Last Episode - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

آخری قسط - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

ہوانا میں ہمارا آدمی،ایلن گروس کی گرفتاری اور انھیں وطن واپس لانے کے لئے امریکی کوششیں(آر ایم شنائڈرمین)
(آر ایم شنائڈرمین نیوز ویک اور ڈیلی بیسٹ کے ایڈیٹر اور لکھاری ہیں)
3 دسمبر 2009 کو ہوانا میں اندھیرا چھا چکا تھا،جب ایلن گروس کیوبا کی وزارت خارجہ کے قریب واقع ایک خوبصورت عمارت پر مبنی ہوٹل پریذیڈنٹ میں، اپنے کمرے میں بیٹھے تھے۔
یہ رات 10 بجے کا وقت تھا، اور انھوں نے کچھ ہی دیر پہلے اپنی بیوی کے ساتھ بات کرنے کے بعد فون بند کیا تھا؛ انھوں نے اگلے روز میری لینڈ کے مضافات میں واقع اپنے گھر میں ایک ساتھ رات کا کھانا کھانے کا منصوبہ بنایا ، جہاں اُنھیں واپس لوٹنا تھا۔ اچانک،گروس کو کمرے کے دروازے پر ایک زوردار دستک سُنائی دی۔ دالان سے چلّانے کی آوازیں آرہی تھیں، لیکن گروس کو، جو ہسپانوی نہیں بول سکتے تھے،کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے دروازہ کھولا اور اپنے سامنے چار دیوقامت سیکورٹی ایجنٹوں کو کھڑے پایا۔ جلد ہی انھیں سیڑھیوں سے نیچے لے جاکر ایک گاڑی میں بیٹھنے پر مجبور کردیا گیا۔ انھیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
2008 میں اپنی انتخابی مہم اور صدارتی عہدے پر اپنے پہلے چند ماہ کے دوران ، صدر باراک اوباما نے ”کیوبا کے ساتھ تعلقات کے نئی آغاز“ کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
لیکن اب تک بھی جبکہ اوباما اپنی دوسری مدت صدارت شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بڑی حد تک جُوں کے تُوں ہیں۔ وائٹ ہاوٴس کے مطابق،اس جمود کی واحد سب سے بڑی وجہ، گروس سے متعلق تنازعہ ہی ہے جو، اب بھی کیوبا میں اپنی 15 سالہ قید کی سزا کا باقی حصہ کاٹ رہے ہیں۔ ہوانا کے حکام کہتے ہیں کہ گروس امریکی حکومت کے لئے کام کر رہے تھے اور ریاست کو کمزورکرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
لیکن اس سارے قصّے کے آغاز سے ہی، محکمہٴ خارجہ یہی کہتا آیا ہے کہ گروس محض کیوبا کی یہودی کمیونٹی کے لئے بہتر انٹرنیٹ تک رسائی مہیا کررہے تھے۔فروری میں ایک ہاوٴس کمیٹی سے بات کرتے ہوئے، وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اٹل انداز میں کہا تھا کہ واشنگٹن ہوانا کو اس کے ”شرمناک“ روئیے کے بدلے میں انعام سے نہیں نوازے گا:”ہم نے کوئی سودے بازی نہیں کی، کسی قسم کی مراعات کی پیشکش نہیں کی، اور نہ ہم ایساکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں“۔
 ہو سکتا ہے کہ یہ سچ ہو، لیکن سابق امریکی حکام، غیر ملکی سفارتکاروں، اور دیگر مبصرین کے ساتھ ایک درجن سے زیادہ انٹرویو کرنے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یقینا گروس کو وطن واپس لانے کے لیے امریکی حکومت کی قیادت میں کوشش کی جاتی رہی ہے۔ شروع سے ہی، مذاکرات بد اعتمادی اور غلط اندازوں کی وجہ سے تعطل کا شکار رہے ہیں؛ ایسا لگتا تھا کہ ہر فریق دوسرے کی طرف سے جھکنے کا انتظار کررہا ہے۔
تاہم، آخر میں،ایسا لگا کہ امریکہ گروس کو جیل سے آزاد کرانے کے ایک موقع سے پیچھے ہٹ گیا اور اس نے سرد جنگ کی فرسودہ سیاست پر ایک زوردار ضرب لگادی تھی۔
اوباما کے دوبارہ انتخاب کے بعد ، بعض لوگوں کو گروس کی رہائی اور امریکہ اورکیوبا کے تعلقات میں بہتری کی بہت امید ہے۔ لیکن شدید مالی مشکلات کو توجہ کا مرکز بنائے ہوئے ایک منقسم کانگریس اور دیگر یک طرفہ لڑائیوں کے لئے تیاری کی وجہ سے، ایسا کم ہی لگتا ہے کہ کیوبا وائٹ ہاوٴس کے لئے ایک ترجیح ہے، اوراس جزیرہ نما ملک کے خلاف امریکہ کی طویل عرصے سے جاری پابندی…جو 50 سال سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے… ہمیشہ کی طرح اب بھی سختی سے قائم لگتی ہے۔
یہ گروس کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
پُراسرار آدمی
گروس کی پرواز چھوٹ جانے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد، سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے ایک سینئر مشیر فلٹن آرمسٹرانگ کو یہ افواہیں سُنائی دینے لگیں کہ، ایک امریکی کو کیوبا میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔خطرے کا احساس ہوتے ہی ، آرمسٹرانگ نے فون کرنے شروع کردئیے، اور تھوڑی تھوڑی کرکے ،انھوں نے کہانی کے ٹکڑے یکجا کرلیے:گروس، کیوبا کے یہودیوں کے لئے سیٹلائٹ انٹرنیٹ نیٹ ورکس تشکیل دے رہے تھے… ایسے نیٹ ورک جنہیں حکومت قابو نہیں کر سکتی تھی۔
اس سروس کی وجہ سے کیوبا کی حکومت کا غصے میں آنا لازمی تھا جو بے شمار ویب سائٹس کو خطرہ سمجھ کر بلاک کردیتی ہے۔آرمسٹرانگ نے جو سنا تھا، اس کی تصدیق کے لیے انھوں نے محکمہٴ خارجہ کو فون کیا، لیکن ریاست نے گروس کے ساتھ تعلق سے انکار کردیا۔اگلے کئی دنوں کے دوران، کہانی تبدیل ہوتی رہی۔ محکمہٴ خارجہ کے ایک اہلکار نے غلطی سے آرمسٹرانگ کو بتادیا کہ گروس کا مشن خفیہ تھا؛ ایک دوسرے اہلکار نے کہا کہ گروس شاید سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے لئے کام کررہا تھا۔
سی آئی اے کے افسر کے طور پر کئی سال گزارنے کی وجہ سے، آرمسٹرانگ کو یقین نہیں آیا کہ گروس لینگلی (سی آئی اے)کے لئے کام کررہے تھے۔ گروس ہسپانوی زبان میں بات نہیں کرسکتے تھے، وہ کیوبا کے بارے میں بہت کم جانتے تھے، اور وہ ایک ایسے مقام پر لوگوں سے ملاقاتیں کررہے تھے جوکیوبا کے ایجنٹوں کی بھرمار کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔حیران کن طور پر، کئی ہفتوں کے بعد، محکمہٴ خارجہ نے آخر میں اعتراف کرلیا کہ گروس اُن کا آدمی تھا ۔
آہستہ آہستہ، آرمسٹرانگ کو معلوم ہوا کہ 2009 میں، گروس نے ”ڈویلپمنٹ آلٹرنیٹوز ان کارپوریٹڈ(ڈی اے آئی)“ کے ساتھ 5لاکھ ڈالر سے زیادہ مالیت کے معاہدے کو پورا کرنے کے لیے کیوبا کا پانچ مرتبہ سفر کیا تھا۔ یہ میری لینڈ میں قائم فرم تھی جو کہ یونائٹڈ سٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (یو ایس ایڈ) کے لیے کام کررہی تھی۔
جارج ڈبلیو بش کی صدارت کے دوران منظورہونے والا گروس کامشن، ہیلمز۔
برٹن ایکٹ کے تحت1996 کے متحرک یوایس ایڈ پروگرام کا حصہ تھا،جس کے تحت فیڈل کاسترو کے اقتدار کے خاتمے کی رفتار تیز کرنے کی اُمید میں، دوسری باتوں کے علاوہ اداروں کے قیام اور حکومت کے کنٹرول سے باہر معلومات تک رسائی فراہم کرنے کے لئے رقم الاٹ کی گئی تھی۔گذشتہ مئی میں،سی این این کے وولف بلٹزرکے ساتھ ایک انٹرویو میں، گروس نے اس موقف کو برقرار رکھا کہ” وہ کیوبا صرف اپنے پہلے سے تیار کردہ چند آلات کو لیکر گئے تھے تاکہ یہ ٹیسٹ کرسکیں کہ آیا وہ کام کرتے ہیں یا نہیں“۔
انہوں نے ”یہودی کمیونٹی میں کمپیوٹر کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے“ کا فیصلہ بھی کیا تھا۔گروس کہتے ہیں کہ وہ خاص طور پر مخالفین کی مدد نہیں کر رہے تھے۔تاہم ہیلمز۔برٹن پروگراموں کے لیے کام کرنا جزیرے پر ایک جرم تصور کیا جاتا ہے، اور ہوانا کے حکام سیٹلائٹ انٹرنیٹ سامان کے بارے میں خاص طور پر محتاط ہیں؛ وہ پھٹ جانے والے سگاروں اور ”یانکی حملوں“کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔
کیوبا کے لوگوں کو شاید یہ خوف تھا کہ گروس کا پراجیکٹ مستقبل کی کارروائیوں کے لئے ایک آزمائشی مشن تھا۔ یہ تو واضح نہیں ہے کہ ایسا تھا یا نہیں ، لیکن ایلن گروس کی اہلیہ جوڈی گروس کی طرف سے گذشتہ ماہ دائر کیے جانے والے 60ملین ڈالر کے مقدمہ کے مطابق، جس میں یو ایس ایڈ اور ڈی اے آئی کے خلاف غفلت کا دعویٰ کیا گیا ہے، ترقیاتی فرم نے کیوبا میں ایک یو ایس ایڈ مشن میں مدد کے لیے کارروائیوں کا معاہدہ کررکھا تھا۔
اُمید اور تبدیلی
جب اوباما نے گروس کے گرفتار ہونے سے ایک سال قبل اپنا عہدہ صدارت سنبھالا تھا، توبہت سے کیوبائی باشندوں کو بڑی اُمید تھی کہ دونوں ممالک سرد جنگ کے ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کے لیے اقدامات کرسکیں گے۔ ابتدائی طور پر، مثبت علامات نظر بھی آئی تھیں۔ اپریل 2009 میں، صدراوباما نے کیوبا نژاد امریکیوں پر جزیرے کا سفر کرنے اور وہاں رقم بھیجنے کی پابندی ختم کردی اور ہوانا کے ساتھ تعلقات میں سردمہری کے خاتمے کا عزم کا اظہار کیا۔
صدر نے بعد میں کیوبا کے حکام کے ساتھ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں پر رضامندی کا اشارہ دیا، اور محکمہٴ خارجہ نے ہوانا میں امریکی انٹرسٹ سیکشن کو اپنی بلڈنگ کی پانچویں منزل کی کھڑکی کے باہر لٹکتے الیکٹرانک بل بورڈ کو بند کردینے کی ہدایت کی، جس کے روشن سرخ الفاظ کے ذریعے وہ کئی سال سے کیوبا کی حکومت پر تنقید کرتے آرہے تھے۔دریں اثنا، امریکی اٹارنی کے دفتر کی طرف سے کیوبا کے ایک بزرگ جلاوطن اور سی آئی اے کے سابق اہلکار لوئیس پسوڈا کاریلیس کے خلاف فرد جرم عائد کردی گئی، جس نے فیڈل کاسترو کے خلاف ایجنسی کی پرتشدد شیڈو جنگ میں حصہ لیا تھا۔
لوئیس پسوڈا کاریلیس پر، 1990 کی دہائی کے اواخرمیں ہوانا بم دھماکوں کے ایک سلسلے میں ان کے مبینہ کردار کے حوالے سے امریکی امیگریشن حکام سے جھوٹ بولنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
امریکہ کے لئے، یہ بہت اہم پالیسی کی تبدیلیاں تھیں؛ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ ایک عظیم تر مفاہمت کا آغاز تھا۔ لیکن کیوبا کی حکومت نے انتظار کرو اور دیکھو کا رویہ اپنائے رکھا۔
سال کے اختتام تک بھی، امریکی پابندی میں نرمی یا کیوبا کو دہشت گرد ریاستوں کی فہرست سے خارج کرنے کے بارے میں بہت کم بات ہوتی رہی تھی …راوٴل کاسترو کے لئے یہ دو اولین ترجیحات تھیں، جو اس وقت انچارج تھے۔ اسی اثناء میں، جب سوشل میڈیا ایران میں سبز انقلاب کو آگے بڑھانے میں مدد دے رہا تھا، کیوبا کی حکومت اس بات پر بہت زیادہ ناراض ہوئی کہ وائٹ ہاوٴس نے اب تک بھی گروس کے جیسے مشن ختم نہیں کیے تھے۔
آسٹریلیا کے لیے کیوبا کے سفیر پیڈرو مون زون نے کہا کہ”صدر اوباما نے کیوبا کی پالیسی پر کچھ محدود اقدامات کئے ہیں، جنہیں ہم مثبت قرار دیتے ہیں“۔ لیکن، انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ،”امریکہ نے… کیوبا کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ترغیب کے لئے مالی امداد پر مبنی غیر قانونی پروگراموں کو …روکا یا اُن پر نظر ثانی بھی نہیں کی“۔
2010 کے موسم بہار میں، یعنی گروس کی گرفتاری کے مہینوں بعد ، ریاستی اور یو ایس ایڈ کے اعلیٰ سطحی اہلکاروں نے فیصلہ کیا کہ گروس کے ساتھ جو ہوا وہ ایک وسیع تر مسئلے کا حصہ تھا…وہ مسئلہ یہ تھا کہ جمہوریت کے لیے شروع کیے گئے پروگرام غیر موثر اور غیر تسلی بخش طور پر منظم کیے گئے تھے۔
یو ایس ایڈ کے ایک سابق اہلکار نے بتایا کہ ”یہ پروگرام ترقی میں کوئی مدد نہیں کررہے تھے۔بلکہ وہ چیزوں کو سیاسی رنگ دے رہے تھے“۔
ایک سال سے زیادہ عرصے سے، آرمسٹرانگ اور ان کے باس سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ، سینیٹر جان کیری، جمہوریت کے قیام کے لیے پروگراموں میں اصلاحات کی کوشش کر رہے تھے، لیکن انھیں بہت کم کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
اب ریاست اور یو ایس ایڈ مزید شفافیت پیدا کرنے کے لئے آرمسٹرانگ سے مدد چاہتے تھے، اور وہ ایسی کوششوں کے لیے فنڈز فراہم کرنا چاہتے تھے جو کیوبا کے شہریوں کی بہتر طور پرمدد کرسکیں… لیکن خاص طور پر مخالفین کی ہدف بندی کیے بغیر۔وہ یہ بھی اُمید کررہے تھے پروگراموں کا شفاف بنانا گروس کی وطن واپسی میں مددگار ہو سکتا ہے۔
پورے موسم گرما میں جاری رہنے والے خفیہ اجلاسوں کے دوران محکمہٴ خارجہ اور یو ایس ایڈ نے آرمسٹرانگ اور دوسروں کے ساتھ ملکر کیوبا کے لیے حکومت کی طرف سے 2010کی یوایس ایڈ کی مد میں الاٹ کردہ 20 ملین ڈالر کی رقم میں سے 15 ملین ڈالر خرچ کرنے پر اتفاق کیا۔
اُن کا ماننا تھا کہ وہاں اس معیار کے پروگرام موجود ہی نہیں تھے جو اخراجات کا جواز پیش کرتے ہوں۔ انہوں نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ مزید کمی اور تبدیلیوں کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
اسی موسم گرما میں، ریاست کے ایماء پر، آرمسٹرانگ نے جمہوریت سے متعلق پروگراموں میں تبدیلی کے بارے میں بتانے کے لیے واشنگٹن میں امریکی انٹرسٹ سیکشن سے کیوبا کے اعلیٰ سطحی اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتیں شروع کر دیں۔
ملاقاتیں بظاہر ٹھیک طور پر چل رہی تھیں۔ آرمسٹرانگ نے مجھے بتایا کہ ”ہم نے کہا، دیکھیے، پیغام، ملا ہے،کہ یہ (جمہوریت سے متعلق پروگرام) احمقانہ ہیں، ہم انھیں شفاف بنارہے ہیں۔ ہمیں کچھ وقت دیجئے کیونکہ ہم سیاسی طور پر ان کا فوری خاتمہ نہیں کرسکتے“۔کیوبا کے حکام شکر گزار لگ رہے تھے۔”ہم نے ان سے پوچھا، کیایہ ایلن گروس کو رہا کرنے میں آپ کی مدد کرے گا؟“ آرمسٹرانگ نے آگے بڑھتے ہوئے بتایا،”اور اُن کا جواب ”ہاں“ میں تھا“۔
اس موسم خزاں میں، آرمسٹرانگ نے جمہوریت کے پروگراموں سے متعلق 2011 کے بجٹ پر گفت و شنید کے لیے ، ایک بار پھر ریاست اور یو ایس ایڈ کے ساتھ رازدارانہ ملاقاتوں کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔ آرمسٹرانگ اور ریاست میں ان کے ساتھیوں نے اُمید ظاہر کی کہ آئندہ سال میں، امریکہ مختص فنڈز میں سے صرف 10 ملین ڈالر خرچ کرے گا اور پروگراموں کو بھی زیادہ شفاف اور غیر سیاسی بنا دے گا۔
وہ زیادہ سے زیادہ، مذہبی تعلیمی، اور ثقافتی گروہوں کوجزیرے، کا سفر کرنے کی بھی اجازت دینا چاہتے تھے، جو کلنٹن انتظامیہ کی کیوبا پالیسی کا ایک اہم حصہ تھا۔ ایک سابق اعلیٰ سرکاری اہلکار نے بتایا کہ ”یہ چیزیں اہم ہیں۔ سوویت یونین کو طاقت سے محروم کرنے والے بروس سپرنگ سٹین تھے، نہ کہ سٹار وار یا اینٹی بیلسٹک میزائل“۔
تاہم اس بار، یو ایس ایڈ کے بعض بیوروکریٹس نے اس ڈر سے مزاحمت کی کہ ان کے خیال سے آرمسٹرانگ اور ریاست میں موجود ان کے ساتھی بہت دُور جا رہے تھے۔
اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ یو ایس ایڈ کے بیوروکریٹس نے کیپٹل ہل(واشنگٹن) کے دو طاقتور حکام… نیو جرسی سے ڈیموکریٹک سینیٹر رابرٹ مننڈیز، اور فلوریڈا سے کانگریس کی ری پبلکن رکن ایلیناروز لہتینن… کو اپنی کوششوں کے بارے میں معلومات پہنچانی شروع کر دی تھیں۔یہ دونوں ایک گروپ کا حصہ ہیں جو کیوبا نژاد لابی کے طور پر جانا جاتا ہے… اور ان کے حلقوں میں بہت سے ایسے خاندان شامل ہیں جنھوں نے کاسترو کے انقلاب کے دوران سب کچھ کھو دیا تھا۔
دونوں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حکومت کو الگ تھلگ کرنا اس کے خاتمے کا بہترین طریقہ ہے ، اور انھوں نے بہت سی تبدیلیوں کے خلاف لڑائی شروع کردی۔
اس دوران ، امریکی ریاست نے گروس کو جیل سے رہائی دلانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ ستمبر 2010 میں، ہسپانوی حکومت کے حکام نے امریکی نائب وزیر خارجہ ارتورو ویلنزویلا اور کیوبا کے وزیر خارجہ برونو روڈریگوئز کے درمیان نیویارک میں ایک خفیہ ملاقات کا اہتمام کرنے میں مدد دی۔
امریکی جس قدر توقع کررہے تھے اس کی نسبت کیوبا کے حکام نے بہت کم لچک کا مظاہرہ کیا۔ امریکہ نے بھی یکطرفہ راہ اختیار کی: وہ چاہتا تھا کہ کیوبا گروس کو رہاکرے، اور صرف اسی صورت میں وہ پالیسی میں کسی قسم کی دوسری تبدیلیوں کو آگے بڑھائے گا۔ کیوبا کے حکام بظاہر خوش نہیں تھے؛ امریکی انہیں کسی چیز پر ایک مضبوط عزم کی پیشکش نہیں کررہے تھے۔
روڈریگوئز نے مبینہ طور پر کیوبا کی زبوں حالی کی تاریخ کے بارے میں ویلنزویلاکو تقریباً ایک گھنٹے کا لیکچر دیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ مایوس تھا؛جس وقت کیوبا کی حکومت نے اہم اقتصادی اصلاحات کا اعلان کیا ، سینئر امریکی حکام کو کچھ پتا نہیں تھا کہ ہوانا میں حقیقتاً انچارج کون ہے۔وہ اس کے باوجود انجام سے بے پروا تھے۔ اکتوبر میں، اس ڈر سے کہ کیوبا ایک بار پھر وائٹ ہاوٴس کی ترجیحی فہرست میں نیچے چلا گیا ہے، واشنگٹن میں کیوبا کے انٹرسٹ سیکشن نے پیغام بھیجا کہ روڈریگوئز جان کیری سے ملنا چاہتے تھے۔
ریاست کی رضامندی کے ساتھ، کیری نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے لیے کیوبا کے سفیر کی رہائش گاہ پر روڈریگوئز سے ملاقات کی۔ وہاں کوئی ادلہ بدلہ نہیں ہواتھا، لیکن اجلاس سے کیوبا کے لوگوں کا اعتماد بحال ہوا لگ رہا تھا کہ جمہوریت کے پروگرام تبدیل کیے جائیں گے، اور کیوبائی حکام نے اعتماد ظاہر کیا کہ گروس کو ان کے مقدمے کی سماعت کے بعد انسانی بنیادوں پر رہائی دے دی جائے گی،مقدمہ کی سماعت مارچ کے آخر میں ہونا طے تھی۔
جمی کارٹر کیوبا میں
ہوانا میں درجہٴ حرارت 80 ڈگری سے زائد تھا، جب 28 مارچ، 2011 کو، سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اپنے ہوائی جہاز سے نیچے سڑک پر قدم رکھا۔ سفید قمیض اور سیاہ پتلون میں ملبوس کارٹر، کیوبا کے صدر راوٴل کاسترو کی ذاتی دعوت پر پہنچے تھے۔ کارٹر اور کاسترو دونوں نے توقعات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی؛انھوں نے واضح کردیا کہ یہ دورہ بھی اعتماد کی تعمیر کے لیے بات چیت کا حصہ تھا۔
اور اس اعتماد کی تعمیر کے لیے، کارٹر نے کیوبا پر پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
پچھلے موسم خزاں کے بعد سے بہت کچھ تبدیل ہوچکا تھا۔ ڈیموکریٹس کو کانگریس کے مڈٹرم انتخابات میں شکست ہوچکی تھی، اور ایوان میں ری پبلکن اکثریت کے ساتھ، ایلیناروز لہتینن خارجہ امور کمیٹی کی سربراہ بن گئی تھیں۔ دریں اثنا،دم توڑتی معیشت ، اور خون سُونگھتے ری پبلکن کے ساتھ، مننڈیز پہلے سے کہیں زیادہ طاقت حاصل کرچکے تھے۔
کیوبا کے قومی سلامتی آرکائیو کے ایک تجزئیہ کار پیٹر کوربلوہ نے بتایا کہ”اس وقت، سینیٹ اس طرح یکساں طور پر تقسیم تھی کہ مننڈیز… کیوبا پر اپنی بات منوانے کے لیے عملی طور پر کچھ بھی یرغمال بنانے کے قابل تھے۔
اندرونی ذرائع کے مطابق،مننڈیز نے مبینہ طور پر اوباما کے نائب قومی سلامتی کے مشیر ڈینس میک ڈونو سے ملاقات کی اور دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی مطالبہ کیا کہ کیوبا میں جمہوریت کے پروگراموں پر پورے 20 ملین ڈالر خرچ کیے جائیں اور یہ کہ کچھ رقم اب بھی انسانی حقوق کی حمایت کرنے والے مخالفین کے پاس جاتی ہے۔
ایک سابق سرکاری عہدیدار کے مطابق، میک ڈونو پھنس کر رہ گئے تھے۔محکمہٴ خارجہ کے اندر کچھ لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ کیوبا کی حکومت سنجیدگی سے مذاکرات پر آمادہ تھی۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ انھیں مختلف معاملات پر مننڈیز کے ووٹ درکار ہوں گے، اور اوباما کے دوبارہ انتخاب کی کوششیں یقینی طور پر مشکل ہوں گی، صورتحال کا علم رکھنے والے کئی افراد کے مطابق، انتظامیہ نے مننڈیز کو وہ دے دیا جو وہ چاہتے تھے۔
ایک سابق سرکاری اہلکار نے کہا تھا کہ ”میں اس 50 سالہ دلدل سے جس قدرباہر نکلنا چاہتا ہوں،مننڈیز اتنا ہی تیزی سے اس میں ہمیں گِرانے کے خواہاں ہیں“۔
ہوانا میں کارٹر کی آمد کے دوسرے روز،جب وہ اور ان کی اہلیہ ہوانا کے صدارتی محل میں کاسترو سے ملاقات کررہے تھے، مننڈیز نے کیوبا میں سابق صدر کی موجودگی پر دھماکہ خیز خط جاری کردیا۔
تقریباً اسی وقت، یہ بات سامنے آگئی کہ محکمہٴ خارجہ واقعی 2011 میں جمہوریت پر مبنی پروگراموں پر 20 ملین ڈالر خرچ کرنے جا رہا تھا، اور یہ کہ بش دور کی کچھ اشتعال انگیز پالیسیوں کو بھی بحال کیا جائے گا۔ آرمسٹرانگ نے ایک ای میل میں اپنے ساتھیوں کو لکھا ”بے چارہ ایلن گروس“۔کیوبا نژاد امریکی لابی جیت گئی تھی۔
وقت کا انتخاب اس سے بُرا نہیں ہو سکتا تھا۔
اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ کاسترو اپنے اقتصادی آزادی کے منصوبوں کے حوالے سے اپنی حکومت کے کٹر مخالفین کے ساتھ مشکل لڑائی میں پھنس چکے تھے۔ ایک ہفتے بعد،جب کاسترو نے کیوبا کی کانگریس کے سامنے اپنی اقتصادی اصلاحات پیش کرنے کے لئے تیار کرلی تھیں، ٹیکساس کی ایک عدالت نے تمام الزامات کے تحت لوئیس پسوڈا کاریلیس کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس پر کیوبا کے حکام انتہائی مایوس ہوئے تھے۔اگست 2011میں، جب گروس کی اپیل ناکام ہوگئی، توانسانی بنیادوں پر رہائی بھی عمل میں نہ آسکی۔موسم خزاں کی آمد تک،کیوبا اور امریکہ کے حکام نے بنیادی طور پر بات چیت بند کر دی تھی۔
کوئی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ آیا جمہوریت کے پروگراموں کو تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری رہتا تو کیا کیوبا کی حکومت گروس کو رہا کر دیتی۔
تاہم کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ صدر جمی کارٹر کے دورے کے دوران جو کچھ ہوا، اس نے کیوبا کے حکام کو پختہ یقین دلادیا کہ امریکی محکمہ خارجہ یا تو اعتبار کے قابل نہیں یا اسے بہت کم سیاسی سمجھ بوجھ حاصل ہے۔کانگریس کے ایک سینئر ساتھی کا کہنا تھا کہ ”ہمیں زیادہ ہوشیاری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کرنے والے دو لوگوں کے درمیان بات چیت میں، آپ کو اعتماد قائم کرنے والے اقدامات تلاش کرنے پڑتے ہیں۔
اگر آپ اس طرح سے بات کریں گے کہ’ٹھیک ہے، میں میز سے دُور شطرنج کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے لات مارنے جا رہا ہوں‘، تو یہ محض احمقانہ حرکت ہوگی“۔
اب، اوباما کے دوبارہ انتخاب کے بعد ،ایک نیا شطرنج کا کھیل شروع ہوسکتا ہے …ایسا کھیل جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ گروس کی ممکنہ رہائی اور امریکہ اور کیوبا کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کا باعث بنے گا۔
کیری غالباً ہیلری کلنٹن کی جگہ وزیر خارجہ کا عہدہ حاصل کرلیں گے اور صدر اوباما جو فلوریڈا سے بڑے مارجن کے ساتھ جیت چکے ہیں، اب اُن کے پاس سوچنے کے لیے کوئی مہم نہیں ہے۔ اگرچہ ہوانا میں حکام نے رپورٹس کے مطابق اس بات کا اعتراف کرلیا ہے، کہ گروس جاسوس نہیں تھے، لیکن وہ ایک تبادلے کی طرف اشارہ کررہے ہیں:گروس کے بدلے میں وہ کیوبا کے پانچ انٹیلی جنس افسران کی رہائی چاہتے ہیں جو 1998 میں امریکہ میں گرفتار ہوئے تھے ( نام نہاد پانچ کیوبائی)…یہ ایک ایسا موقف ہے جس پر بات چیت ہوسکتی ہے۔
تاہم مایوسی کے کچھ اسباب بھی ہیں۔ سینیٹ اس وقت اتنی منقسم نہیں جیسی کہ یہ دو سال پہلے تھی، لیکن اوباما انتظامیہ کے مالی خسارے اور دیگر قانونی لڑائیوں میں اُلجھنے کے باعث، کیوبا اُن کی ترجیحات کی فہرست میں زیادہ اہم دکھائی نہیں دیتا۔اور اگر کیری کو اہم ریاستی عہدہ تفویض کیا جاتا ہے تو، مننڈیز بھی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ بن سکتے ہیں، یعنی ایسے عہدے پر فائز ہوسکتے ہیں جہاں وہ وائٹ ہاؤس کو کئی طرح کے محاذ پر عاجز کرسکتے ہیں، جیسے کہ سفیروں کی تقرری ۔
صدر کارٹر کے سابق مشیر رابرٹ پاسٹری کہتے ہیں کہ، ”اگر آپ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کچھ دینے کے لئے بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔ یہ ایک منصفانہ سا سوال ہے کہ کیا انتظامیہ (گروس کے لیے) قیمت ادا کرنے پر تیار ہے یا نہیں“۔
جوڈی گروس کے لیے یہ سب، پُر امید نہیں ہے۔ ہوانا کے تازہ ترین دورے سے لوٹنے کے بعد، انھوں نے بتایا ہے کہ اُن کے 63سالہ شوہر، اب ایک جیل کے ہسپتال میں رہ رہے ہیں۔
وہ اپنے ساتھی قیدیوں کے ساتھ دوستی کرچکے ہیں اور اکثر ٹیلی ویژن پر ان کے ساتھ کیوبا کے بیس بال مقابلے دیکھتے ہیں۔ لیکن وہ گروس کی صحت کے بارے میں بے حد فکرمند ہیں، خاص طور پر اس حقیقت کو لیکر کہ جیل میں گزرے وقت کے دوران گروس کا 100 پونڈ سے زیادہ وزن کم ہوچکا ہے۔ ان کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی اور ان کے شوہر سلاخوں کے پیچھے ہی مر سکتے ہیں“۔ ان کا کہنا ہے کہ ”کیوبا نے ہولناک کام کیا ہے، اور میں اس کے لئے اسے معاف نہیں کر سکتی ،لیکن مجھے لگتا ہے کہ امریکہ نے بھی مجھے دھوکہ دیا ہے۔ اور ایلن بھی، یہ دھوکہ محسوس کرتے ہیں“۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط