Episode 46 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 46 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

 کم نوآبادیاتی وراثت رکھنے والے یورپی ممالک، جیسے کہ نیدرلینڈ،اب بھی دنیا بھر سے تجارت کی اپنی طویل تاریخ کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔اینگلو ڈچ کنزیومر گڈز کارپوریشن یونی لیور،جس کی مالیت 117ارب ڈالر سے زیادہ اوریہ بیک وقت لندن اور روٹرڈیم میں اپنا ہیڈکواٹر رکھتی ہے، اس کے دنیا بھر میں دو ارب سے زیادہ صارفین اور 400سے زائد برانڈز موجود ہیں۔
یہ 190ممالک میں شیمپو سے لیکر چائے اور مصالحہ جات تک ہر شے بناتی ہے، اور یہ دنیا بھر میں252مینوفیکچرنگ مقامات کے ساتھ اپنے ریونیو کا 55فیصد(38.3ارب ڈالر)اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں سے حاصل کرتی ہے۔ بہت سی دیگر کمپنیوں کے برعکس جو کئی ممالک کو مقررہ معیار پر مبنی اشیاء فروخت کرتی ہیں، یونی لیور انفرادی مارکیٹوں کو ان کی ضروریات کے مطابق اشیاء فراہم کرتی ہے۔

(جاری ہے)

شیمپو کو لے لیجئے، پاکستان میں، جہاں بہت سی عورتیں برقع پہنتی ہیں،سر کی جلد پر پسینہ کی تہہ جم جاتی ہے، چنانچہ وہاں یونی لیور خاص فارمولے سے بنا نمک صاف کرنے والا شیمپو فروخت کرتی ہے۔ چین میں یونی لیور اپنے شیمپو میں سیاہ تل شامل کرتی ہے ، جن کے بارے میں بہت سے چینیوں کا خیال ہے کہ یہ سیاہ بالوں کی چمک میں اضافہ کرتے ہیں۔ 
یونی لیور کی اس حکمت عملی کا ہالینڈ کی تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔
اگرچہ ان کے نوآبادیاتی کالونیوں پر براہ راست قبضے برطانیہ، فرانس اور سپین کے مقابلے میں کم تھے، مگر ڈچ صدیوں تک عالمی تجارت پر غالب رہے ہیں۔ غالباً دنیا کی پہلی ملٹی نیشنل ،1602میں قائم ہونے والی ہالینڈ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سارے ایشیاء میں کئی قسم کے سامان کی تجارت کی، قلعے تعمیر کیے، بحری آپریشنز کا انتظام سنبھالا، اور مقامی حکمرانوں سے معاہدے کیے۔
ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی، جس کا قیام 1621میں عمل میں آیا،وہ ہالینڈ کے نئی دنیا میں معاہدے اور رسائی کے پیچھے کارفرما اہم قوت تھی۔ ان دونوں کمپنیوں نے ملکر نئی ثقافتوں میں کاروبار کے لیے آمادگی کا اشارہ دیتے ہوئے آئندہ کے ڈچ کارپوریٹ آپریشنز کے لیے بنیاد فراہم کی۔ اس طرح کے طرز فکر نے تجارت اور نئی راہوں کی تلاش کے جذبے اور بین الاقوامی تجارت کے لئے طویل عرصہ سے تیار بنیادی ڈھانچے کے ساتھ مل کر، دنیا بھر میں نیدرلینڈ کو واضح سبقت دلادی ہے۔
چنانچہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سی ڈچ کمپنیاں وسیع عالمی رسائی رکھتی ہیں،ٹکنالوجی فراہم کرنے والی کمپنی فلپس سے لیکر، جو 100ممالک میں کام کرتی ہے اور اپنے ریونیو کا تقریباً 75فیصد مغربی یورپ سے باہر کے ممالک سے حاصل کرتی ہے،بئیر بنانے والی کمپنی Heineken تک ، جو 70ممالک میں کام کرتی اور اپنے ریونیو کا 60فیصد مغربی یورپ سے باہر کے ممالک سے حاصل کرتی ہے۔
رہنماؤں کی پیروی کریں
بہت سی امریکی کمپنیاں غیرملکی منڈیوں میں جگہ بنانے کے لیے نوآبادیاتی وراثت کی مدد نہیں لے سکتیں۔اور اپنی یورپی حریف کمپنیوں کے برعکس، اُنھیں اپنے ملک کے پابندیوں پر مبنی قوانین کا خیال رکھنا پڑتا ہے، جیسے کہ ”فارن کرپٹ پریکٹسز ایکٹ“ جو غیرملکی سرکاری عہدیداروں کو رشوت دینے سے روکتا ہے۔ ڈوڈ فرینک مالی اصلاحات کا قانون بھی کمپنیوں، جیسے کہ الیکٹرانکس کا سامان بنانے والوں ، کو عوامی جمہوریہ کانگو اور بہت سے دیگر ہمسایہ ممالک سے معدنیات استعمال کرنے کی صورت میں ،سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے تحت ایک طویل تصدیق کے عمل سے گزرنے کا پابند بناتا ہے۔
 
اس سب کے باوجود یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ امریکی کمپنیاں مایوسانہ طور پر مفلوج ہیں۔ جرمنی اور اٹلی کی مثال پر غور کیجئے۔ دونوں ملک بلاشبہ، خود سابق نو آبادیاتی طاقتیں ہیں، تاہم فرانس اور برطانیہ کی نسبت پھر بھی کافی چھوٹی ہیں۔لیکن آج مشرقی افریقہ میں جرمنی اور اٹلی کی بہت سی سابقہ کالونیاں معاشی طور پر کمزور ہیں اور عالمی سرمایہ کاری کے لیے زیادہ کشش نہیں رکھتیں۔
ان کی تعداد کم نہیں ہے، اور ایسا برنڈی، اریٹیریا، اور صومالیہ جیسے ممالک میں جاری عدم استحکام کی وجہ سے ہے۔ اس کے باوجود جرمنی کی 20کمپنیاں ایف ٹی گلوبل 500میں شامل ہیں، جیسے کہ سمنز، بائر اور ووکس ویگن،اور یہ کمپنیاں اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں میں اچھا خاصا کاروباربھی رکھتی ہیں۔ سمنز اپنے ریونیو کا 20فیصد، 2012 میں تقریباً 21ارب ڈالر، صرف ایشیاء سے حاصل کرتی ہے۔
بائر اپنے ریونیو کا قریب 40فیصد،21ارب ڈالر سے زیادہ،اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں سے حاصل کرتی ہے، اور ووکس ویگن اپنے ریونیو کا ایک چوتھائی سے زیادہ،قریب 71ارب ڈالر ان سے حاصل کرتی ہے۔ حتیٰ کہ اٹلی جس کی معیشت جرمنی کے مقابلے کہیں چھوٹی ہے، اُس کے پاس بھی ای این آئی ہے، جو تیل اور گیس مہیا کرنے والی کمپنی ہے، اور اٹلی کے پاس لکسوٹیکا بھی ہے…دنیا کی سب سے بڑی چشمے بنانے والی کمپنی، اور یہ دونوں کمپنیاں اپنے ریونیو کا اندازاً ایک چوتھائی حصّہ…ای این آئی کے لیے 41.7ارب ڈالر، اور2.1ارب ڈالرلکسوٹیکا کے لیے…اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں سے کماتی ہیں۔
جرمنی اور اٹلی کی کمپنیوں کو خاص طاقت حاصل ہے، جو وہ اپنی عالمی توسیع کے لیے بروئے کار لاتی ہیں،جیسے کہ اہم صنعتوں، مثلاً آٹو موبائل میں جدید مینوفیکچرنگ اور نئی اختراعات کا ریکارڈ۔ لیکن ان کی توسیع میں سب سے بڑا عنصر اُن کا نوآبادیاتی ماضی نہیں ہے بلکہ ایشیائی مارکیٹوں کی ڈرامائی ترقی ہے، جس نے نئی مارکیٹ کی تلاش کو نوآبادیاتی کالونیوں تک محدود رکھنے کی حکمت عملی کو متاثر کیا ہے۔
کبھی جو بڑی نوآبادیاتی طاقتیں تھیں، جیسے کہ فرانس،جو کہ سابقہ کالونیوں سے ہی کاروبار کی حمایت کرتی تھی، اُنھوں نے اپنا راستہ تبدیل کیا ہے۔فرانس کی کاسمیٹکس بنانے والی بڑی کمپنی لوریل130ممالک میں کام کررہی ہے، لیکن عالمی سطح پر اس کے کاروبار کا صرف 15فیصد سابقہ فرنچ کالونیوں پر مشتمل ہے۔یہ اپنے ریونیو کا ایک تہائی حصہ ، 2012میں تقریباً30ارب ڈالر، اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں سے حاصل کرتی ہے،یا ایشیائی مارکیٹوں سے 6.4ارب ڈالرحاصل کرتی ہے۔
اسی طرح کپڑے مہیا کرنے والی ہسپانوی کمپنی ،جو سپین کی 21 سابقہ کالونیوں میں سے 15میں اپنی موجودگی تو برقرار رکھے ہوئے ہے، مگر وہ ایشیائی مارکیٹ میں زیادہ تیزی سے ترقی کررہی ہے، اور اس نے ایشیائی مارکیٹوں سے اپنے مجموعی ریونیو کی مد میں 2006میں 624ملین ڈالر سے 2012میں 3.4ارب ڈالراضافہ کیا ہے۔ یعنی ان مارکیٹوں سے اس کامجموعی ریونیو جو 2006میں سات فیصد سے کچھ زیادہ تھا،2012میں 18فیصد ہوگیا۔
 
 مکینزی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کے اندازے کے مطابق، 2025تک، اُبھرتی ہوئی مارکیٹیں 30ٹریلین ڈالر کے قریب مالیت کے کاروباری مواقع فراہم کریں گی۔ان مارکیٹوں میں صارفین زیادہ نئی ایجادات پر مبنی امریکی مصنوعات اور برانڈز تک رسائی سے فائدہ اُٹھاسکیں گے،بجائے اُن اہم مصنوعات سے جن سے وہ پہلے ہی واقف ہیں ، جیسے کہ ایپل، کوکا کولا، میکڈونلڈز اور فیس بُک۔
اگرچہ یہ کمپنیاں دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں، مگر یہ کمپنیاں امریکی کاروبار کی عالمی رسائی کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتی ہیں…ایچ ایس بی سی کے مطابق اوسط رجے کی امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشن اپنے مجموعی ریونیو کا دس فیصد سے بھی کم اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں سے حاصل کرتی ہے ۔ 
نوآبادیاتی دور کی تاریخ نے زیادہ تر ترقی پذیر دنیا میں یورپی اور امریکی کمپنیوں کے درمیان فاصلے پیدا کرنے میں کردار ادا کیا ہے، مگر تجارت اور مارکیٹوں پر اُس کا اثر وقت اور صنعت میں ترقی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
امریکی کاروباری اداروں کو اپنے جرمن یا اطالوی ہم منصبوں سے ایک یا دو ”صفحات“ اُدھار لے لینے چاہئیں…اور اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں کے لیے ٹکنالوجی کے اعتبار سے زیادہ جدید مصنوعات اور مخصوص برانڈز فراہم کرنے چاہئیں۔ اور خوش قسمتی سے ان میں سے کوئی بھی کاروباری حکمت عملی امریکی کمپنیوں کے لیے اجنبی نہیں ہے۔ 

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط