Episode 105 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 105 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

ریپبلکن خارجہ پالیسی(چک ہیگل)
(چک ہیگل نبراسکا سے امریکی سینیٹر ہیں)
 نسلوں کو درپیش چیلنج
 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملے جن میں تقریباً تین ہزار امریکی مارے گئے تھے ، ایک نئے دور کا نشان،اور ہماری تاریخ کا ایک اہم ترین موڑ تھے۔ دہشت گردی…ایک تاریخی اور موجودہ چیلنج ہے جس نے سیکورٹی کے روایتی تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے، اور اس سے نمٹنا قوم کے ایجنڈے میں سب سے اوپر ہے اور اسی وجہ سے اسے ری پبلکن خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت کا حامل ہونا چاہیے۔
مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مسئلہ کو، ترقی پذیر دنیا، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں گورننس کے وسیع تر بحران سے الگ کرکے غور نہیں کیا جا سکتا۔
 افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کا آغازکرتے ہوئے، صدر جارج ڈبلیو بش اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی طاقت کے درست استعمال سے کہیں بڑھ کر کوششوں کی ضرورت ہوگی۔

(جاری ہے)

طاقت کے استعمال کے ساتھ مناسب امریکی مقصد کا ہونا بھی ضروری تھا۔جیسا کہ صدر بش نے 29 جنوری، 2002 کو کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں بتایا تھاکہ،”ہم خطرات کو ختم کرنے اور نفرت کو روکنے سے کہیں بڑے مقاصد رکھتے ہیں۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہٹ کر ایک منصفانہ اور پُرامن دنیا چاہتے ہیں“۔
ایک دانشمندانہ خارجہ پالیسی کا تقاضا ہے کہ امریکی قیادت اصولوں کے لیے ہماری وابستگی کے بارے میں بھی اُتنی ہی پُرعزم ہو جتنی کہ وہ طاقت کے استعمال کے حوالے سے ہے۔
خارجہ پالیسی ہی امریکہ اورباقی دنیا کے درمیان اور ماضی، حال، اور مستقبل کے درمیان بھی ایک پُل ہے۔ امریکہ کے لیے، پوری دنیا میں پھیل رہی ایک بے چین اور غیریقینی نئی نسل کی طاقت سمیت، تبدیلی کی قوتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگلی نسل کے ساتھ ایک اہم عالمی تعلق کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ وہ امریکی قیادت اور اس کے ارادوں پر بھروسہ اور اعتماد رکھتی ہو۔
امریکی قیادت اور سیکورٹی کے لیے چیلنجز حریف عالمی طاقتوں کی طرف سے نہیں، بلکہ کمزور ریاستوں کی طرف سے سامنے آئیں گے۔ دہشت گردی کو… ناکام یا ناکام ہونے والی ریاستوں،حل طلب علاقائی تنازعات ، اور غربت و مایوسی کے مصائب کے شکار مقامات پرمحفوظ پناہ گاہیں مل جاتی ہیں۔دہشت گردی کے حمایت کرنے والی غیرمہذب حکومتیں، اپنے عوام کی مرضی کے بجائے، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حصول کے ذریعے قانونی حیثیت اور طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
دہشت گردی اور جوہری پھیلاوٴ،ناکام اور ناکام ہورہی ریاستوں کے چیلنجوں کے ساتھ مل کرچلتے ہیں۔
دنیا کی چھ ارب آبادی میں سے پانچ ارب لوگ کم ترقی یافتہ علاقوں میں رہتے ہیں۔ اس صدی میں دنیا کی آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ انہی علاقوں میں ہوگا جہاں تقریباًہر تین میں سے ایک شخص15 سال سے کم عمر ہے۔جب یہ نوجوان نسل بڑی ہوکر پختہ عمر کو پہنچے گی تو یہ اکیسویں صدی کے پہلے نصف حصے کے دوران عالمی سیاست میں تبدیلی کے لیے سب سے بڑی طاقت ثابت ہوگی۔
ترقی پذیر دنیا میں بہت سی حکومتیں،خاص طور پر افریقہ، مشرق وسطیٰ، اور ایشیا میں… ملازمتوں، صحت کی دیکھ بھال، اور سلامتی کے حوالے سے اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے بنیادی مطالبات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہونگی۔اگرچہ غربت اور مایوسی دہشت گردی کا ”سبب“ نہیں بنتی ہیں،تاہم وہ اسے پھلنے پھولنے کے لیے ایک زرخیز ماحول ضرورفراہم کرتی ہیں۔
آبادی کا دباؤ، مایوسانہ اقتصادی ترقی، اور آمرانہ حکومتیں… بنیاد پرست آبادی اور سیاست کو جنم دینے میں اہم کردار اد اکرتی ہیں۔چنانچہ ترقی پذیر دنیا میں طرز حکمرانی کے بحران کو امریکہ کے عظیم تر عالمی مفادات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ سیاق و سباق ہے جس کی روشنی میں موجودہ خارجہ پالیسی کے موضوع پر بحث کو سمجھنا ضروری ہے۔
ریپبلکن خارجہ پالیسی
روایتی طور پر، ریپبلکن خارجہ پالیسی مضبوط قومی دفاع کے ساتھ وابستگی کے ذریعے آگے بڑھتی رہی ہے۔
دنیا کے مسائل صرف فوج کے استعمال سے حل نہیں ہونگے، لیکن طاقت ہی امریکہ کی آزادی اور سلامتی کے دفاع میں سب سے پہلی اور آخری چیز ہے۔جب اسے منصفانہ طور پر استعمال کیا جائے،تو یہ امریکہ کی طاقت اور خارجہ پالیسی کا ایک اہم ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ دہشت گردوں یاامریکہ پر حملہ کرنے والی ریاستوں کو اس کی طرف سے ایک فوری اور پر تشدد رد عمل کی توقع کرنی چاہیے۔
ریپبلکن اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بیرون ملک آپ کی طاقت اندرون ملک طاقت کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ ہمارے وسائل کو عقل مندی پر مبنی اور منصفانہ انتظامات کی ضرورت ہے۔ خسارے اور حق داری کے پروگراموں کو اگرتوجہ نہ دی گئی تو یہ ہماری معیشت پر اعتماد کو کمزور،نیز اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ ڈالیں گے ، اس کے علاوہ یہ امریکہ کی مسابقتی حیثیت کو کم کریں گے اور ایک عالمی اقتصادی رہنما کے طور پر اس کے مقام کو نقصان پہنچائیں گے۔
امریکہ کے پالیسی سازپھر قومی سلامتی اور داخلی ترجیحات کے درمیان مشکل انتخاب کرنے پرمجبور ہوجائیں گے۔
امریکیوں کو لازمی طور پر عالمی معیشت کے حقائق اور عالمی قیادت کے وعدوں کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ ہماری تعلیمی پالیسیوں کو… غیر ملکی زبانوں، ثقافت، اور تاریخ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ، اور بیرون ملک تعلیم کے لئے مزید مراعات اور پروگرام پیدا کرنے چاہئیں۔
ہمیں ان صنعتوں اور خدمات کے لئے طلباء اور کارکنان کو تیار کرنا ہوگا،جو اکیسویں صدی کے پہلے حصہ میں عالمی معیشت میں امریکہ کو ایک تقابلی فائدہ فراہم کریں گی۔
ریپبلکن یہ بات سمجھتے ہیں کہ کامیاب خارجہ پالیسی کو نہ صرف مضبوط بلکہ پائیدار بھی ہونا چاہیے۔ ایک پائیدار پالیسی کے قیام کے لیے ملکی سطح پر اتفاق رائے اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کا آغاز مضبوط صدارتی قیادت اور دنیا میں امریکہ کے کردار کے بارے میں واضح سوچ کے ساتھ ہوتا ہے۔ صدر کی قومی سلامتی کی ٹیم متحد اور ہم آہنگ ہونی چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مختلف نقطہٴ نظر کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے؛ مختلف قسم کانقطہ نظر تو کسی بھی پائیدار پالیسی کی تشکیل کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔لیکن جب ایک فیصلہ کیا جا چکا ہو، تو پھرمحلاتی سازشوں اور ذاتی ڈراموں کو پالیسی اور اس پالیسی کے نفاذ کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
صرف ایک صدر ہی اس طرح کی کوشش کو متحد رکھ سکتا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مدد کے لیے کانگریس کا بھی آئینی کردار اور ذمہ داری ہے۔ کانگریس کی شمولیت اور حمایت کے بغیر، امریکی خارجہ پالیسی آئینی جواز اور پائیداری سے محروم رہے گی۔
ملکی سطح پر اتفاق رائے کی کمی کا مطلب ہے کہ خارجہ پالیسی بیرون ملک مشکلات کا شکار رہے گی۔
اس کا سبق ہمیں ویت نام میں ملا تھا، جہاں امریکہ ملک کے اندر تقسیم اور بیرون ملک تنہا تھا،اور جنوب مشرقی ایشیا میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔
ریپبلکن یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک کامیاب خارجہ پالیسی کا، غیر یقینی کیفیات، معمولی تبدیلیوں، اورقابو میں نہ رکھی جاسکنے والی چیزوں…جو کہ خارجہ پالیسی کا روزمرہ کا معمول ہیں…کا جواب دینے کی لچک کے ساتھ، واضح اور جامع ہونا ضوری ہے۔
امریکی طاقت کے ڈھانچے اور وسائل کو اگلی نسل کے لئے ضروری سلامتی اور خارجہ پالیسی کی ضروریات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔اس کے لیے بے لوث اور مسلسل قومی خدمت کی ضرورت ہوگی۔ حقیقت میں امریکہ ایک نسلوں پر محیط جنگ میں مصروف ہے، تو پھر ہم سب کو اس قومی چیلنج کے بوجھ، قربانیوں، اور اخراجات کو ملکر برداشت کرنا چاہیے۔
اس ساری صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، اکیسویں صدی کے لئے ریپبلکن خارجہ پالیسی کو روایتی اخلاقی اصولوں پر مبنی سیاست(realpolitik) اور طاقت کے توازن کی سیاست سے بھی کہیں بڑھ کر کوششوں کی ضرورت ہوگی۔
ہماری پالیسیوں کی کامیابی کا انحصار نہ صرف ہماری طاقت کی حد پر، بلکہ اس کی صلاحیتوں کو تسلیم کیے جانے پر بھی ہوگا۔ تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ خارجہ پالیسی کو محض قدرت کے بھروسے پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ بلکہ خارجہ پالیسی ایسی ہونی چاہیے جویہ ایک بہتر دنیا کی تشکیل کی مہم میں اشتراک کے لئے ہمارے اتحادیوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ یہ سات اصولوں پر قائم رہ کر ایسا کر سکتی ہے۔
اصول اور ان پر عملدرآمد
سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ ، امریکہ کو عالمی معیشت کی قیادت کے لیے پُرعزم رہنا چاہیے۔ قانون کی حکمرانی، املاک کے حقوق، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی، اور کارکنوں کی پیداوری صلاحیتوں میں اضافے جیسے تمام تر اقدامات نے عالمی مارکیٹوں میں امریکہ کو واضح برتری دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔زیادہ پیداوری صلاحیت کا مطلب مینوفیکچرنگ کے کچھ شعبوں میں کارکنوں کی تعداد میں کمی ہوسکتا ہے۔
لیکن وقت کے ساتھ ان فوائد کا نتیجہ روزگار کے زیادہ اور بہتر مواقع،اور ہائی ٹیک شعبوں میں زیادہ سرمایہ کاری کی صورت میں برآمد ہوگا۔ جیسا کہ مائیکل پورٹر نے اپنی کلاسک تحقیق ”The Comparative Advantage of Nations“میں لکھا ہے، ”طویل مدت میں کسی ملک کے معیار زندگی کا انحصار اُس کی اعلیٰ اور وسیع ترپیداواری صلاحیتوں پر ہے، خاص طور پراُن صنعتوں میں جن میں اس کی فرموں کو مقابلے کا سامنا ہے“۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو آزادانہ اور منصفانہ تجارتی معاہدوں کو آگے بڑھانا چاہیے اورترقی پذیر خطوں میں مختلف علاقوں کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ تجارت ہی امریکہ اور دنیا بھر میں، دیرپا اقتصادی خوشحالی، سلامتی، اور روزگار کے مواقع کی طرف لے جانے والی قوت ہے۔ غیر یقینی اور تبدیلی کے حالات میں، کئی ممالک اپنی مارکیٹوں کو بند کرنے اور بعض ملکی صنعتوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔
امریکی عوام خطرات سے محفوظ نہیں ہیں اور ماضی میں وہ سب سے علیحدگی کی سیاسی روایت میں پناہ تلاش کرتے رہے ہیں جس نے اُنھیں اندرون ملک تنہائی اور بیرون ملک عدم استحکام کا شکار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح کے رجحانات کی مزاحمت ضروری ہے اور سخت اسباق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
امریکی خارجہ پالیسی کو اچھے طرزِ حکومت، قانون کی حکمرانی، لوگوں پر سرمایہ کاری، نجی املاک کے حقوق اور معاشی آزادی کو بھی فروغ دینا چاہیے۔
امریکہ کو مضبوط قیادت اور شراکت داری کے ذریعے،مثال قائم کرنا جاری رکھنا چاہیے…لیکن تکبر کے ساتھ نہیں،بلکہ تعاون کرتے ہوئے۔ تمام اقوام خوشحالی میں حصہ ڈال سکتی ہیں، جو کہ مضبوط اقتصادی حکمرانی کے طریقوں اور تجارت پر مبنی ترقیاتی پالیسیوں کے ذریعے آتی ہے۔بش انتظامیہ کی طرف سے قائم ملینیم چیلنج اکاوٴنٹ (ایم سی اے) کا مقصد یہی تھا، جو اس نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان ایک ”عالمی ترقی کے لئے معاہدہ“کے طور پرتشکیل دیا تھا۔
دوسرااصول یہ ہے کہ، امریکی خارجہ پالیسی عالمی توانائی کے تحفظ کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ امریکی توانائی کی پالیسی پر بات چیت کو اکثر اقتصادی اور خارجہ پالیسی سے الگ رکھا جاتا ہے۔ امریکہ تیل اور قدرتی گیس کی مستحکم اور محفوظ انداز میں فراہمی کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔محکمہٴ توانائی کے مطابق، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اپنے خام تیل کا تقریباً 60 فیصد درآمد کرتا ہے۔
تیل کی امریکی درآمدات کا بیس فیصد خلیج فارس سے آتا ہے؛ 2025 میں یہ حصہ 26 فیصد تک بڑھنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کے ارکان سے امریکی تیل کی درآمدات کا حصہ بھی 40 فیصد سے بڑھ کر53 فیصد ہوجانے کی اُمید ہے۔ لیکن اگر مشرق وسطیٰ کے تیل پر امریکی انحصار کم بھی ہوسکتا، تب بھی خلیج فارس میں عدم استحکام اور تنازعات کا ہم پر اثر پڑنا تھا، کیونکہ تیل کی منڈیاں ایک عالمی بنیاد پر کام کرتی ہیں۔
چنانچہ امریکی قومی سلامتی کا انحصار، مشرق وسطیٰ میں سیاسی استحکام اور دیگر ممکنہ طور پر غیرمستحکم تیل اور گیس پیدا کرنے والے علاقوں پر ہے۔ اس طرح کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مدد کے علاوہ ، امریکہ کو ایندھن کے متبادل ذرائع تلاش کرنے چاہئیں؛ مثلاً ،قدرتی گیس کی پیداوار ، نیٹ ورکس، اور سہولیات کی توسیع؛ اور ایٹمی طاقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائے، کوئلے کی ٹیکنالوجی کو شفاف بنائے،اور زیادہ جارحانہ تحفظ کے پروگرام تشکیل دے۔
تیسرا اصول یہ ہے کہ، امریکہ کے طویل مدتی سلامتی کے مفادات… اتحادوں، تعاون کے معاہدوں، اور بین الاقوامی اداروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک ریپبلکن خارجہ پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اتحادوں اور بین الاقوامی اداروں کو ہمارے اثر و رسوخ کے اضافے کے طور پردیکھے، نہ کہ انھیں ہماری طاقت کی راہ میں حائل رکاوٹ تصور کرے۔ امریکہ سمیت کوئی بھی ملک، اپنی تمام تر وسیع فوجی اور اقتصادی طاقت کے باوجود،اکیلے کامیابی سے اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا سامنا نہیں کر سکتا۔
مثال کے طور پر، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے، تعلقات کے ایک ہموار نیٹ ورک کی ضرورت ہوگی۔
چنانچہ امریکہ کو اقوام متحدہ اور نیٹو سے آغاز کرتے ہوئے، عالمی اداروں اور اتحادوں کو مضبوط کرنے میں مدد فراہم کرنی چاہیے۔ تمام اداروں کی طرح، اقوام متحدہ کی بھی کچھ حدود ہیں۔اسے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اکثر اوقات، اقوام متحدہ، خاص طور پر جنرل اسمبلی، سیاسی طرز عمل اور غیر ذمہ دارانہ کارروائی کی بدترین شکلوں میں سامنے آتی ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی اہمیت ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ ہے۔ دہشت گردی، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پھیلاؤ، بھوک، بیماری، اور غربت جیسے عالمی بحرانوں کے مقابلے کے لیے کثیر جہتی جوابات اور اقدامات کی ضرورت ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط