میڈیسن نے کیا غلط کیا تھا؟
ماہر اقتصادیات Mancur Olson نے اپنی 1982 میں شائع ہونے والی کتاب ”The Rise and Decline of Nations“ میں، مفاد رکھنے والے گروپوں کی سیاست کے اقتصادی ترقی اور، بالآخر، جمہوریت پر ضرر رساں اثرات کے حوالے سے سب سے زیادہ مشہور ہونے والے دلائل دئیے۔بیسویں صدی کے دوران برطانیہ کے طویل المیعاد اقتصادی زوال کو خاص طور پر مدنظر رکھتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ امن اور استحکام کے دور میں، جمہوری مالک مفاد رکھنے والے گروپوں کی بڑھتی ہوئی انتہائی تعداد کو اکٹھا کرنے پر مائل رہے۔
دولت پیدا کرنے والی اقتصادی سرگرمیوں کی طرف جانے کے، ان گروہوں نے سیاسی نظام کو فائدے حاصل کرنے یا اپنا کرایہ وصول کرنے کے لئے استعمال کیا۔یہ کرایے مجموعی طور پر عوام کے لئے غیرمفید اور مہنگے تھے۔
(جاری ہے)
لیکن عام عوام کے لیے یہ ایک اجتماعی کارروائی کامسئلہ تھا اور وہ ،مثال کے طور پر، بینکاری کی صنعت یا مکئی پروڈیوسر، اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے موثر طور پر منظم نہیں ہوسکے۔
اس کا نتیجہ توانائی کا قت کے ساتھ بتدریج کرایہ حاصل کرنے کے لئے کی جانے والی سرگرمیوں میں تبدیلی ہوجانا تھا، یعنی ایک ایسا عمل جسے صرف ایک بڑا دھچکہ…جیسے کہ جنگ یا انقلاب …ہی روک سکتا تھا۔
مفاد رکھنے والے گروپوں کے بارے میں یہ انتہائی منفی داستان ، اس کے بالکل برعکس ایک بے حد مثبت کہانی کے بالمقابل کھڑی ہے، اور وہ مثبت کہانی جمہوریت کی صحت کے لئے، سول سوسائٹی، یا رضاکارانہ طور پر کام کرنے والی ایسوسی ایشنز کے فوائد کے بارے میں ہے۔
Tocqueville نے اپنی کتاب ”Democracy in America “ میں لکھا ہے کہ امریکی نجی تنظیموں کو منظم کرنے کے دلدادہ ہیں، جو ان کے نزدیک جمہوریت کی درسگاہیں ہیں، کیونکہ اُنھوں نے عام افراد کو عوامی مقاصد کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ملکر چلنا سیکھایا تھا۔ عام افراد اپنی حیثیت میں کمزور تھے، صرف متحد ہوکر ہی وہ دوسری کئی چیزوں کے ساتھ استحصالی حکومت کے خلاف مزاحمت کر سکتے تھے۔
اس نقطہ نظر کو بیسویں صدی کے آخر میں رابرٹ پٹنم جیسے سکالرز نے آگے بڑھایا، جنھوں نے دلیل دی کہ ”سماجی سرمائے“ کو متحد کرنے کی یہ خواہش جمہوریت اور خطرے سے دوچار ہر شخص کے لیے بہت اچھی ہے۔
میڈیسن خود مفاد رکھنے والے گروپوں کے لیے نسبتاً نرم نقطہ نظر رکھتے تھے۔ وہ دلیل دیتے کہ ایک مخصوص گروپ جس مقصد کی تلاش میں ہے، اگر وہ کسی کو پسند نہ بھی ہو، تب بھی کسی بڑے ملک میں گروپوں کا تنوع ان میں سے کسی ایک کے غلبہ کو روکنے کے لئے کافی ہو جائے گا۔
جیسا کہ ماہر سیاسیات Theodore Lowi نے کہا ہے کہ، بیسویں صدی کے وسط میں سامنے آنے والے”اجتماعیت Pluralist“ کے سیاسی نظریہ کو میڈیسن کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرکے باہم ملادیا جائے تو… مفاد رکھنے والے بے ہنگم گروپ عوامی مفادکے حصول کے لیے باہم ملکر کام کریں گے، بالکل اسی طرح جیسے ایک آزاد مارکیٹ میں مقابلہ کی صورت میں، اپنے محدود ذاتی مفادات کا پیچھا کرتے ہوئے افراد کے ذریعے مجموعی عوامی مفاد حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس عمل کو منظم کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے ضوابط کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، کیونکہ ایسی کوئی اعلیٰ اتھارٹی نہ تھی جو محدود مفاد رکھنے والے گروپوں کے مفاد سے بڑھ کر عوامی مفاد کے بارے میں فیصلہ کرسکے۔ سپریم کورٹ کے مشہور مقدمہ” Buckley v. Valeo and Citizens United “کا فیصلہ ، جس نے گروپوں کی طرف سے مہم کے اخراجات پر کچھ حدود نافذ کردیں، وہ دراصل عملی طور پر اس نرم وضاحت کی توثیق تھا، جسے ماہر سیاسیات Theodore Lowi ”انٹرسٹ گروپ لبرل ازم“ کا نام دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ بالکل مختلف قسم کے نظرئیات کے حامل لوگ باہم یکجا کیسے ہوسکتے ہیں؟ سب سے واضح طریقہ یہ ہے کہ ایک اچھی سول سوسائٹی تنظیم کو ”برے“ مفاد رکھنے والے گروہ سے الگ کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان میں سے پہلا یعنی سول سوسائٹی تنظیم جذبات کے پیچھے چلتا ہے، اور دوسرا مفادات کے پیچھے۔سول سوسائٹی تنظیم غیر منافع بخش ہو سکتی ہے، جیسے کہ کوئی چرچ گروپ جو غریبوں کے لیے گھر بنانے کیلیے کوشاں ہو،یا کوئی لابنگ تنظیم جو ایسی پالیسی کی ترغیب دے رہی ہو جو اس کے نزدیک عوامی مفاد پر مبنی ہو، جیسے کہ ساحلی مقامات پر رہنے والوں کا تحفظ۔
کوئی انٹرسٹ گروپ ہوسکتا ہے کسی سگریٹ بنانے والی صنعت یا بڑے بینکوں کی نمائندگی کرنے والی لابنگ فرم کا حصّہ ہو،جس کا مقصد اپنی حمایت کرنے والی کمپنیوں کے منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہو۔
بدقسمتی سے، یہ فرق نظریاتی جانچ پڑتال پر گرفت نہیں رکھتا۔اگر کوئی گروپ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ عوام کے مفاد میں کام کر رہا ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اصل میں بھی ایسا کر رہا ہے۔
مثال کے طور پر، ایک طب کی وکالت کرنے والا گروپ،جو کسی خاص بیماری کے خلاف جنگ کے لئے زیادہ ڈالر مختص کروانا چاہتا ہو، وہ زیادہ وسیع پیمانے پر پھیلنے والی اور نقصان دہ بیماریوں کے لیے فنڈز کو منتقل کرواکے عوام کی ترجیحات کو بگاڑ سکتا ہے، صرف اس وجہ سے کہ وہ تعلقات عامہ کے اعتبار سے بہتر ہے۔ اور اگر کوئی مفاد رکھنے والا گروہ اپنے مفاد کا خیال کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے مطالبات ناجائز ہیں۔
یا یہ کہ اسے سیاسی نظام کے اندر نمائندگی کرنے کا حق نہیں ہے۔اگر غیر تسلی بخش سوچ بچار پر مبنی قواعد و ضوابط کسی صنعت اور اس کے کارکنوں کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں تو، متعلقہ گروپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس بارے میں کانگریس کو آگاہ کرے۔درحقیقت، اس طرح کی لابی اکثر حکومتی اقدامات کے نتائج کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے سب سے اہم ذرائع ثابت ہوتے ہیں۔
مفاد رکھنے والے (انٹرسٹ گروپ) کی کثرت کے خلاف سب سے زیادہ نمایاں دلیل جعلی نمائندگی کے حوالے سے ہے۔ اپنی 1960میں شائع ہونے والی کتاب ”The Semisovereign People“ میں ای ای شیٹس چنیدر نے کہا تھا کہ، امریکہ میں جمہوریت کی حقیقی پریکٹس کا اس مقبول تصور یعنی ”لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے، لوگوں کے لیے“ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُنھوں نے بیان کیا کہ سیاسی نتائج کا رابطہ شاذو نادر ہی مقبول پس منظر سے ہوتا ہے۔
کیونکہ ان میں شراکت اور سیاسی شعور بہت ہی کم ہوتا ہے۔ اور حقیقی فیصلے منظم مفادات رکھنے والے بہت چھوٹے گروہ کرتے ہیں۔اسی طرح کے دلائل اولسن کے فریم ورک میں بھی دفن ہیں۔ کیونکہ اولسن بیان کرتے ہیں کہ تمام گروپ اجتماعی کارروائی کے انتظام کی برابر صلاحیت نہیں رکھتے۔مفاد رکھنے والے ایسے گروپ جو کانگریس کی توجہ کے لئے باہم مقابل ہیں، وہ پوری امریکی عوام کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ سب سے زیادہ منظم اور ( جو زیادہ تر ایک ہی بات کرنے کے مترادف ہے) امریکی معاشرے کے سب سے زیادہ مال و دولت سے سرفراز حصوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ غیرمنظم لوگوں کے مفادات کے خلاف کام کرنے کی طرف لے جاتا ہے جو اکثر کم تعلیم یافتہ، غریب، یا پھر پسماندہ لوگ ہیں۔
ماہر سیاسیات مارس فی او رینا نے واضح ثبوت مہیا کیا ہے کہ جسے وہ امریکی ”سیاسی طبقے“ کا نام دیتے ہیں،وہ عام امریکی عوام کی نسبت کہیں زیادہ تقطیب(ایک ہی سمت میں گامزن رہنے والا) ہے۔ لیکن مرکزی عہدوں کی حمایت کرنے والے اکثریتی لوگ ان کے بارے میں گرمجوشی محسوس نہیں کرتے، اور وہ زیادہ تر غیر منظم ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کی توجیہہ انتہائی منظم کارکن کرتے ہیں، وہ خواہ سیاسی جماعتوں اور کانگریس میں ہوں، یا پھر لابنگ کرنے والے اور مفاد رکھنے والے گروپوں میں سے۔ ان سرگرم گروپوں کا مجموعہ کسی معاہدہ کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ یہ پولرائزیشن اور تعطل کی سیاست کی طرف جاتا ہے۔
کثرت وجود کے نقطہ نظر میں ایک اور مسئلہ ہے، جو عوامی مفاد کو نجی سطح پر انفرادی مفادات کے مجموعے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا…یہ غور و فکر کے امکان اور اس عمل کو کمزور کرتا ہے جس کے تحت انفرادی ترجیحات بات چیت اور مواصلات کے ذریعے تشکیل پاتی ہیں۔
یونان کی کلاسیکی جمہوریت میں ہونے والے اور Tocqueville کی طرف سے خوشی کا باعث قرار دیے گئے نیو انگلینڈ ٹاوٴن ہال کے اجلاس، ایسے کیس تھے جن میں، شہریوں نے اپنی کمیونٹیز کے مشترکہ مفادات کے بارے میں ایک دوسرے سے براہ راست بات چیت کی۔ چھوٹے پیمانے کی جمہوریت کے ان واقعات کو آئیڈلائز کرنا، ان اختلافات کو کم سے کم کرنا جو بڑے معاشروں میں پائے جاتے ہیں، آسان ہے۔
لیکن جیسا کہ توجہ کے مرکز گروپوں کا کوئی بھی منتظم آپ کو بتائے گا،امیگریشن سے منشیات کے ذریعے اسقاط حمل جیسے انتہائی جذباتی موضوعات پر لوگوں کا نقطہ نظر، مختلف نظرئیات رکھنے والے لوگوں کے درمیان محض 30منٹ کی آمنے سامنے بحث کے دوران تبدیل ہوجاتا ہے۔اس کے باوجود کہ اُن سب کو ایک ہی طرح کی معلومات اور زمینی قوانین دئیے جائیں جو تہذیب کے نفاذ کا باعث بنتے ہیں۔
کثرت وجود کے مسائل میں سے ایک یہ مفروضہ ہے کہ مفادات طے شدہ ہوتے ہیں۔اور قانون ساز کا کردار محض ان کے لیے ٹرانسمیشن بیلٹ جیسا ہے، بجائے اس کے کہ وہ اپنے نظرئیات رکھتا جو کہ سوچ بچار کے بعد ترتیب پاسکتے ہیں۔
ویٹو کریسی کی تعداد میں اضافہ
امریکی آئین انفرادی آزادیوں کا تحفظ چیک اینڈ بیلنس کے ایک پیچیدہ نظام کے ذریعے کرتا ہے، جسے ریاست کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے بانیوں نے جان بوجھ کر ڈیزائن کیا تھا۔
امریکی حکومت برطانوی بادشاہت کے اختیارات کے خلاف انقلاب کے تناظر میں اُبھری تھی۔اور انگریزی خانہ جنگی کے دوران بادشاہ کے خلاف مزاحمت کی زیادہ گہرے سرچشمہ کی طرف بڑھتی رہی۔ حکومت پر شدید بداعتمادی اور منتشر افراد کی اچانک سرگرمیوں پر انحصار تب سے امریکی سیاست کا اہم طرہ امتیاز رہے ہیں۔
جیسا کہ ہنٹنگٹن نے توجہ دلائی تھی…امریکہ کے آئینی نظام میں، اختیارات عملی طور پرریاستی شاخوں میں زیادہ تقسیم نہیں ہیں۔
جس سے متواتر ایک شاخ دوسری کے حقوق غصب کرنے پر مائل رہتی اور ان کے درمیان یہ تنازعہ جاری رہتا ہے کہ کونسی شاخ کا اختیارات پر غلبہ ہونا چاہیے۔وفاق پر مبنی نظام اکثر شفاف انداز میں حکومت کے مناسب شعبوں کو اختیارات منتقل نہیں کرتا۔بلکہ یہ اختیارات کئی شعبوں کو نقل کردیتا ہے، اور وفاقی ،ریاستی اور مقامی حکام کو ذمہ داریاں…جیسے کہ زہریلے مادوں کو ضائع کرنا…سونپ دیتا ہے۔
اس طرح کے فاضل اور بغیر درجہ بندی پر مبنی نظام میں، حکومت کے مختلف حصّے آسانی سے ایک دوسرے کا راستہ روک سکتے ہیں۔ سیاست کے عمومی طور پر عدالتی عمل میں جکڑے جانے اور مفاد رکھنے والے (انٹرسٹ) گروپوں کے بڑے پیمانے پر اثرو رسوخ کی وجہ سے،حکومت کی ایک ایسی غیرمتوازن شکل تشکیل پاتی ہے، جو اجتماعی عمل کے انتہائی ضروری امکان کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے…یعنی ایسی حکومتی شکل جسے ”ویٹوکریسی “ کہنا زیادہ مناسب ہے۔
دونوں غالب امریکی سیاسی جماعتیں نظریاتی طور پراس قدر تقطیب(ایک ہی سمت میں گامزن) کا شکار ہوچکی ہیں کہ جتنی وہ انیسویں صدی کے بعد سے کبھی نہیں ہوئی تھیں۔ان کے حمایتیوں کی جغرافیائی تخصیص موجود ہے،تقریباً پورے جنوب میں لوگ ڈیموکریٹک سے ریپبلکن ہورہے ہیں اور شمال مشرق میں ریپبلکن تقریباً ناپید ہورہے ہیں۔ نیوڈیل اتحاد کی ناکامی اور 1980کی دہائی کے دوران کانگریس میں ڈیموکریٹس کی قیادت کے خاتمے کے بعد، دونوں جماعتیں زیادہ یکساں طور پر متوازن ہو گئی ہیں اور ان کے درمیان بار بار ایوان صدر اور کانگریس پر کنٹرول کا تبادلہ دیکھا گیا ہے۔
حمایت کے لیے اس اعلیٰ سطحی مقابلے ، اور اس کے ساتھ ساتھ لبرلائزڈ مہم کی اقتصادی رہنما ہدایات نے، فریقین کے درمیان فنڈنگ کے لیے ذرائع کی تلاش کی دوڑ کو ایندھن فراہم کیا ہے اور ان کے درمیان باہمی شائستگی کم ہوئی ہے۔ان جماعتوں نے اکثر ریاستوں میں اضلاع کی ازسر نو تقسیم کے دوران، اپنے کنٹرول کے ذریعے ہم نسل ووٹرز کی تعداد کو بھی بڑھایا ہے،جس نے اُنھیں اپنے دوبارہ انتخاب کے امکانات کو بڑھانے کے لیے اضلاع کی اپنے حق میں حلقہ بندیوں کے قابل بنادیا ہے۔
دریں اثنا،پرائمری انتخابات کے پھیلاوٴ نے، پارٹی امیدواروں کے انتخاب کو نسبتاً کم تعداد والے تنظیموں کے کارکنوں کے ہاتھوں میں دے دیا ہے، جو ان انتخابات کے لئے ووٹ ڈالتے ہیں۔
تاہم،تقطیب (ایک ہی سمت میں گامزن ہونے) کا مسئلہ پر ہی کہانی مکمل نہیں ہوتی۔ جمہوری سیاسی نظام سے تنازعات ختم کرنے کی توقع نہیں رکھی جاتی…بلکہ اُن سے تنازعات کو پُرامن طور پر اور متفقہ قوانین کے ذریعے حل اور ختم کرنے کی اُمید کی جاتی ہے۔
ایک اچھا سیاسی نظام وہ ہوتا ہے جو جس قدر ممکن ہو آبادی کے بڑے حصے کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہوئے سیاسی نتائج کے ظہور کی حوصلہ افزائی کرے۔لیکن جب تقطیب کا رجحان امریکہ کے Madisonian چیک اینڈ بیلنس پر مبنی سیاسی نظام کے سامنے آتا ہے تو نتیجہ خاص طور پر تباہ کن ہوتاہے۔
جمہوریتوں کو ایک طرف، سب کے لئے سیاسی شرکت کے یکساں مواقع کی اجازت کی ضرورت کو، اور دوسری طرف اس کام کے انجام دینے کی ضرورت کو متوازن کرنا ضروری ہے۔
مثالی طور پر، جمہوری فیصلے کمیونٹی کے ہر رکن کی رضامندی کے ساتھ، اتفاق رائے سے کیے جانے چاہئیں۔ بالکل اسی طرح جیسے عام طور پر خاندانوں میں ہوتا ہے، اوراسی طرح نسلی اور قبائلی سطح کے معاشروں میں اکثر فیصلے ہوتے ہیں۔ اتفاق رائے سے فیصلہ سازی کی کارکردگی اس وقت تیزی سے خرابی کا شکار ہوجاتی ہے،جب گروپ بہت بڑے اور زیادہ متنوع ہوجاتے ہیں، اور یوں زیادہ تر گروپوں کے لیے فیصلے اتفاق رائے سے نہیں ہوتے بلکہ آبادی کے ایک چھوٹے سے حصّے کی رضامندی پر مبنی ہوتے ہیں۔
ایک فیصلہ لینے کے لیے ضروری گروپوں کی شرح جتنی کم ہوگی ، فیصلے اتنی ہی آسانی اور موثر طریقے سے لیے جاسکتے ہیں۔لیکن طویل مدت سے چلے آرہے مہنگے مول کے نظام کی قیمت پر۔
حتیٰ کہ اکثریت کی حکمرانی والے نظام بھی مثالی جمہوری طریقہ کار سے انحراف کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ تقریباً نصف آبادی کو اختیارات سے یکسر محروم کر سکتے ہیں۔ بے شک، ایک کثرت رائے پر مبنی یا”فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ“ قسم کے انتخابی نظام میں، اقلیت پر مبنی ووٹرز پوری کمیونٹی کے لیے فیصلے لے سکتے ہیں۔
اس طرح کے نظام انصاف کے کسی ٹھوس اصول کی بنیاد پر نہیں اختیار کیے جاتے بلکہ ایک ایسا موزوں طریقہ سمجھ کر تشکیل دے دئیے جاتے ہیں جو کسی قسم کے فیصلے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جمہوریتیں دیگر مربوط نظام بھی بناتی ہیں، جیسے کہ cloture کے قوانین (بحث ختم کرنے کی اہلیت کے لیے)،قانون سازوں کی ترامیم کرنے کی صلاحیت کو محدود بنانے کے قوانین، اور نام نہاد اختیارات کی واپسی کے قوانین، جوکسی ایسے موقع پر عمل کے قابل بناتے ہیں جب کوئی قانون ساز کسی معاہدے پر نہ پہنچ سکے۔