Episode 20 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 20 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

اچھی جنگ؟ افغانستان میں کیا غلط ہوا… اوراسے کیسے درست کیا جائے؟(پیٹر ٹام سین)
پیٹر ٹام سین1989 سے1992تک افغانستان میں امریکہ کے خصوصی ایلچی کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور کتاب”The Wars of Afghanistan: Messianic Terrorism, Tribal Conflicts, and the Failures of Great Powers“ کے مصنف ہیں۔۔۔۔۔
کارٹر مال کاسیان (Carter Malkasian)، ایک پشتو بولنے والے امریکی سفارت کار ہیں جو 2009سے 2011کے دوران افغانستان کے سب سے زیادہ غیرمستحکم علاقوں میں تعینات رہے۔
وہ اپنی دلچسپ یادداشتوں پر مبنی کتاب ”War Comes to Garmser“ کے اختتامی صفحات پر ایک ایسے خوف کا اظہار کرتے ہیں،جو گزشتہ 13 سالوں کے دوران افغان جنگ میں حصہ لینے والے تمام مغربی باشندوں کا مشترکہ خوف ہے۔وہ لکھتے ہیں: ” جولائی 2011 میں گرمسر(گرمسر یا گرم سر افغانستان کے صوبہ ہلمند کا ایک جنوبی ضلع ہے) کو چھوڑ کر جاتے اور اب اسے طویل فاصلے سے دیکھتے ہوئے ، سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ ہے کہ مجھے اس بات کا یقین نہیں کہ افغان حکومت اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل ہو سکے گی … برطانویوں اور امریکی میرینز نے افغان حکومت کو ماضی کے مقابلے میں اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے ایک بہتر پوزیشن پر لاکھڑا کیا تھا۔

(جاری ہے)

لیکن انھوں نے جو کام نہیں کیا ،وہ ایسی صورت حال پیدا کرنا تھا کہ جس میں افغان حکومت اپنے ملک میں موجود خفیہ ٹھکانوں اورسرحد پار سے آنے والے طالبان جنگجووٴں کے خلاف مستقبل کی لڑائیاں یقینی طور پر جیتنے کے قابل ہوتی۔“
مال کاسیان کی مایوسی قابل فہم ہے۔ گزشتہ 13 سالوں کے دوران افغان صدر حامد کرزئی کی مرکزی حکومت اور بہت سے ایسے لوگ جنہیں کرزئی نے علاقائی گورنروں کے طور پر مقرر کیا ، وہ نا اہل اور کرپٹ ثابت ہوئے، انھوں نے دیہی علاقوں میں عام افغانیوں کو متنفر کیا،اور اب عام افغانیوں کی بڑی تعداد دونوں ”شیطانوں“ میں سے طالبان کو نسبتاً کم نقصان دہ تصور کرتی ہے۔
بطور صدر کرزئی کا دور جلد ہی ختم ہو جائے گا(یہ دور اب ختم ہوچکا ہے)، لیکن کرزئی خاموشی سے نہیں جا رہے ہیں۔ حامد کرزئی کی طرف سے ان کے جانشین کو منتخب کرنے کے لیے اس موسم گرما میں منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج کوجوڑتوڑ کے ذریعے متنازعہ بنانے کی کوششوں نے …اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ وہ خود اپنا عہدہ چھوڑ دینے کے بعدبھی اچھا خاصا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکیں… اقتدار کی جمہوری منتقلی کے عمل میں رخنہ ڈالاہے، جس سے دوسری صورت میں شاید ملک کو مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی۔
بڑے پیمانے پر ہونے والا فراڈ ،جس نے انتخابات کو سخت نقصان پہنچایا (اور جس میں کرزئی تقریباً یقینی طور پر شریک تھے)، اس نے طالبان کے مقصد کو فائدہ پہنچایا اور اسی طرح کی علاقائی اور نسلی تلخیوں کو بھڑکا کر جن کی وجہ سے 1990 کی دہائی کی خانہ جنگی کو ہوا ملی تھی، ملک کی یکجہتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
امریکہ پربھی کچھ الزام عائد ہوتا ہے۔
معاصر انسداد بغاوت کے نظریے کا اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ، بیرونی کرداروں(ممالک) کو ایک دوستانہ تعلق رکھنے والے ملک کی فوج اور حکومت کی ذمہ داریوں کا براہ راست کنٹرول سنبھالنے کے فتنہ سے احتراز کرنا چاہیے اور اس کے بجائے اس ملک کے اداروں کی صلاحیتوں کو اُبھارنا چاہئے۔ لیکن امریکہ نے فغانستان میں اس کلیہ کو نظر انداز کر دیا، اور انہی غلطیوں کو دُہرایا جو 1980 کی دہائی میں افغانستان پر سوویت حملے کے وقت کی گئی تھیں۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران، شورش کے خلاف فوجی کوششوں کی نگرانی امریکی جرنیل کرتے رہے ہیں۔ واشنگٹن نے افغانستان کے رہنماوٴں کا انتخاب کیا ہے۔ امریکیوں نے ہی اقتصادی منصوبوں کی بنیاد رکھی،اس کی منصوبہ بندی کی ، اس کے لیے مالی امداد فراہم کی، اوراس کی نگرانی بھی کی، جبکہ افغانیوں نے صرف اس کی حمایت کی حد تک کردار ادا کیا ہے۔ اور اس کے باوجوداس بات کا امکان کبھی نہیں رہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں۔
صرف افغان خود ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔
بش انتظامیہ نے کبھی بھی صحیح معنوں میں اس بنیادی حقیقت کو قبول نہیں کیا تھا۔2009 کے اواخرمیں، اوباما انتظامیہ نے دانشمندانہ طور پرجنگ کو افغان رنگ دے دیا،اور افغانیوں کو اپنے ملک کے دفاع کا خود ذمہ دار بنانے کے لیے امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا مگر اُن کے کردار کو بتدریج مدد تک محدود کردیا، اور یوں بڑی حد تک امریکی امداد پر چلنے والی افغان افواج کو ، جو اب، 3لاکھ40ہزار فوجیوں اور پولیس افسران پر مشتمل ہے،اس قابل بنایا کہ وہ جنگی کارروائیوں میں پیش قدم رہیں۔
 کچھ حد تک واشنگٹن کے غلط اندازوں پر مبنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے، صدارتی انتخابات کے نتیجے میں اُبھر کر سامنے آنے والی نئی افغان حکومت کو طالبان کی پیش قدمی روکنے اور پاکستانی دخل اندازی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی کوششوں میں طویل مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغان ریاست کو طالبان اور پاکستان میں اس گروہ کے اتحادیوں کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے، اس بات کی ضرورت ہوگی کہ اسے امریکہ اور نیٹو کی طرف سے مدد ملتی رہے۔
لیکن بہرحال، آخر میں، افغانستان میں کامیابی کا انحصار… افغانوں کے اندرونی معاملات اور جغرافیائی و سیاسی حالات، جنہیں امریکہ اور اس کے اتحادی کنٹرول نہیں کر سکتے :افغانستان کے اعتدال پسند قبائلی اور نسلی گروہوں(جو ملکر ملک کی آبادی کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں) کی کسی ایک نمائندے کے پیچھے متحد ہونے کی صلاحیت، مجاز، اصلاح پسند سوچ رکھنے والی قیادت؛ ہمسایہ ممالک کی پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی جو افغانستان کے استحکام پر مبنی ہو ؛ اور خطے میں افغانستان کے پرانے حفاظتی کردار کو بحال کرنے کے لیے چین اور بھارت سمیت بیرونی طاقتوں کے درمیان سفارتی تعاون…پر ہوگا۔
مال کاسیان کی کتاب اور افغانستان میں جنگ کے حوالے سے دو دیگر حالیہ کتابیں … شارلٹ گال کی ”The Wrong Enemy “ اور آنند گوپال کی”No Good Men Among the Living “ … اس بات سے پردہ اُٹھانے میں مدد دیتی ہیں کہ یہ نتائج غیر یقینی، اور یہاں تک کہ غیرممکن کیوں ہوگئے۔ ایک ساتھ غور کیا جائے تو، یہ کتابیں وضاحت کرتی ہیں کہ نائن الیون کے بعد تیرہ سال گزر جانے کے باوجود ، افغان جنگ کیوں اب بھی جلد ختم ہوتی نظر نہیں آتی، حالانکہ واشنگٹن اس بات پر زور دیتا ہے کہ افغانستان میں امریکی جنگ جلد ہی ختم ہوجائے گی۔
عدم توجہ
کتاب ”War Comes to Garmser “ میں بنیادی طور پر صوبہ ہلمند میں واقع ایک پُر تشدد اور دُور دراز ضلع گرمسر میں انسداد بغاوت کے نظریے کے اطلاق کے دوران حاصل کردہ ”مال کاسیان“ کے تجربات کا ذکر ملتا ہے، اور یہ کتاب پڑھنے کی ضرورت اُسے ہے جو قبائلی اور گاوٴں کی سطح پر اُس سیاست کی پیچیدہ نوعیت کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتا ہو، جس نے افغانستان میں ہونے والے واقعات کا رُخ طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
لیکن مال کاسیان Malkasian امریکہ کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ کی منصوبہ بندی اور سیاسی عمل کی ایک بہترین تاریخ بھی پیش کرتے ہیں، اور اس ضمن میں جنگ کے ابتدائی سالوں میں سٹریٹجک ناکامی پر انھوں نے خصوصی توجہ دی ہے۔مال کاسیان یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر بش انتظامیہ نے اپنی توجہ کا رُخ عراق پر حملے کی طرف نہ موڑ لیا ہوتا تو، امریکہ افغان ریاست کو مضبوط بنانے پر زیادہ توجہ مرکوز کر سکتا تھا اور ”70ہزار سے زیادہ فوجیوں پر مشتمل افغان فوج تیار کرسکتا تھا“ جو ”طالبان کو قابو کرنے کے قابل ہوتی“ کیونکہ وہ امریکی حملے کے ابتدائی مراحل کے دوران کمزور اور غیر منظم تھے۔
بے شک، 2002 ء میں، پنٹاگان کے زیرِ قیادت انٹر ایجنسی ٹیم نے ان خطوط پر ایک مفصل تجویز پیش کی تھی، لیکن وزیر دفاع ڈونالڈ رمزفیلڈ نے اس کی سفارشات کو مسترد کردیا تھا۔
اس فیصلے کے نتائج تقریباً فوراً ہی محسوس کیے گئے تھے۔ طالبان، سرحد پار جاکر دوبارہ منظم ہوگئے۔ 2005 میں، نئے سرے سے منظم کردہ طالبان دوبارہ افغانستان میں داخل ہوگئے، اور ان کے ساتھ دو مزید پراکسیز بھی …یعنی القاعدہ سے منسلک حقانی نیٹ ورک اور عسکریت پسندوں کے گروپ جس کی قیادت تجربہ کار جنگجو مجاہد گلبدین حکمت یار کررہے تھے۔
ہزاروں جنگجو سرحد پار کرکے افغانستان میں داخل ہوئے اور انھیں کوئی ایسی افغان فوج نہیں ملی جو ان کے خلاف مزاحمت کرتی… صرف سی آئی اے اور امریکی فوج کی طرف سے رقم لیکر اپنی مدد آپ کرنے والے جنگجوسرداروں نے کچھ مزاحمت کی۔ اس موقع پر، جبکہ عراق جنگ پورے عروج پر تھی، افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد صرف 10,800تھی اور وہ 1500میل طویل پاک افغان سرحد کے ساتھ معمولی تعداد میں موجود تھے۔
بعد کے سالوں میں، بش اور اوباما انتظامیہ دونوں نے ہی مزید امریکی افواج کے ساتھ سیکورٹی خلا کو بھرنے کی کوششیں کیں،اور طالبان جنگجووٴں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کا ناکام پیچھا کیا، جبکہ گروپ(طالبان) نے افغانستان کے ہر خطے میں اپنی موجودگی میں اضافہ کرلیا۔ جارج ڈبلیو بش کے دور کے آخر تک، افغانستان میں تقریباً 40,000، امریکی فوجی موجود تھے۔
باراک اوباما کی خصوصی مہم ”سرج“ نے 2011میں اس تعداد کو بڑھاکر ایک لاکھ کردیا تھا۔ اس طرح واشنگٹن نے وہی حکمت عملی اپنائی جس نے 1980 کی دہائی کے دوران سوویت یونین کو ناکامی سے دوچار کیا تھا…یعنی بیرونی طاقتوں کی قیادت میں ایک فوجی مہم شروع کرکے افغان فوج کو محض مدد کرنے والے کا کردار سونپ دینا، بجائے اس کے کہ افغان قیادت میں خودمہم کے لیے مدد کرنے والے کا کردار ادا کیا جاتا۔
دریں اثنا، پاکستان کے فوجی حکمران، پرویز مشرف نے امریکہ اور نیٹو کو اپنے ملک کے سپلائی کے راستے استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ افغانستان کی جنگ میں دونوں اطراف کا انحصار پاکستان پر تھا۔ مغربی اتحاد پاکستان کی منظوری کے بغیر میدان جنگ تک اپنا جنگی سامان فراہم نہیں کر سکتا تھا۔
 دشمن کو پہچانیئے
اس صورت حال کی سنگینی کو شارلٹ گال نے اپنی شاندار کتاب،”The Wrong Enemy“ میں قلمبند کیا ہے۔
گال، جونیویارک ٹائمز کی رپورٹر ہیں، انھوں نے افغانستان اور پاکستان میں اخبار کی نمائندگی کرتے 13 سال گزارے اور اس خطے کے ساتھ اُن کا زندگی بھر کا تعلق ہے: ان کے والد، سینڈی گال، ایک معروف برطانوی صحافی ہیں جنھوں نے افغانستان میں نمائندگی کرتے اپنے کیریئر کا ایک اچھا حصہ گزارا۔ خطے کے حوالے سے اُن کا گہرا علم،امریکی قیادت میں لڑی جانے والی افغان جنگ کے بارے میں اس کتاب میں بیان کردہ بنیادی دلیل پر اُن کو اتھارٹی تفویض کرتا ہے، یہ دلیل اگر کسی ایسے ذرائع سے آتی جو اتنی اچھی طرح باخبر نہ ہوتا تو شاید بے بنیاد لگتی۔ وہ دلیل یہ ہے کہ…”اصل دشمن اب افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہے۔ “

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط