Episode 12 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 12 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

آئیے معاہدہ کر لیتے ہیں
چونکہ طالبان پر قابو پانا ممکن نہیں، ایک حتمی شکست سے بچاؤ کا واحد حقیقی متبادل مذاکرات کے ذریعے معاہدہ کرنا ہی ہے۔ اوباما انتظامیہ نے ایسے معاہدے کے لیے ایک سال سے کوششیں کی ہیں، مگر اب تک یہ عمل بہت ہی محدود طور پر آگے بڑھ سکا ہے۔اور اب تو ان مذاکرات کے حوالے سے بہت سے شبہات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔
مثال کے طور پر بہت سے لوگ اس بات پر شبہ کا اظہار کرتے ہیں کہ آیا طالبان مذاکرات کے لیے سنجیدہ بھی ہیں یا نہیں۔
آخر2011کے اواخر میں، انہوں نے افغان صدر حامد کرزئی کی اعلیٰ سطح کی امن کونسل کے سربراہ اور افغانستان کے سرکاری عہدیدار برہان الدین ربانی کومحض مذاکرات آگے بڑھانے کے جُرم میں ہی قتل کیا تھا۔ چونکہ طالبان کے پاس امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کا انتظار کرنے اور جنگ میں مکمل فتح حاصل کرلینے کا راستہ موجود ہے لہٰذا وہ کسی کم قیمت پر معاہدہ کیوں کریں گے؟ کچھ دوسرے لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ طالبان محض موجودہ وقت کے لیے مذاکرات میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے اُنھیں سیاسی قدکاٹھ اور اہمیت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان کے مختلف گروہوں ، اُن کے پاکستانی بھائی بندوں،کرزئی انتظامیہ،امریکی حکومت اور اس کے اتحادیوں،اور قطر جیسے درمیانی لوگوں کو ایک ساتھ اکٹھا کرنا صورت حال کو مزید پیچیدہ کرنے کا سبب بنے گا۔
امریکہ میں کنزرویٹوز، اوباما انتظامیہ کے عزائم پر شبہات کا شکار ہیں، اور وہ اس تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ دشمن سے مذاکرات کرنا آپ کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے، اور وہ اس خوف کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ وہائٹ ہاؤس افغانستان سے جلد انخلاء پر پردہ پوشی کے لیے غیرضروری رعایات دینے پر تیار ہوجائے گا۔
لبرلز کو افغان عورتوں اور اقلیتوں کے لیے مشکلوں سے حاصل کی گئی کامیابیوں کے کھوجانے کا ڈر ہے۔ اور بہت سے افغان باشندے،بالخصوص افغان عورتوں کے گروپ اور وہ لوگ جو ملک کی پشتون اکثریت میں شامل نہیں،ان مذاکرات کے نتائج پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور بعض تو اسے روکنے کے لیے خانہ جنگی کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ 
ان شبہات کے باوجود مذاکرات کے ذریعے طالبان کے ساتھ معاہدے کا امکان موجود ہے جو ناکام افغان پالیسی پر پردہ ڈالنے کے لیے کافی کچھ مہیا کرسکتا ہے۔
طالبان نے بہر حال عوامی سطح پر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے… یہ اُن کے لیے ایک مہنگا سودا ہے کیونکہ طالبان کسی ایک جماعت کا نام نہیں بلکہ وہ مختلف گروہوں پر مشتمل ہیں۔ جب ملا عمر کے نمائندے مذاکرات پر آمادہ ہوتے ہیں تو کوئی دوسرا گروہ اس تشویش میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اُن کی عدم موجودگی میں معاہدے کیے جارہے ہیں۔ طالبان کے جنگی کمانڈر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا جنگ کے حالات حقیقتاً وہی ہیں جو اُن کے لیڈر بتاتے ہیں(وہ سوچتے ہیں کہ اگر اُن کی فتح واقعی نزدیک ہے تو پھر مذاکرات کس لیے کیے جارہے ہیں؟) اور ایسی صورت میں انھیں اپنے جنگجوؤں کو جانیں خطرے میں ڈالے رکھنے پر آمادہ رکھنا مشکل نظر آتا ہے کیونکہ مبہم مذاکرات اُن کی ان قربانیوں کو غیرضروری بنا دیتے ہیں۔
طالبان کا یہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہونا ،معاہدہ کرنے میں اُن کی ممکنہ دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔
طالبان کے معاہدے میں دلچسپی ظاہر کرنے کی کئی اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ملا عمر اور اس کے ساتھی قریب ایک دہائی سے پاکستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں…اُن کے بچے پاکستانیوں کی حیثیت سے پرورش پارہے ہیں…اور اُن کی نقل و حرکت یقینا وہاں محدود ہوگی۔
افغان لوگ اپنی قوم پرستی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ،اور افغانیوں کی سرحدپار دشمنی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔اپنے ملک کی سرحد پار کرکے دوسرے ملک(پاکستان) میں جابسنا یقینا افغان طالبان کے لیے بہت بڑی مصیبت ہے۔ شاید زیادہ اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں وہ مستقل طور پر امریکی ڈرونز اور کمانڈو حملوں کے نتیجے میں ہلاک کیے جانے کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں، جیسے کہ اُسامہ بن لادن اور القاعدہ کے پچھلے سات آپریشن ڈائریکٹر اسی نوعیت کے حملوں میں مارے یا پکڑے جاچکے ہیں۔
 
 جنگ کا بغیر نتیجے کے جاری رہنا افغان فورسز اور اُن کے اتحادیوں کی طرح طالبان کے لیے بھی اپنے آدمیوں کی جانیں گنوانے اور وسائل کے ضیاع کا باعث ہوگا۔ اگرچہ طالبان شاید یہ قیمت طویل مدت تک ادا کرتے رہنے کے قابل ہیں، اور وہ جانیں قربان کرنے سے بچنے کے لیے کبھی بھی ہتھیار پھینکنے پر تیار نہیں ہونگے،مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ کسی ممکنہ معاہدے پر خون بہاتے رہنے کو ترجیح دیں گے۔
اس لڑائی میں طالبان کو اتنی قیمت ضرور ادا کرنی پڑرہی ہے کہ وہ کسی ایسی پیشکش پر غور ضرور کریں گے جو اُن کی شکست کے مترادف نہ ہو۔ 
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کے معاہدے کی صورت کیا ہوگی؟اصولی طور پر ،گفت وشنید سے ایسے نقطہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ جہاں تمام پارٹیوں کے اہم مفادات کا تحفظ ہوسکے، خواہ کسی کے من پسند عزائم پوری طرح پایہٴ تکمیل کو نہ بھی پہنچیں۔
طالبان کو پُرتشدد کارروائیوں سے روکنا، خود کو القاعدہ سے الگ کرنا،ہتھیار پھینکنا،اور آج کے افغان آئین کی شرائط کے مطابق رہنا قبول کرنا ہوگا۔ اس کے بدلے میں اُنھیں ایک سیاسی جماعت کے طور پر قبول کرلیا جائے گا،پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کرنے اور دفاتر قائم کرنے کی اجازت حاصل ہوگی،اور ساتھ ہی افغانستان میں باقی بچ رہنے والے تمام غیرملکی فوجیوں کو بھی نکال لیا جائے گا۔
افغان حکومت کو طالبان کا حکومتی اتحادی کے طورپر کردار قبول کرنا ہوگا اور اس کے نتیجے میں طالبان کے سیاسی طور پر متحرک ہونے کے عمل کو بھی برداشت کرنا ہوگا۔ اس کے بدلے میں افغان حکومت کو افغانستان کی موجودہ حالت کے مطابق بنیادی اختیارات سونپ دئیے جائیں گے،اور وہ یقینا اتحادی حکومت کے قیام کے لیے درکار ووٹوں کو کمانڈ کرے گی،کم ازکم آئندہ مدت کے لیے۔
پاکستان کو طالبان کے زیرِ اثر کٹھ پتلی افغان حکومت کے قیام کے دیومالائی خوابوں کو بھول جانا ہوگا،تاہم افغان بارڈر کے ساتھ اس کی سرحدیں محفوظ ہوجائیں گی اور وہ اپنے طالبان نمائندگان کے ذریعے اتنا اثر و رسوخ بھی حاصل کرلے گا کہ افغانستان اوربھارت کے درمیان کسی بھی ایسے اشتراک کو روک سکے جو اس کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہو ۔ اور امریکہ کو اپنے حصّے کا کردار ادا کرتے ہوئے، طالبان کے سیاسی کردار کو قبول کرنا ہوگا،اور اس کے ساتھ اُن سے اپنے لیے خاص مقام اور اثرورسوخ،اور مستقبل میں دہشت گردی کے خلاف کسی ممکنہ آپریشن کے لیے افغان سرزمین پر مناسب بیس سٹرکچر مہیا کرنے کی گارنٹی جمہوری اصولوں کے مطابق طلب کر نی ہوگی۔
 
 امریکی نقطہٴ نظر سے،جنگ کا یہ انجام من چاہا ہرگز نہیں ہوگا۔ اس سے امریکہ کو اپنے وہ عزائم قربان کرنا ہونگے جن کے حصول کے لیے وہ 2001سے کوشاں ہے۔طالبان کو افغانستان کی سیاست میں شامل ہونے کی اجازت دینا اور ایک ایسی تنظیم کو اقتدار میں حصّہ دار بنا دینا جس کے ہاتھ ہزاروں امریکیوں کے خون سے رنگے ہیں،انتہائی مشکلات کے بعد افغان عورتوں اور مقامی اقلیتوں کے لیے حاصل کیے گئے حقوق کو دوبارہ خطرات سے دوچار کردے گا۔
پھر بھی اگر مناسب حکمت عملی کے تحت مذاکرات کیے گئے تو اس معاہدے سے امریکہ کے افغانستان میں دو اہم قومی مفادات کا تحفظ ہوسکے گا…ایک یہ کہ افغانستان مغرب پر حملوں کے لیے دہشت گردوں کا مرکز نہ بنے، اور دوسرا یہ کہ افغانستان اپنے ہمسایہ ممالک کے امن کو خراب کرنے کا مرکز نہ بن سکے۔ 
جب تک طالبان کو وزارت داخلہ، یا اہم سرحدی علاقوں میں ضلعی یا صوبائی سطح پر اختیارات نہیں ملتے، اتحادی حکومت میں شامل غیرطالبان عناصر کی اکثریت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ افغانستان اُسی طرح دہشت گردوں کے ٹھانوں کا مرکز نہ بن سکے جیسا کہ وہ اس جنگ سے پہلے ہوا کرتا تھا۔
اس کے برعکس ایک معقول مرکزی حکومت قائم نہ ہونے کی صورت میں کچھ بھی روکنا ممکن نہ ہوسکے گا۔ ایک پائیدار حکومت کے زیرِ اثر افغان خواتین اور اقلیتی عوام کو جو مشکلات برداشت کرنا پڑیں گی وہ انارکی کی صورت میں ملنے والی صعوبتوں کی نسبت کہیں کم ہوں گی۔ طالبان کے ساتھ کمپرومائز کرنا کڑوی گولی نگلنے کے مترادف ہوگا مگر اس وقت اس صورت میں ہمیں دیگر متبادل راستوں کی نسبت کم قربانی دینا پڑے گی۔
سب کی ”ہاں“ تک پہنچنا
طالبان کے ساتھ میل ملاقات محض مذاکراتی عمل کا آغاز ہے۔ ایک پائدار معاہدے کے لیے امریکی حکومت اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں سیاسی عمل کی بنیاد رکھتے ہوئے اس سے کہیں آگے جانا ہوگا۔اگرچہ مذاکرات کرنے والوں کو آسان حالات کا سامنا نہیں ہوگا خاص طور پر جب اُنھیں شمالی اتحاد کے طالبان مخالف عناصر کو طالبان کو دی جانے والی رعایتوں کو قبول کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا، مگر ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کابل میں مس گورننس کی تباہ کن صورتحال ہے۔
کسی بھی معاہدے کی صورت میں طالبان کو قانونی حیثیت اور سیاسی مقام دینا ہوگا۔ یہ مقام و مرتبہ اُنھیں حکومت پر کنٹرول تو نہیں دے گا مگر قانونی حیثیت دینے سے اُنھیں انتخابات میں حصّہ لینے کا حق مل جائے گا اور وہ بعدازاں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ بھی کرسکیں گے۔طویل مدتی بنیادوں پر طالبان کے اثرورسوخ کو روکنے کا دارومدار ایک قابل بھروسہ اور اہل مدمقابل کی طرف سے سیاسی مقابلے پر ہوگا…مگر ایسا کوئی مدمقابل اب تک کابل انتظامیہ پیش نہیں کرسکی یا کرنا نہیں چاہتی۔
 
طالبان دراصل افغانستان میں مقبول نہیں ہیں اور اسی لیے وہ ایسے معاہدے کو ہی قبول کریں گے جو اُنھیں حکومت میں ایک خاص سطح پر نمائندگی حاصل کرادے۔ تاہم اُنھیں کم ازکم کرپشن نہ کرنے والا تصور کیا جاتا ہے جبکہ کرزئی حکومت انتہائی کرپٹ رہی ہے، بیرونی عناصر سے پُر ہے اور تیزی سے تباہی سے دوچار ہورہی ہے۔ اگر حامد کرزئی کے بعد حکومت سنبھالنے والے نے بھی یہی کام جاری رکھا ، تو گویا وہ طالبان کو حقیقی قوت حاصل کرنے کا بہترین موقع فراہم کردے گا۔
 
اگر کابل میں مس گورننس اسی طرح جاری رہی یا مزید خراب صورت اختیار کرگئی تو اس صورت میں ایک ظالمانہ مگر ایماندارانہ حزب اختلاف کو آگے آنے کا موقع مل جائے گا۔اگر طالبان قانونی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اہم سرحدی اضلاع پربالآخر کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں،اور اپنے مسلح پاکستانی ساتھیوں کو زمانہٴ جنگ کے قرض چکانے اور افغانستان میں اپنے بیس کیمپ بنانے کی اجازت دے دیتے ہیں تو جنگ کا یہ نتیجہ مغرب کے لیے اُتنا ہی خطرناک ہوگا جتنا کہ جنگ میں افغان حکومت کی فوجی محاذ پر شکست ہوتی۔
اس نتیجہ سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ کابل انتظامیہ اپنے طور طریقے تبدیل کرے۔
 تاہم اب تک مغربی ممالک تبدیلی پر آمادہ نظر نہیں آتے اور ڈپلومیسی کی حکمت عملی کو جاری رکھنے کے لیے استطاعت بڑھانے کے لیے امداد کے طریقے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ اس طرح کی کھلے دل سے کی جانے والی امداد اُس صورت میں کافی ہوتی اگر معاملہ صرف صلاحیتوں اور استطاعت کا ہی ہوتا۔
مگر افغانستان میں مس گورننس اس لیے کی جاتی ہے کہ اس پر طاقت جمائے بیٹھے افراد اس طرح کے غلط کاموں سے پیسہ بٹورتے ہیں۔ وہ محض امریکیوں کے کہنے پر خود کو تبدیل نہیں کریں گے، اور بغیر شرائط کے اُن کی استطاعت میں اضافہ کیے جانا دراصل زیادہ ہوشیار لالچی اور کرپٹ عناصر کو جنم دے گا۔ حقیقی بہتری اُسی صورت ممکن ہوسکتی ہے اگر عالمی ڈونرز دیگر اقدامات کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ اگر افغان حکومت اصلاحات کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اُس کی امداد روک لی جائے۔
مگر عالمی ڈونرز نے اس حقیقت پر مبنی مطالبہ سے صرف اس لیے منہ پھیر رکھا ہے کہ اُنھیں ڈر ہے یہ اقدام دھوکہ دہی قرار پائے گا، امداد کو روکنا پڑے گااور اس سب کے نتیجے میں ایک مضبوط استطاعت کی حامل افغان سول اور فوجی انتظامیہ کا قیام التوا کا شکار ہوجائے گا…جو کہ مغربی قوتوں کے لیے افغانستان سے فوجیں نکالنے کے منصوبے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر مغربی قوتیں کابل کی حکومت کے لیے قابل اعتبار طور پر اہمیت کی حامل کسی چیز کو روکنے کی تنبیہ نہیں کریں گی،تو افغان حکومت کی کارکردگی میں کبھی بہتری نہیں آسکے گی۔ اب ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کا وقت گزر چکا ہے، مغرب کو اُس وقت اس حکمت عملی سے زیادہ بہتر نتائج مل سکتے تھے جب اُن کے پاس اس پر عمل درآمد کے لیے زیادہ امدادی بجٹ موجود تھا اور ان کے پاس فوجی ذرائع کی بھی فراوانی تھی۔
اب بھی قابل اعتماد شرائط عائد کرکے تھوڑے بجٹ کو بھی اصلاحات کے لیے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شرائط عائد کرنے کے طریقے کو مناسب طور پر استعمال کرنے کا مطلب ہوگا کہ اگرافغان انتظامیہ اور اس کے ادارے اصلاحات کرنے سے انکار کرتے ہیں تو مغربی ممالک کوجان بوجھ کر ان کی استطاعت کم کرنا ہوگی…یہ کام نہ تو آسان ہے اور نہ ہی خوش کن لیکن اگر مغربی ممالک واقعی ایک معاہدہ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو یہ انتہائی ضروری ہے۔
 
اوباما حکومت کو اس کے لیے نہ صرف واشنگٹن میں بلکہ کابل میں بھی سنجیدہ طور پر سیاسی کام کرنا ہوگا۔ کسی پائیدار معاہدے کے لیے مذاکرات میں برسوں لگ سکتے ہیں اور اس کے لیے مغرب کو خاصی ریاعات بھی دینا ہوں گی، اور اس طرح کے عمل سے کانگریس کے ارکان کو خوب تنقید کرنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کا موقع ملے گا۔
 اوباما انتظامیہ کا اس ضمن میں ابتدائی تجربہ تعمیری ثابت نہیں ہوا، جب انہوں نے ایک ابتدائی بھروسہ قائم کرنے کے اشاراتی عمل کے طور پر طالبان کی قید میں بند واحد امریکی سارجنٹ Bowe Bergdahl کی رہائی کے بدلے گوانتانامو بے جیل میں بند پانچ طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کی پیشکش کی تھی، اس پرامریکی قانون سازوں نے بے حد شورو واویلا مچایا،نتیجتاً قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا، طالبان نے اسے بے ایمانی (قیدیوں کی رہائی کے معاملے کو بھی اور افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے اس میں نئی شرائط شامل کرنے کو بھی) قرار دیا، اور یوں مذاکرات کا خاتمہ ہوگیا۔
ایک حتمی امن معاہدے کے لیے سنجیدہ مذاکرات دراصل کانگریس کے ارکان کو احتجاج اور شورو واویلا کے ان گنت مواقع فراہم کریں گے، اگر بڑے ایشوز پر قانون سازوں نے اسی طرح سے کھیل کھیلنا جاری رکھا اور حکومت نے خود کو اُن کا نشانہ بنائے رکھا… تو ایک پائیدار معاہدے کا قیام ناممکن ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کانگریس نے جنگ کے لیے فنڈز جاری کرنا بہت جلد بند کردئیے، تو غیر نتیجہ خیز مذاکرات ویسے ہی دم توڑ دیں گے کیونکہ طالبان کو جنگ میں فتح کے لیے کسی رعایت کی ضرورت نہیں رہے گی۔
 مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے، کانگریس کو ذاتی پسند ناپسند سے بالاتر دو سیاسی امور انجام دینا ہوں گے، یعنی طالبان کو دی جانے والی رعایتوں کو قبول کرنا اور افغان فوج کو دی جانے والی غیرمقبول امداد کو جاری رکھنا۔ آخرالذکر کام کے حوالے سے اُسے خاص طور پر اختلافی نظرئیات پر کمپرومائز کرنا ہوگا، اور ہوسکتا ہے کہ ان دونوں مقاصد یا ان میں سے کسی ایک کو حاصل کرناناممکن ثابت ہو۔
لیکن اگر انہیں ممکن بنانا ہے تو اس کے لیے وہائٹ ہاؤس کو کانگریس میں حمایت کے حصول کے مقصد کو سامنے رکھ کر انتھک کوشش کرنا ہوگی۔ صدر اوباما کو متنازعہ افغان پالیسی پر عملدرآمد کے ضمن میں قوت حاصل کرنے کے لیے وسیع سیاسی سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔ یہ وہ کام ہے جو اُنھوں نے اب تک نہیں کیا۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط