ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے چلا جائے
ایک اور سبق اُس چیز سے متعلق ہے جسے فوج ”انٹرآپریبلٹی“ کا نام دیتی ہے،یعنی مختلف شعبوں کی آسانی سے ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت۔ افغانستان اور عراق میں امریکی حکومت کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک امریکی فوجوں کی غیر ملکی افواج کے ساتھ تعاون کرنے اور مختلف قسم کی امریکی افواج کے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے میں بہتری تھی۔
خاص طورپر، سپیشل آپریشنز اور عام فورسز نے برسوں کی باہمی ناراضگی کے بعد ملکر کام کرنا سیکھ لیا تھا۔ خلیجی جنگ کے دوران، جنرل نارمن شیوارز کووف نے آپریشن فورسز کو اس قدر شک کی نگاہ سے دیکھا کہ اُنھوں نے ان فورسز کو بالکل ہی میدان جنگ سے دُور رکھنے کی کوشش کی۔افغانستان اور عراق کی جنگوں کے ابتدائی سالوں میں، بہت سے پرانے کمانڈروں نے بھی خصوصی آپریشن فورسز کے اُن کے علاقوں میں بلا اجازت داخل ہونے اور کارروائیاں(جیسے کہ ایک بااثر شیخ کے خلاف چھاپہ مارنا) کرنے کی شکایت کی تھی،یہ سوچے بغیر کہ اس طرح کے اقدامات کس طرح بڑی احتیاط سے پروان چڑھائے گئے تعلقات کو تباہ کرسکتے ہیں۔
(جاری ہے)
یہ مسائل مکمل طور پر کبھی بھی ختم نہیں ہوسکے، لیکن 2007 تک، خصوصی آپریشن فورسز (خاص طور پر، جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ کی اعلیٰ قیادت کے ارکان) کو افغانستان اور عراق میں امریکی حکمت عملی میں ایک مرکزی مقام حاصل ہوگیا، اور روایتی فوج کے ساتھ ان کے معاملات تب زیادہ ہم آہنگی اختیار کرگئے۔ اتحادی افواج کے ساتھ بھی امریکی افواج کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، اگرچہ آسٹریلیا، کینیڈا، اور برطانیہ اب بھی ان کو حساس ترین معلومات سے محروم رکھنے کی طرف امریکی جھکاؤ کے بارے میں شکایات کرتے ہیں…یہ ایک اور ایسا شعبہ ہے،جس میں ابھی بھی بہتری کی گنجائش ہے۔
کچھ امریکی فوجی کمانڈروں نے اپنے سویلین مشیروں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے، لیکن جیسا کہ اکثر ہوتا آیا ہے، یہ تعلقات ناپسندیدگی پر مبنی اور غیر فعال تھے۔ مستقبل میں، روایتی فوج اور اس کے سویلین، غیر ملکی، اور خصوصی آپریشن فورسز کے ہم منصبوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تربیت دی جانی چاہیے،جس سے میدان جنگ میں ان کے تعلقات ہموار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
طویل فاصلے
آخر میں، واشنگٹن کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انسداد بغاوت اور قومی تعمیر کی مہمات کو انجام دینے میں وقت لگتا ہے۔عراق میں،امریکہ 2011تک یقیناًجنگ جیت چکا ہوتا، جب امریکی فوجوں کو وہاں سے نکلنا پڑا کیونکہ صدر اوباما فورسز کی نئی حیثیت کے معاہدے پر مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں ناکام رہے تھے، کچھ حد تک اس لیے کہ انھوں نے اسے کبھی بھی اپنی ترجیح نہیں بنایا تھا۔
اب، آئی ایس آئی ایس نے شام اور عراق کے ایک( برطانیہ سے بڑے) حصے کا کنٹرول حاصل کر لیا اور خلافت کا اعلان کر دیا ہے، اور عراق میں تشددکی سطح 2008 کی سطح پر واپس پہنچ گئی ہے۔اسی طرح کی تباہ کُن صورت حال افغانستان میں ہوسکتی ہے اگر امریکہ نے 2016 تک اپنی ساری فوجیں وہاں سے نکال لیں،جیسا کہ صدر اوباما نے وعدہ کیا ہے۔کسی بھی خاص تنازعہ میں، واشنگٹن کو ایک طویل مدتی عزم اختیار کرنے کی ضرورت ہے، کوسوو کے جیسے عزم کی، جہاں امریکی فوجیں 1999 سے تعینات ہیں،وگرنہ اسے ایسے کسی تنازعے میں ملوث ہونے کی زحمت ہی نہیں کرنی چاہیے۔
شک کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ غیرمستقل مزاج امریکی عوام کبھی بھی فوجیوں کی طویل مدتی تعیناتی کو قبول نہیں کریں گے، چنانچہ انسداد بغاوت کی سنجیدہ مہمات تو کبھی شروع ہی نہیں ہوسکتیں۔سچ تو یہ ہے کہ، امریکیوں نے افغانستان اور عراق کی جنگوں میں متاثر کن صبر دکھایا ہے، جس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ امریکہ ان تنازعات میں اتنے زیادہ وقت کے لیے کیوں ملوث ہوا جتنا کہ کوئی ابتدائی طور پرسوچ سکتا تھا۔
ہوسکتا ہے عام لوگ ان مہمات کے بارے میں بہت زیادہ پُرجوش نہ ہوں، لیکن ان جنگوں کے دوران ملک میں کبھی بھی اس سطح کے احتجاجی مظاہرے نہیں دیکھے گئے جیسے کہ ویت نام کی جنگ کے دوران دیکھے گئے تھے۔
صرف ایک وقت ایساضرور تھا جب یہ دونوں حالیہ جنگیں ایک اہم سیاسی مسئلہ بن گئی تھیں، اور وہ وقت 2006اور 2007کا تھا، جب عراق میں امریکی ہلاکتوں کی تعداد ایک ماہ میں 100 سے زیادہ تک پہنچ گئی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ امریکہ جنگ ہار چکا ہے۔
امریکی عوام ایک چیز برداشت نہیں کرسکتے ، اور وہ یہ کہ کسی ایسے مقصد کے لئے قربانیاں دی جائیں جس میں شکست یقینی ہو۔ لیکن ”سرج آپریشنز“ کی کامیابی کے بعد، عوامی مخالفت ماند پڑ گئی۔اگر صدر اوباما نے 2011 میں عراق کے ساتھ فورسز کی حیثیت کے بارے میں معاہدہ کرلیا ہوتا، تو اُنھیں وہاں ہزاروں فوجیوں کو رکھنے کے معاملے پر کسی سنجیدہ سیاسی رکاوٹ سامنا نہ کرنا پڑتا۔
اسی طرح، کوئی سیاسی رکاوٹ اُنھیں 2014کے بعد، یا حتیٰ کہ 2016 کے بعد بھی افغانستان میں ہزاروں فوجیوں کو رکھنے سے نہ روکتی۔
ان سفارشات میں سے کچھ نئی پالیسیوں سے بھی بڑھ کر اقدامات کا مطالبہ کرتی ہیں؛ دیگر سفارشات فوج کے روایتی اداروں کے نظام اور امریکی حکومت میں بڑی سطح پر اہم تبدیلیوں کی ضرورت کو نمایاں کرتی ہیں۔ان میں سے کسی کو بھی لاگو کرنا آسان نہیں ہو گا؛ مثال کے طور پر، دفاعی اخراجات میں اضافے یا قومی تعمیر کے کام میں مہارت رکھنے والی ایجنسی کے قیام کے منصوبوں پر کیپٹل ہل کی طرف سے شدید مخالفت کی جائے گی، اور فوجی اہلکاروں کے نظام پر نظر ثانی یا روایتی جنگ لڑنے کی مہارت کے طور پر زیادہ سے زیادہ ثقافتی اور لسانی علم پر توجہ دینے کے منصوبوں کی پنٹاگان شدید مخالفت کرے گا۔
اور بالفرض اگر پالیسی ساز یہ تمام سبق دل سے قبول بھی کرلیں، تب بھی وہ انسداد بغاوت اور قومی تعمیر جیسی پیچیدہ اور صبر آزما ذمہ داریوں کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے کی ضمانت نہیں دے سکتے۔لیکن عملی طور پر ان تمام اسباق پر توجہ دینے سے انکار اس بات کی ضمانت ضرور ہوگا کہ امریکہ کی مستقبل کی جنگیں، بہترین صورت بھی ہوئی تو، ضرورت سے کہیں زیادہ قیمت پر کامیابی سے ہمکنار ہوں گی… اور اگربدتر صورت ہوئی، تو مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہوں گی۔