Episode 44 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 44 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

 اس کے علاوہ، بعد میں آنیوالی کوئی انقلابی تحریک اس موافق نقطہ اختتام تک پہنچتے ہوئے راستہ نہیں کھوئے گی،کیونکہ مارکس اور اینگلز کی تحریروں کا ہی اگر احتیاط سے مطالعہ کرلیا جائے تو انھوں نے اپنی تحریروں میں ہر جگہ روڈمیپ بھی فراہم کیا تھا۔مگر انیسویں صدی کے اوائل میں، دیگر سوشلسٹ لکھاری مختلف روڈمیپ فراہم کر رہے تھے، اور یہاں تک کہ مارکس کے اپنے پیروکاروں میں سے کچھ اس کے بتائے روڈمیپ سے انحراف کررہے تھے۔
فریڈمین ان تحریکوں کے مختلف رہنماوٴں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے شاندار تیکھے پن اور علمی قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہیں… مثلاً ان کے بیان کردہ انیسویں صدی کے فرانسیسی لبرل رہنماپیری جوزف پروڈون کے متاثر کن تعارف کو ہی دیکھ لیجئے۔چنانچہ کہانی پیچیدہ ہے، اور کتاب کا یہ حصّہ بہت گھماتا ہے۔

(جاری ہے)


اس کہانی میں ولادی میر لینن کی انٹری سے، جس کا آغاز 1917میں جلاوطنی کے بعد بالشویک انقلاب کے خاتمے کے لیے ان کی روس میں واپسی سے ہوتا ہے، متن میں مقصدیت بھی واپس آجاتی ہے۔
جب لینن اس ماہ پیٹروگراڈ کے فن لینڈ اسٹیشن پر اپنی ٹرین اُتارتے ہیں، تو انہوں نے پہلے ہی اپنی حکمت عملی بنارکھی تھی:یعنی یہ کہ وہ روسی عوام کے انقلاب کی رفتار تیز کرنے کے لئے ایک چھوٹی سی لیکن طاقتور بالشویک کور کے ساتھ کام کریں گے، اور بندوق کے ساتھ ساتھ منبرسے بھی کام لیں گے۔ نتیجہ دم بخود کردینے والاتھا۔ لینن، لیون ٹراٹسکی، اور ان کے کیڈر نے اعتدال پسند حکومت کا تختہ اُلٹ دیا، جس نے پہلے ہی زار سے چھٹکارا حاصل کرلیا تھا،اور انھوں نے ایک ایسی بالشویک ریاست کی بنیاد رکھی جو مغرب کی طرف سے سے بڑے پیمانے پر جوابی حملوں کے باوجود قائم دائم رہی۔
ان سے پہلے کے مفکرین نے بھی تبدیلی کے بارے میں لکھا تھا، لیکن ان لوگوں نے حقیقت میں اس کی تکمیل کی۔ یہاں آخر کار، نیچے سے تختہ الٹنے کے اصول کو عملی شکل میں تبدیل کر دیا گیا۔
لیکن اگر لینن انقلاب کے عمل کو تبدیل اور تیز کر سکتے تھے، تو بعد کے زمانے اور دوسرے ملکوں میں ان کے کئی مداح بھی ایسا کر سکتے تھے… یا انہوں نے اس کی امید قائم کرلی تھی۔
اس کے باوجود کہ مرکزی مقصد وہی تھا، اس کے طریقے تبدیل کیے جا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ لینن کے تجربے میں بھی، سوشلسٹ مقاصد کو اکثر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد ان کی تجدید کی گئی، اور کبھی کبھی، بااختیار کامریڈز نے، جو چیزوں کی اہمیت کو سمجھنے میں ناکام رہے یا جو سمجھوتہ کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے تھے،انھیں پرانے نظام کے مطابق ہی سزائیں دینا پڑیں۔
یہ سب اس وقت دوبارہ دیکھنے میں آیا جب جوزف اسٹالن نے مستحکم طور پر سوویت ریاست کا کنٹرول سنبھال لیا،ٹراٹسکی کو جلاوطن کردیا (اور پھر اسے قتل کرا دیا)، اور مغرب، پولینڈ، جاپان، اور یہاں تک کہ نازیوں کی طرف سے مسلسل خطرات سے بھی بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔سیاسی بے چینی اور لچک کھیل کے نام تھے۔جلد ہی1925تک (جب کچھ مغربی طاقتوں نے سوویت یونین کو تسلیم کرنا شروع کردیا تھا)،یہ کہا جاسکتا تھا کہ نچلی سطح سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی حقیقتاً کام کرگئی تھی۔
ایک سٹریٹجک کامیابی کی کہانی کے طور پر، یہ پچھلے 200 سال کی عظیم کہانیاں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔
لیکن فریڈمین کی جھٹکے کھانے کی عادت یہاں پھر آوارد ہوتی ہے۔جب پڑھنے والا توقع کرتا ہے کہ اُن کی انقلاب کی کہانی یہاں سے آگے چین میں ماؤزے تنگ اور ویت نام میں وو نوین جیاپ کے ذکر کی طرف بڑھے گی، فریڈمین ان کے بجائے اپنی کہانی کا رُخ جرمن ماہر عمرانیات میکس ویبر، روسی مصنف لیو ٹالسٹائی، امریکی سماجی کارکن جین ایڈمز اور امریکی تعلیمی اصلاح پسند جان ڈیوی…جو بہت کم سرگرم رہے تھے… کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
(ماؤ او اور جیاپ کے لئے، قارئین کو پہلے حصّے میں گوریلا جنگ کے بارے میں ایک باب کی طرف واپس جاناچاہیے)۔
” نچلی سطح سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی“کا بعداز لینن حصہ بہت حد تک امریکی کہانی بن جاتا ہے،اگرچہ اس میں بہت سے دوسرے حصّے بھی شامل کیے گئے ہیں۔اس میں امریکہ میں یونائیٹڈ آٹوموبائل کارکنوں کی جدوجہد کے ساتھ آگے دیگر انقلابی مفکرین کے احوال کو ملا کر پیش کیا گیا ہے …مثلاًبلیک پاور جنگ کے اہم مندرجات، شہری حقوق، اور تحریک نسواں، موہن داس گاندھی اور عدم تشدد کی حکمت عملی پر ایک قابل توجہ باب، انتونیوگرامیسکی، تھامس کاہن اور مائیکل فوکالٹ جیسے فلسفیوں کی تعلیمات کا خلاصہ، اور ویتنام جنگ کی مخالفت کے اعدادوشمار کی دوبارہ گنتی۔
اس کے بعد، فریڈمین… رونالڈ ریگن اور ان کے مشیر لی ایٹواٹر جیسے ریپبلکنز کی کامیاب سیاسی حکمت عملی اور باراک اوباما کی کامیاب مہم کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک اور قابل ذکر موڑ لیتے ہیں۔
 فریڈمین کی کتاب کے اس حصے کا آغاز مضبوط انداز میں ہوتا ہے…اور کیسے نہیں ہوتا،کہ اس اس حصّے کا آغاز مارکس کو ایک ہیرو کے طور پر دکھاتے ہوئے کیا گیا ہے؟… لیکن اس مضبوطی اور مقصد کی قیمت کئی موڑہیں۔
اس کے علاوہ، ایک اہم تاریخی رجحان کے طور پر مارکسزم کی کہانی، اُن دوسری چھوٹی صلیبی جنگوں کے ساتھ مشکل سے ہی فٹ بیٹھتی ہے جن کا احاطہ اس حصے میں کیا گیا ہے۔اس بات سے اتفاق کرنا آسان ہے کہ بلیک پاور موومنٹ جیسی کاوشوں میں ایسی حکمت عملی سے کام لیا گیا تھاجو مخصوص حالات کے لیے بنائی گئی تھی اوراس کا مقصود ایسی منزلیں تھیں، جنہیں کبھی، کامیابی سمجھا گیا تھا۔
یہ واقعی ”نچلی سطح سے اختیار کی گئی حکمت عملی“ تھی،1917 میں لینن کی اقتدارپر گرفت اور بعد کے زمانے کے شدت پسندوں کی انقلابی کارروائیاں بھی اسی حکمت عملی پر مبنی تھیں۔ لیکن مارکسزم خود اس سے کہیں بڑی،ایک مکمل طور پر عظیم حکمت عملی تھی، جس کا مکمل ادراک اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ یہ ہر جگہ اپنی گرفت مضبوط نہیں کرلیتی۔
کام سے متعلق حکمت عملی
 فریڈمین کی ایک کتاب کے اندر ہی تیسری کتاب”اوپر کی جانب سے حکمت عملی“ جیسے دلچسپ عنوان پر مشتمل ہے،اگرچہ کہ اگر کوئی یہ تلاش کرنے کی کوشش کرے کہ عظیم رہنماوٴں نے کس طرح کی حکمت عملی اختیار کی تو اسے وہ یہاں نہیں ملے گی۔
بلکہ اس کے بجائے، یہ حصہ دوسری جنگ عظیم سے لیکر اب تک نظرئیہ اور عمل میں، انتظامی لحاظ سے ترقی اور عروج سے متعلق ہے۔فریڈمین تسلیم کرتے ہیں کہ ”توجہ زیادہ تر کاروبار پر ہے“، اوراس کے کردار جدید منیجرز، شراکتی کاروبار کرنے والے، اور نظرئیات پیش کرنے والے ہیں۔سرخ ملکہ کی طرح کی ایک اور مثال میں، فریڈمین اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے والے کی طرح،صرف امریکی کاروبار اوراُن ماہرین پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جنہوں نے امریکی کاروبار کو نئے خیالات فراہم کیے ہیں۔
اس طرح سے حقائق کو یرغمال بنانے پر ہم تقریباً سوربون(پیرس میں واقع فرانسیسی یونیورسٹی کے) دانشوروں کے دانت پیسنے کی آواز سن سکتے ہیں۔تو کیا یورپ کے ریاستی سرمایہ دارانہ نظام کے بہت مختلف خیالات، سماجی فلاحی ریاست، اور کسی بھی دلچسپی کے فرم کی ذمہ داریاں کسی دلچسپی کی حامل نہیں ہیں؟ جی ہاں ہیں، لیکن صرف اس وقت جب وہ ہارورڈ بزنس ریویو میں ایک مضمون کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔
یہ کہا گیا ہے کہ،”اوپر کی جانب سے حکمت عملی“ اپنے کام کے اعتبار سے بہت اچھی ہے۔جہاں تک مجھے معلوم ہے، گزشتہ سات عشروں کے دوران امریکی کاروباری حکمت عملی کے حوالے سے اس کی ہم پلہ اور جامع تنقید موجود نہیں ہے۔ لیکن داستان ٹیلرزمTaylorism کی طرف، مزید پیچھے چلی جاتی ہے…ٹیلرزم دراصل 1880 کی دہائی میں فریڈرک ٹیلر کی طرف سے پیش کیے گئے ہاتھ سے کام کرنے والے کارکنوں سے متعلق سائنسی نقطہ نظر کا نام ہے… اورپھر صدی کے موڑ پر ہینری فورڈ کی نئی اختراعات کو بیان کرتی ہے۔
جیسا کہ فریڈمین دکھاتے ہیں، ہینری فورڈ کی فیکٹریوں نے اپنی اسمبلی لائن اور بہت سے پُرزوں کی بیرونی ذرائع سے تیاری کے باعث ،نہ صرف وسیع پیداوار کے لیے ایک ماڈل کا ثبوت پیش کیا، بلکہ دو بڑی چیزوں …کسی بھی تنظیم کے اندر نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی ضرورت اور منیجرز کا اہم کردار،جو اس بحری جہاز کے کپتان کی حیثیت رکھتے ہیں جس پر عام کارکن کام کرتے ہیں…کا بھی عملی ثبوت دیا۔
 بڑے پیمانے پر پیداوار کے لیے پہلے سے تیاری پر مبنی امریکی کاروباری ماڈل نے اپنی قدروقیمت انتہائی ڈرامائی طور پر دوسری جنگ عظیم کی آمد پرثابت کی۔ امریکی نظام نے روزی دی ریویٹر اور ان کے مرد ساتھیوں کو اس قابل بنادیا کہ وہ امریکہ کے دشمنوں کی تباہ کرنے کی رفتار سے کہیں زیادہ تیزی سے بحری جہاز، ٹینک، اور ہوائی جہاز تیار کرسکیں۔
اس نئے صنعتی ماڈل کی دل و جان سے پیروی کرنے کی وجہ سے، امریکہ جنگ سے، اس وقت تک کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔ جنگ کے بعد آگے بڑھتے رہنے کے لیے صرف اس ماڈل کی وضاحت کے بہترطریقوں اور اسے مزید بہتر بنانے کے لئے نئے خیالات کی ضرورت تھی ۔ اور کوئی کتاب اس سے بہتر راستہ بتانے کا کام نہیں کرتی، جس میں الفریڈ چانڈلر اور پیٹر ڈرکرجیسے انتظامی امور کے ماہرین نے کمپنیوں اور لوگوں کے بارے میں سوچا، کبھی ٹریڈ یونینوں کا انتخاب کیااور کبھی انھیں اٹھاکر ایک طرف رکھ دیا۔
فریڈمین نے دو رجحانات پر روشنی ڈالی ہے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے برسوں میں امریکی کاروبار کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔پہلا رجحان ان کمپنیوں سے متعلق ہے جو اپنی مسابقتی حیثیت میں اضافے کے لیے مینجمنٹ کے بہتر سے بہتر طریقوں کی تلاش میں سرگرداں تھیں۔ یہ ایک دل فریب خیال تھا، جس کے ساتھ تمام تر ثبوت بھی فراہم کردئیے گئے تھے اور یہ ثابت کیا گیا تھا کہ بہترین طور پر چلائی جانے والی فرمز ہی، جیسے کہ آئی بی ایم، ایسی فرمز ہوتی ہیں جو اپنا وجود قائم رکھتی اور فتح یاب ہوتی ہیں۔
مسابقتی تحقیق کے معلم انتہائی بااثر رہے ہیں، اوران کی کتابوں نے فروخت کے لحاظ سے حیران کن پذیرائی حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر، ہارورڈ بزنس اسکول کے پروفیسر مائیکل پورٹر کی کتابCompetitive Strategy، اب 34 سال سے مسلسل شائع ہورہی ہے۔
دوسرا رجحان بزنس اسکول اور امریکی یونیورسٹی کے دیگر حصوں میں عقل پسند نظریہ کی آمد ہے۔ فکر کے اس بے رحم منطقی طریقے کے مطابق، تمام کرداروں کواپنی افادیت کو زیادہ سے زیادہ بنانا ہوتا ہے۔
اس رجحان کے ابتدائی حمایتیوں نے کہا کہ اس کا اطلاق ایک کاروبار کے انتظام سے لیکر سرد جنگ کی لڑائی تک، ہر طرح کے انتظامی امور پر ہوسکتا ہے،اور چیزوں کو اس آسان طریقہ سے دیکھنا بہت مقبول ثابت ہوا، شاید کسی بھی دوسری جگہ کی نسبت پالیٹیکل سائنس کے شعبوں میں یہ زیادہ مقبول ثابت ہوا۔کتاب Strategy میں ، فریڈمین زیادہ ترغیر جانبدارانہ بیان پر سختی سے کاربند رہے ہیں، لیکن خاص طور پر اس بحث میں، وہ عقلی انتخاب کے حصے بخرے کرنے میں لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس بات کی نشاندہی کرنے کے بعد کہ یہ ماڈل جو تجویز کرتے ہیں، اصل رویے اس سے کس طرح اکثر منحرف ہوجاتے ہیں، وہ حلیمانہ انداز میں کہتے ہیں کہ،”یہ حقیقت کہ انھیں ریاضی کے اصولوں کی روشنی میں پرکھا جائے گا، ان نظرئیات کو اسی معیار کا ثابت نہیں کرتاجس معیار کے نیچرل سائنسز میں شامل نظرئیات ہیں۔
انتظامی امور کے حوالے سے تبدیل ہوتے نظرئیات پر مبنی یہ داستان ایک بار پھر فریڈمین کے ٹیڑھے پن کو ظا ہر کرتی ہے کہ کوئی ایک جامع حکمت عملی تمام مقاصد کو پورا نہیں کرسکتی۔
ان کے خیال میں، اس طرح کے کسی ایک نظریہ کی تلاش بھی بیکار ہے، اگرچہ کہ اس سے سماجی ماہرین کا اس کی تلاش سے رُک جانے کا امکان نہیں ہے۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ مورخین…ان دوسرے لوگوں کے ساتھ جنھوں نے خود دیکھا کہ جب نظریاتی حکمت عملی کو حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کیا ہوتا ہے، خواہ کاروبار کا معاملہ ہو یا جنگ کا…مبہم وضاحت کو ترجیح دیتے رہیں گے کہ چیزیں کیسے کام کرتی ہیں۔
جیسے کہ فریڈمین دلیل دیتے ہیں، کسی حکمت عملی کے بارے میں ایک مخصوص حتمی نتیجے کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ، دشمن کے خلاف کام کرے گی یا خاص مصنوعات کو فروخت کرنے میں مدد دے گی۔کتابStrategy اس بارے میں ہے کہ وہاں کیسے پہنچنا ہے، یہ وہاں پہنچ کر آگے کے بارے میں نہیں ہے۔ 
جائزہ لیتے ہوئے
فریڈمین کی کتاب طلباء ، ان کے ساتھی سکالرز، تھنک ٹینکس کے ارکان، اور بڑے اداروں کے حکمت عملی کے شعبوں میں کام کرنے والوں اور سب سے اوپر کی درجہ بندی رکھنے والی سرمایہ کار کمپنیوں کے لئے مفید ثابت ہونی چاہئے۔
(یہ پہلے ہی Yale یونیورسٹی میں گرینڈ حکمت عملی کی مشترکہ کلاس اول میں پڑھنا لازمی قرار دی جاچکی ہے) لیکن کتاب حکمت عملیStrategy میں دو اہم نقائص ہیں۔
سب سے پہلے، اس کے مندرجات متوازن نہیں ہیں۔تین ”ٹانگوں(حصوں)“ پر مبنی ڈھانچہ اپنے طور پر کھڑا نہیں رہ سکتا، کیونکہ تیسرا حصہ دیگر دو حصوں جیسی تاریخی اہمیت نہیں رکھتا۔آخرکار، سب سے پہلے حصے میں، قارئین فتح کے متعلق مولتکی دی ایلڈر Moltke the Elderکے خیالات کے بارے میں پڑھتے ہیں،اور دوسرے حصے میں، وہ بلیک پاورسے متعلق سٹوکیلی کارمائیکل Stokely Carmichael کی اثرانگیز پکار کے بارے میں پڑھتے ہیں،جبکہ تیسرے حصے میں، وہ بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کے حوالے سے مطالعہ پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
یہ نیچے کی طرف آنا عجیب ہے۔
 دوسرایہ کہ،کتاب کا عنوان ”حکمت عملی Strategy“اپنے عالمگیر معنی کے باوجود، جُوں جُوں کتاب آگے بڑھتی ہے زیادہ سے زیادہ امریکی ہوتا جاتا ہے۔ تیسری کتاب (کتاب کا تیسرا حصہ)تو واضح طور پرصرف امریکہ کے بارے میں ہے۔ فریڈمین اپنی توجہ کے مرکز کا جواز یہ کہہ کر دیتے ہیں کہ”امریکہ نہ صرف موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ طاقتور بلکہ ذہنی اختراعات کے اعتبارسے بھی سب سے زیادہ جدید ملک رہا ہے۔
“ یہ تاثرشاید مصنف کی اپنی زندگی اور دور کی عکاسی کرتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد انگلینڈ میں پیدا ہونے والے فریڈمین کے لیے اپنی دنیا پر بڑھتے ہوئے امریکی اثرورسوخ سے بچنا بہت مشکل تھا۔
میری طرح، بہت سے قارئین کو اس مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کہ وہ اپنی لائبریریوں میں کتاب ” حکمت عملی Strategy“ کو کہاں رکھیں۔یہ ظاہر ہے اپنی ”انتخاب پسندی selectiveness“ کے باعث میری لائبریری میں موجود مختلف انسائیکلوپیڈیا زکے ساتھ تو نہیں رکھی جاسکتی۔
اور نہ ہی اس کا تعلق مینجمنٹ اور کاروبار کے موضوع پر میرے کتابوں کے چھوٹے سے مجموعہ سے ہے۔ یہ مارکسزم، سوشلزم، اور انقلابیوں پر کام کے حوالے سے میری لائبریری کے مخصوص حصے میں رکھی جا سکتی ہے، لیکن کتاب کا عنوان ”Strategy“ ایک بہت بڑے موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔مرحلہ وار ایک کے بعد ایک حصے کو چھوڑتے مجھے آخر میں اسے جنگ کے موضوع پر اپنی کتابوں کے ساتھ رکھنا پڑا۔
اگرچہ یہ ان سب سے مختلف ہے، لیکن یہ کلازوٹز، جومنی اور ماہن کی کتابوں کے قریب رکھی رہے گی اور زیادہ دُور نہیں برطانوی فوجی موٴرخ مائیکل ہاورڈ کی تحریروں سے بھی زیادہ دُور نہیں ہوگی، جو فریڈمین کے طویل عرصے تک اُستاد اور کنگ کالج لندن میں ان کے پیشرو چےئرمین تھے۔یہ یقیناً کتاب کے رکھنے کے لیے بُری جگہ نہیں ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط