اسٹریٹجک تعلقات
ریپبلکن یہ بات بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں امریکہ کی خارجہ پالیسی میں چار اہم تعلقات پر انتہائی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوگی…یعنی،یورپی یونین (EU)، روس، بھارت، اورچین کے ساتھ ہمارے تعلقات پر۔ان بڑی طاقتوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات عالمی استحکام اور سلامتی کے لئے انتہائی اہم ہوں گے۔
یورپی یونین اکیسویں صدی کے اہم ترین پاوربلاکس میں سے ایک کی نمائندگی کرے گی۔
امریکی خارجہ پالیسی کو ایک خودمختار جغرافیائی و سیاسی قوت، طور پر یورپی یونین کو تسلیم کرنا چاہئے، اگرچہ وہ نیٹو سیکیورٹی اتحاد میں شامل ہے مگراسے نیٹو اتحاد سے ممتاز حیثیت دی جانی چاہیے۔ حقیقت میں، امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات کی سفارتی و اقتصادی اہمیت کے اعتراف سے نیٹو کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات زیادہ مضبوط ہوجائیں گے۔
(جاری ہے)
یورپی یونین، تجارتی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے لئے کھلی داخلی سرحدیں رکھنے والی 25 قوموں پر مشتمل ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین کی تجارت… سالانہ بنیادوں پر اندازاً 1 ٹریلین ڈالر کے باہمی تبادلے کے ساتھ… دنیا میں تجارت اور سرمایہ کاری پر مبنی سب سے بڑے تعلقات، کی تشکیل کرتی ہے۔اس پہلے سے وسیع تر اقتصادی تعلق کو مزید بڑھانے کے علاوہ ، امریکہ اور یورپی یونین آنے والے دور کے عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی استطاعت سے ملکر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
یورپی یونین میں ترکی کی ممکنہ رکنیت سے بھی دونوں کو فائدہ ہو گا۔
1989 ء میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد سے،اب تک، روس سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ امریکہ کو روس کی اصلاحات کی کوششوں کی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔ صدر ولادی میر پوٹن نے تجارت کی عالمی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں شمولیت کے راستے پر چلتے ہوئے، روس میں عظیم تر سیاسی اور اقتصادی اصلاحات لانے کے لئے گذشتہ چار سالوں کے دوران امریکہ کے ساتھ مل کر خاصاکام کیا گیا ہے، لیکن روس کو ابھی اس ضمن میں مزید کوششیں کرنی ہوں گی۔
امریکہ اور روس کے تعلقات کی مضبوطی کا مطلب زیادہ موٴثر دوطرفہ تجارت کا فروغ ہوگا، جس سے بالآخر دونوں ممالک میں اضافی ملازمتیں، تحفظ، اور خوشحالی پیدا ہو گی۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ روس کے ساتھ توانائی کے سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر تعلقات مضبوط بنائے۔ روس کے پاس ثابت شدہ تیل کے ذخائر 60 ارب بیرل اور قدرتی گیس کے ذخائر تقریباً 17,00 ٹریلین کیوبک فٹ تک پہنچے ہوئے ہیں۔
اب جبکہ امریکی توانائی کی پالیسی کے تحت امریکہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے توانائی کے متنوع ذرائع کو یقینی بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ہمیں ایسی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو ایک اسٹریٹجک تجارتی پارٹنر کے طور پر روس کو شامل کرسکے۔
ایک ارب سے زیادہ لوگوں کے ساتھ، بھارت اکیسویں صدی کے وسط میں دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے جارہا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، اسے اسلوب حکمرانی اور آبادیات کے بہت سے مسائل کا سامنا ہے،جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، لیکن یہ زبردست صلاحیتیں بھی رکھتا ہے۔امریکہ اور بھارت کے درمیان سٹریٹجک تعلقات نہ صرف وسطی اور جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے لئے فائدے مہیا کریں گے، بلکہ وسیع تناظر میں بھی یہ بہت فائدہ مند ہوں گے۔تاہم، یہ تعلقات اپنی مکمل صلاحیت تک اُسی وقت پہنچ سکتے ہیں کہ، بھارتی حکومت اپنے ملک کی معیشت کو آزاد بنائے اور تنازعہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ ملکر کام جاری رکھے۔
ضروری نہیں کہ بھارت کے ساتھ ہمارے سٹریٹجک تعلقات، پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی قیمت پر ہی استوار ہوں؛ امریکہ کو علاقائی عدم استحکام اور تنازعات کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہیے۔
جہاں تک چین کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے، 1967 میں انہی صفحات پر صدر رچرڈ نکسن نے تعلقات کے تاریخی آغاز سے پہلے ان کے بارے میں بتایا تھا۔
انھوں نے کمیونسٹ چین کی سیاست اور پالیسیوں کے لیے اپنی مخالفت بالکل تبدیل نہیں کی، لیکن اس نتیجے پر پہنچے کہ،”طویل مدت کے لیے، اس کا مطلب چین کو عالمی برادری میں واپس لانا ہے… لیکن ایک عظیم اور ترقی کی طرف گامزن قوم کے طور پر…نہ کہ دنیاکے انقلاب کے لیے تشویش کے مرکز کے طور پر“۔یکے بعد دیگرے کئی امریکی صدور نے رچرڈ نکسن کی پیروی کی ہے، اور اس کے اثرات اچھے رہے ہیں۔
امریکہ کو آج یہ چیلنج درپیش ہے کہ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ چین معمول اور استحکام کی راہ پر گامزن رہے۔ تقریباً 1.3 ارب افراد کی سرزمین اور قریب لامحدود اقتصادی صلاحیت رکھنے والی عالمی طاقت، چین کی زیادہ علاقائی انضمام اور عالمی ذمہ داریوں کے لیے حوصلہ افزائی جاری رکھنی چاہیے۔
امریکہ اور چین کے درمیان ہمیشہ اتفاق رائے نہیں ہو گا، اور امریکہ کو انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے۔
لیکن اس کی آواز کو ایسے دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں زیادہ واضح طور پر اور تعمیری انداز میں سُنا جائے گا، جو عمومی طور پر مضبوط اور اعتماد پر مبنی ہوں۔ تجارت، جو دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم قدر مشترک ہے ، اسے سخت فیصلوں کے التوا یا پریشان کُن روئیے کے عُذر کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اسے ایک ایسے موقع کے طور پر لیا جانا چاہیے جس کے ذریعے دیگر مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے۔
خاص طور پر تین شعبے اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات مضبوط ہوسکیں گے یا نہیں۔ سب سے پہلے، شمالی کوریا کے جوہری عزائم کو روکنے میں مدد کے حوالے سے چین کا کردار اور اثر و رسوخ بہت اہم ہو گا۔ شمالی کوریا کے ساتھ چین کے خصوصی تعلقات ، اسے پیانگ یانگ کی صحیح انتخاب کے لیے حوصلہ افزائی میں منفرد کردار ادا کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
چین کے بغیر، شمالی کوریا کے لیے ہمارا اثر و رسوخ کم ہو جاتا ہے۔
دوسرایہ کہ، میزائل اور دوہرے استعمال پر مبنی ٹکنالوجی کے پھیلاوٴ کو کم کرنے کی عالمی کوششوں میں چین کا کردار اہم ہو گا۔ چینی حکومت نے حال ہی میں میزائلوں سے متعلق برآمدی کنٹرول اور دوہرے استعمال والے حیاتیاتی ایجنٹ اور ٹیکنالوجی پر قواعد و ضوابط شائع کیے ہیں۔
لیکن چین کو اپنے قوانین زیادہ طاقت کے ساتھ اور شفاف انداز میں نافذ کرنا چاہئیں، اور ظاہر ہونے والی کسی بھی خلاف ورزی پر اپنی کمپنیوں اور افراد کو جوابدہ بنانا چاہیے۔
تیسرا یہ کہ، امریکہ… عوامی جمہوریہ چین اور تائیوان کے درمیان اختلافات کے پُرامن حل کی حمایت کرتا ہے۔کراس۔سٹریٹ(چین اور تائیوان) کے اقتصادی رابطوں کی مضبوطی ،علاقے کے مثبت ترین رجحانات میں سے ایک ہے۔
تاہم، تائیوان کو نشانے پر رکھ کر میزائل اور دیگر مسلح افواج کی مسلسل تعیناتی سے شکوک پیدا ہوتے اور کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ امریکہ ”متحد چین“ کی پالیسی کے لئے ، اور تائیوان ریلیشن ایکٹ کے تحت اپنے فرائض کے لیے پُرعزم ہے۔ وزیر خارجہ کولن پاول نے اس بات کو بہترین انداز میں اُس وقت بیان کیا ،جب اُنھوں نے کہا کہ”چین… تائیوان کے ساتھ اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لیے امن کا راستہ منتخب کرے یا پھر جبر کا، اس سے ہمیں اس بارے میں بہت کچھ معلوم ہوجائے گا کہ چین اپنے ہمسائیہ ممالک اور ہمارے ساتھ کس طرح کے کردار کا متمنی ہے“۔
”بجلی کی چمک سے روشن“
بحران میں موقع کو تلاش کرنا ہی عظیم قیادت کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ تیرہ سال پہلے، صدر جارج ڈبلیو ایچ بش نے صدام حسین سے متعلق فیصلہ کیا اور نہ صرف کویت کے عراق سے الحاق کو واپس موڑا، بلکہ اس عمل میں سرد جنگ کے بعد دنیا کے لئے ایک راہ بھی متعین کی۔ عراق کے خلاف سوویت کے تعاون کے حصول میں، بش نے سوویت صدر میخائل گورباچوف کو بتایا کہ،”میں کل رات امریکی عوام کے پاس سرد جنگ کی کتاب بند کرنے کے لیے جانا چا ہتا ہوں، اور اُنھیں اس نئے عالمی نظام کا وژن پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں ہم باہم تعاون کریں گے ۔
“
اس نئی صدی کے موڑ پر، ریپبلکن اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ، امریکہ کو… انسانیت، آزادی، اور ترقی کے لئے ایک قوت بننا بھی جاری رکھنا چاہئے۔وہ جانتے ہیں کہ امریکی خارجہ پالیسی جو واضح طور پر ہماری شناخت، ہمارے عقائد، اور ہمارے اہم مفادات کی نمائندگی کرتی ہے، دراصل امریکیوں کے اپنی قسمت پر ایمان کی 200 سال کی وراثت ہے۔ امریکہ… ایک آزاد، خوشحال، اور پر امن دنیا کے لئے مرکزی قوت رہا ہے۔
جیسا کہ یونانیوں نے صدیوں پہلے بیان کیا تھا، ”آپ کا کردار ہی دراصل آپ کی قسمت ہے“۔
ایسے الفاظ میں جو آج بھی ادا کیے جاسکتے ہیں، صدر رونالڈ ریگن نے اپنے دوسرے افتتاحی خطاب میں، امریکی کی خارجہ پالیسی کے مرکز میں رہنے والی خوش اُمیدی کو واضح کیا تھا۔ انہوں نے دنیا کو ”بجلی کی چمک سے روشن شے“ کا نام دیا تھا۔ اتنا سب کچھ بدل رہا ہے اور بدل جائے گا، لیکن بہت کچھ ہمیشہ رہنے والا، اور وقت سے بالاتر ہے“۔
اُس وقت کی طرح اب بھی، خارجہ پالیسی میں امریکہ کامقصد ”بجلی کی چمک سے روشن“دنیا میں ایک نئے راستہ کا نقشہ کھینچنا ہے۔امریکی خارجہ پالیسی کو اس نئی صدی کے تحرک اور فوری ضرورت کو بیان کرنا چاہیے۔اس مقصد سے نہ تو وہ زعم ظاہر ہوتا ہے جو عظیم طاقت بننے سے آتا ہے اور نہ ہی یہ احساس جُرم کہ ہماری طاقت اور وسائل لامحدود ہیں۔ ایک ریپبلکن خارجہ پالیسی ایسی ہونی چاہیے جو ہمیں اندرون ملک متحد کرے اور اگلی نسل کے لئے ایک بہتر اور آزاد دنیا بنانے کے عظیم منصوبے کے لیے بیرون ملک دوست اور اثر و رسوخ مہیا کرسکے۔