Episode 48 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 48 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

اندرونی طور پر تبدیلی
دُنیا آج ایک ویسی خالی سلیٹ نہیں رہی،جیسی کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا کرتی تھی، جب…جیسا کہ اوباما انتظامیہ اکثر حوالہ دیتی ہے…امریکہ کے دُور اندیش رہنماؤں کی جنریشن نے مغربی لبرل بین الاقوامی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ بہت سے ادارے چھوڑ گئے…بین الاقوامی اور علاقائی ، رسمی اور غیر رسمی ، عام اور مخصوص مقاصد کے لیے ادارے۔
عالمی جنگ جیسے منظر نامے کی عدم موجودگی میں، موجودہ اداروں میں اثرورسوخ کا نئے سرے سے تعین کرنا انتہائی دشوار ہے۔ جتنا اہم ادارہ ہوگا، اس میں شامل ارکان زیادہ اہم مقام و مرتبہ چھوڑنے پر اُتنی ہی زیادہ مزاحمت کریں گے۔
 مثال کے طور پر، چین اور روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کسی بھی نئے مستقل رُکن کو شامل کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان میں سے کوئی بھی اپنی ویٹو پاور کو محدود یا دوسروں کو یہ طاقت دینے کے فیصلے کو برداشت نہیں کرے گا۔ پھر ذرا عالمی توانائی ایجنسی کے بارے میں غور کیجئے۔ اس نے توانائی کے اہم ترین صارفین جیسے کہ چین اور بھارت اور اسی طرح توانائی فراہم کرنے والے سب سے بڑے ملک روس کو بھی خارج کردیا ہے۔ ظاہری طور پر، اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی توانائی ایجنسی(International Engergy Agency)کے ارکان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم(Organization for Economic Cooperation and Development) سے تعلق رکھتے ہوں۔
مگر اس کی ایک دوسری وضاحت بھی ہے، اور وہ یہ کہ…عالمی توانائی ایجنسی میں ووٹنگ کو 1974میں عالمی سطح پر تیل کی کھپت میں ہر ملک کی کھپت کی بنیاد پر اہمیت دی جاتی ہے، اور اس کے موجودہ ارکان اسی طریقہٴ کار کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ تیل کی کھپت شمالی امریکہ اور یورپ میں بنیادی طور پر مستحکم رہی ہے اور چین اور بھارت میں اس کی کھپت میں بالترتیب آٹھ اور چھ گُنا اضافہ ہوا ہے۔
ذاتی مفادات بھی عالمی بینک ، آئی ایم ایف ، اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی گورننس کے بارے میں جاری بحث کو کسی نتیجے پر پہنچنے نہیں دیتے۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ،حالیہ بین الاقوامی اقتصادی بحران کے جھٹکے سے پیدا ہونے والی تبدیلی کچھ حد تک کار فرما ہے۔ جی۔20بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے لیے اہم ترین فورم بن چکا ہے، کثیر الجہتی تعاون میں پہلی اہم موافقت،جو عالمی طاقت میں ڈرامائی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے۔
جی۔ 20 ممالک نے عالمی مالیات کے بین الاقوامی معیار کو مضبوط بنانے کے لیے اپریل 2009 میں مالیاتی استحکام بورڈ قائم کیا ۔ آئی ایم ایف کے وسائل میں توسیع کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک دونوں کے ارکان نے اُبھرتی ہوئی مارکیٹ معیشتوں کے حق میں ان تنظیموں کی ووٹنگ کی اہمیت اور کوٹہ کو کئی فی صد ی نکات کے لحاظ سے ایڈجسٹ کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔
مگر ان اصلاحات کے مجموعی اثرات معمولی ہیں۔یہ 65سال پہلے جیسا عالمی قوانین کی تشکیل کا لمحہ نہیں ہے۔
کسی بھی واقعہ میں،اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو موجودہ اداروں میں لانے کی زیادہ پُرعزم کوششیں بھی اثرات اور جواز کے درمیان سمجھوتے کے امکانات کے باعث محدود ثابت ہوں گی۔یہ تشویش اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توسیع پر بحث کا اہم ترین محور ہے۔
جیسا کہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوزن رائس نے فروری 2009میں اقوام متحدہ کے عام اجلاس میں وضاحت کی کہ،”امریکہ سمجھتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طویل مدتی قانونی حیثیت اور اہمیت کا انحصار اکیسویں صدی کی دُنیا کی عکاسی کرنے پر ہے۔“ اُنھوں نے اپنی وضاحت جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ”ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کی توسیع اس ادارے کی کارکردگی اور فوائد پر اثرانداز نہ ہو۔
“ ایک وسیع تر،زیادہ ارکان پر مشتمل سلامتی کونسل،اہم قراردادوں پر ووٹ لینے کی امریکی کوششوں کو پیچیدہ بناسکتی ہے۔ موجودہ فورمز میں توسیع بھی اتفاق رائے کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ اس کی مثال جی۔ایٹ(جوکہ روس کی موجودگی کے باوجود ابھی بھی مغربی غلبہ کا حامل ایک محفوظ فورم ہے) کی جی۔ٹونٹی(جو ایک بہت زیادہ متنوع تنظیم ہے) میں تبدیلی سے واضح ہوجاتی ہے۔
اپنے مختلف النوعیت ارکان کی وجہ سے،جی۔ٹونٹی کے مستقبل قریب میں ایران کے جوہری پروگرام یا سوڈان میں تشدد جیسے حساس سیاسی اور سلامتی کے مسائل ، حل کرنے کے لئے مشترکہ مقام بننے کا امکان نہیں ہے۔ 
ایک بہت بڑا سودا
آج کے عالمی مسائل سے نپٹنے کے لیے امریکہ کے پاس اُبھرتی ہوئی طاقتوں پر انحصار کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
مگر اُسے ان ممالک کو اس طریقے سے مشغول کرنا چاہیے کہ،جو جنگ کے بعد کے عالمی نظام کی روح کو برقرار رکھے۔ ماہر سیاسیات جی ۔جان اکین بیری نے اس بات پرزور دیا ہے کہ اب ایک ”ادارہ جاتی سودے بازی“ کا وقت آگیا ہے…کثیر ملکی فریم ورک میں دوسروں کے اثرو رسوخ کو اس طرح تسلیم کرتے ہوئے کہ ،امریکہ خود سب پر غالب ہی رہے… وہ مغربی ماڈل پر قائم بین الاقوامی نظام پر اُبھرتی ہوئی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
 
مگر امریکہ کو یہ سب کیسے کرنا چاہیے؟ کیا اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو یہ سوچ کر جلد ہی یکجا کردینا چاہیے کہ اُنھیں جلدی حصّے دار بنانے سے وہ جلدی ذمّہ دار بن جائیں گے؟ یا پھربتدریج اختیارات دینے کا طریقہ اختیار کرنا زیادہ عقل مندی ہوگی، یعنی ایسا طریقہ کہ جو اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو کلب میں داخلے کے لیے عالمی قوانین کے مطابق عمل اور نئی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے پر آمادگی کے اظہار سے مشروط کرے گا؟۔
دونوں ہی طریقے مایوس کُن ثابت ہوسکتے ہیں۔
 اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ دُنیا کی اُبھرتی ہوئی طاقتیں امریکہ کی سٹریٹجک شراکت دار بن جائیں گی۔ امریکہ ان سے عالمی سطح پرزیادہ اہم کردار کا خواہش مند ہوگا،مگر وہ اُن کے انتخاب کو کنٹرول نہیں کرسکتا اور پھر اُن کی شمولیت کے نتائج بھی ہمیشہ اُس(امریکہ) کی پسند کے مطابق نہیں ہوں گے۔
 
بلا شبہ، آج کے اُبھرتے ہوئے ممالک کے درمیان دنیا کے معاملات پر کوئی مشترکہ تصور نہیں پایا جاتا۔مگر امریکہ کی طاقت میں کمی ہونے سے، اُبھرتی ہوئی طاقتیں موجودہ اداروں کو اپنے مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اُنھیں جانچیں گی، تحلیل یا ازسر نوتشکیل دینے کی کوشش کریں گی۔ امریکہ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کب اُسے سخت موقف اپنانا ہے،کب اُنھیں مشغول کرنا ہے، اور کب سادہ انداز میں متفق یا غیرمتفق ہونا ہے۔
اس طرح ممکنہ طور پر قومی خودمختاری کی مناسب حدود ، ریاست اور مارکیٹ کے درمیان مطلوبہ توازن،اور سیاسی جواز کی مناسب بنیاد جیسے معاملات پر مسلسل بحث شروع ہوگی۔ 
سرد جنگ کے دوران، امریکہ سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والی جمہوریتوں کے درمیان یکجہتی پر اعتماد کرسکتا تھا۔ اکیسویں صدی میں، کثیر ملکی تعاون کے لیے معیاری بنیادیں کمزور ہوں گی۔
اس کی ملتی جلتی نامکمل تاریخی مثالاٹھارہویں صدی کا کنسرٹ آف یورپ ہوسکتا ہے۔ اس نظام نے اقتدار کے روایتی توازن کو حقوق کے توازن کے ساتھ پختہ جوڑ دیا، جس نے مغربی طاقتوں (فرانس اور برطانیہ) اور مقدس اتحاد کی آمرانہ بادشاہتوں ( آسٹریا ، پرشیا ، اور روس ) کے درمیان اختلافات دُور کرنے میں مدد کی۔ آج بھی عالمی تعاون کے لیے اسی منطق پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
امریکہ کو ایسے ممالک پر غالباً کم توجہ دینے کی ضرورت ہوگی جہاں آمرانہ طرز حکومت ہے اور اُن اقوام عالم کو، اُن مملکتوں کو برداشت کرنا ہوگا جہاں جمہوریت کی کمی ہے یا سرے سے جمہوریت موجود ہی نہیں۔ اُسے اُبھرتی ہوئی طاقتوں میں قوم پرست احساسات کی حمایت کرنا ہوگی…جن میں امریکہ کے تصور کے مطابق مداخلت ، کسی ایک کی طرفداری ، یا فوج سے متعلقہ حساس معاملات شامل ہیں…اور ساتھ ہی تمام حکومتوں کی طرف سے ان دُکھڑوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے رجحان سے بھی خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔
پرانے نظام کو جس قدر ممکن ہو برقرار رکھتے ہوئے نئی طاقتوں کو ساتھ شامل کرنا،بہت حد تک دو صدیاں قبل کے ”کنسرٹ آف یورپ“ کی طرح ایک مستقل توازن قائم رکھنے جیسا عمل ہوگا۔ 
پھر بھی،جیسا کہ عالمی امور پر شکاگو کونسل کے تھامس رائٹ نے مشاہدہ کیا ہے، اوباما انتظامیہ نے ابھی تک اس بارے میں بہت کم سنجیدگی سے سوچ بچار کی ہے کہ جب امریکہ کے مفادات دوسرے ملکوں سے نہ ملتے ہوئے تو اُس صورت میں تعاون کو کیسے فروغ دینا ہے۔
مئی 2010کی قومی سلامتی کی حکمت عملی میں اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ ممکنہ مفادات کے ٹکراؤ کے حوالے سے مختصر بحث کی گئی ہے جو بے حد محدود ہے، اس میں کہا گیا ہے:” اور جب قومی مفادات ٹکراتے ہوں…یا دوسرے ممالک اپنے مفادات کو مختلف طور پر ترجیح دیتے ہوں…تو پھر ایسے ملک جو عالمی اصولوں کو جھٹلائیں یا اپنی خودمختارانہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہیں،اُنھیں بین الاقوامی برادری کے ساتھ انضمام اور تعاون سے ملنے والی مراعات سے محروم کردیا جائے گا۔
“ یہ انتباہ واضح طور پر ایران ، شمالی کوریا ، اور وینزویلا پر لاگو ہوتا ہے ، تاہم اس کا اطلاق ایسی اُبھرتی ہوئی طاقتوں پر ہوبھی سکتا ہے اور نہیں بھی، جو ”خود سر“ ہوں۔ ایسی صورت میں کیا ہوگا کہ اگر برازیل، چین یا ترکی اہم مسائل پر اپنے مفادات کو امریکہ کے برعکس دوسرے طریقوں سے ترجیح دیں؟ 
اس پیچیدہ عالمی حقیقت کی روشنی میں ہوسکتا ہے، مقررہ(fixed)اتحاد اور رسمی تنظیمیں بنانے سے زیادہ مفادات پر مبنی اتحاد اہمیت رکھتے ہوں ۔
خوش قسمتی سے امریکہ ان محرکات سے فائدہ اُٹھانے کی بہترین پوزیشن میں ہے، کیونکہ کم ازکم مستقبل قریب میں،جی۔ٹونٹی اور دیگر اہم فورمز پر جن معاہدوں پر بحث کی جائے گی، امریکہ کو ان میں مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔ مگر اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کے لیے امریکی حکام کو اپنی سہولت کے مطابق اشتراک قائم کرنے کے حوالے سے جذبات سے عاری ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔
اُنھیں مختلف مقاصد کے لیے مختلف ”کلب“ بنانے ہونگے،جی ۔ٹونٹی جیسے بڑے پیمانے پر قائم ہونے والے انتظامات کا توڑ کرنے کے لیے جی۔ایٹ جیسے چھوٹے مضبوط تعلق والے گروپ تشکیل دینے ہونگے جو امریکہ کو اُن دیرینہ ساتھیوں کے ساتھ ملکر جو امریکہ کے بنیادی سیاسی و معاشی اصولوں کے شراکت دار ہیں، وسیع پیمانے پر کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔
 
دریں اثنا ، امریکہ کو ابھرتی ہوئی طاقتوں کو عالمی سطح پر عوامی خدمت میں تعاون سے بچنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ہوسکتا ہے یہ ممالک بعض اوقات”مشترکہ مگر مختلف نوعیت کی ذمہ داریوں“ کے تصور کی پیروی کرنے لگیں۔ یہ اصول جسے 1992کی ”ریو“ میں ہونے والی ارتھ کانفرنس میں پہلی بار منظور کیا گیا او 1997 کے کیوٹو پروٹوکول میں شامل کر لیا گیا، یہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک پر اور اُن کی اندرون ملک صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف طرح کی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔
لیکن امریکہ کو تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں کی طرف سے اندرون ملک ترقی کی رکاوٹوں کی بنیاد پرامتیازی طریقہٴ کار کی فریاد کے خلاف سخت مزاحمت کرتے ہوئے وقت کے ساتھ مستحکم اور اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے درمیان ذمہ داریوں کے توازن کے لئے واضح معیارات پر اصرار کرنا چاہئے۔ مزید عمومی طور پر ، امریکہ کو اُبھرتی ہوئی طاقتوں کی بین الاقوامی حیثیت ، مقام ، اور مرتبہ میں کسی بھی طرح کے اضافے کو دنیا کے استحکام کے لئے ان کی ٹھوس شراکت کے ساتھ لازماً منسلک کرنا چاہیے۔
تیزی سے فرسودہ ہوتی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اصلاحات ایسا شعبہ ہے جس کے لیے امریکہ کو نئے ممالک کی شمولیت کے حوالے سے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنے پر اصرار کرنا چاہیے۔ نئی مستقل نشست صرف اُن ریاستوں کو دی جانی چاہیے جو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے فروغ کے لیے ٹھوس کوششیں کریں۔ ایسی کوششوں کے لیے مناسب معیار کے پیمانے میں یہ اصول شامل ہونے چاہئیں جیسے کہ ،کیا اُس ملک کے پاس ایسی فوجی(اور ساتھ ساتھ سویلین بھی) صلاحیتیں موجود ہیں،جنہیں اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی یا علاقائی سطح پر استعمال میں لایا جاسکے، وہ اقوام متحدہ کے قیام امن کے اخراجات میں باقاعدگی سے نمایاں حصّہ ڈالتا ہے، وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب7کے تحت فیصلوں کے نفاذ کیلئے طاقت کے ذرائع استعمال کرنے پر رضامند ہے، پابندیوں کے نفاذ اور فوجی قوت کے استعمال کی اجازت دے گا،وہ سیاسی حل کرانے میں مدد کرنے کے قابل ہے، اور وہ معیار پر پورا اُترنے اور سلامتی کے قیام کا ریکارڈ رکھتا ہے۔
امریکہ ایسی ریاستوں کے لیے ترغیبات فراہم کرسکتا ہے جو اپنی اہلیت کا ٹھوس معیار ثابت کرکے مغربی توقعات پر پورا اُترنے کے خواہش مند ہوں۔ 
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں کسی طرح کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے وقت درکار ہوگا۔ اس دوران امریکہ کو موجودہ عالمی نظام میں اُبھرتی ہوئی طاقتوں جیسے کہ برازیل ، چین ، بھارت ، انڈونیشیا ، اور جنوبی افریقہ کو شامل کرنے کے لیے جی۔
ٹونٹی جیسے ڈھانچے کو استعمال کرنا چاہیے، اور اُن کے ساتھ کرنسی کے عدم توازن ، ماحولیاتی تبدیلی، امن ، ترقیاتی تعاون ، اور جوہری عدم پھیلاؤ جیسے مسائل پر مفاہمت کو آگے بڑھاناچاہیے۔جی۔ٹونٹی پر حقیقی اثرورسوخ ڈال کر اور اس کے ایجنڈے کو بتدریج پھیلا کر،مستحکم اقوام اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو… خود مختاری،عدم مداخلت اور معاشی ترقی سے متعلق جی۔
77کے فرسودہ موقف پر ڈٹے رہنے کے بجائے زیادہ عملی پالیسیوں کے حق میں دست بردار ہونے پر مائل کرسکتے ہیں۔ایک قوت عمل رکھنے والا جی۔ٹونٹی گروپ اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے لیے ایک قابل قدر میدان عمل بھی فراہم کریں گے، جس کی بنیاد پر وہ سلامتی کونسل کی رکنیت کے لیے اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرسکیں۔
امریکی حکام کو اختیارات میں اضافے کو لازماً امن کے ساتھ منسلک کرنا ہوگا۔
موجودہ کثیر ملکی ڈھانچے، عبوری انتظامات اور سودے بازی کے عمل سے ہی باہمی تعاون بڑھے گا۔ جہاں ممکن ہو، امریکہ کو لچکدار طریقہٴ کار اختیار کرنا چاہیے، نہ صرف بین الاقوامی تنظیموں کو راستے سے ہٹانے کے لیے،بلکہ اُن کے اندر اصلاحی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے بھی۔ بڑے گروپوں کے درمیان کثیر جہتی تعاون بہت حد تک ”چھوٹے پیمانے“ پر ہونے والے معاہدوں پر منحصر ہوں گے، یعنی اہم ریاستوں کے چھوٹے گروپ کے درمیان پہلے سے ہونے والے معاہدے۔
یہ دسمبر 2009 کے کوپن ہیگن معاہدے سے حاصل ہونے والا سبق ہے،جو کہ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن ( UNFCCC ) کے سلسلے میں پارٹیوں کی پندرہویں کانفرنس کے مہلت کے دنوں میں تشکیل پایا تھا۔ امریکہ نے آخری لمحوں میں BASICکہلانے والے ملکوں (برازیل،جنوبی افریقہ،بھارت اور چین) کے ساتھ ایک معاہدہ تشکیل دیا،جس نے، اگرچہ یہ حتمی نہ تھا،موسمیاتی تبدیلی کا اثر کم کرنے اور اسے اپنانے کیلئے ٹھوس عالمی کارروائی کے لیے سٹیج تیار کیا۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مزید بہتری کا انحصار بہت زیادہ سترہ ملکی بڑی اقتصادی طاقتوں کے فورم(17-nation Major Economies Forum) پر ہوگا…جو گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک کا غیررسمی ادارہ ہے۔ یہ فورم UNFCCC کی جگہ تو نہیں لے گا مگر اُس کے اندر رہتے ہوئے تیزی سے ترقی کرسکتا ہے۔
تعاون کے ذریعے تحفظ
آخر میں،اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو عالمی نظام (ورلڈ آرڈر میں) یکجا کرنے کے مقصد کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ خود امریکہ کے اندر سے سامنے آ سکتی ہے۔
اُبھرتے ہوئے ”کھلاڑیوں“ کے لیے جگہ بنانے کی خاطر امریکی حکام کو نفسیاتی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوگی۔ اُنھیں اُن اہم معیاروں کا ازسر نو تجزئیہ کرنا ہوگا جن کی روشنی میں 1945سے امریکہ کی خارجہ پالیسی استوار ہوتی آئی ہے۔ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے امریکہ ایک آزاد، کھلے عالمی سیاسی و معاشی نظام (آرڈر) کا سب سے بڑا معمار اور حتمی ضامن چلا آرہا ہے۔
یہ کردار امریکی سیاسی ثقافت اور قومی تشخص میں سرایت کر گیا ہے ۔ لیکن عالمی طاقت کے نظام کے پیچیدہ ہونے سے، امریکہ کی طویل عرصہ سے چلی آرہی مخصوص سوچ کی حامل عادات مددگار کے بجائے محدود کرنے والی ثابت ہوسکتی ہیں۔
جیسا کہ سابق امریکی وزیرخارجہ ڈین ایچی سن نے سنگدلانہ انداز میں لکھا ہے،1960کی دھائی تک برطانیہ اپنی سلطنت کھو چکا تھا، مگر اُسے ابھی تک عالمی سطح پر نیا کردار نہیں مل سکا۔
امریکی حاکمیت میں کمی، جو اگرچہ ابھی کم سنگین ہے، اپنے مسائل رکھتی ہے۔ چونکہ امریکہ اپنی برتری کا بھرم قائم رکھنا چاہتا ہے،اسے مزید ملکوں کی شمولیت پر مبنی قیادت کا طریقہ اپنانا ہوگا۔
سمجھوتہ ہی بہترین حکمت عملی ہوگا۔
 ہوسکتا ہے امریکی عوام اس تبدیلی کے لیے تیار ہوں…کونسل برائے خارجہ تعلقات اور عالمی رائے عامہ کی طرف سے مرتب کی گئی حال ہی میں پولنگ کے اعداد و شمار پر مبنی ایک جامع ڈائجسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی عوام دنیا کے بوجھ کو دوسرے ممالک کے ساتھ بانٹنے کے لئے تیار ہیں۔
پھر بھی کم ازکم،طاقت کا اشتراک امریکہ کے استثنائی مفروضات کی جانچ کرے گا۔ امریکہ نے اپنے بین الاقوامی عزائم کے حوالے سے ایک عرصہ سے موقع کی مناسبت سے طریقہٴ کار اپنا رکھا ہے…جیسے کہ کثیرملکی معاہدوں،، اداروں ، اور اقدامات میں سے پسند اور انتخاب،اور بعض اوقات تنہا کارروائی کرنا یا پھر اپنی خودمختاری اور عمل کی آزادی کے تحفظ کا انتخاب کرنا، وغیرہ۔
لیکن جیسا کہ امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی رپورٹ (گلوبل ٹرینڈز 2025) سے معلوم ہوتا ہے،”اس طرح کا مرضی کے مطابق انتخاب کا طریقہٴ کار مشکلات کا شکار ہونے والا ہے…کیونکہ ایسی طاقتیں جو خود پسند اور انتخاب کی استطاعت رکھتی ہیں،تیزی سے تعداد میں بڑھ رہی ہیں۔“ آج کی اُبھرتی ہوئی طاقتیں خود کو اسی استحقاق سے خود فائدہ اُٹھانا چاہتی ہیں، اس طرح کا استثنائی طریقہٴ کار عالمی نظام کے تانے بانے میں فساد کی آگ بھڑکانے کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے عالمی نظام کو یکجا رکھنے کے لیے، امریکہ کو زیادہ مستقل طور پربذات خود کثیر جہتی تعاون کی مثال قائم کرنے والا بننا پڑے گا۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط