Episode 19 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 19 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

گول کیپرز
 اب جبکہ نئے اہداف کا تعین کرنے کے لیے ایک طویل اور جامع عمل جاری ہے، اصل اہداف(یعنی ایم ڈی جیز) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان اور ان کے قریبی معاونین کی طرف سے تشکیل دئیے گئے تھے، اور ان میں عوامی سطح پر غوروفکر یا حکومتی شرکت کا بہت کم خیال رکھا گیا تھا۔ کوفی عنان اور ان کے عملے نے عالمی رہنماوٴں کی طرف سے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم، اور عالمی بینک کے ٹیکنوکریٹس کے ساتھ بند دروازوں کے پیچھے کام کرتے ہوئے، تفصیلات طے کرنے کے لیے مجوزہ فہرست پر دستخط کردینے کا انتظار کیا تھا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آخر میں نتیجہ اس قدر مختصر اور میٹھا کیوں تھا: صرف آٹھ بڑے مقاصد اور 18 مخصوص اہداف منتخب کیے گئے تھے۔

(جاری ہے)

وقت گزرنے کے ساتھ، عطیہ دہندگان نے بنیادی طور پر ان میں سے 9 کو نظر انداز کرکے اہداف میں مزید کٹوتی کردی۔ یہ اہداف کامل احساس کے حامل تھے۔جہاں ایک طرف 2015 کے آخر تک غربت کے شکار لوگوں کی تعداد کو نصف سطح تک لانے کا وعدہ واضح طور پر ایک اہم عالمی مقصد تھا، لیکن دوسرے اہداف کے بارے میں ایسا یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا تھا۔
مثال کے طور پر،ہدف آٹھ سی، ”خشکی میں محصور ترقی پذیر ممالک اور چھوٹے جزیروں پر مبنی ترقی پذیر ریاستوں کی خصوصی ضروریات کو پورا“ کرنے کے لئے دنیا سے التجا کرتے ہوئے ایک خاص دلچسپی کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے(پہاڑی یا نشیبی ملکوں کی ضروریات پر بھی کیوں توجہ نہ دی جائے؟)۔ ٹارگٹ ایک بی، جو ”خواتین اور نوجوانوں سمیت ہر کسی کے لئے مکمل اور فائدہ مند روزگار اور مناسب کام فراہم کرنے“ پر زور دیتا ہے، شروع سے ہی مسائل کا حامل تھا۔
آخر کار، ہر حکومت، پہلے سے ہی روزگار کی سطح میں اضافہ کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، مکمل روزگار دراصل ہر کسی کی خواہش نہیں ہے: لیبر مارکیٹ کو کافی متنوع قسم کے کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ لوگوں کو روزگار تبدیل کرنے کی اجازت دی جاسکے۔
اس کے ساتھ، ان اہداف میں کچھ قابل ذکر خلاء بھی تھے۔ مثال کے طور پر، ایم ڈی جیز نے… دنیا کے سب سے بڑے ماحولیاتی چیلنج کو نظرانداز کردیا تھا: یعنی ان ڈور فضائی آلودگی کو۔
تقریباً تین ارب افراد درختوں کی ٹہنیاں اور گوبر جلا کرکھانا پکاتے اور حرارت حاصل کرتے ہیں، یوں وہ دُھواں پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہر 13 اموات میں سے ایک واقع ہوتی ہے۔عطیہ دہندگان بجلی تک رسائی میں اضافہ کرکے ان اموات کی روک تھام کرسکتے ہیں، جس سے عام چولہے اور ہیٹر کو بجلی کے ذریعے چلایا جائے گا اور زراعت و صنعت میں پیداوری صلاحیت بڑھے گی۔
ایک اور مسئلہ جسے ایم ڈی جیز نے اہمیت نہیں دی، وہ آزاد تجارت سے متعلق تھا، جو غالباً لوگوں کو غربت سے نکالنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ عالمی بینک کے ماڈل بتاتے ہیں کہ اگر آزاد عالمی تجارت کا معاہدہ، آج منظور کرلیا جائے تو،اس سے 2020 تک دنیا کے جی ڈی پی میں 5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے، جس میں سے 3ٹریلین ڈالر ترقی پذیر ممالک کو حاصل ہوگا۔
اور اس صدی کے آخر تک، ایسا معاہدہ عالمی جی ڈی پی میں 100 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کرسکتا ہے، جبکہ ان میں سے زیادہ تر فوائد ترقی یافتہ ممالک سے باہر حاصل ہونگے۔
اس کے باوجود، جب اُن 9ترجیحات کی بات آتی ہے جن کے لیے فنڈنگ کا بڑا حصہ موصول ہوا ہے، تو ان کے ضمن میں پیش رفت شاندار رہی ہے۔ غربت کو لے لیجئے: 1990میں،ترقی پذیر دنیا میں 43 فیصد لوگ فی دن 1.25 ڈالر سے کم کماتے تھے، 2010تک،یعنی شیڈول سے پانچ سال آگے جاکر ، دنیا نے اس تعداد کو نصف کرنے کا اپنا مقصد حاصل کرلیا تھا۔
آج، غربت کی سطح 2015کے آخر تک 15فیصد تک پہنچنے کے راستے پر گامزن ہے۔ یا پینے کے پانی کا مسئلہ لے لیجئے: 1990 میں، ترقی پذیر دنیا میں تقریباً 30 فیصد لوگوں کو صاف پانی کے قابل اعتماد ذریعہ تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ 2008 میں، دنیا نے اس تناسب کو نصف سطح یعنی 15فیصد پر لانے کے مقصد میں کامیابی حاصل کرلی تھی اور2015 کے آخر تک، امید ہے کہ یہ شرح صرف 11 فیصد رہ جائے گی۔
دریں اثنا، ترقی پذیر دنیا میں 1990کے بعد سے زچہ، بچہ، اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح میں تقریباً 50 فیصد کمی آچکی ہے۔اُس وقت، 12 ملین بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مرجاتے تھے۔ آج، یہ تعداد سات ملین سے بھی کم ہے۔
کچھ مقاصد اب بھی پہنچ سے باہر ہیں۔ یہ بات بلا کسی تردد کے کہی جاسکتی ہے کہ سب کے لیے تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کا مقصد2015 کے آخر تک حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔
لیکن اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔کسی بھی مقصد کو سو فیصد حاصل کرنے کے وعدے میں ہمیشہ شک کی گنجائش رہتی ہے۔ اور بالفرض اگر اس طرح کے مقاصد قابل حصول بھی ہوں تو، اُن کی قیمت ناقابل برداشت ہو گی۔ پھر بھی، ترقی پذیر دنیا میں اب دس میں سے نو طالب علم پرائمری سکول کی تعلیم مکمل کرتے ہیں، یہ تعداد 1990 ء میں آٹھ طالب علموں کی نسبت بہتر ہوئی ہے۔
 یقینی طور پر، ان شعبوں میں ویسے بھی تھوڑی بہت بہتری واقع ہوسکتی تھی۔اگرچہ اہداف پر کام شروع کیے جانے کے بعد، غربت میں رہنے والے لوگوں کی تعداد میں واضح کمی واقع ہوئی ہے ، تاہم یہ کمی بین الاقوامی امدادی کوششوں کی وجہ سے نہیں بلکہ چین کی شاندار اقتصادی ترقی، کی مرہون منت ہے۔ اور ملینیم سمٹ سے خاصا عرصہ پہلے ہی، صاف پانی تک رسائی میں آہستہ آہستہ اور مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
(جب مفلس لوگوں کی غربت کم ہوجائے تو، وہ جن چیزوں کو سب سے پہلے تلاش کرتے ہیں اُن میں سے ایک صاف پانی ہے)۔ دوسری صورتوں میں، ایم ڈی جیز نے واضح طور پر ایک بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اہداف کی وجہ سے بین الاقوامی امداد کے ڈالرز کا رُخ تعلیم اور صحت کی طرف ہوسکا، جس سے پرائمری سکولوں میں جانے والوں کی تعداد میں اضافہ اور بچوں اور ماوٴں کی شرح اموات کو کم کرنے میں مدد مل سکی۔
حفاظتی ٹیکوں پر عالمی سطح پر 2000 کی نسبت تین گنا زیادہ رقم خرچ کی جارہی ہے؛ ان ٹیکوں کے ذریعے اب ترقی پذیر ممالک میں سالانہ دو سے تین ملین کے درمیان بچوں کو محفوظ بنایا جارہا ہے۔
شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ،ان اہداف نے بین الاقوامی ترقی کے لئے زیادہ وسیع پیمانے پر عوامی حمایت کے حصول میں مدد دی ہے۔ سرد جنگ کی محاذ آرائی کے مطالبات سے آزاد ہونے کے بعد، دنیا کے امیر ممالک نے 1990کی دہائی میں قابل ذکر طور پر اپنے غیر ملکی امدادی بجٹ کو کم کر دیا تھا۔
ایم ڈی جیز کے متعارف کروائے جانے کے بعد، حکومتوں نے عالمی ترقی میں ازسر نو دلچسپی لینے کو قبول کرتے ہوئے عالمی سطح پر دی جانے والی امداد میں دو تہائی اضافہ کردیا۔تاہم، آج مدد کی طلب میں اضافہ ہونے کے باوجود حکومتیں اپنے بجٹ کو محدود کررہی ہیں۔چنانچہ اہداف کے اگلے دور سے جُڑی بہت زیادہ توقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے، عطیہ دہندگان کو اب بھی ہر دستیاب ڈالر سے جس قدرممکن ہوسکے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے ہونگے۔
ضروری کاموں کی فہرست
اگلے سال کے دوران، حکومتوں، بین الاقوامی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو 2016 سے 2030 تک جاری رہنے والے مقاصد کے ساتھ، ایم ڈی جیز کے جانشینوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے پیچیدہ اعمال انجام دینے ہونگے۔بدقسمتی سے ایک نئی فہرست بنانے کے لیے کئی ممتاز کوششوں میں سے ایک حالیہ کوشش، جسے پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق اقوام متحدہ کے اوپن ورکنگ گروپ کے تحت آگے بڑھایا جارہا تھا، وہ اہداف کے بہت بڑے ڈھیر میں دفن ہوکر رہ گئی ہے…کیونکہ ہر قوم اور انٹرسٹ گروپ اپنے پسندیدہ منصوبوں کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
گروپ میں 70 ممالک کے نمائندے شامل ہیں؛ 2014 کے وسط تک، وہ چکرادینے والے 212 اہداف کا تعین کرچکے تھے۔اگرچہ شرکاء نے تسلیم کیا کہ ان اہداف کی تعداد میں ڈرامائی کمی کی ضرورت ہے،لیکن کوئی بھی ملک اپنے پسندیدہ منصوبوں کو ترک کرنا نہیں چاہتا تھا،اس کے بجائے انھوں نے ایک سے زیادہ اہداف کو یکجا کرنے کا راستہ منتخب کیا۔ لیکن یہ مشق زیادہ تر مصنوعی تھی: گروپ نے 43 اہداف حذف کیے لیکن الفاظ صرف 20کم کیے گئے، اور الفاظ کی مجموعی بقایا تعداد4,369 تھی۔
اس کا موازنہ ذرا 9اہم ترین ایم ڈی جی اہداف سے کیجئے، جنھوں نے محض 139 الفاظ کے ساتھ دنیا کے تخیل میں جذبہ بیدار کردیا تھا۔
مجوزہ اہداف میں سے بعض خواہشات پر مبنی تھے (جیسے کہ تپ دق اور ملیریا کو ختم کرنا)، بعض زیادہ اہم نہ تھے ( جیسے کہ”پائیدار سیاحت کو فروغ دیا جائے“)، اور کچھ تو بالکل ناممکن تھے ( جیسے کہ سب کے لئے سستی رہائش فراہم کی جائے)۔
اصل میں،انھوں نے ہر شخص کو تقریباً ہر چیز مہیا کرنے کا، وعدہ کیا تھا۔ مثال کے طور پر، ہر جگہ مفت پری اسکول، بنیادی، اور ثانوی تعلیم کی ضمانت کے بعد، انھوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ ”تمام طالب علم پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے درکار علم اور ہنر حاصل کرتے ہیں، جن میں دیگر کے علاوہ تعلیم کے ذریعے پائیدار ترقی اور پائیدار طرز زندگی، انسانی حقوق، صنفی مساوات،امن اور عدم تشدد کے کلچر کا فروغ، عالمی شہریت، اور ثقافتی تنوع اور پائیدار ترقی میں ثقافت کے کردار کو تسلیم کرنا شامل ہیں“۔
 
اصل ایم ڈی جیز نے واضح طور پر اس لیے کام کیا تھا کیونکہ اُن کا دائرہ کار محدود تھا۔اگر اگلے اہداف کی کامیابی کا کوئی بھی امکان ہوسکتا ہے تو اس کے لیے، اقوام متحدہ کو، اس وقت مجوزہ اہداف میں سے اکثر کے ساتھ لاتعلقی اختیار کرکے اور جو باقی بچ جائیں اُنھیں بہتر سے بہتر بناکے، اس بات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈالرز کا استعمال سب سے زیادہ کہاں فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
اس مقصد کے لئے، میرے تھنک ٹینک، کوپن ہیگن مرکز برائے اتفاق رائے نے، اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ کونسے اہداف سب سے زیادہ اچھے ثابت ہوسکتے ہیں ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے اور اسی کے مطابق ان کی زمرہ بندی کی ہے۔صف اول کے ماہرین اقتصادیات کے ساتھ ملکر، مرکز نے اوپن ورکنگ گروپ کی تیار کردہ مختلف فہرستوں پر اس نقطہ نظر کا تجربہ کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ، ہم ماہرین کے اس سے بھی بڑے گروپ کے ساتھ ملکر سب سے زیادہ ممتاز اہداف میں سے 50 کی افادیت کے بارے جاننے کے لیے ہزاروں صفحات پر مشتمل تحقیق مرتب کررہے ہیں۔ اس کے نتائج کو 2014 کے موسم خزاں اور سرما کے دوران شائع کیا جائے گا۔ اور پھر 2015 کے آغازمیں ،تین نوبل انعام یافتہ افراد ایک مستند درجہ بندی مہیا کرنے کے لئے پوری تحقیق کا معائنہ کریں گے۔
مختلف اہداف کے درمیان تمیز کرنے کے لئے، ہم نے ایک خاص بنیادی رنگ کا استعمال کیا ہے۔ ہم نے بہت بہترین اہداف کو گہرے سبز رنگ میں نمایاں کیا ہے…یعنی اُن اہداف کو جو معاشی، سماجی اور ماحولیاتی شعبوں میں اپنی لاگت کے مقابلے میں 15گُنا زیادہ اچھا کام کریں گے۔اور ہم نے ایسے منصوبوں کو جو لاگت کی نسبت پانچ سے پندرہ فیصد زیادہ اچھا کام کریں گے، ہلکے سبز رنگ میں پیش کیا ہے۔
جبکہ ہم نے درمیانے درجے کے منصوبوں کو پیلے رنگ سے ظاہر کیا ہے۔اور ہم نے اُن منصوبوں کو جن پر ان کے فائدے کی نسبت زیادہ اخراجات ہوں گے، سُرخ رنگ سے ظاہر کیا ہے۔ ان سادہ ترین کٹیگریز کا مقصد دنیا کے مصروف فیصلہ سازوں کو سب سے زیادہ موٴثر اہداف کو منتخب کرنے پرتوجہ مرکوز کرنے میں مدد دینا ہے۔اوپن ورکنگ گروپ کی حتمی فہرست پر اپنے تجزئیے میں ہم نے 13 گہرے سبز رنگ کے مقاصد اور نو سرخ رنگ کے مقاصد کی نشاندہی کی۔
نتائج میں سے کچھ بدیہی اور دیگر اشتعال انگیز تھے۔ ایک ساتھ ، وہ واپس وطن ایک اہم پیغام لیکر گئے: یعنی یہ کہ ” تمام اہداف یکساں اہمیت کے حامل نہیں ہوتے“۔
مثال کے طور پر،ہم نے گہرے سبز رنگ میں، ملیریا کے خلاف جنگ پر روشنی ڈالی ہے۔ ان پر لاگت کم ہے کیونکہ ان کے حل…جیسے کہ چینی دوا artemisinin سے بنا علاج کامجموعہ ، بیڈ نیٹ، اور گھر کے اندر سپرے کی فراہمی…سادہ، قابل بھروسہ اور سستے حل ہیں۔
(ملیریا سے کسی ایک موت کی روک تھام پر آنے والے اخراجات صرف 1ہزار ڈالر ہیں)۔جبکہ فوائد خاصے بڑے ہیں کیونکہ ، بیماری کے خلاف جنگ نہ صرف زندگی بچاتی ہے بلکہ اس سے سماجی پیداواری صلاحیت بھی بہتر ہوتی ہے۔ ایک اور غیر معمولی مقصد فوسلز سے بننے والے ایندھن پر سبسڈی کو ختم کرنا تھا۔ لیبیا اور ونیزویلا جیسے ترقی پذیر ممالک میں، گیسولین ایک ڈالر فی گیلن سے بھی کم پر فروخت ہوتی ہے، اور اس سے اُن لوگوں کو غیرضروری مراعات فراہم کی جاتی ہیں جو گاڑیاں رکھنے کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔
ان سبسڈیز کو کم کرکے حکومت کے کشیدہ بجٹ کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور ساتھ ہی گرین ہاوٴس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بنتی ہیں۔کسی بھی طرح کے استحقاق کو دُور کرنے کے سیاسی اثرات تو ہمیشہ ناقابل اعتبارہوتے ہیں، لیکن عالمی اہداف کی ایک ہائی پروفائل فہرست میں سبسڈیز کی نشاندہی ،رہنماوٴں کو کمی کا جواز پیش کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
ایک اوسان خطا کردینے والا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ایچ آئی وی / ایڈز کی روک تھام کے منصوبے پیلے رنگ کے تحت رکھنے پڑے۔ کیونکہ اس کے علاج کے لیے ضروری ادویات نسبتاً مہنگی ہیں اور علاج بھی عمر بھر کا ہے، ایچ آئی وی سے ہونے والی صرف ایک موت کو روکنے پر آنے والے اخراجات تقریباً 10ہزار ڈالر ہیں… یعنی اتنے زیادہ جتنے کہ ملیریا سے مرنے والے دس لوگوں کو بچانے پر خرچ ہوسکتے ہیں۔
ایک اور مقبول مقصد، یعنی قابل تجدید ذرائع سے دنیا کی توانائی کی کھپت کے حصے میں”خاطر خواہ اضافہ“ کیا جائے، سرخ رنگ کے تحت رکھا گیا۔ اگرچہ سولر پینل ، سیل فونز اور روشنی پیدا کرنے والے بلب چارج کر سکتے ہیں ، لیکن دنیا کے تین ارب غریب لوگوں کو اب بھی فریج اور چولہے کو چلانے کے لئے حیاتیاتی ایندھن کی ضرورت ہے، اور کاربن کی بنیاد پر توانائی کے ذرائع اب بھی بڑے پیمانے پر اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کا سب سے سستا ذریعہ ہیں۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا اندازہ ہے کہ قابل تجدید توانائی کے حصہ کو جو آج 13فیصد ہے 2035 تک صرف 18فیصد تک لے جانے کے لیے 2030تک سالانہ سبسڈی کی صورت میں 240 ارب ڈالرکی لاگت آئے گی… گویا یہ رقم 2030 میں دنیا کے مجموعی ترقیاتی بجٹ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔مزید یہ کہ،اس کے نتیجے میں گرین ہاوٴس گیسوں کے اخراج میں کمی شاید چھ فیصد سے بھی کم ہوگی،جس سے درجہٴ حرارت میں ایک ڈگری فارن ہائیٹ کے ایک سوویں حصے کے دو فیصد تک کمی ہوگی۔
اس کے علاوہ، یہ تبدیلی بجلی تک مجموعی رسائی کی قیمت پر واقع ہو گی۔مرکز برائے عالمی ترقی کی 2014کی ایک تحقیق کے مطابق، افریقہ میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ، 20 ملین لوگوں کو اندھیروں سے باہر نکال سکتی ہے، جبکہ قدرتی گیس میں اتنی ہی سرمایہ کاری سے 90 لاکھ لوگ بجلی کے گرڈ سے منسلک ہوسکتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں، قابل تجدید توانائی کو ترجیح دینے سے، تقریباً ہر چار میں سے تین لوگ اندھیرے کا ہی شکار ہوکر رہ جائیں گے، جنہیں دوسری صورت میں روشنی مہیا کی جاسکتی تھی۔
اس طرح کی سرخ رنگوں والی چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ اقتصادی اعداد و شمار کیونکر اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ آپ ایک ایسے ریستوران میں بیٹھے ہیں جس کے مینو میں کھانے پینے کی اشیاء کی وضاحت یا قیمت نہیں بتائی گئی۔ آپ یہ جان ہی نہیں سکتے کہ مچھلی کے سالن کی قیمت 20ڈالر ہے یا 2ہزار ڈالر، اور کیا وہ صرف آپ کے کھانے کے لیے ہوگا یا سب لوگوں کے لیے کافی ہوگا۔
جب تک کہ آپ کے اخراجات کا اکاوٴنٹ غیر معمولی نہ ہو، آپ شاید آرڈر کرتے ہوئے ہچکچائیں گے۔ اسی طرح، عطیہ دہندگان کوبھی اہداف کے ایسے مینو کی ضرورت ہے جس میں قیمتوں اور اُن کے حصہ سے متعلق وضاحت موجود ہو۔اس کے باوجود صرف پیسے ہی وہ اہم چیز نہیں ہیں جس کا خیال رکھا جانا چاہیے؛ شیمپین اگرمہنگی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف اس وجہ سے اس پر رقم خرچ نہیں کی جانی چاہیے۔
لیکن آپ کو یہ ضرور پتا ہونا چاہیے کہ اس پر رقم خرچ کرنے کے بعد شیرینی پر خرچ کرنے کے لیے کتنی رقم باقی بچے گی۔
نومبر 2014 میں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون یہ فیصلہ کرنے کا مشکل فریضہ انجام دیں گے کہ بے شمار طویل مینوز میں سے کیا آرڈر کریں، جن میں اوپن ورکنگ گروپ کی طرف سے تیار کردہ ایک مینو بھی شامل ہے۔ظاہر ہے، وہ شاید ان مقاصد کو تقسیم کرنے میں تردّد محسوس کریں جن پر 70 سے زائد ممالک کی طرف سے اتفاق کیا گیا ہے۔
وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ خواہشات پر مبنی کوئی بھی ایسی فہرست جو ایم ڈی جیز کے مقابلے میں کافی طویل ہوئی، تو اس بات کا بہت کم امکان ہوگا کہ وہ ان(ایم ڈی جیز) جیسی کامیابی حاصل کرسکے۔ یہ وقت ہے کہ بان کی مون اپنی مخصوص احتیاط پسندی چھوڑ کر فیصلہ کُن کارروائی کے لیے ہمت جمع کریں:اب جبکہ اُن کی مدت 2016 کے آخر میں ختم ہونے جارہی ہے، نئے اہداف ان کی سب سے اہم میراث بن سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، سب سے زیادہ موٴثر اہداف کو چھوڑ کر باقی تمام کو بند کرنا امیر ممالک کے لیے نئے اہداف کو زیادہ قابل قبول بنادے گا،جن کے تیزی سے فکر مند ہوتے ٹیکس دہندگان بل کے زیادہ تر حصے کا بوجھ برداشت کرینگے۔
 اہداف کی ان کی ممکنہ تاثیر کے مطابق درجہ بندی کرنا دراصل مقاصد کی ایک تیز، اور چھوٹی فہرست کی طرف پہلے واضح قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود سیاست ہی حتمی نتائج کی صورت گری کرے گی۔ مثال کے طور پر،ترقی پذیر ممالک کے رہنماء سماجی بے چینی کے ڈر سے،فوسلز ایندھن کی سبسڈی میں کمی کرنے سے قابل سمجھ طور پر تذبذب کا شکار ہونگے، اور امیر ممالک میں سیاست دان قابل تجدید توانائی میں بہت مہنگی لیکن مقبول سرمایہ کاری کو ترک کرنے کے خواہش مند نہیں ہونگے۔ کسی بھی جگہ کے پالیسی ساز ایچ آئی وی / ایڈز کا مقابلہ کرنے کے لیے فنڈز کی فراہمی کو ملیریا کی روک تھام پر خرچ کرنے کی طرف منتقل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہوں گے۔
لیکن اگرغیر جذباتی تجزیہ صرف کسی ایک بُرے ہدف کی جگہ ایک عظیم ہدف کو شامل کرنے میں مدد دے سکے، تو بھی اس کا اثر بہت بڑا ہوسکتا ہے، اس سے اربوں ڈالر ایک ایسے مقصد کی طرف منتقل ہوسکتے ہیں جو خرچ کیے جانے والے ہر ڈالر پر کئی گُنا زیادہ بہتری مہیا کرے گا، یعنی ایک ایسا نتیجہ جو بالآخر سینکڑوں ارب ڈالر سے زیادہ قیمتی ہوگا۔ جب کھربوں ڈالر داوٴ پر لگے ہوئے ہوں، تو چھوٹی تبدیلیاں بھی اختلافات کی دنیا پیدا کر سکتی ہیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط