Episode 49 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 49 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

 طاقتورترین سنٹرل بینکر کا قصّہ،مانیٹری پالیسی اور اس کی حدود(ایڈم ایس پوزن)
(ایڈم ایس پوزن ، پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے صدر ہیں اور وہ 2009سے 2012تک بنک آف انگلینڈکی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے رُکن بھی رہے ہیں)
مرکزی بینکوں سے تعلق رکھنے والوں (Central bankers) کے ساتھ ہمیشہ ایک ایسی پُراسراریت جُڑی ہوتی ہے جس کی وضاحت کرنا ممکن نہیں ۔
اگرچہ اُن کی پالیسیوں اور طریقہٴ کار میں نمایاں طور پر شفافیت آئی ہے مگر اُن سے وابستہ پُراسراریت اور طاقت کا تاثر بدستور موجود ہے۔موجودہ معاشی بحران نے اگرچہ ورثہ میں ملی مانیٹری پالیسی اور معاشی پیش گوئیوں کی کمزوریوں کو وسیع تناظر میں بے نقاب کردیا ہے ۔ تاہم اس کی وجہ سے سنٹرل بینکرز کی سرگرمیاں، معاشی منصوبہ بندی اور سیاسی توجہ کا مرکز بن گئی ہیں۔

(جاری ہے)

سنٹرل بینکرز کو بلاشبہ اس کی نسبت زیادہ اچھے روئیے کا مالک ہونا چاہیے جتنا کہ وہ پچھلی کچھ دہائیوں میں ظاہر کرتے آئے ہیں، جب ان میں سے بعض اس ”عظیم جدیدیت“ کے دور کا سہرا اپنے سر باندھنے کے دعویدار تھے۔(یہ کم معاشی بدحالی کا وہ دور ہے جو 1980کی دہائی کے اواخر سے موجودہ صدی کے ابتدائی برسوں تک جاری رہا) ۔اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اُس دور میں جس خوشحالی اور امن کی اچھی صورت حال سے دُنیا کے زیادہ تر ملک لطف اُٹھارہے تھے اس میں زیادہ کردار محض خوش قسمتی کا تھا۔
 مانیٹری پالیسی اگر اتنی طاقت نہ بھی رکھتی ہو جتنا کہ لوگ سوچتے ہیں، پھر بھی یہ ایک طاقتور ہتھیار ہے۔
صحافی نیل اروِن کی کتاب ”The Alchemists:Three Central Bankers and a World on Fire“کا عنوان اس اعتبار سے زیادہ درست نہیں ہے کیونکہ ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ سنٹرل بینکرز کی اہمیت زیادہ نہ ہو، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کی پالیسیاں اُس طرح معاشی حالت کو تبدیل نہیں کرسکتیں جیسے کہ ایک کیمیا گر (Alchemist) کھوٹے سکّے کو سونے میں بدل دیتا ہے۔
اس کمی(عنوان کی غلطی) کے باوجود، اروِن کی کتاب اس بات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہے کہ سنٹرل بینکرز کس طرح معاشی بحرانوں کے دوران اقدامات کرتے رہے ہیں،کتاب میں معاشی نظرئیات اور واقعات کو بھی واضح طور پر تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایسے تمام افراد کے لیے یہ انتہائی مفید کتاب ہے جو معاشی ماہر نہ ہونے کے باوجود معیشت سے دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ میری گارنٹی ہے کہ مصنف نے ہر اس شخص کے لیے جو کتاب میں بیان کیے گئے تینوں سنٹرل بینکرز کو اچھی طرح جانتا ہو، محض حقیقت بیانی سے بڑھ کر بہت کچھ مہیا کردیا ہے…جن تین سنٹرل بینکرز کا ذکر کتاب میں کیا گیا ہے ان میں امریکہ کے فیڈرل ریزرو کے چےئرمین بین برنانکے، بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر مرون کنگ، اور یورپئین سنٹرل بینک (ای سی بی) کے سابق صدر جین کلاڈ ٹریچٹ شامل ہیں۔
یہ کتاب پڑھنے والوں کو ان تینوں سنٹرل بینکرز کے معاشی فیصلوں سے پیدا ہونے والے حالات سے آگاہ کرتی،ان کی درست سمت میں رہنمائی کرتی اور اُنھیں مناسب حد تک فائدہ بھی پہنچاتی ہے۔ اروِن کی کتاب مختلف طرح کے بے شمار قارئین کے لیے، بشمول منتخب نمائندوں اور طالب علموں کے لیے، دیرپا فائدے کی حامل ہے، مگر اس کا اہم ترین کارنامہ یہ ہے کہ اس نے مانیٹری پالیسی بنانے والوں کے فیصلوں اور ان کے اثرات کے حوالے سے بہت سے غیرحقیقی اور آسان الفاظ میں دیوانگی پر مبنی خیالات کی تصحیح کردی ہے۔
 
انسان ہی ہونے کا عنصر
معاشی بحران پر پہلے ہی کئی صحافیوں کی طرف سے ماہرانہ تجزئیے سامنے آچکے ہیں، جیسے کہ ڈیوڈ ویسلز کی تحریر ”In Fed We Trust“ اورکارلو باستاسِن کی ”Saving Europe“ جنھوں نے انتہائی جامع انداز میں بڑے اقتصادی مسائل سے تعلق رکھنے والے علمِ معیشت (Macroeconomics) کے نظرئیات کی درستگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کتاب ”The Alchemists“اس کے ساتھ بین الاقوامی تناظر میں بھی رہنمائی کرتی ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ مانیٹری پالیسی اور معاشی حکمت عملی کی کامیابی …قومی اداروں، سیاست اور حالات پر کس حد تک منحصر ہوتی ہے، کسی ایک بینک کے بجائے تینوں مرکزی بینکوں (Central Banks) پر ایک ساتھ نظر ڈالنا زیادہ بہتر ہے۔ اروِن اس بات کو خاص طور پر واضح کرتا ہے کہ کیسے مذکورہ تینوں کامیاب ترین بینکار ایک ہی کلب سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ساتھ ہی پڑھنے والوں کو عام تاثر یہی ملتا ہے کہ ایک جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی ان تینوں کے طریقہٴ کار اور طرزِ عمل میں واضح فرق ہے۔
 
”The Alchemists“ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ اس عام غلط فہمی کی تردید کرتی ہے کہ شاید سنٹرل بینک پالیسی کسی بے حد خاص تکنیک کے حامل ماڈلز یا ماورائی عقل و دانش پر مبنی منصوبہ بندی کے تحت تشکیل پاتی ہے۔ 
درحقیقت ہوسکتا ہے کہ مانیٹری پالیسی بنانا، بجٹ معاہدوں کی تخلیق یا اقتصادی قوانین تحریر کرنے سے زیادہ تخیلاتی ہو، مگر یہ بہت زیادہ میکانکی عمل جیسا کام نہیں ہے۔
اروِن نے جس قدر ممکن ہے درستگی کے ساتھ یہ واضح کردیا ہے کہ امریکہ کے فیڈرل ریزرو کی فیڈرل اوپن مارکیٹ کمیٹی، دی بینک آف انگلینڈ کی مانیٹری پالیسی کمیٹی، اور ای سی بی کی گورننگ کونسل کے ماہانہ فیصلوں پر کس قدر مختلف نوعیت کے عناصر اثرانداز ہوتے ہیں۔یہ بات جس پر اروِن نے بھی زور دیا ہے، ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ یہ تینوں کمیٹیاں حقیقی ہیں ۔
ان میں سے ہر ایک پر، چےئرمین کے اثرورسوخ کی نوعیت مختلف ہے مگر تینوں میں ہی مختلف طرح کی رائے رکھنے والے افراد بحث مباحثہ کرتے اور آزادانہ ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں…جیسا کہ Bundesbankکے سابق سربراہ ایکسل ویبر نے 2010میں اس وقت ثابت کیا جب انہوں نے یونان میں بانڈ خریدنے کے فیصلے کی حمایت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ (یا پھر جیسے میں نے 2010میں اپنے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے دور میں اس وقت کیا جب میں نے اپنے کچھ ساتھیوں کی طرف سے شرح سود میں اضافے کی خواہش کے خلاف صارفین کو مزید آسانیاں فراہم کرنے پر زور دیا تھا۔
) ۔ اگر بظاہر اختلاف رائے نہ بھی ہو تب بھی،سنٹرل بینکوں کی مانیٹری کمیٹیوں میں بھی عام نوعیت کی دیگر کمیٹیوں کی طرح ہی کام ہوتا ہے ، ارکان بار بار بُلائی جانے والی میٹنگز میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوتے ہیں،مختلف ایشوز بار بار سامنے لائے جانے کے باوجود غیرنتیجہ خیز رہتے ہیں،اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ارکان کمیٹی ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔
 اس اختلافی طرزعمل کی وجہ یہ ہے کہ بڑے اقتصادی مسائل سے متعلق علم معیشت (Macroecomnomic) کے بارے میں اندازے محض تُکوں پر مشتمل نہیں ہوتے بلکہ کچھ حد تک درست بھی ہوسکتے ہیں۔ سنٹرل بینک ایسے ماڈلز پر کام نہیں کرتے جو محض اندازے ”اُگلتے“رہیں۔ شکر ہے کہ اروِن نے اس عمل کی تفصیل بھی کتاب میں بیان کردی ہے کہ جس کی مدد سے مختلف بینکوں میں اندازے قائم کیے جاتے ہیں۔
جیسے کہ ”Teal Book“ کی پروڈکشن، جس سے فیڈرل ریزرو سٹاف کے نقطہٴ نظر کا اندازہ ہوتا ہے اور جس پر فیڈرل اوپن مارکیٹ کمیٹی کی بحث و تمحیص کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔
اس طرح کے ماڈلز کی بنیاد پر کی جانے والی مشقیں بحث کا آغاز کرنے میں بہت مفید رہتی ہیں کیونکہ ان کے ذریعے کمیٹی کے ارکان اپنے نقطہٴ نظر کا اظہار کردیتے ہیں اور یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کے معاشی اندازوں میں کہاں فرق پایا جاتا ہے۔
اور یہ اندازے قائم کرنے کے لیے انہوں جو ہزاروں گھنٹے خرچ کیے ہوتے ہیں ان کی حقیقت بھی معلوم ہوجاتی ہے، نیز ارکان کے پیش کیے گئے تجزئیوں سے کمیٹی کو بہتر پالیسی کا انتخاب کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن جیسا کہ اروِن بالکل درست طور پر بتاتا ہے، کمیٹی کے ارکان کے اندازے صرف بحث کا آغاز ہوتے ہیں، اور یہ پالیسی سے متعلق فیصلوں کا تعین بہت کم کرتے ہیں۔
 
قومی اور بین الاقوامی معیشت سے متعلق سنٹرل بینکرز کا نقطہٴ نظر محدود اوراکثر اوقات غلط سمت میں لے جانے والا ہوتا ہے، اور یہ مسلسل بدلتا بھی رہتا ہے۔ اہم نوعیت کے معاشی اعدادوشمار وقفوں وقفوں میں مرتب کیے جاتے ہیں، اور ان کے نتائج کو فیصلے لیے جانے کا وقت گزر جانے کے طویل عرصہ بعد بھی خاصی نظرثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزیدبراں،فیصلے لے لیے جائیں تب بھی، مانیٹری پالیسی کو پوری طرح عمل پذیر ہونے میں ایک یا دو سال کا عرصہ لگ جاتا ہے…یعنی اتنی دیر لگ جاتی ہے کہ اس دوران متعدد بار فیصلے لیے جانے کا عمل دوبارہ مکمل ہوچکا ہوتا ہے۔
 پھر یہ کہ دوسرے عوامل کے علاوہ اس بات کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے کہ مانیٹری پالیسی کا کسی ملک کی معیشت پر کس حد تک اثرہے۔(اسی وجہ سے ہی تھامس سارجنٹ اور کرسٹوفر سمزکو ان کی تحقیق ”identifying the effects of monetary policy shocks.“ پر2011میں معاشیات کا نوبل انعام دیا گیا تھا)۔ سچ تو یہ ہے کہ سنٹرل بینکرز کے پاس بہت کم ایسی معلومات ہوتی ہیں جن تک مارکیٹس اور میڈیا کی رسائی نہیں ہوتی…اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ خود اعدادوشمار کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں۔
 پالیسی بنانے والے بے شک حتمی طور پر اعدادوشمار کی وضاحت اس وقت تک نہیں کرسکتے،جب تک کہ اُن کے پاس کوئی پختہ فارمولہ بطور رہنما موجود نہ ہو، مگر یہاں بھی،اختلافات ہی چھائے نظرآتے ہیں کیونکہ میکرواکنامکس کا کوئی متفقہ نظرئیہ موجود نہیں ہے۔ اروِن نے میکرواکنامکس کے اندازوں کی مشکلات کو خوبصورتی سے بیان کرنے کے لیے حقیقی اعدادوشمار سے وضاحت کی ہے اور 1970کی دھائی میں فیڈرل ریزرو اور 1990کی دھائی میں بینک آف جاپان کے متعلق باب میں ان کو بیان کیا ہے۔
 
تکلیف،پریشانی اور تکرارکسی بھی سنٹرل بینکر کے کام کا حصّہ ہیں۔ ووٹنگ مانیٹری پالیسی میکر ہونا بلاشبہ بڑے فخر کی بات ہے مگر ساتھ ہی یہ اس شخص کی ذہنی استطاعت اور اس کی عزت نفس کا امتحان یھی ہوسکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے ۔ 
منتخب کیے گئے اور چُنے گئے
کتاب ”کیمیا گر…The Alchemists“ اس بات کی خوبصورتی سے منظرکشی کرتی ہے کہ کیسے مانیٹری پالیسی کے فیصلوں میں سیاست داخل ہوجاتی ہے:درحقیقت یہ پس منظر میں ہمیشہ ہی موجود ہوتی ہے،کبھی کبھی تکنیکی تبدیلیوں اور ان کا رُخ تبدیلی کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے مگر اس کو فیصلہ کُن حیثیت صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے اگر کمیٹی کا چےئرمین ایسا چاہے۔
بہت سے دیگر تنقیدی جائزہ نگاروں نے اروِن کی طرف سے کتاب میں بتائی گئی اس تفصیل کو بہت سراہا ہے جس میں اُس نے اس حقیقت سے پردہ اُٹھایا ہے کہ کیسے چھوٹے بینکوں کی نگرانی میں فیڈرل ریزرو سسٹم کے کردار کو برقرار رکھنے کے لیے فیڈرل ریزرو بینک کے صدور نے ڈوڈ۔فرینک معاشی اصلاحات کی قانون سازی میں مداخلت کی تھی۔مگر اس کہانی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں فیڈرل اوپن مارکیٹ کمیٹی کی طرف سے مانیٹری پالیسی کے بارے میں تمام فیصلے ماہرین کی بحث کی روشنی میں ہی لیے گئے تھے۔
یعنی ان فیصلوں کو اس لیے تبدیل نہیں کیا گیا تھا کہ فیڈرل ریزرو سسٹم کے ڈھانچے سے متعلق کانگریس کے اقدامات کو غیر موثر کردیا جائے۔
البتہ 2010کے بینک آف انگلینڈ کے معاملے میں اور اسی طرح 2010-12میں ای سی بی کے معاملے میں، سیاست ناگزیر تھی۔ان ادوار کے دوران ان دونوں سنٹرل بینکوں کے لیڈرز، حکومتی خسارے اور اقتصادی پالیسی پر ہونے والے عوامی سطح کے مباحثوں میں اپنی ساکھ داؤ پر لگانے پر تیار ہوگئے تھے…یہ وہ چیز ہے کہ بقول ارون کے بحراوقیانوس کی دوسری طرف برنانکے نے بڑی احتیاط سے خود کو اس سے بچائے رکھا تھا۔
جب نومبر2011میں ای سی بی کے صدر تبدیل کردئیے گئے،یعنی ٹریچٹ کی جگہ ماریو دراغی نے لے لی،تو شرح سُود میں اضافہ جو گذشتہ موسم گرما کے دوران منظور کیا گیا تھا، اسے فوری طور پر واپس لے لیا گیااور اس میں کمی بھی کردی گئی،حالانکہ فرانسیسی نژاد ٹریچٹ کی نسبت نئے اور اطالوی نژاد صدر دراگی پر جرمنی میں افراطِ زر کے خلاف اقدامات کے حوالے سے بہت زیادہ دباؤ تھا۔
 
اروِن نے اپنی کتاب کے اس کے بعد آنیوالے کئی ابواب،خاص طور پر یورو بحران سے متعلق باب ، مالی اور مانیٹری پالیسی کے باہمی تعلق کو واضح کرنے کے لیے مخصوص کیے ہیں (اور اس کے علاوہ انہی صفحات میں اُس نے ایک منتخب سیاستدان اور غیر منتخب شدہ سنٹرل بینکرز کے وسیع تناظر میں باہمی تعلق کو بھی واضح کیا ہے)۔یہ مشکل امرہی بحراوقیانوس کے دونوں جانب آج ایک اہم اور توجہ کا حامل معاملہ بن چکا ہے۔
امریکہ میں بعض لوگ اس بات پر پریشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ فیڈرل ریزروسسٹم کا کردار بہت زیادہ ہوچکا ہے اور یہ اوباما انتظامیہ اور کانگریس کی بجٹ ناکامیوں پر پردہ ڈال رہا ہے۔ اسی طرح یورپ میں بعض لوگ اس بات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں کہ ای سی بی منتخب نمائندوں پر کڑی معاشی شرائط (austerity ) کا نفاذ کرکے جمہوریت کو دبانے کی کوشش کررہا ہے۔
اروِن نے کتاب میں یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح معاشی ماہرین اور پالیسی بنانے والوں کے درمیان اس بات پر بہت زیادہ اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ سنٹرل بینکرز کو منتخب عہدیداروں کی طرف سے مشکل بجٹ فیصلے لینے میں ناکامی پر کس طرح ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ اس بارے میں جو اختلافات سامنے آتے ہیں، وہ مخصوص تعصبات اور وابستگیوں سے پاک نہیں ہوتے۔
اروِن اس بات پر داد کا مستحق ہے کہ اُس نے اس معاملے پر حقائق بیان کرتے ہوئے صحافتی غیرجانبداری کے اصولوں کا پورا خیال رکھا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ یہ رائے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ برنانکے نے امریکہ کی مالی معاملات پر بحث سے خود کو دُور رکھ کر ٹھیک کیا، جبکہ اس کے برعکس،2010کے برطانوی انتخابات اور ڈیوڈ کیمرون کے وزیراعظم بننے کے بعد کے ابتدائی دنوں میں کنگ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا تھا، مگر یہ اندیشے یقینی قرار نہیں دئیے جاسکتے۔
اروِن نے یورپ کی لولی لنگڑی فیصلہ سازی کے باعث ای سی بی پر لاگو ہونے والی دوہری مشکلات کو جس خوبصورتی سے بیان کیا ہے اس سے سنٹرل بینکرز اور سیاستدانوں کے درمیان کشمکش کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ 
صحیح نسخے کا استعمال
بین الاقوامی معاملات کی تشریح کے علاوہ کتاب ”کیمیا گر…The Alchemists“غیردانستہ طور پر ایک انتہائی اہم سچائی بیان کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ سنٹرل بینکرز سب سے پہلے اپنے معاشی دائرہ کا ر (یا اداروں) پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور سرحد پار کے پالیسی معاملات میں ان کی طرف سے تعاون بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
اروِن نے بڑے اثرانگیز انداز میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ اکتوبر 2008میں کیسے تاریخ میں پہلی بار دنیا کے بڑے سنٹرل بینکوں نے شرح سُود میں کمی پر باہم ملکر کام کیا،اور کیسے فیڈرل ریزرو نے اپنے اُن چھوٹے پارٹنر سنٹرل بینکوں کی مدد کی جو ڈالرز کے ذخائر میں کمی کے بحران کا شکار تھے۔ یہ اقدامات جو بے حد فائدے کے حامل تھے، انہیں متفقہ طور پر عمل میں لایا گیا تھا، لیکن ایسا سنٹرل بینکنگ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا اور یہ اقدامات کیے بھی ایسے حالات میں گئے تھے جن کی مثال پہلے نہیں ملتی۔
مگر انہوں نے اس مثال کو مستقبل کے لیے بھی سنٹرل بینکوں کے درمیان تعاون کی روایت نہیں بنایا۔ 
اگرچہ اروِن نے کتاب میں بیان کیے گئے تینوں سنٹرل بینکرز کے درمیان مماثلت کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے مگر پھر بھی سنٹرل بینکوں کے درمیان تعاون کی اس پہلی مثال کے بعد مذکورہ تینوں بینکرزکو جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کی تفصیل کو اروِن نے حقائق کی روشنی میں بیان کیا ہے۔
سب سے پہلے تو ،دنیاکے دیگر ممالک فیڈرل ریزرو کی طرف سے ڈالر کی قدر میں کمی پر آمادگی کی وجہ سے ناراض تھے …یہ سوچے بغیر کہ اس کا چھوٹے درجے کی معیشت رکھنے والے ممالک پر کیا اثر ہوگا(ان ممالک کو نتیجتاً زرمبادلہ میں بڑے پیمانے پرکمی کا سامنا کرنا پڑا تھا)۔ اس کے بعد ،فیڈرل ریزرو اور دوسرے سنٹرل بینک، ای سی بی کی طرف سے یورو کرائسز پر غیر سنجیدہ روئیہ دکھانے اور تنہا اس بحران کو حل کرنے دینے پر اصرار کی وجہ سے سخت اشتعال کا شکار تھے۔
مجھے یاد ہے کہ میں 2011کے موسم گرما میں خود کو بے حد بے بس اور غصّے کا شکار پاتا تھا،کیونکہ جب روم، میڈرڈ اور ایتھنز جل رہے تھے،جب ہر کوئی یہ دیکھ سکتا تھا کہ ان دُور پار کے ملکوں کے مسائل بالآخر انگلینڈ اور حتیٰ کہ امریکہ کو بھی لپیٹ میں لے لیں گے ، تب یوں لگتا تھا کہ یورپی عہدیداروں کو کوئی فکر ہی نہیں۔ سنٹرل بینکرز کو کوئی بھی چیز ان کے من پسند راستے سے نہیں ہٹاسکتی،خواہ اس کا دوسروں پر کتنا بھی سنگین اثر پڑتا رہے۔
باسل میں مشترکہ طور پر شراب پینے، یا ہارورڈ اور ایم آئی ٹی میں تھیسز کے مشترکہ نگرانوں کی رہنمائی میں کام کرتے رہنے کے باوجود وہ اپنی اپنی مرضی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ممکن ہے ان کا راستہ درست ہو،مگر اس کی درستگی کا تعین اسی صورت میں ممکن ہے اگر ان کے متعلقہ منتخب قومی نمائندے اس کی منظوری دیں، مگر اس طرح کی مثالی کمیونٹی کا مظاہرہ…جس کی تجویزاروِن بھی دیتا ہے،بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
آخر میں،یہ بات بھی اہم ہے کہ کتاب کے ٹائٹل پر دوبارہ نظر ڈالی جائے جو ایک غلط تصویر پیش کرتا ہے۔ خاص طور پر رُوداد کے پہلے حصّے میں، سترھویں صدی کے وسط سے اکیسویں صدی تک کی سنٹرل بینکنگ کی تاریخ کوبیان کرتے ہوئے، اروِن ”قرض“ کے اصول کی تخلیق، اور سنٹرل بینکوں کی معاشی خوف کو روکنے کی صلاحیت کو ”کیمیا گری“قرار دیتا ہے…یعنی وہ سنٹرل بینکوں کو اس جادوئی صلاحیت کا حامل قرار دیتا ہے جس کی مدد سے وہ کسی معمولی بے اہمیت چیز کو انتہائی قیمتی اور اہمیت کی حامل بناسکتے ہیں۔
یہ درست نہیں ہے۔ پوری دنیا میں سرمائے اور قرض کے تصورات انسانی تہذیب جتنے ہی پرانے ہیں۔ سنٹرل بینکنگ یقینا اداروں کے لحاظ سے ایک بہت اہمیت کی حامل تخلیق ہے،بالکل ایسے ہی جیسے کہ ایک منظم پولیس فورس یا جمہوری طور پر منتخب شدہ اسمبلیاں اہمیت کی حامل ہیں، مگر بہرحال سنٹرل بینکنگ کو جادوئی چیز قرار نہیں دیا جاسکتا۔جادو کے عنصر کا شامل نہ ہونا ظاہر ہے ان دونوں چیزوں کی نفی کردیتا ہے: یعنی نہ تو مانیٹری پالیسی کو چند مخصوص افراد کی دسترس میں ہونیوالی کوئی ماورائی اور سمجھ سے بالاتر شے تصور کیا جانا چاہیے ، اور نہ اس پر کسی چاندی کی گولی کی طرح بھروسہ کرنا چاہیے۔
اروِن کی کتاب کی مدد سے مانیٹری اقتصادیات کے بارے میں بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے،مگر ساتھ ہی یہ بھی اہم ہے کہ اس کے متحیّر کردینے والے انداز کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا جائے۔ اسی لیے میں چاہوں گا کہ کتاب کو ”کیمیا گر“ کے بجائے ”نسخہ گر“ یا ”دواساز(فارماسسٹس)“ کا نام دے دیا جائے۔ کیونکہ سنٹرل بینکر کا کردارکسی ”فارماسسٹ(دواساز)“ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
ادویات کی مختصر الماری کے ساتھ، اور قوانین کی پابندیوں میں رہتے ہوئے، دونوں کو ہی مختلف سوچوں کے حامل ماہرین کے لکھے مشکل نسخوں کو سمجھ کر،یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کہنسے ضمنی نقصانات(سائیڈ افیکٹس) کا خیال رکھنا ضروری ہے،اور پھر انہیں آخر میں اپنے صارفین کو دوا کی درست مقدار مہیا کرنی ہوتی ہے،یہ جانے یا کنٹرول کیے بغیر کہ مریض دیگر کونسی چیزیں استعمال کررہا ہے۔ وہ یہی اُمید کرسکتے ہیں کہ کم سے کم منفی ضمنی اثرات(سائیڈ افیکٹس) کے ساتھ مریض کی حالت وقت کے ساتھ بہتر ہوتی جائے گی۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط