دولت کو پھیلائیں
تاریخی اشیاء پر سیاسی دعوے کرنے والے ممالک ،اپنے بیان کردہ ارادے کے برعکس، اپنے ثقافتی ورثے کی حفاظت میں مدد نہیں کر رہے۔ ثقافتی املاک کے قوانین میں اضافے کے بعد سے، ایسی کئی اشیاء چند مقامات پر توجہ کا مرکز بن گئی ہیں۔ انشورنس کمپنیاں جانتی ہیں کہ یہ ایک بُرا خیال ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور قدرتی آفات کہیں بھی ثقافتی املاک کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں…خواہ یہ 2013 میں، مالی میں اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے 4ہزار سے زیادہ قرون وسطیٰ کے قلمی نمونے ہوں یا پھر2012 کے سینڈی طوفان کے دوران سیلاب سے نیویارک شہر کی تباہ شدہ گیلریاں اور آرٹ کے نمونے۔
دنیا کے عجائب گھروں کو ان ثقافتی املاک کے مستعار یا مستقل حصول کے ذریعے اشتراک کی اجازت دیکران خطرات کو کچھ حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
(جاری ہے)
ثقافتی املاک کا تحفظ اور ثقافتی تنوع کے اصول کی قدر کرنے والی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کو دنیا بھر کے عجائب گھروں کے درمیان تبادلے کے ایک مضبوط پروگرام کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔
انہیں انفرادی حکومتوں کی جانب سے غیر سنجیدہ واپسی کے دعوؤں کی حوصلہ شکنی اور انسائیکلوپیڈیا عجائب گھر وں کے مجموعے کے ساتھ ایسے مقامات پر موجود عجائب گھروں کے ذمہ دارانہ اشتراک کو فروغ دینا چاہیے جو خود اپنا کوئی انسائیکلوپیڈیا عجائب گھر نہیں رکھتے۔کئی حکومتوں کی سیاسی حساسیت کو دیکھتے ہوئے، ایسا ثقافتی اشیاء کے مستقل حصول کے بجائے مستعار لیے جانے کے ذریعے ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
بدقسمتی سے، ہر عجائب گھر اشیاء کو مستعار دینے کی اہمیت کو نہیں سمجھتا ہے۔ بلاشبہ اس میں خطرات بھی موجود ہیں: جیسے کہ نقل و حمل کے دوران یا ماحول اور حالات میں تبدیلی،اور سب سے اہم طور پر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے نقصان کا امکان۔ لیکن طویل مدت میں، انتہائی قیمتی اشیاء کی مناسب طریقے سے دیکھ بھال کے لئے چھوٹے عجائب گھر وں کی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے اقدامات کے ذریعے ان خطرات کوکم کیا جا سکتا ہے۔
انسائیکلوپیڈیا عجائب گھروں سے وابستہ ثقافتی تبادلے کی اُمیدوں کو پورا کرنے کے لئے، انھیں دنیا میں ہر اس جگہ قائم کیا جانا چاہئے جہاں وہ اس وقت موجود نہیں ہیں۔اور موجودہ انسائیکلوپیڈیا عجائب گھروں کو ان نئے انسائیکلوپیڈیا عجائب گھروں کی تیاری میں مدد کرنی چاہیے۔ پہلے سے ہی، ایسی کئی اچھی مثالیں موجود ہیں کہ امیر ممالک میں موجود عظیم عجائب گھر کس طرح ایک جامع قسم کی اجتماعیت کو فروغ دے سکتے ہیں ۔
برٹش میوزیم نے 2008 میں افریقہ، ایشیا، اور مشرق وسطیٰ کے اداروں کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینے کیلئے ایک پروگرام تشکیل دیا تھا۔ برطانوی عجائب گھروں سے مجموعوں اور نمائشوں کو مستعار دینے کے علاوہ ، اس نے تربیت پر توجہ مرکوز کی:یعنی اشیاء کا تحفظ، انھیں منظم، اور دستاویزی صورت میں محفوظ کرنے کی تربیت پر۔مجموعی طور پر، قریب 29 ممالک شامل تھے۔
اس پروگرام کو برطانوی حکومت کے محکمہٴ ثقافت، میڈیا، اور کھیل کی طرف سے معاونت بھی حاصل تھی۔ لیکن تین سال کے بعد، برطانوی حکومت نے اس پروگرام کے لیے فنڈز کی فراہمی کم کردی۔شراکت داری امدادی فنڈز کے ذریعے چھوٹے پیمانے پر جاری ہے، جس میں گیٹی فاوٴنڈیشن کی جانب سے امدادبھی شامل ہے۔
تبادلے اور تعاون کے اس عمل کو عجائب گھروں اور قومی حکام کے درمیان اعتماد کی تعمیر کرنی چاہیے۔
یہ ایک طویل، اور سُست عمل ثابت ہو گا، لیکن اگر یہ کامیاب ہوجاتا ہے تو، یہ اُن اقدار کی ایک عظیم تر تفہیم کی بنیاد رکھ دے گا جن کی نمائندگی انسائیکلوپیڈیا عجائب گھر کرتے ہیں:یعنی کشادگی، رواداری، اور دنیا کے بارے میں تحقیق، اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو تسلیم کرنا کہ ثقافت قوم پرستی سے الگ آزادانہ طور پر موجود ہے۔یہ خیالات ہر جگہ پنپ سکتے ہیں، نہ صرف امریکہ اور یورپ میں، بلکہ ہر اس جگہ جہاں دنیا کی بھرپور اور متنوع تاریخ کے بارے میں تحقیق کا جذبہ موجود ہے…اور… ماراکیچ سے نیروبی، ابو ظہبی سے ممبئی،شنگھائی سے میکسیکو سٹی تک… اس دلچسپی کو فروغ دینے کے لیے قابل احترام یا نئے عجائب گھر موجود ہیں۔
اس طرح کے تعاون نے کس طرح کام کیا ہے اس کی مثالوں میں، چھتر پتی شیواجی مہاراج واست ھالیہ میں ہونے والی دو حالیہ نمائشیں، سائرس اعظم کا سلنڈر اور قدیم فارس:برٹش میوزیم کی طرف سے منظم کردہ ایک نیا آغاز، اورانٹیورپ سے فلیمش ماسٹرپیس، جسے انٹیورپ کے رائل میوزیم آف فائن آرٹس کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا، شامل ہیں۔مستقبل کے ممکنہ تعاون میں شاید چین یا کینیا کے منتظمین شامل ہوسکتے ہیں جو ایک ایسی نمائش کا بندوبست کریں گے، جو مکمل طور پر میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ یا جے پال گیٹی میوزیم کے متنوع مجموعے سے تیار کردہ ہوگی، اور جسے بالترتیب بیجنگ کے،پیلس میوزیم میں، یا نیروبی کی، نیروبی گیلری میں پیش کیا جائے گا۔
لیکن اس زیادہ کشادہ مستقبل کا بہت زیادہ انحصار انفرادی حکومتوں پر ہے کہ وہ قوم پرست دعوؤں کو ایک طرف رکھ کر اپنے شہریوں کے درمیان دنیا کی بہت سی مختلف ثقافتوں کے ایک اجتماعی تصور کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس کے بعد ہی، شاید، زیادہ سے زیادہ نوجوان طالب علموں کو وہی تجربہ ہوگا جو میں نے قریب 40 سال پہلے لوور کے عجائب گھر میں حاصل کیا تھا: ایک طاقتور اور قدیم شے ان کی دنیا کو وسیع تر کردے گی، اور ہمیشہ کے لیے اُن کے اندرکسی اور وقت اور جگہ کے بارے میں تجسس پیدا کردے گی۔