Episode 91 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 91 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

بالفرض اگر تمام ممالک اسے اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں (جس کا امکان موجودہ رویے کی بنیاد پر نہیں ہے) ،تب بھی قائل ہوچکے افراد اور غیر ریاستی لوگوں کو اس ٹیکنالوجی تک مکمل رسائی حاصل ہو گی۔رےئلئین مسلک جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جینیاتی تبدیلیوں کو مُردوں کی روحیں واپس لانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے اور جس نے 2002ء میں یہ اعلان کرکے عالمی ہلچل مچادی تھی کہ اس نے خفیہ طور پر ایک انسانی بچہ کلون کیا تھا، وہ بڑے طوفان کی راہ ہموار کردے گا۔
دنیا بھر میں آج ، اپنا کام خود کرنے والی حیاتیات کی تجربہ گاہیں تیزی سے فروغ پارہی ہیں، اور شوقیہ بائیو ہیکرز کے لیے جینیاتی ہیرا پھیری کے کھیل میں شامل ہونے کے لیے مواقع پیدا کررہی ہیں۔جب سائنس پر دسترس زیادہ بڑھتی جائے گی، مختلف پس منظر اور رجحانات رکھنے والے زیادہ سے زیادہ لوگ اس حوالے سے تجربات کرنا شروع کردیں گے، خواہ دوسرے ان تجربات کو پسند کریں یا نہ کریں۔

(جاری ہے)


ابتدائی طور پر عمل کرنے اور آگے بڑھنے والے جو بھی ہوں، یہ یقین کرنا ناممکن ہے کہ بنی نوع انسان ، جس نے… دھماکہ خیز مواد سے جوہری توانائی تک اور اینابولک سٹیرائڈز سے لیکر پلاسٹک سرجری اور اس سے آگے تک بھی… ہماری زندگی کو بہتر بنانے کا وعدہ کرنے والی اور ساتھ ہی غیرمفید امکانات رکھنے والی،تقریباً ہر نئی ٹکنالوجی کو اپنایا ہے،وہ اس ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کے پیچھے نہیں جائے گی جو خوفناک بیماریوں کا خاتمہ ،ہماری صحت کو بہتر بنانے اور ہمارے عرصہٴ حیات میں اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہمارے جینیات کی تبدیلی کا بنیادی خیال بہت زیادہ عاجزی کا مطالبہ کرتاہے، لیکن ہم ایک مختلف عاجز نسل ہونگے نہ کہ حقارت آمیز خواہش، اور یہی ہمارا رہنما اصول ہے۔
اس مسئلے سے جذباتی وابستگی، اور یہ حقیقت سامنے رکھتے ہوئے کہ وراثتی جینیاتی تبدیلیاں افزائش کے عمل کے ذریعے معاشروں میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، کچھ ملک صرف اس وجہ سے دشمن بن جائیں گے اگر دوسرے ملک انسانی جینیاتی کوڈ میں اس طرح تبدیلی کررہے ہوئے جو انھیں متاثر کرسکتا ہو گا۔
اگر گذشتہ سال فلپائن کے انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں چاول کے کھیتوں پر ہونے والے پُرتشدد حملے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلوں کے حوالے سے کچھ لوگوں کے خدشات کا اظہار تھے، تو ذرا تصور کریں کہ اگر انہوں نے یہ محسوس کیا کہ انسانی جینوم کے معاملے پرسمجھوتہ کیا جا رہا ہے تو وہ کیسے رد عمل کا اظہار کریں گے۔کیا وراثتی جینیاتی تبدیلیوں پر پابندی عائد کرنے والے ممالک اپنی سرحدوں پر اس طرح کے اشتمال کے لیے لوگوں سے تحقیقات کریں گے یا اپنے شہریوں کے لیے ان کے ساتھ افزائش کرنے کو جُرم بنادیں گے؟
اور پھر امریکہ کیا کرے گا اگر اسے پتا چلا کہ چین نے انسانی صلاحیتوں میں اضافے کا موثر اقدام اُٹھالیا ہے جو چند دہائیوں میں چین کو ایک ناقابل تسخیر مسابقتی برتری دلادے گا؟ کیاامریکہ کچھ نہیں کرے گا اور چین کی مسابقتی برتری کو ایک ممکنہ نقصان سمجھ کر قبول کرلے گا، یاانفرادی اور اجتماعی اسباب کے ذریعے چین کو روکنے کی کوشش کرے گا، یا اپنی آبادی کی صلاحیتیں بڑھاکر چین کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا؟دنیا اُس وقت کیا کرے گی اگر رئےئلین Raelians جیسے غیر ریاستی عناصر نے ملکی حدود سے باہر، شاید گہرے پانیوں میں،اپنے پیروکاروں کے جینیاتی کوڈ کو تبدیل کردیا؟ ایسی بہت سی صورتوں کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ کیسے ہر قید و بند سے آزاد، ضابطوں سے ماوراء انسانی جینوم کی صلاحیتوں میں بہتری عالمی عدم استحکام یا بدتر صورت کی طرف لے جاسکتی ہے۔
 کچھ لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ دُور کی بات ہے اور ابھی اس ضمن میں بہت سی سائنسی رکاوٹوں کو دُور کرنا باقی ہے،مگریہ اُس سے کہیں زیادہ تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہا ہے جتنا کہ زیادہ تر لوگ سوچتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس سنجیدہ ہونے کے لیے پانچ سال بچے ہوں یا پھر دس سال۔ لیکن سائنسی ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے بہرحال یہ مدت 20 سال سے کم ہے۔
اگرچہ اس پیچیدہ مسئلے پر عالمی ردعمل کے لیے اصولوں کی تشکیل کا آغاز اسی وقت سے کرنا ضروری ہے، لیکن ایسا کرنے کا عمل اب تک شروع نہیں ہوسکا۔ یونیسکو، یورپی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جینیاتی اور انسانی حقوق کے حوالے سے ابتدائی قراردادیں پیش کی ہیں، جن میں سے کچھ نان تھراپٹک وجوہات کے لیے تولیدی کلوننگ اور جینیاتی تبدیلیوں پر پابندی سے متعلق ہیں، مگر یہ کچھ خاص اثر نہیں رکھتیں۔
مثال کے طور پر، انسانی جینوم اور انسانی حقوق پر 1997 کا یونیسکو کا عالمی اعلامیہ،”ان طریقوں سے منع کرتا ہے جو انسانی وقار کے منافی ہیں“ یہ وضاحت کیے بغیر کہ مکمل طور پر اس بات کا مطلب کیا ہو سکتا ہے۔مارچ 2005 میں اپنایا جانے والا انسانی کلوننگ پر اقوام متحدہ کا غیرواجبی اعلامیہ،رُکن ممالک پر زور دیتا ہے کہ”انسانی زندگی سے متعلق سائنس کے اطلاق میں مناسب طور پر انسانی زندگی کی حفاظت کو یقینی بنائیں“اور دیگر قراردادوں میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ”جینیاتی انجینئرنگ کی اُن تکنیکوں کو ممنوعہ قرار دیا جائے جو انسانی وقار کے منافی ہیں۔
“ لیکن یہ کافی نہیں ہے، کیونکہ مختلف نقطہٴ نظر کی حامل اس دنیا میں جہاں اہم قومی اختلافات جاری رہتے ہیں،”انسانی وقار“ کے تصور کی تعریف کرنا انتہائی مشکل ہے، چنانچہ انسانی زندگی سے متعلق سائنسی تحقیق میں سب سے آگے جنوبی کوریا، سنگاپور،برطانیہ اور چین جیسے ممالک نے اس اعلامیے پر دستخط کرنا منظور نہیں کیا۔اس میں زیادہ حیرانی کی بات نہیں کہ عالمی سطح پر اس بارے میں بہت کم اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ مسئلے کے بارے میں کیا کِیا جائے،لیکن یہ بات کافی زیادہ چونکانے والی ہے کہ اس انتہائی اہم موضوع کی طرف اب تک عالمی سطح پر اتنی کم توجہ دی گئی ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جینیاتی انقلاب کے اخلاقی اور قومی سلامتی کے مضمرات پر ایک کہیں زیادہ ٹھوس عالمی مذاکرات کا آغاز کِیا جائے۔ مذاکرات میں شہادتوں کی بنیاد پر کی جانے والی اس بحث کو اہمیت دی جانی چاہیے جس کی جینیاتی ترمیم شدہ فصلوں کے بارے میں بات چیت میں کمی رہی ہے۔ شروع میں، ان مذاکرات کو خاص طور پر کسی عالمی معاہدے کے لیے کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کی بجائے حکومتوں، یونیورسٹیوں، میڈیا اور شہری تنظیموں، اور عام لوگوں کے اندر اور ان کے درمیان اس موضوع پر بات چیت کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اقوام متحدہ ، دنیا بھر میں منعقد ہونے والے فورمز اور مذاکرات کے لیے پس منظر کا مواد اور اہم سوالات مرتب اور تیار کرنے کے لئے عالمی ماہرین کی ایک کمیٹی کو اختیار دیکر اس عمل کا آغاز کر سکتی ہے۔ یہ ان فورمز میں ہونے والی بحث کو عوامی طور پر دستیاب بنانے کے لیے بھی اقدامات کرسکتی ہے۔
چونکہ سائنس ہماری سوچ سے بھی زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، اس لیے اس بارے میں ابھی سے سوچنا بھی ضروری ہے کہ ایک ابتدائی عالمی ریگولیٹری فریم ورک کیسا ہوگا۔
جینیاتی انجینئرنگ کے مخالفین جینیاتی صلاحیتیں بڑھانے اور وراثتی حوالے سے انسانی جینیاتی ترمیم پر مکمل طور پر پابندی کا مطالبہ کریں گے۔ اس طرح کی پابندی سے اُن مہلک امراض کو ختم کرنے کے لیے تحقیق رُک جائے گی جنہوں نے بنی نوع انسان کو سب سے زیادہ تباہی سے دوچار کیا ہے، اور اگر ایسی کوئی تحقیق ہوگی بھی تو اسے اہمیت نہیں دی جائے گی۔
ایک اہم معنی میں، اس اہم ایشو کے حوالے سے ٹرین پہلے ہی سٹیشن سے روانہ ہوچکی ہے۔اس طریقہٴ کار کے ناقدین جو بہترین کام کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر انسان اور جانوروں کے جینز کو ملانے کے غیر فطری افسانے اور حد سے بڑھ کر کی جانے والی کلوننگ سمیت ان باتوں کی وضاحت اور مخالفت کریں جو عمومی طور پر غلط بات کے طور پر قبول کی جاسکتی ہیں۔
 
دوسری جانب انسانی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے عمل پر یقین رکھنے والے (transhumanists ) اور کچھ دوسرے لوگ جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سائنس کو آزادانہ طور پر ترقی کرنے دینا چاہیے ،ممکن ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی پابندیوں کی مخالفت کریں کیونکہ وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ ان کے مخالفین ان پابندیوں کو بطور ہتھیار استعمال کریں گے۔ لیکن پھر بھی پیمانے کے اس طرف یعنی منظوری دینے والی جانب موجود لوگوں کو بھی یہ حقیقت قبول کرنا پڑے گی کہ دنیا کے بڑے حصوں میں عوامی ضمیر کو جھٹکا دینے والی انسانی جینیاتی انجینئرنگ کی کہانیاں، انسانی صحت اور زندگیوں کو بہتر بنانے کے ضمن میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال کو زیادہ مشکل بنادیں گی۔
اس حوالے سے جو عالمی فریم ورک ہو اُس کا اولین مقصد ایک ایسا ریگولیٹری نظام قائم کرنا ہونا چاہیے جو ان دونوں انتہاؤں سے اجتناب کرتے ہوئے بدترین ممکنہ زیادتیوں کو بھی روکے اور ساتھ ہی ایسا ماحول بھی قائم کرے جواس ضمن میں کام کے لیے کافی اجازت دیتا ہو، تاکہ بامعنی ترقی کا سفر جاری رہ سکے۔یہ دیومالائی کہانیوں جیسا طریقہٴ کار بظاہر آسان لگتا ہے لیکن حقیقت میں اتنا آسان نہیں ہے۔
اگرچہ آج کی شہ سرخیوں میں دہشت گردی اور علاقائی بحرانوں جیسے قلیل مدتی مسائل نمایاں رہتے ہیں،لیکن انسانی جینیات میں جاری حالیہ انقلاب ہمارے مستقبل کے لیے بالآخر ان سے کہیں زیادہ اہم ثابت ہو گا۔ یہ اس سے کہیں زیادہ توجہ کا مستحق ہے جتنی ہم فی الحال اسے دے رہے ہیں اور،اس کے ساتھ اس کے لیے ایک عالمی سطح کے عمل کی بھی ضرورت ہے ،جو وقت کے ساتھ، ہمیں خطرناک تنازعہ سے بچنے میں مدد اور ایک مثبت سمت میں بڑھنے کے لیے ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط