Episode 77 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 77 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

جنگ…جو تمام جنگیں ختم نہ کرسکی !جو 1914 میں شروع ہوئی… اور یہ کیوں اتنی دیر تک جاری رہی؟(لارنس ڈی فریڈمین)
(لارنس ڈی فریڈمین کنگ کالج لندن میں”مطالعہ جنگWar Studies “ کے پروفیسر اور کتاب ”Strategy: A History“ کے مصنف ہیں)
سفارتکار جارج کینن نے پہلی جنگ عظیم کو بیسویں صدی کی ”عظیم تباہی کا پیش خیمہ“قرار دیا تھا کیونکہ یہ بہت سی مزید تباہیوں کا باعث بنی تھی۔
تتلی کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ،جو بعد کے طوفانوں کا پیش خیمہ تھی،28 جون، 1914کو اُس وقت سُنائی دی جب سربیا کے قوم پرست رہنما گیوریلو پرنسپ نے آسٹرو ہنگرین تخت کے یقینی وارث آرچ ڈیوک فرانسس فرڈیننڈ کو قتل کردیا۔ ایک سو سال بعد بھی تاریخ دان، حیران ہوتے ہیں کہ ایک ایسی تباہ کن جنگ اچانک کیسے شروع ہوگئی،وہ بے وقوف حکومتوں کی طرف سے اپنے اعمال کے نتائج کا ادراک کرنے میں ناکامی کی مذمت کرتے ہیں، اور ایک ہم آہنگی اور ترقی کی راہ کی طرف بڑھتی دنیا کے نقصان کا تصور کرکے ماتم کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس تباہی کا ایک جواب بین الاقوامی امور کے منظم مطالعہ کی صورت میں تھا۔ 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں ماہرین کو اُمید تھی کہ جنگ کی وجوہات کا تجزیہ کرکے، وہ اس کی روک تھام میں مدد کر سکتے ہیں۔یہ کوشش ناکام رہی، کیونکہ پہلی کے بعد دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی،اور بین الاقوامی تعلقات کے طالب علموں نے عالمی تعاون کے تخیل پرستانہ تصور کے منصوبوں کو چھوڑ کر ایک غیرجذباتی حقیقت پسندی کی جانب رُخ کرلیا۔
دوسری جنگ عظیم نے سیکھایا کہ ایک شیطانی آمرسے کبھی بھی مطمئن نہیں ہونا چاہیے، یہ ایک ایسا سبق ہے جوہربار اس وقت یاد آجاتا ہے جب کوئی علاقائی آمریت پسندکسی علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے یا حتیٰ کہ اُس وقت بھی جب حکام کسی ناپسندیدہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تجویز دیتے ہیں۔ دریں اثنا، پہلی عالمی جنگ کے ماخذ پر یا اس بات پر کوئی ٹھوس اتفاق رائے نہیں ہے کہ آیا اس سے آج کے لیے کوئی درس عبرت حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
یہ صورت حال،ماہر مورخین کی طرف سے ”ڈرامے“ کے بارے میں نئی کتابوں کی بڑی تعداد میں اشاعت کے بعد بھی جُوں کی تُوں ہے اور یہ کتابیں پہلے سے وسیع تر ادب میں محض اضافہ ہی کرسکی ہیں۔ اپنے اختلافات کے باوجود، یہاں زیرِ جائزہ کتابیں قارئین کو یورپی سیاست کی پیچیدگیوں اور جنگ کے آغاز کا سبب بننے والی یورپی دارالحکومتوں کے اندر کی فوجی نقل و حرکت کی تفصیلات تک پہنچنے میں ہر طرح کی مدد کرتی ہیں۔
کرسٹوفر کلارک اور مارگریٹ میکملن نے گزشتہ صدی کا احاطہ کیا ہے۔ میکس ہیسٹنگز 1914 کے پورے سال کا احاطہ کرتے ہیں اور لڑائی کے پہلے ماہ کے بارے میں جامع مواد فراہم کرتے ہیں۔سین میک میکن جنگ کی طرف لے جانے والے ایک ہی مہینے پر نظر ڈالتے ہیں اور تھامس اوٹے نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔یہ شرم کی بات ہوگی اگر 1914 کے تھکادینے والے حالات اور مصائب کے خانے میں اوٹے کے تاخیر سے اندراج کو نظرانداز کردیا جائے کیونکہ یہ خاص طور پر استدلال پر مبنی اور جامع ہے۔
کتابوں میں ان واقعات کی اصل ترتیب کے حوالے سے بہت کم ہی کچھ نیا ہے جو جُون میں فرڈیننڈ کے قتل سے شروع ہوئے، اس کے بعد آسٹریا اورہنگری کی طرف سے جولائی میں ایک الٹی میٹم آیا، جس کے تحت سربیا سے قوم پرست جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا گیا، اس کے بعد روسی اور پھر جرمن فوجیں حرکت میں آئیں، اور اگست کے شروع میں لڑائی کا آغاز ہوا۔
البتہ یہ کتابیں اس دلچسپ سوال پر روشنی ڈالتی ہیں کہ جو لوگ اس جنگ میں ملوث تھے وہ اصل میں اپنے اقدامات کے بارے میں کیا سوچ رہے تھے کہ ایک قابل حل مسئلہ مکمل جنگ میں تبدیل ہوگیا۔کیا وہ موقع پرست تھے کہ انھوں نے اپنے سوچے سمجھے منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے موقع سے فائدہ اُٹھایا؟ یا وہ صرف واقعات کے بھنور کی لپیٹ میں آگئے، اپنے خوف اور تعصبات کی وجہ سے پھنس اور ماضی کے وعدوں کی وجہ سے اٹک کر رہ گئے تھے؟
قصور وار کون تھا؟
الزامات کا کھیل اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب جنگ دردناک ناقابل حل تنازع میں تبدیل ہوگئی تھی، اور 1919 میں ورسائی(VERSAILLES ) کے معاہدے پر دستخط ہوتے ہی اس میں شدت آگئی تھی۔
جنگ میں ملوث ملکوں نے، باہمی پیغام رسانی کے حوالے سے بڑی تالیفیں شائع کیں، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ کس طرح اُن کے پُر امن ارادوں کو جھوٹے دشمنوں نے ناکام بنا دیا تھا، اسی لیے جرمن فوجی موٴرخ برنارڈ شیورٹ فیگر نے اسے ایک ”دستاویزات کی عالمی جنگ“ کہا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، مفکرین… تنازعہ کو فوجی ذہنیت، فرسودہ سفارتی طریقوں، اور بین الاقوامی نظام کی تنظیم جیسے وسیع تر عوامل کے ساتھ منسوب کرکے، الزام پھیلانے کی طرف زیادہ مائل رہے۔
تاہم، 1960کی دہائی میں، جرمن مورخ فرٹز فشر نے احساس جرم کے سوال کو زندہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کا ملک جنگ کا ذمہ دار تھا کیونکہ اس نے جارحیت پر مبنی جنگ کا پہلے سے سوچ رکھا تھا۔ فشر کے ایک طالب علم وولکر برگاہن نے فشر کے مقالہ کو انتہائی پُراثر طور پر دوبارہ تحریر کیا ہے، اور یہ” The Cambridge History of the First World War“کے نام سے دستیاب ہے، جس میں پہلی جنگ عظیم تنازعے کے تمام پہلووٴں پر مضامین کا ایک جامع مجموعہ موجود ہے۔
کلارک تنازعہ کی ابتدا کے بارے میں اس طرح کی ”الزامات پر مبنی کہانیوں“ کو مسترد کرتے ہیں، اور انہیں سوچے سمجھے ارادے قرار دیکر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ ”کسی ایک مخصوص ریاست کے سیاسی مزاج اور اقدامات“ پر کم ”اور ”باہم ملکر کیے گئے کثیر جہتی عمل “ پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔تاہم عملی طور پر، کلارک بھی اپنی مخصوص فرد جرم عائد کردیتے ہیں۔
اپنا بیان بلغراد سے شروع کر کے، وہ بالکل درست طور پر سربیا کی قوم پرست مہم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں جو فرڈیننڈ کے قتل کی وجہ بنی، جس سے نہ صرف بحران میں تیزی آئی بلکہ اس نے ایک ایسے آسٹرین شخص کو بھی منظر سے ہٹادیا جو اپنے ملک کی کمزوری سے واقف ہونے کے ناطے، اس کے طریقہٴ کار پرایک معتدل اثر و رسوخ استعمال کر سکتا تھا۔میک میکن، روس کی طرف سے قبل از وقت فوجوں کو حرکت میں لانے کی وجہ سے اس کے مجرمانہ کردار کی طرف توجہ مرکوز کرواتے ہیں ۔
۔ہیسٹنگز، جرمنی اور اس کے فوجی رہنماوٴں کے جنگ لڑنے کے لیے پختہ ارادے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی طرف بہت زیادہ مائل نظر آتے ہیں، جبکہ ان (فوجی رہنماؤں) کے پاس اس کے علاوہ بھی روس کے بہت زیادہ مضبوط ہونے سے پہلے جنگ جیتنے کا موقع موجود تھا۔میکملن اور اوٹے جنگ کی وجہ، آسٹریا۔ہنگری( وہ جماعت جس نے ایسا الٹی میٹم جاری کیا،جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ یہ تسلیم نہیں کیا جائے گا)، جرمنی، اور روس اور پھر اسی ترتیب سے آگے بڑھتے ہوئے دیگر ممالک کی غلطیوں کو قرار دیتے ہیں، حالانکہ میکملن تسلیم کرتی ہیں کہ کسی ایک وجہ یا مجرم جماعت پر متفق ہونا انتہائی مشکل کام ہے۔
 
پہلی جنگ عظیم کے بارے میں بین الاقوامی تعلقات کے مفکرین جو کہتے ہیں، ان مصنفین میں سے کسی نے بھی اُن میں زیاد دلچسپی نہیں دکھائی۔صرف اوٹے ہی سب سے زیادہ ان کا ذکر کرتے ہیں، لیکن صرف ان روایتی وضاحتوں پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے لیے۔ یہ کتابیں پڑھنے والوں کواس حوالے سے بہت کم مواد مل سکے گا کہ بین الاقوامی نظام میں پُرامن توازن کا قیام دو طاقتوں پر مبنی نظام سے زیادہ ممکن ہے یا کئی طاقتوں پر مبنی نظام سے، ان(کتابوں) میں تبدیلی کی طاقت کی پشت پناہی کے مقابلے میں توازن کے تقابلی امتیازات وخصوصیات کے بارے میں معلومات ہیں اور نہ ہی اس بارے میں کہ ،کسی سیکورٹی کے ناقابل حل مخمصے کی ناکام منطق سے کیسے بچا جائے۔
کسی واضح نظریہ کی عدم موجودگی حیرت انگیز نہیں ہے: کیونکہ مورخین سیاسی رویوں کے بارے میں قابل اعتماد قوانین وضع کرنے کی کوششوں سے دُور رہتے اور قدرتی طور پر ان کا جھکاؤ امکانات و مواقع کی طرف ہوتا ہے۔
 ایک ابتدائی پیرا میں،جوکسی حد تک ان کی کتاب کے عنوان (Sleepwalkers ) کی نفی کرتا ہے، کلارک لکھتے ہیں کہ ”کہانی ایجنسی کے کردار سے لبریز ہے“۔
کلیدی فیصلہ ساز”خطرے کی طرف محتاط انداز میں نپے تلے قدموں سے آگے بڑھے“۔ وہ سوچے سمجھے عزائم رکھنے والے سیاسی لوگ تھے، جو اپنی سوچ کو ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ، اپنے سامنے موجود راستوں کا ادراک کرسکتے تھے اور اپنے اختیارات کے مطابق بہترین فیصلے کرسکتے تھے۔ میکملن ان لوگوں کی مذمت کرتی ہیں جنہوں نے 1914میں کہا تھا کہ” جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
“ اور وہ اپنی کتاب کا اختتام اس جملے سے کرتی ہیں کہ،”راستے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔“
تمام مصنفین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نہ صرف جنگ ناگزیر نہیں تھی بلکہ یہ واضح طور پر کچھ بُرے فیصلوں کا بھی نتیجہ تھی۔ اوٹے اسے”حکمرانوں کی ناکامی “ کہتے ہیں۔ان تاریخی دستاویزات سے مجموعی تاثر یہ ملتا ہے کہ اگر جنگ میں ملوث لوگ ارادوں کے کمزور، بیکار، نااہل،عدم روادار، فریبی، اور احمق…ذرا کم ہوتے تو، دنیا کو مصائب پر مبنی کئی برسوں سے بچایا جا سکتا تھا۔
دوسرا سخت پیغام یہ ملتاہے کہ بُرے فیصلوں اور بدقسمتی کی طرف بڑھنے کے باوجود، یورپ کے حکمرانوں کو کوئی اندازہ نہ تھا کہ عملی طور پرجنگ کا حقیقی مطلب کیا ہو گا۔ میکملن ان کے تخیل کی اس ناکامی کو یوں بیان کرتی ہیں کہ ”وہ یہ دیکھ ہی نہیں پائے اس طرح کا تصادم کس قدر تباہ کن ہوگا۔“ کلارک اُنھیں ”نیند میں چلنے والے“ کہتے ہیں کیونکہ وہ ”محتاط مگر غیر متوجہ تھے،خوابوں کے اسیر،مگر اس خوفناک صورتحال کی حقیقت سے بے خبر جو وہ دنیا میں لانے والے تھے۔
“لیکن ہیسٹنگز ”نیند میں چلنے والے“ کے لیبل سے اتفاق نہیں کرتے،کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ فیصلہ کرنے والے خود اپنے اقدامات سے بے خبر تھے۔وہ انھیں ” انکار کرنے والے“ کہنا زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں کیونکہ وہ ”انتہائی خطرناک پالیسیوں اور حکمت عملی پر قائم رہے، بجائے اس کے کہ ان پالیسیوں کے ناپسندیدہ امکانات اوران کے بعد آنے والی ناکامی کے نتائج کو قبول کرلیتے۔“

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط