Episode 57 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 57 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

ریاست کی حالت،طرزِحکومت کے مستقبل کا عالمی مقابلہ(جان مکلیتھ ویٹ۔ ایڈرین وولڈریج)
(جان مکلیتھ ویٹ اکانومسٹ کے چیف ایڈیٹر ہیں جبکہ ایڈرین وولڈریج اکانومسٹ کے انتظامی ایڈیٹر اور میگزین کے لیے "Schumpeter" کالم لکھتے ہیں۔ یہ دونوں کتابThe Fourth Revolution: The Global Race to Reinvent the State کے مصنف بھی ہیں)
اقتصادی امور کے ماہر ایلفریڈ مارشل نے 1919میں اپنے آخری ایام کے دوران کہا تھا کہ، ”ریاست انسان کی قیمتی ترین متاع ہے، اور اسے ٹھیک طرح سے کام کے قابل بنانے کے لیے جو بھی کیا جائے کم ہے۔
“ مارشل، جو جدید معاشیات کے بانیوں میں سے ہیں اور جان مینارڈ کینس کے لئے ایک سرپرست کی حیثیت رکھتے ہیں، اُن کے نزدیک اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ مارشل کا ماننا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اہم ترین مسئلے…یعنی بے شمار لوگوں کی غربت … کو دُور کرنے کا بہترین طریقہ ریاست کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔

(جاری ہے)

اور ریاست کے معیار کو بہتر بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بہترین آئیڈیاز سامنے لائے جائیں۔

یہی وجہ ہے کہ مارشل سیاسی مفکرین وماہرین اقتصادیات جان لوکی اور ایڈم سمتھ کا یہ بیان یقین کے ساتھ بتاتے ہیں کہ ،سیاست کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے والے نہ صرف ریاست کے اصل مفہوم کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ گورننس کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات بھی کر سکتے ہیں۔ 
آج کے مستحکم اور اُبھرتے ہوئے جمہوری ملکوں میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو مارشل کی طرح حکومت کو مقدس خیال کرتے ہوں۔
اور اسی طرح معدودے چند لوگ اس کے پس پردہ نظرئیہ کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس کے بجائے بہت سے لوگ اپنے معاشرے میں پائے جانے والے مسائل کی جڑ حکومت کو قرار دیتے ہیں، اور احتجاجی تحریکوں اور انتخابات میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں جو بعض اوقات اصلاح پسند سے زیادہ حکومت کی مخالفت پر مبنی ردعمل ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں برازیل اور ترکی میں مظاہرین بڑی تعداد میں حکمرانوں کی کرپشن اور نااہلی کے خلاف سڑکوں پر مارچ کے لیے نکلے ہیں۔
اٹلی میں، 2011 کے بعدسے، تین وزراء اعظم کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا ہے، اور گزشتہ سال کے قومی انتخابات میں ووٹروں نے ایک سابق مزاحیہ اداکار کی قیادت میں بننے والی پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹوں سے نوازا ہے۔ مئی میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں برطانیہ، ہالینڈ اور فرانس کے کروڑوں ووٹرز نے، جو اپنے ملک کی سیاسی اشرافیہ سے متنفر تھے، دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔
…بالکل اسی طرح جیسے بھارتی ووٹروں کی بہت بڑی تعداد نے اس موسم بہار میں ہونے والے انتخابات کے دوران نریندرا مودی کو منتخب کیا۔ نومبر میں امریکی عوام بھی انتخابات میں اُمید لیکر جانے کے بجائے زیادہ غصّے میں بھرے ہوئے ووٹ ڈالنے جائیں گے۔
 اس عدم اطمینان کی بنیادی وجہ یہ مایوسی پر مبنی یقین ہے کہ حکومت کی سطح پر کچھ بھی تبدیل ہونے والا نہیں ہے۔
یہ مایوسی پر مبنی روئیہ معمول بن چکا ہے… اور عجیب ہے۔ اس روئیے کی وجہ سے یہ مان لیا جاتا ہے کہ پبلک سیکٹر، گلوبلائزیشن کی تکنیکی ترقی اور ان قوتوں سے محروم رہے گا جو نجی شعبے کو دُور بھگا لے گئی ہیں۔ یہ تاریخ کے اس سبق کو بھی فراموش کردیتا ہے کہ…حکومت…اور خاص طور پر مغرب کی حکومت… گذشتہ چند صدیوں کے دوران ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے، عمومی طور پر اس لیے کہ بڑے آئیڈیا رکھنے والے پُرعزم لوگوں نے اسے تبدیل کرنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔
 
جمہوری دُنیا میں نہ صرف عام لوگوں نے یہ تصور کرنا چھوڑ دیا ہے کہ درحقیقت حکومت کے ذریعے تبدیلی آسکتی ہے بلکہ اُن کے رہنماؤں نے بھی ایسا ہی سمجھ لیا ہے۔کسی حد تک ستم ظریفی یہ ہے کہ، ان دنوں یہ چین کے آمرانہ حکمران ہیں جو ریاست کی اہمیت اورآگے لے جانے کی صلاحیت کے حوالے سے مارشل کے نظرئیات کو زیادہ سمجھتے ہیں، نہ کہ اُن کے مغربی ہم منصب۔
چینی رہنماوٴں نے عظیم مغربی سیاسی نظریات کا مطالعہ کیا۔ Alexis de Tocqueville اُن کا خاص طور پر پسندیدہ ہے اور ان کے بیوروکریٹس نے گورننس کے بارے میں سب سے بہترین خیالات کے ذریعے دنیا پر سبقت حاصل کرلی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ چینی لوگوں نے یہ جان لیا ہے کہ مغرب کی کامیابی کی وجہ موثر حکومت ہے۔ سولہویں صدی تک، چین دنیا کی ترقی یافتہ ترین تہذیب کا نمائندہ تھا، اس کے بعد ، مغرب نے آگے بڑھنا شروع کردیا۔
جس میں موثر حکومت کے قیام کے حوالے سے تین (اور ایک نصف) انقلابات نے اہم کردار ادا کیا، جن کی بدولت ٹیکنالوجی کی طاقت اور آئیڈیاز کی قوت کو پنپنے کا موقع ملا۔ اب ایک چوتھا انقلاب شروع ہوچکا ہے، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کونسے ممالک اس کی صورت گری کریں گے، آیا اُن کی اکثریت مغربی لبرل جمہوریت کے عروج کے علمبرداروں پر مبنی ہو گی، یا حالیہ دہائیوں میں ابھر کر سامنے آنے والے آمرانہ حکومت کی نئی شکل رکھنے والے ممالک پر مبنی۔
 
ایک بڑی ریاست درکار ہوگی 
یورپ اور شمالی امریکہ کی سیاسی ترقی کی ایک جامع تصویر پیش کرنا انتہائی یادگار کام ہوگا، مورخ سیموئیل فنر ایسی ہی کوشش کا کام مکمل کرنے سے قبل انتقال کرگئے تھے اور اپنے پیچھے چھوڑ گئے ایک کتاب،The History of Government From the Earliest Times، جو اب بھی 1,701صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کہتی ہے کہ ہم تین اہم پیش رفتوں کا خاکہ تیار کرسکتے ہیں جنھوں نے کہانی کو اس کی شکل دی…سولہویں اور سترہویں صدی میں اقوام اور ریاستوں کی ظاہری حالت، جس کی وجہ سے یورپ میں اندرونی نظم و ضبط اور بیرونی مقابلے جیسے عناصر نے جنم لیا… اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کا لبرل انقلاب،جس نے سرپرستانہ نظام کو اہلیت کے مطابق مقام دینے والے نظام اور اکثر اوقات بے حدچھوٹی حکومت میں تبدیل کردیا…اور بیسویں صدی میں موقع کا انتظار کرنیوالا(Fabian) انقلاب، جس نے جدید فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی۔
برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر اور امریکی صدر رونالڈ ریگن کی طرف سے تخلیق کردہ مارکیٹ پر مبنی حکمرانی کی واپسی کا نظام بھی، ایک چھوٹی لیکن برابر اہمیت رکھنے والی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے…جسے نصف انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ہر انقلاب نے ایک بنیادی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی،اور وہ یہ کہ ”آخر ریاست کا مقصد کیا ہے؟“۔ اور ہر انقلاب کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ چار دانشوروں (تھامس ہوبز، جان سٹیورٹ مل، بیٹرس ویب، اور ملٹن فرائیڈمین) کی طرف سے مرتب کردہ اس سوال کے جوابات کا تجزئیہ کرلیا جائے۔
جدید سیاسی نظریہ کا بانی اور Leviathan کا مصنف، ہوبز 1588 میں انگلینڈ میں پیدا ہوا تھا۔ اس وقت یورپ خون میں لتھڑا ہوا ترقی سے محروم خطہ تھا۔ دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک ایشیا میں تھے۔ شہنشاہیت پر مبنی چین، جو قریب موجودہ یورپ کے حجم کے برابر تھا لیکن وسیع نہری نظام رکھتا تھاجو اس کے دریاؤں کو آبادی کے مختلف مراکز کے ساتھ جوڑتی تھیں۔
اس کا حکومتی نظام بھی اسی طرح کا تھا…ایک ایسا ملک جو جغرافیائی طور پر کم از کم پورے یورپ جتنا بڑا تھا، اس پر ایک فرد واحد، یعنی بادشاہ کی حکومت تھی۔ ایسے وقت پر جب صرف تین یورپی شہر، لندن، پیرس اور نیپلز…تین لاکھ سے زیادہ آبادی رکھتے تھے، صرف بیجنگ کے شاہی احاطے میں اتنے لوگ آباد تھے۔ جن میں وہ عامل بھی شامل تھے جو بادشاہ کو اپنی وسیع سلطنت کا نظام چلانے میں مدد کرتے تھے۔
یہ سرکاری ملازم چین کو میسربہترین لوگ تھے۔اور اُنھیں باقاعدگی سے عام امتحان کے ذریعے منتخب کیا جاتا تھا۔ ہوبز اوربے شمار یورپی لوگوں کے لیے اُس وقت زندگی بہت ہی کم منظم تھی۔ ہوبز کی پیدائش قبل از وقت ہوئی تھی، شاید اس لیے کہ اُس کی ماں ایک متشدد طوفان اور اس افواہ کی وجہ سے خوفزدہ ہوگئی تھی کہ ہسپانوی لاؤ لشکر انگلستان کے ساحلوں پر اُتر چکا ہے۔
( انہوں نے اپنی خودنوشت میں لکھا کہ ”خوف اور میں ایک دوسرے کے ساتھ ماں کے پیٹ میں جڑواں بچوں کی طرح پیدا ہوئے تھے۔“)۔ہوبز، مذہبی تنازعات، بغاوت، اور سیاسی سازشوں کے دور میں پلا بڑھا۔ ان کی زندگی کا ایک اہم ترین واقعہ، بادشاہ چارلس اول اور پارلیمنٹ میں ان کے کلیسائی دشمنوں کے درمیان (1642-51) خانہ جنگی تھی، جس کی بھینٹ پہلی عالمی جنگ سے بھی زیادہ برطانوی شہری چڑھ گئے تھے۔
1651میں شائع ہونے والی کتابLeviathanمیں، ہوبز معاشرے کو اس کے مختلف حصّوں میں اسی طرح الگ الگ کرکے بیان کرتے ہیں جیسے کہ ایک مکینک کسی گاڑی کے پُرزوں کو الگ کرکے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ کیسے کام کرتی ہے۔ وہ ایسا کرتے ہوئے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ”فطری حالت میں“ زندگی کیسی تھی؟“ اس کا جواب کچھ حوصلہ افزا نہ تھا…وہ اس کے جواب میں دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”انسان ہمہ وقت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، ایک ایسی جنگ کے جال میں پھنسے تھے جس میں ہر انسان دوسرے کا دشمن تھا۔
“ ان مستقل تنازعات اور ان کے نتیجے میں ممکنہ ”گھٹیا، محروم، اور مختصر “ زندگی سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا۔ اور وہ یہ کہ انسان بخوشی اپنے بنیادی حقوق چھوڑ کر ایک مصنوعی خودمختار معاشرے کی تعمیر کرے…جسے، ایک ریاست کا نام دیا جاتا ہے۔“ ریاست کا استعمال طاقت کو بروئے کار لانے کے لیے تھا، اس کی قانونی حیثیت اس کے موثر ہونے میں پوشیدہ ، اس کی رائے حقیقت کی آئینہ دار ، اور اس کے احکامات انصاف کی نمائندگی کرتے تھے۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یورپ کے بادشاہوں نے اس خیال کو کیوں پذیرائی بخشی۔ تاہم کتاب Leviathan لبرل ازم کی تخریبی دوڑ پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ہوبز سماجی معاہدے کے اصول پر زور دینے والا پہلا سیاسی مفکر تھا۔ اُس کے پاس بادشاہوں یا خاندانی جانشینی کے آسمانی حق کے بارے میں بات کرنے کا کوئی وقت نہ تھا، بلکہ اُس کی کتاب Leviathan پارلیمنٹ کی تشکیل کی طرف لے جاتی ہے، اور اس کا بنیادی نچوڑ ایک قوم پر مبنی ریاست ہے نہ کہ خاندانی ملکیت پر مشتمل علاقے۔
ہوبز کی دنیا میں مرکزی کردار سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ تھے، جو ذاتی تشہیر کی خواہش اور خود کو تباہ کرلینے کے خوف کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔ اُنھوں نے اپنے کچھ حقوق اس لیے تیاگ دئیے تاکہ خود کو تحفظ دینے کے زیادہ بڑے مقصد کو حاصل کرسکیں۔ حتمی طور پر ریاست اپنے شہریوں کے لیے بنی تھی نہ کہ شہری ریاست کے لیے۔ Leviathanکے اصل سرورق میں ایک بہت ہی طاقتور بادشاہ کو بہت سے چھوٹے چھوٹے انسانوں سے بنا ہوا دکھایا گیا ہے۔
 
ایک مضبوط کنٹرول کے ساتھ تھوڑے سے لبرل ازم کی آمیزش سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ یورپ کی ایک قوم پر مبنی ریاستیں کیوں آگے نکل گئیں۔ سولہویں صدی سے ہی پورے برّاعظم(یورپ) میں، آہستہ آہستہ بادشاہوں نے اپنی سرحدوں کے اندر طاقت کے بل پر مطلق العنان حکومتیں قائم کرنا شروع کردیں،اور چرچ کے منصب داروں سمیت اہم مضبوط اختیار رکھنے والے حریفوں کو اپنا ماتحت بنالیا۔
بادشاہ طاقتور بیوروکریٹس کو آگے لائے، جیسے کہ فر انس میںCardinal Richelieu اور سپین میںCount-Duke of Olivares جنھوں نے مرکزی حکومت کے اختیارات و دسترس میں اضافہ کیا اور ٹیکس جمع کرنے والی موثر مشینیں تخلیق کیں۔ اس تبدیلی نے یورپ کو اُس مسئلہ سے نکلنے میں مدد دی جس نے ہندوستان کی تہذیب کو بربادی سے دوچار کیا تھا…یعنی ایک ایسی ریاست جو اس قدر کمزور تھی کہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تحلیل ہوکر بالآخر زیادہ طاقتور حملہ آوروں کا نشانہ بن گئی۔
اس کے علاوہ یورپ نے اس مسئلے سے بھی خود کو بچایا جس نے چین کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا، یعنی بہت وسیع و عریض خطّے پر انتہائی زیادہ مرکز ی کنٹرول پر مبنی نظام۔ حتیٰ کہ یورپ کے سب سے زیادہ مطلق العنان حکمران بھی چینی شہنشاہ کی نسبت کم طاقت کے مالک تھے، جس کی بہت ہی بڑی بیوروکریسی کو چین کے طبقہ اشرافیہ یا درمیانے درجے کے شہری باشندوں کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا اور وہ خود کو مطمئن کرکے زوال کا شکار ہوتے چلے گئے۔
 
اس جدید ریاست کی تخلیق کو یورپ میں ٹکنالوجی اور معاشی شعبوں میں ترقی کے ذریعے مزید تقویت دی گئی۔ صنعتی انقلاب نے لوگوں کو بڑے پیمانے پر شہروں میں لا جمع کیا اور مواصلات کی رفتار کو بھی تیز کردیا۔ ریلوے کے قیام نے نہ صرف نقل و حمل کے نظام کوتبدیل کرکے رکھ دیا بلکہ طرز حکمرانی بھی تبدیل کر دیا… پہلے زمانوں میں شاہی عہدیداروں کے نزدیک یہ بات اہم تھی کہ دیہی علاقوں کے شرفاء اور امراء کو طاقت کے اہم اختیارات تفویض کیے جائیں۔
لیکن اب جبکہ کوئی بھی مقام کچھ ہی دیر کے سفر کے فاصلے پر تھا، یہ بات زیادہ عقل پر مبنی تھی کہ اختیارات باصلاحیت مرکزی بیوروکریسی کے ہاتھوں میں دے دئیے جائیں۔ 
محافظوں پر مبنی ریاست 
جدید ریاست کی مرکزیت نے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے اواخر میں آنے والے لبرل انقلاب کی راہ ہموار کی۔ اس تبدیلی کا آغاز اٹھارہویں صدی کے آخر میں امریکی اور فرانسیسی انقلاب سے ہوا اور پھر جب اصلاح پسندوں نے شاہی خاندان پر مبنی نظام کی جگہ زیادہ میرٹ پر مبنی اور جوابدہ حکومتوں کے نظام کو پروان چڑھایا تو یہ تبدیلی یورپ بھر میں پھیل گئی۔
لیکن وہ سیاسی تبدیلی جو آج ہمیں سب سے زیادہ موزوں نظام محسوس ہوتی ہے ، وہ دراصل انیسویں صدی کے دوران برطانیہ میں زیادہ پُرامن طریقے سے واقع ہوئی ۔ برطانوی لبرلز نے پرانا عمررسیدہ نظام لیا اور ایک پیشہ ور سول سروس کی تشکیل، منڈیوں کو کھولنے، آزادی کو فروغ دینے کے لیے ریاست کے حق کو محدود کرنے اور اقربا پروری پر ضرب لگانے جیسے اقدامات کرکے، اس نظام کی اصلاح کرلی۔
مگر اس کے باوجود جب برطانوی ریاست کو ایک تیزی سے بڑھتے صنعتی معاشرے اور توسیع پذیر عالمی سلطنت جیسے مسائل سے نمٹنا پڑا تو اس کا حجم بھی کم ہوگیا۔ ٹیکس کی تمام شکلوں سے مجموعی آمدنی آبادی کے سائز میں تقریباً 50 فیصد اضافہ کے باوجود، 1816 میں 80 ملین پونڈ سے گر کر 1846 میں صرف 60 ملین پاوٴنڈ رہ گئی۔جانشینی پر مبنی تقرریوں کے وسیع تر نیٹ ورک کو، جس پر اصلاحات سے قبل کی ریاست کی عمارت کھڑی تھی، مسمار کرکے ایک خاصی حد تک چھوٹے اور انتہائی احتیاط سے منتخب کیے گئے سرکاری ملازمین کے گروہ سے تبدیل کردیا گیا۔
گویا برطانوی سلطنت نے، جرمن سوشلسٹ Ferdinand Lasalle کی زبان میں، ایک ”محافظوں پر مبنی ریاست“ تشکیل دی، جو انگلش چینل کے پار اس کے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ چھوٹی اور زیادہ قابل بھی تھی۔
ان تبدیلیوں کو سب سے بہتر طور پرترتیب دینے والا مفکر جان سٹویرٹ مل تھا، جس نے حکمرانی کے مرکز میں سلامتی کی بجائے ، آزادی کو جگہ دلانے کے لیے جدوجہد کی۔
اُن کا تعلق اُس انگلینڈ سے تھا جو ہوبز کے انگلستان سے بہت مختلف تھا، ایک ایسا ملک جو خوف اور غیر فعالیت سے زیادہ اصلاحات اور اُمید سے بنا تھا۔ سٹیورٹ مل کو خانہ جنگی کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اور اس نے جو واحد انقلاب دیکھا وہ ایک محدود طبقہ اشرافیہ سے اقتدار کی تعلیم یافتہ اشرافیہ کو پرامن منتقلی پر مبنی تھا۔ اس طرح، سٹیورٹ مل کے لیے زیادہ اہم سیاسی تشویش یہ نہ تھی کہ افراتفری کے ماحول کو کیسے ایک نظام کے تحت لایا جائے بلکہ اُس کے نزدیک اہم مسئلہ یہ تھا کہ کسی نظام میں رہنے والے کس طرح خود کو اس نظام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے قابل بناسکتے ہیں۔
مل کے نزدیک کسی ریاست کی فضیلت کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کو صلاحیتوں کے اظہار کا کس قدر موقع فراہم کرتا ہے۔ اور اس کا یقینی طریقہٴ کار یہ تھا کہ حکومت راستے سے ہٹ جاتی۔ اپنی کتاب On Libertyمیں جو 1859میں شائع ہوئی ، وہ کہتے ہیں کہ، ریاست کی مداخلت کا صرف ایک ہی جواز ہوسکتا ہے، اور وہ یہ کہ وہ لوگوں کو دوسروں کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے مداخلت کرے۔
مل کے نزدیک، آزادی اور کارکردگی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھتے ہیں…یعنی جتنی تجارتی پالیسی آزادانہ ہوگی، اُتنا ہی ایک ملک خوشحال ہوسکے گا، اور ریاست کو اپنے شہریوں سے اُتنا ہی کم پیسہ ضبط کرنے کی ضرورت ہوگی۔ وہ خیالات کے درمیان آزادانہ مقابلے پر بھی یقین رکھتے تھے، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ خیالات کے درمیان بندشوں سے پاک مقابلے سے غلطی کا امکان کم ہوگا ، لوگ معاشرے میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی طرف مائل ہونگے اور شہریوں کی اخلاقی تربیت ہوسکے گی۔
برطانوی ریاست نے اُنیسویں صدی کے دوران زیادہ تر مل کے اصولوں کو اپنا کر ایک قابل ذکر اچھا کام کیا۔ برطانوی حکومتوں نے تسلسل کے ساتھ استحقاق اور سرپرستی پر مبنی پرانے نظام کو ختم کردیا اور ان کی جگہ ایک سرمایہ دارانہ ریاست تشکیل دی۔ وکٹورین دور کے حکمرانوں کے نزدیک حکومت کا کام مسائل کو حل کرنا تھا نہ کہ محض ”کرایہ وصول کرنا“۔
انہوں نے ریلوے کا نظام،پکی سڑکیں، نکاسی کا نظام اور پولیس اہلکا رکھنے والے شہر تعمیر کیے۔ جنہیں اُن کے موجد، سر رابرٹ پیل کے بعد bobbies ، کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
انیسویں صدی کے دوران، اس طرح کی نرم حکومت پر مبنی لبرل ازم یورپ بھر میں اور بحراوقیانوس کے پار امریکہ تک پھیل گیا۔تاہم اس وقت زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوا۔مل نے خود تبدیلی کی نشاندہی کی۔
جُوں جُوں اُس کی عمر میں اضافہ ہوا، کئی اہم سوالات اُسے پریشان کرنے لگے، بالخصوص بے شمار غربت کے مارے لوگوں کے حوالے سے سوالات۔کوئی بھی معاشرہ اپنے افراد کی صلاحیتوں کو کیسے جانچ سکتا ہے جبکہ امیر طبقہ کے احمق لوگ بہترین تعلیم سے مستفید ہوتے ہیں اور غریب طبقہ کے عقل مند ترین لوگوں کو بچپن میں ہی سکول چھوڑ کر چمنی صاف کرنے کا کام کرنا پڑتا ہے؟ کوئی فرد اُس وقت تک کیسے اپنی مکمل صلاحیتوں کو حاصل کر سکتا ہے جب تک کہ معاشرہ اُسے منصفانہ آغاز فراہم کرنے کے لیے کردار ادا نہیں کرتا؟ …الغرض وہ یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ ریاست کو افراد کے لیے مزید بہت کچھ کرنا چاہیے۔
چنانچہ جب سٹیورٹ مل کی کتاب Principles of Political Economy کا تیسرا ایڈیشن جسے ”بائبل آف برٹش لبرل ازم“ کہا جاتا ہے، چھپ کر آیا تو وہ بہت ہی جامع شکل میں تھا۔
مل ایسا سوچنے والا تنہا شخص نہ تھا ، آخری دور کے وکٹورینز (اور دنیا بھر میں اُن کے پیروکاروں ) نے دو بنیادوں پر اپنے پیش رو ؤں کی مداخلت نہ کرنے کی پالیسی پر سوالات اُٹھائے۔ پہلی یہ کہ محافظوں پر مبنی ریاست نے غریبوں کو رسوائی کا شکار کردیا تھا…وہ ووٹ کے حق سے محروم رہے تھے، سُستی کی حوصلہ شکنی کے لیے اُنھیں ورک ہاؤسز کے ساتھ منسلک کردیا گیا تھا اور اُنھیں کام کرنے اور بچت کے لئے ترغیبات دی جاتی تھیں۔
چارلس ڈنکنز نے اپنے 1854میں شائع ہونے والے ناول Hard Times میں”افادیت“ کی اصطلاح کو جسے مل کے خیالات سے جوڑا جاتا ہے، ایک جذبات سے عاری اصول کے نمونے سے تعبیر کیا۔ دوسری یہ کہ ، لبرل ازم کے برطانوی نقادوں نے دلیل دی کہ دوسری اقوام خاص طور پر پرشیا کا مقابلے کرنے کے لیے واحد راستہ ریاست کو توسیع دینا تھا۔ پرشیا کے عالمی معیار کے عوامی تعلیمی نظام اور موٴثر نرخوں کے مقابلے میں، برطانوی اشرافیہ کو اپنے ملک کی پرانے انداز کی حامل آزاد تجارت اور بریڈنگ سٹاک کے معیار کے بارے میں پریشانیاں لاحق تھیں۔
1917میں وزیراعظم ڈیوڈ لائیڈ جارج نے واضح طور پر پریشانی کا اظہار کیا کہ برطانیہ ایک ”A1سطح کی سلطنت“ اور ”C3سطح کی آبادی“ پرمشتمل نظام جاری نہیں رکھ سکتا۔
بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں کے دوران، جب مغرب میں شہر اور فیکٹریاں پھیلتی گئیں، اجتماعیت،ہمدردی، اور قوم پرستی ایک زیادہ قوی موثر جذبے کے طور پر سامنے آئی۔ اگر ہنری فورڈ کاروبار کے لیے ایک بہت بڑی میکانکی اسمبلی لائن ایجاد کرسکتے تھے، تو یقینا حکومت کے لیے بھی ایسا کرنا ممکن تھا…کہ وہ ریاست کے معاملات چلانے اور اپنے شہریوں کی تربیت کے کام کے لیے سائنسی اصولوں سے آگاہ انتظامیہ کو مقرر کرتی۔
اس کے بعدایک نئے معاشرے کا اجتماعی خواب …عالمی مقابلے اور قومی صلاحیت کی حامل نئی ریاست کا ٹینوکریٹک خواب بھی بن گیا۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط