Episode 111 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 111 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

جب بالآخر 1970کی دہائی کے آخر میں ترک مورخین واپس اس موضوع کی طرف آئے تو تب بھی انھوں نے ایسا صرف مغربی یورپ میں ترکی کے سفارت کاروں پر دہشت گردانہ حملوں کی لہر کے جواب میں ہی کیا، ان میں سے اکثر حملے بیروت میں مقیم آرمینی عسکریت پسندوں کی طرف سے کئے گئے تھے۔اس مہم نے قوم پرست مورخین کے درمیان ایک جنگ چھیڑ دی۔ ایک سادہ آرمینی داستان میں کریک ڈاؤن کو ہوا دینے میں بنیاد پرست آرمینی سیاسی جماعتوں کے کردار کو کم اہمیت دیتے ہوئے ترک قصورواروں، کٹھور بین الاقوامی دوہرے معیاروں، اور معصوم آرمینی متاثرین کے بارے میں بتایا گیا۔
اس کہانی کا جواب ترکی کے حامی سکالرز کی طرف سے توڑ مروڑ کر پیش کیے گئے کہیں زیادہ غیر حقیقی قصے پر مبنی تھا، جن میں سے زیادہ تر کو ترک حکومت سے فنڈز ملتے تھے۔

(جاری ہے)

اس کہانی میں آرمینیائی باشندوں کو غدار اور مسلمانوں کو اُن عیسائی عظیم طاقتوں کا نشانہ بننے والوں کے طور پر پیش کیا گیا جو سلطنت عثمانیہ کو توڑنا چاہتی تھیں۔

امریکہ نے ان بیانات اور ان کی تردید کے لئے اہم میدان کے طور پر خدمات انجام دیں۔
1990 میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں،واشنگٹن ڈی سی میں ترک سٹڈیز کے لیے نئے قائم کردہ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ہیتھ لاؤری نے ترک دلائل کے مشترکہ رُجحان کی ہی پیروی کی:اور وہ یہ تھا کہ مغربی عینی شاہدین کی شہادتوں کی صداقت کو جھٹلایا جائے۔ ان کی کتابThe Story Behind "Ambassador Morgenthau's Story," میں الزام لگایا گیا کہ مورگن تھاوٴ ایک ناقابل اعتماد گواہ تھے۔
دوسرے مصنفین نے دلیل دی کہ امریکی مبلغین اپنے مسلم مخالف تعصب کے باعث ناقابل اعتماد تھے۔گزشتہ کئی سالوں سے،درجنوں اہم ترین اور معتبر ذرائع کو بدنام کرنے کی کوششیں بہت زیادہ پیچیدہ صورت اختیار کر گئی ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ سے کام کرنے والی ترک ویب سائٹ ”Tall Armenian Tale“ قتل عام کے سینکڑوں عینی شاہدین میں سے ہر ایک کی شہادت پر شکوک کھڑے کرنے کی جان توڑ کوشش کرتی ہے۔
تاریخی تحقیقات کے ایک زیادہ جائز طریقہٴ کار میں پہلی جنگ عظیم کے دوران اناطولیہ اور قفقاز کے مسلمانوں کے اب تک نظر انداز کیے جانے والے مصائب پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ان قصوں نے نشاندہی کی ہے کہ صرف آرمینیائی باشندوں کو ہی مشرقی ترکی میں ظلم و ستم کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، بلکہ کرد اور ترک آبادی کو بھی روسی فوج کے ہاتھوں،جس میں کئی آرمینی رجمنٹ بھی شامل تھیں، اس وقت شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا، جب ان فورسز نے آرمینیائی باشندوں کی ملک بدری کے تھوڑی ہی دیر بعد مشرقی ترکی کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔
بعد میں، 1918سے 1920کے درمیان، مختصر مدت کے لیے آزاد ہونے والی جمہوریہ آرمینیا نے بالشویکوں کے ہاتھوں فتح ہونے سے پہلے آذربائیجان کے مسلمانوں کو جلاوطن کردیا ۔
آرمینیائی قتل عام کے زمانہٴ جنگ کے سیاق و سباق اور اس میں ملوث بہت سے کرداروں… آرمینیائی اور ترک اقوام کے علاوہ اشوری، آذربائیجان ، یونانیوں، کردوں، برطانوی، جرمن، اور روسیوں… نے کہانی کو تمام تر حقائق کے ساتھ بیان کرنا بہت مشکل بنادیا ہے۔
آرمینیائی نسل کشی کی تاریخ میں، ہولوکاسٹ داستان کی اثرانگیز سادگی نہیں پائی جاتی۔ لیکن مورخین کی ایک نئی نسل نے آخر کار سانحہ کے مکمل سیاق و سباق کی وضاحت کا کام تکمیل تک پہنچادیا ہے۔ان میں سے بعض، جیسے کہ ریمنڈ کیورکیان آرمینیائی ہیں، جبکہ دوسرے، جیسے کہ ڈونالڈ بلوکسھم اور ایرک جان زرچر، یورپ سے تعلق رکھتے ہیں۔بعض کا تعلق ترکی سے ہے، جیسے کہ، فکرٹ ایڈانیر،تانر اکسم، حلیل برکتے اورفوعات دندار۔
ان تاریخی حقائق میں سے اکثر کے مرکز میں ایک تلخ سچائی کا بیج موجود ہے:اگرچہ مسلمانوں کو بھی پہلی عالمی جنگ کے دوران،اناطولیہ اور قفقاز دونوں مقامات پر، بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ،لیکن جس تکلیف سے آرمینیائی باشندوں کو گزرنا پڑا وہ درد کی ایک بالکل مختلف کہانی ہے۔اشوریوں کے ساتھ ساتھ، آرمینیوں کو اس تباہ کرنے کی مہم کا نشانہ بنایا گیا جوزیادہ منظم اور پُر ترتیب ہونے کی وجہ سے زیادہ خوفناک تھی۔
اور اگرچہ کچھ آرمینی قوم پرستوں نے سلطنت عثمانیہ کے سفاکانہ جواب میں مدد کی تھی، لیکن ہر ایک آرمینیائی باشندے کو اس کے نتیجے کے طور پر نقصان اٹھانا پڑا۔جیسا کہ بلوکسھم نے لکھا ہے کہ، ” پہلی عالمی جنگ کے دوران،اور کہیں بھی چند لوگوں کی علیحدگی پسند قوم پرستی کا جواب اس طرح اُس وسیع تر نسلی کمیونٹی کی مکمل تباہی کی صورت میں نہیں دیا گیا، جسے یہ قوم پرست متوجہ کررہے تھے“۔
لفظوں کا بطور ہتھیار استعمال
عالمی جنگ میں آرمینیائی باشندے جس تجربے سے گزرے، اگر وہ معاملہ محض تاریخی تشریح کا ہوتا تو آگے بڑھنے کا راستہ بہت واضح ہوتا۔ انتہائی اہم ذرائع پر مبنی بہت زیادہ مواد،آرمینیائی زبانی تاریخ کے ساتھ مل کر، اُن چیزوں کی سچائی کی توثیق کرتا ہے جسے آرمینی یاد کرتے ہیں…جیسے کہ یہ سادہ سی حقیقت بھی کہ تمام تر لوگوں کو ان کے تاریخی وطن سے غائب کردیا گیا۔
ایسا لگتا ہے کہ مورخین کو صرف یہ کرنا ہے کہ واقعات کی ترتیب کو مکمل کریں اور یہ وضاحت کریں کہ نوجوان ترکوں نے آرمینیائی باشندوں کے ساتھ وہ سب کیوں کیاجو انھوں نے کیا تھا۔ 
تاہم آج اس حوالے سے عوامی سطح پربحث میں جس چیز کا غلبہ ہے وہ لفظ ”نسل کشی“ ہے،جسے آرمینیائی باشندوں کی ملک بدری کے تقریباً تین دہائیوں بعد وضع کیا گیا تھا، نہ صرف لوگوں بلکہ پوری قوم کی تباہی کو ظاہر کرنے کے لیے۔
یہ اصطلاح اس آدمی کے ساتھ بڑی مضبوطی سے جُڑی ہوئی ہے جس نے اسے ایجاد کیا تھا، یعنی، پولینڈ میں پیدا ہونے والے یہودی وکیل رافیل لیمکن۔ لیمکن ہالوکاسٹ کی ہولناکیوں سے بمشکل ہی بچ پائے تھے جس نے،لیمکن کے امریکہ نقل مکانی کرجانے کے بعد ان کے خاندان کے افراد میں سے زیادہ تر کا صفایا کردیا تھا۔جیسا کہ انہوں نے بعدازاں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں وضاحت کی کہ،”مجھے لفظ نسل کشی کے بارے میں دلچسپی اس لیے پیدا ہوئی کیونکہ یہ عمل بہت دفعہ دہرایا گیا ہے۔
یہ آرمینیوں کے ساتھ ہوا، اور آرمینیوں کے بعد، ہٹلر نے کارروائی کی“۔
لیمکن اخلاقی طور پر بہادرانہ طرزفکر رکھتے تھے:اور وہ یہ تھا کہ نسل کشی کے تصور کوبین الاقوامی قانون کے احاطے میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے حمایت کے حصول کی خاطر ان کی انتھک کوششیں جلد ہی رنگ لے آئیں: 1948 میں، اس اصطلاح کی ایجاد کے صرف چار سال کے بعد، اقوام متحدہ نے نسل کشی کے کنونشن کی منظوری دے دی، یہ ایک معاہدہ تھا جس نے نسل کشی کے اقدام کو عالمی جرم بنا دیا۔
لیکن لیمکن خاصی مشکل شخصیت تھے، جدید حوالہ جات میں دکھائے جانے والے عظیم مصلح کی نسبت خاصے برعکس، جیسا کہ سمنتھا پاور کی کتاب ”A Problem From Hell“ میں دکھایا گیا ہے۔اپنے مقصد کے لیے سمجھوتہ کیے بغیر کوششوں میں، لیمکن نے”نسل کشی“ کی اصطلاح کو دیگر سیاسی ایجنڈوں کی وجہ سے نقصان پہنچنے دینے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے ، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی مخالفت کی، جسے نسل کشی کے کنونشن کے ایک ہفتے بعد منظور کیا گیا تھا، اس ڈر سے کہ یہ بین الاقوامی برادری کو نسل کشی کی روک تھام کے مقصد سے بھٹکا دے گا…یعنی اُس مقصد سے جسے اُن کے خیال میں تمام دیگر مقاصد سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے تھی۔
اور انھیں اُس وقت کنونشن کے لئے سوویت یونین کی حمایت بھی حاصل ہوگئی جب اس میں شامل اُن لوگوں کے طبقات میں سے”سیاسی گروہ“ کو نکال دیا گیا، جنہیں یہ کنونشن تحفظ فراہم کرتا تھا۔
اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کی گئی ”نسل کشی“ کی حتمی تعریف میں کئی طرح کے ابہام موجود تھے،جنہوں نے اس جُرم کا ارتکاب کرنے والے ملکوں اور افراد کو قانونی طور پر بچنے کے مواقع دے دئیے۔
مثال کے طور پر، کنونشن کا آرٹیکل 2 ”نسل کشی“ کو ”کسی قومی، نسلی، علاقائی، یا مذہبی گروہ، اس طرح کے دیگرلوگوں کے خلاف اسے، مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے، کی جانے والی کارروائیوں“ کے طور پر بیان کرتا ہے۔ یہاں”اس طرح کے “ کے معنی بالکل بھی واضح نہیں ہیں۔اور مبینہ طور پر اس جُرم میں ملوث ہونے والے اکثر یہی کہہ کر جُرم سے انکار کرتے ہیں کہ تباہی پر مبنی کارروائیاں ارادتاً نہیں کی گئیں…یہ دلیل ترکی میں بھی کثرت سے دی جاتی تھی۔
تاہم ، تھوڑے عرصے بعد تک، اس اصطلاح کے حوالے سے احساس پیدا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے کنونشن سے رجوع کرنے والے محض چند محتاط لوگ ہی تھے۔ وسیع سطح تر عوامی ذہنوں میں یہ بات تھی کہ، ہولوکاسٹ کے ساتھ جوڑے جانے کی وجہ سے لفظ ”نسل کشی“ کوغیرمعمولی طاقت حاصل ہوگئی تھی ، جس نے اسے سب سے بڑی بُرائی کے برابر حیثیت دے دی تھی۔1948 کے بعد،یہ قانونی اصطلاح جسے ابتدائی طور پر بڑے پیمانے پر مظالم کی روک تھام کے لئے بنایا کیا گیا تھا ، اقوام اور عوام کے درمیان ماضی اور حال کی ہولناکیوں کا الزام لگاکر ایک دوسرے کی توہین کرنے کا کاروبار بن کر رہ گئی۔
امریکہ اور سوویت یونین دونوں ہی سرد جنگ کے دوران آزادانہ طور پر ایک دوسرے پر نسل کشی کا الزام لگاتے رہے۔
 آرمینیائی تحریک سے تعلق رکھنے والوں کے نزدیک یہ لفظ ان کے آباؤ اجداد کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کی بالکل درست ترجمانی کرتا تھا، اور انھوں نے ”بڑی تباہیMeds Yeghern “ کو ”آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی“ کے حوالہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔
اس تصور نے ایک نئی سیاسی تحریک شروع کرنے میں مدد دی۔ سال 1965 ، قتل عام کے پچاسویں سال کے ساتھ ساتھ اس تحریک کے آغاز کا سال بھی بن گیا جس کے تحت آرمینیائی باشندوں نے متاثرین کے لیے انصاف کے حصول کو ایک سیاسی مقصد کی شکل دے دی۔
جنگ کے بعد کے امریکہ میں،”آرمینیائی“ اور”نسل کشی“ کے الفاظ کو ایک ہی جملے میں ایک ساتھ استعمال کرنا معمول بن چکا تھا۔
اس کا یہ استعمال، اس تصور کے ساتھ شروع ہوا تھا کہ اقوام متحدہ کا کنونشن…اس پر سب سے پہلے دستخط کرنے والوں میں سے ایک ترکی تھا…ماضی پر اطلاق کی کوئی قوت نہ رکھتا تھا، اور اسی لیے 1948 سے پہلے کی جانے والی زیادتیوں سے متعلق قانونی کارروائی کے لئے بنیاد فراہم نہیں کر سکتا تھا۔ مثال کے طور پر،1951 میں،امریکی حکومت کے وکلاء نے ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کو نسل کشی کے کنونشن پر ایک مشاورتی رائے جمع کروائی،اور اس میں ترکی کی جانب سے آرمینیوں کے قتل عام کو نسل کشی کی ایک مثال قرار دیا۔
اپریل 1981 میں، امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ہولوکاسٹ پر ایک اعلامیہ میں ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ،”اس سے پہلے آرمینیوں کی نسل کشی، اور اس کے بعد کمبوڈین باشندوں کی نسل کشی“۔
سیاسی حالات نے 1980 کی دہائی میں اس سوچ کو تبدیل کر دیا۔خود صدر ریگن نے 1982 میں لاس اینجلس میں دو نوجوان آرمینی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں امریکہ کے لیے ترک قونصل جنرل کمال اریکان کے قتل کے بعد، اچانک یکسر تبدیل شدہ موقف کا اظہار کیا۔
ریگن کی اپنی ریاست میں ایک قریبی نیٹو اتحادی کے سفارتکار کی موت نے صدر کو شرمندگی اورغصہ میں مبتلا کردیا تھا۔ صدر اور ان کی ٹیم اس نتیجہ پر پہنچے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں سے انھیں درپیش تین سب سے زیادہ پریشان کن معاملات… سوویت یونین، اسرائیل، اور دہشت گردی…کے حوالے سے ترکی پوری دیانتداری سے امریکہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے برعکس، آرمینی،امریکہ کے ساتھ نہیں تھے۔
اریکان کے قتل کے سات ماہ بعد، امریکی محکمہ خارجہ کے سرکاری بلیٹن نے دہشت گردی پر ایک خاص ایڈیشن شائع کیا، جس کے ایک حصّے کا عنوان” آرمینی دہشت گردی: ایک پروفائل“ تھا۔ مضمون کے آخر میں ایک نوٹ میں کہا گیا تھا کہ ”چونکہ ایشیائے کوچک میں 1915کے واقعات کا تاریخی ریکارڈ مبہم ہے، اس لیے امریکی محکمہ خارجہ ان الزامات کی توثیق نہیں کرتا کہ ترک حکومت نے آرمینیائی لوگوں کے خلاف نسل کشی کا ارتکاب کیا تھا۔
آرمینی دہشت گرد، ترک سفارت کاروں اور تنصیبات پر اپنے مسلسل حملوں کے جواز کے طور پر کچھ حد تک اس الزام کا استعمال کرتے ہیں۔ آرمینیائی باشندوں کی طرف سے شدید غصے میں بھری شکایات کے جواب میں، بلیٹن میں اس بیان کی ایک نہیں بلکہ دو وضاحتیں شائع کرنا پڑیں۔ لیکن اس وقت کے بعد سے، امریکی ایگزیکٹو برانچ کی طرف سے ایک نئی حد بندی کردی گئی تھی، اور اصطلاح ”آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی“ کو وائٹ ہاوٴس میں ممنوعہ سمجھ لیاگیا ۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط