کے درد کے امکانات کو کم کرنا تھا۔
colossus کا زیادہ تر حصّہ لبرل سلطنت کی ایک مشق کے طور پر امریکی عالمی غلبے کے عروج کی جانی پہچانی کہانی سناتا ہے۔ فرگوسن کے مطابق، امریکی سامراج کا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ سامراج کی مخالفت کے نام پر تشکیل دیا گیا ہے۔فرگوسن امریکی تاریخ کے ہر مرحلے پر روشنی ڈالتے ہوئے ریپبلکن نظریات اور عالمی طاقت کی مشق کے درمیان تناؤ کو نمایاں کرتے ہیں، اور دکھاتے ہیں کہ اس طرح کے تناؤ کس طرح اکثر ختم ہو جاتے ہیں۔
سرد جنگ…اور جارج کینان کے حدود میں رکھنے کے نظرئیات…اس سامراج مخالف پالیسی اورسخت طاقت کے امتزاج کی حتمی مثال فراہم کرتے ہیں۔ سلامتی، کشادگی، جمہوری کمیونٹی، سیاسی وابستگی، اور امریکی طاقت کا استعمال ایک ساتھ مل کر چلتے ہیں۔امریکہ کی عالمی حکمرانی کا بنیادی مرکز اقتصادی کشادگی کے قوانین کا نفاذتھا، لیکن امریکہ لبرل آرڈر میں تمام ممالک کو ضم کرنے کے لئے، طاقت سے کام لینے کے لئے بھی تیار تھا۔
فرگوسن کا سب سے زیادہ دلچسپ دعویٰ یہ ہے کہ دنیا کو اس لبرل امریکی سلطنت کی زیادہ ضرورت ہے۔. یہ دلیل کچھ حد تک اس غیر متنازعہ دعوے سے جڑی ہے کہ موجودہ بین الاقوامی نظام کو روشن خیال قیادت کی ضرورت ہے اور صرف امریکہ ہی ایسی قیادت فراہم کر سکتا ہے۔ (فرگوسن بہت کم امید رکھتے ہیں کہ یورپ کبھی اپنی توسیع کے اُن اندرونی تضادات پر قابو پاسکے گا جو اسے پہلے سے جکڑے ہوئے ہیں)۔
یہ خاص طور پر خود مختار لیکن ناکام ریاستوں کا وسیع نظام ہی ہے جسے واشنگٹن کی سامراجی نگرانی کی ضرورت ہے۔ افریقہ، ایشیا اورمشرق وسطیٰ کی کئی مثالوں میں قومی خود ارادیت بہت زیادہ غم کی وجہ بنی ہے۔ فرگوسن اہلیت کے بغیر دلیل دیتے ہیں کہ”سیاسی آزادی کے ساتھ تجربات …خاص طور پر افریقہ میں… زیادہ تر غریب ممالک کے لئے تباہ کن ثابت ہوئے ہیں“۔
فرگوسن کے نزدیک ان علاقوں میں (یہاں تک کہ نوآبادیاتی حکمرانی کی کچھ شکلوں سمیت) لبرل سلطنت کی توسیع ضروری ہے۔تاہم یہ غیر واضح ہے کہ،یہ خاص سامراجی انتظامات بالکل واضح طور پر کیسے نظر آئیں گے۔
جب فرگوسن یہ کہتے ہیں کہ وہ ”بنیادی طور پر سلطنت کے حق میں ہیں“تو وہ کچھ حد تک تصوراتی طور پر ہاتھ کا کمال دکھارہے ہوتے ہیں۔ جس سے فرگوسن ”لبرل سلطنت“ مراد لیتے ہیں اسے سکالرز پہلے ”لبرل غلبہ“ کہتے آئے ہیں۔
یعنی درجہ بندی پر مبنی نظام جو، اب بھی سلطنت کی روایتی شکل سے بہت مختلف ہے۔لبرل غالب ملک اپنی طاقت کی وجہ سے، دوسری ریاستوں کے ساتھ مختصر مدت کے فوائد پر جھگڑا کرنے کے بجائے اپنے طویل مدتی مفادات کے لیے اقدامات کر سکتا ہے۔وہ بڑے نظام کی کشادگی اور استحکام کے ساتھ اپنے قومی مفادات کو شناخت کرسکتا ہے۔چنانچہ امریکہ اس طرح ان دیگر حکومتیں کو فوائدپہنچانے کی ضمانت دیتے ہوئے جو اپنی رضامندی ظاہر کرتی ہیں، انٹرنیشنل آرڈر کو شکل دیتا اور اس پر غالب رہتا ہے۔
سلطنت کے برعکس، اس باہمی مذاکرات پر مبنی نظام کا انحصار غالب ریاست اور اور باقی سب کے درمیان نظام کے قواعد و ضوابط پر معاہدے پر ہے۔ اس طرح امریکی غلبہ کے ارد گردبننے والی اقدار اور ادارے، دونوں ملکر امریکی طاقت کی اصل تشدد آمیز مشق کی حدود مقرر کرتے ہیں اور دوسری ریاستوں کو نظام کے انتظام کی طرف کھینچتے ہیں۔
 امریکی سلطنت کی خوبیوں کے بارے میں فرگوسن کا مقدمہ ان کے اس دعویٰ کے گرد گھومتا ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، دنیا ان دو میں سے کسی ایک راستے پر جاسکتی تھی… آزاد ممالک کے گرد منظم بین الاقوامی آرڈر اور یا پھر امریکی حاکمیت کے گرد۔
وہ کہتے ہیں کہ حاکمیت سے ماورا ،باہم متصادم ریاستوں پر مشتمل دنیا، جن میں سے اکثر جمہوری بھی نہیں ہیں… تباہی کی طرف لے جاتی۔یہ سچ ہو سکتا ہے، اُن کا یہ کہنا یقیناً درست ہے کہ طاقتور ریاستوں کی حمایت کے بغیر استحکام اور اوپن مارکیٹیںآ سانی سے برقرار نہیں رکھی جاسکتیں۔ لیکن لبرل سلطنت کا تصور، امریکہ کی زیرقیادت نظام کی بہت مختلف اقسام کا آمیزہ پیش کرتا ہے۔
ایک جس میں واشنگٹن دوسری ریاستوں پر اطاعت کے لیے دباؤ ڈالتا ہے،وہ کثیر جہتی قوانین اور قریبی شراکت داری کے نظام سے بہت مختلف ہے۔ امن اور اقتصادی ترقی کے چیلنج جن کی فرگوسن نے نشاندہی کی ہے،ان کے حصول کا بہترین طریقہ اعلیٰ درجے کی جمہوریتوں کا مل کر کام کرنا ہے۔آخر میں، اس طرح کے تعاون پر مبنی نظام کے لیے امریکہ کو سلطنت کے مکمل احساس کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اس کی قدیم عادات سے بالاتر ہوکر کام کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
حتمی طور پر، فرگوسن سلطنت کے تصور کے دوبارہ ذکر کو سیاسی وجوہات کی بنا پر مفید پاتے ہیں۔ برطانویوں کے برعکس، امریکی اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ وہ ایک سلطنت کا نظام چلارہے ہیں۔اس کے نتیجے میں، امریکہ ایک من موجی اور بے صبر سامراجی طاقت تشکیل دیتا ہے(برطانویوں کے برعکس جنھوں نے عالمی حکمرانی کے لئے ثقافتی ذہنیت اختیار کی تھی)۔
فرگوسن کا خیال ہے کہ امریکی سلطنت کی حقیقت کے بارے میں ایمانداری سے بات کرنا، اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کی تفہیم کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
لیکن ظاہری طور پر سچ اس کے برعکس ہے۔ امریکہ کو دنیا کواپنے راج کے طور پر دیکھنے اور وسیع علاقے میں نوآبادیاتی خادم تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہے،اسے دوسروں کے ساتھ کام کرنے اور تعاون پر مبنی بین الاقوامی حکومت کی مزید پیچیدہ اقسام کی ترقی کے لیے، مستحکم وجائز طریقوں سے اپنی طاقت کا استعمال کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی انتہائی مشکوک ہے کہ کیا امریکی عوام اس طرح کی بڑے پیمانے پر سلطانی ذمہ د اری اٹھانے کو قبول کرلیں گے۔گذشتہ ستمبر،جیسے ہی صدر بش نے عراق پر قبضہ کی قیمت ظاہر کی، عوامی حمایت فوری طور پرکم ہوگئی۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط