پیشہ ورانہ معیار
بالکل اسی طرح جیسے طبقہ اشرافیہ کے لوگ اور ان کے سیاسی اتحادی عوامی چھان بین سے بچنے کے لئے میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، اسی طرح وہ ریاست پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے حکومت کے قواعد و ضوابط پر انحصار کرتے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران، دو انتہائی منظم مفاداتی گروہوں نے یونانی قانون کے تحت سب سے زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے: پہلا گروہ پیشہ ور اشرافیہ پر مشتمل ہے، جیسے کہ وکلاء ، ڈاکٹر، اور انجینئرز۔
اور دوسرا،بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کی یونینوں کے ملازمین جو حکومت کی مکمل یا جزوی ملکیت میں آتی ہیں،جیسے کہ پبلک پاور کارپوریشن اور ہیلنک ریلوے آرگنائزیشن۔ اس طرح کے گروپوں کی رکنیت بہت زیادہ نہیں ہے۔ یونان کے پاس صرف 40 ہزار وکلاء ، 60 ہزار ڈاکٹر اور 87ہزار انجینئرز ہیں۔
(جاری ہے)
پبلک سیکٹر میں ملازمین کی تعداد6لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
لیکن اس کے باوجود یہ گروپ تعداد میں جتنے کم ہیں، وہ اداروں میں اُتنا ہی زیادہ اہم کردار رکھتے ہیں۔ اہم شہری حلقوں میں ووٹر ٹرن آوٴٹ کو خاص رُخ میں موڑنے کی صلاحیت کے فائدہ کی وجہ سے،یہ پیشہ ور افراداور یونینز غیر معمولی مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، بہت سی پیشہ ور انجمنیں بنیادی خدمات کے لئے معیاری قیمتوں کا تعین کرسکتی ہیں، جو ملی بھگت کی ایک شکل اور بہت سی معیشتوں میں غیرقانونی عمل قرار دی جاچکی ہے، لیکن یونان میں یہ غیرقانونی نہیں ہے۔
انھیں خود کو ریگولیٹ کرنے کی بھی اجازت حاصل ہے۔جب کبھی خلاف ضابطہ معاملات پر الزامات سامنے آتے ہیں، انجمنوں کے پاس خود پنے ارکان کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لیے خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ اس کے علاوہ، خصوصی ٹیکس ان کی صحت کی دیکھ بھال اور ریٹائرمنٹ اکاوٴنٹس کے لیے فنڈز فراہم کرتے ہیں: 1960 کے بعد سے، وکلاء اور ججوں کے پنشن فنڈ کے لیے،جائیداد کے لین دین پر ہر فروخت کی قیمت کے 1.3 فیصد رقم کے برابر اسٹامپ ڈیوٹی بھی کاٹ لی جاتی ہے۔
اور کئی دہائیوں سے، ڈاکٹروں کے پنشن فنڈ کے لیے، تجویز کی گئی تمام ادویات کی قیمت پر 6.5 فیصد اضافی وصولی کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال، ایتھنز نے تینوں بڑے مالیاتی اداروں کی درخواست پر اس اضافی وصولی کا خاتمہ کریا۔ لیکن اسے ابھی بھی ان دیگر ٹیکسوں سے نپٹنا ہے، جو لاکھوں ڈالر غریبوں سے لیکر انھیں امیروں میں دوبارہ تقسیم کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پیشہ ور ماہرین،جن میں سے کئی ذاتی کاروبار کرتے ہیں ، ملک کے سرکردہ ٹیکس چوروں میں شامل ہیں۔ 2012 میں شائع ہونے والی اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق میں، ماہرین اقتصادیات نیکولاوٴس آرٹاوینس،ایڈائر مورس، اور مارگریٹا ٹساؤٹسورا نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ یونانی پیشہ ور افراد کتنی رقم چھپاتے ہیں، ایک بڑے نجی بینک کے اعداد و شمار کا استعمال کیا۔
ان کی تحقیقات سے ظاہر ہونے والا ایک سب سے اہم انکشاف یہ تھا کہ، وکلاء ، اوسطاً،اپنی اعلان کردہ آمدنی کا 100 فیصد سے زائد تو صرف رہن کی ادائیگیوں پر ہی خرچ کردیتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج سے بھی کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔2010 میں، قانون سازوں نے ایک بل کی تجویز پیش کی تھی، جو حکومت کو اُن پیشہ ور افراد کا آڈٹ کرانے پر زور دیتا تھا جو اپنی سالانہ آمدنی تقریباً 30ہزار ڈالر کے ذیل میں ظاہر کرتے تھے۔
لیکن یہ اقدام بھی ناکام ہوگیا، اور حقیقت میں اس کی منظوری کا کوئی امکان تھا ہی نہیں: نیکولاوٴس آرٹاوینس،ایڈائر مورس، اور مارگریٹا ٹساؤٹسورا کے مطابق، قانون کی منظوری سے عین ممکن تھا کہ پارلیمنٹ کے زیادہ تر ارکان کو خود آڈٹ کا سامنا کرنا پڑ جاتا۔اس وقت ، 40 ڈاکٹر، 28 اساتذہ، 43 انجینئرز، 40 پیشہ ور ماہرین مالیاتی امور، اور 70 وکلاء… مقننہ میں خدمات انجام دے رہے تھے…300کل نشستوں میں سے 221 پر یہ لوگ قابض تھے۔
سرکاری کاروباری اداروں کے ملازمین کو بھی اسی طرح کی مراعات حاصل ہیں، جس کی بڑی وجہ مرکزی بائیں بازو کی جماعت ”پان ہیلنک سوشلسٹ موومنٹ (PASOK)“ کے لئے ان کی بے لوث حمایت ہے۔بدلے میں، جماعت نے 1980 کی دہائی کے مقابلہ کے امتحان کے ذریعے ملازمتوں کے حصول کو ختم کرنے اور حکومت اداروں میں روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
پان ہیلنک سوشلسٹ موومنٹ نے اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ سرکاری کاروباری اداروں میں کام کرنے والے لوگ کسی بھی دوسرے پبلک سیکٹر ادارے کے ملازمین کے مقابلے میں زیادہ پنشن حاصل کریں… سرکاری اخراجات میں کچھ حد تک حالیہ کمی کے باوجود، بڑی حد تک اب بھی یہی صورتحال ہے۔مثال کے طور پر، 1999 میں، یونانی حکومت نے پبلک پاور کارپوریشن کے پنشن فنڈ میں کمی کو روکنے کا وعدہ کیا تھا۔
2012 میں، مالیاتی بحران کے عین عروج کے وقت، اس وعدے کی مد میں لاگت کی رقم 800 ملین ڈالر تک جاپہنچی تھی۔
دوملکوں کی کہانی
کسی بھی آزاد معاشرے میں، امیر اور منظم لوگوں پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کو ڈگمگانے سے بچائیں۔اس بات میں موروثی طور پر کوئی حرج نہیں کہ معیشت میں اپنے بڑے حصے کی وجہ سے بڑے کاروباری ادارے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔
اور نہ ہی ایسی کوئی وجہ ہے کہ پیشہ ور افراد کو ان کی خدمات کی طلب کے مطابق اچھی آمدنی حاصل نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن یونانی ادارے اس قدر کمزور ہیں کہ وہ اس طرح کے مفادات پر نظر رکھنے یا قانون کے بنیادی معیار کو برقرار رکھنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
1981 میں یورپی یونین میں یونان کی شمولیت سے امید کی جارہی تھی کہ اب یہ سب چیزیں بہتر ہوجائیں گی۔
تاہم، یورپی یونین کی رکنیت بھی، روایتی یونانی نظام کو کمزور نہیں کرسکی؛ بلکہ اس نے ان کو مضبوط بنایا ہے۔ یہ سب اسی وقت تو ہوا تھا جب یونانی معیشت یورپ کے باقی ممالک کے قریب پہنچ رہی تھی …اور اس سے اشرافیہ کو سرمایہ اور نقدی کے نئے ذرائع حاصل ہوئے…تب ہی ملک کے اداروں میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی تھی۔ سماجی نقل و حرکت کی بات کی جائے تو یونان اب یورپی ممالک کے درمیان سب سے آخری صفوں میں شامل ہوتا ہے،اور یہ عدم مساوات کی پیمائش میں سرفہرست ہے …یہ وہ مسئلہ ہے جسے یونانی سیاستدانوں اور میڈیا نے تقریباً مکمل طور پر نظرانداز کر دیا ہے۔
یہاں تک کہ بحران سے پہلے، اپنے اخراجات کے عروج کے وقت بھی، ایتھنز نے غریبوں کو بہت کم فوائد مہیا کیے تھے۔ آج بے روزگاروں میں سے 90 فیصد کو حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں مل پاتی۔ اندازے کے مطابق تقریباً 20 فیصد یونانی بچے انتہائی غربت میں رہتے ہیں۔ اور لاکھوں لوگوں کو ہیلتھ انشورنس کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہیں۔ اس کے علاوہ، کساد بازاری کے سات سالوں کے بعد بھی، بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی نے بھی عالمی کوریج حاصل کرنے کے لئے فلاحی ریاست کے قیام یا صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے لئے کسی بھی سنجیدہ اصلاحات کی تجویز نہیں دی ہے۔
انھوں نے تو سرکاری اسکولوں میں مفت کھانا مہیا کرنے کے لئے ایک پائلٹ پروگرام کوبھی توسیع نہیں دی ہے۔
یونانی لوگ، جن کے پاس کہیں جانے کو راستہ نہیں بچا،وہ بنیاد پرست سیاسی تحریکوں کی طرف راغب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک تارکین وطن مخالف اور یورپ مخالف پلیٹ فارم رکھنے والی نئی فاشسٹ جماعت …گولڈن ڈان نے، عام لوگوں کے عدم اطمینان کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 2012 کے پارلیمانی انتخابات میں 18 نشستیں حاصل کرلی تھیں۔
ستمبر 2013 میں، یونانی حکام نے ایک مجرمانہ تنظیم کے قیام کے الزام میں، اس کے بانی، Nikos Michaloliakos کوگرفتار کر لیا۔ دریں اثنا، ایک اُبھرتا ہوا دُور بائیں بازو کا اتحاد،سیریزا، یونان کے یورپی بیل آوٴٹ معاہدے کو ختم کرنا، ملک کے بینکوں کو قومیانا، اور نیٹو سے اس کے تعلقات منقطع کرانا چاہتا ہے۔
بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کیے بغیر، یونان کے لیے بیل آؤٹ پیکیج فراہم کرکے، یورپین سنٹرل بینک، یورپین کمیشن، اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے محض سٹیٹس کوء کو مضبوط کیا ہے۔
اس سے بھی بدتر یہ کہ، تینوں بڑے مالیاتی اداروں نے ان لوگوں کی جیبوں کو بھرا ہے جنھوں نے سب سے زیادہ معاشی تباہی میں کردار ادا کیا ہے۔ اور یونان کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ اسے الگ چھوڑ دیا جائے۔ یورپی بیل آوٴٹ فنڈز کا بھی آئر لینڈ، سپین، اور پرتگال سمیت یوروزون کی چھوٹی معیشتوں پر، اسی طرح کا اثر پڑا تھا۔ ان ممالک کے رہنماوٴں نے بھی اپنی مختصر مدت کے سیاسی فائدوں کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے یورپی فنڈز خرچ کیے ہیں؛ دریں اثنا، برسلز اقربا پروری اور جرائم کے خلاف جنگ کرنے میں نا اہل ثابت ہوا ہے۔
تاہم،اب جب کہ یورپی انضمام نے براعظم کی معیشتوں کو پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے، کوئی رکن ریاست بھی دوسری ریاستوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ یونان کی گہری عدم مساوات کا مسئلہ حل کیے بغیر، یورپ مکمل طور پر بحران سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش نہیں کرپائے گا۔