Episode 34 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 34 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

تخفیف کی پالیسی کے تحت امریکہ کو جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بھی اپنی موجودگی کو کم سے کم کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ امریکہ سستے تیل کے بہاوٴ کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے،لیکن اس کے باوجود مسلح مداخلت اور فوجوں کی تعیناتی ،اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بہترین طریقے نہیں ہیں۔ ان اقدامات نے مقامی آبادی کو انتہا پسند بنایا ہے، دہشت گردوں کے لیے پرکشش اہداف فراہم کیے ہیں، تیل کی مارکیٹوں کو غیرمستحکم کیا ہے، اور ایران جیسے علاقائی حریفوں کے شبہات کو بھڑکایاہے۔
اسی طرح، امریکہ کے پاس کسی حکومت کے زیر انتظام نہ ہونے والی خالی جگہوں میں دہشت گرد گروپوں کو محفوظ ٹھکانے بنانے سے روکنے کے لئے ایک مضبوط ترغیب موجودہے۔تاہم ، یہ واضح نہیں ہے کہ، کیا بڑی تعداد میں فوجی دستوں کی تعیناتی ایسا کرنے کا سب سے زیادہ کم خرچ موٴثر طریقہ ہے۔

(جاری ہے)

افغانستان میں امریکہ کی زیر قیادت نیٹو کے مشن سے استحکام کے حوالے سے عارضی کامیابیاں ملی ہیں، لیکن اسے، بہتر اسلوب حکمرانی کے فروغ، بدعنوانی کے خاتمے، یا سب سے خطرناک عسکریت پسند نیٹ ورک کے خاتمے میں بہت کم کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

نہ ہی پاکستان میں زمینی فوج اُتارنے سے اس کے ساتھ تعلقات یا سیاست میں بہتری واقع ہوئی ہے۔
زیادہ وسیع تناظر میں، پنٹاگان کو افغانستان میں جنگ جیسے بیرونی تنازعات سے نپٹنے کے لیے اپنی صلاحیتیں برقرار رکھنے اور ان کی ترقی کے لئے کم وسائل وقف کرنے چاہئیں۔ امریکی دفاعی منصوبہ بندی میں قومی تعمیر اور انسداد بغاوت کی کارروائیوں کیلئے جگہ ضرور ہے، لیکن بہت زیادہ نہیں۔
افغانستان اور عراق کی جنگوں نے انسداد بغاوت کے نظریے کی قدرو قیمت کو بڑھادیا ہے اوراس پر عمل اور اس کی وکالت کرنے والوں کو اہمیت دلادی ہے، جیسے کہ ریٹائرڈ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس، جو، اب سی آئی اے کے ڈائریکٹر ہیں ۔یہ صورت حال قابل فہم ہے، کیونکہ دفاعی اسٹیبلشمنٹ پہلے انسداد بغاوت جنگ کی رقم مہیا کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ لیکن اس طرح کے تنازعات کے لیے کئی سالوں تک انسانی خون اور خزانے کی قربانی پر مبنی منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور شاذ و نادر ہی ان کا نتیجہ فیصلہ کن فتح کی صورت میں نکلتا ہے، اور بہت کم یہ ٹھوس فوائد کے حامل ہوتے ہیں۔
تخفیف کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے بعدامریکہ اس طرح کی بڑے خطرے والی، اور کم فائدے کی حامل کوششوں کو چھوڑ دے گا، خاص طور پر جب کہ انسداد دہشت گردی اور ملکی قانون نافذ کرنے والے اور حفاظتی اقدامات موٴثر متبادل ثابت ہوئے ہیں۔ نسبتاً چھوٹی فوجیں جن کے لیے بہت بڑے فوجی اڈوں کی بھی ضرورت نہیں، اگرچہ وہ ہر مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں، مگر اس کے باوجود اہم حملے کر سکتی ہیں… اس کا ثبوت وہ آپریشن ہے جس میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
امریکہ کے جنگی منصوبوں کو محدود کرنے کی حکمت عملی خطرات کو کم کرے گی، لیکن یہ ان کو مکمل طور پرختم نہیں کر سکتی۔ مخالفین علاقائی طاقت کے خلا کو پُر کر سکتے ہیں، اور اتحادی بھی ویسا طرز عمل نہیں اپنائیں گے جیسا کہ امریکہ چاہتا ہے۔ اس کے باوجود یہ قیمت فوجیں پیچھے ہٹانے کے ٹھوس فوائد کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہوگی۔ مغربی یورپ میں امریکہ کے بنیادی مفادات پر توجہ مرکوز کرنا امریکہ کو ان مہمات سے بچنے کے قابل بناتے ہوئے جنہیں اہمیت دینا دانشمندی نہیں ہوگی، جارجیا اور مالدووا کے نسلی تقسیم والے علاقوں میں روس کے ساتھ تباہ کن جھڑپوں کے خطرے کو کم کردے گا۔
ایشیا میں اپنے ارادوں کو محدود کرکے، امریکہ، تائیوان کی حیثیت یا جنوبی چین کے سمندر میں بحری دعوؤں کے مقابلے جیسے مسائل پر تنازعہ کے امکانات کو کم کر سکتا ہے۔بالکل اسی طرح جیسے اس صدی کے آغاز میں، برطانیہ نے اپنے ارادوں کو تبدیل کرتے ہوئے مغربی نصف کرہ میں امریکی مفادات کو جگہ دی تھی، اسی طرح امریکہ کوبھی اب اپنے ارادوں میں تبدیلی لانی چاہیے اور تائیوان کے معاملے پر چین کے ساتھ دیرپا سمجھوتہ کر لینا چاہیے۔
مشرق وسطیٰ میں مطلق العنان حکومتوں سے خود کو بے تعلق کرکے امریکہ منافقت کے اس الزام سے بچ سکتا ہے، جو پورے خطے میں اس کی خارجہ پالیسی کے لئے عوامی حمایت کو کمزور کرتا ہے۔ اور افغانستان اور عراق کی جنگوں سے تیز رفتار واپسی سے کافی رقم کی بچت ہو گی۔ ان کارروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے 118 ارب ڈالرز کی حالیہ درخواست پچھلے سال کے مقابلے میں 42 ارب ڈالرز کی بچت کو ظاہر کرتی ہے۔
ان تنازعات کو ختم کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھنے کے نتیجے میں اور زیادہ بچت کی جاسکتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکی حکومت پر بڑے اخراجات کے حامل منصوبوں کا جواز مہیا کرنے کے حوالے سے ناقابل بیان دباؤ ہے، ان جنگوں پر سرمایہ کاری سے جس قدر کم فائدہ متوقع ہے، اس کے تناظر میں اب مزید صبر یا قربانی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔
فضول خرچی سے سوچ سمجھ کر خرچ کرنے تک 
تخفیف کی حکمت عملی پر عمل در آمد کے لیے دوسرا سب سے ضروری قدم امریکی فوجی دستوں کے حجم اور ساخت کو تبدیل کرنا ہو گا۔
گیٹس کی بہترین کوششوں کے باوجود، 2012 کا دفاعی بجٹ متنازعہ اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہتھیاروں کے نظام کے لئے رقم مختص کرنے کے منصوبوں سے بھرا ہوا تھا۔مثال کے طور پر، تاخیر، قیمت بڑھنے، تجربہ کی ناکامی یا ملتوی ہونے، اور امریکہ کے اتحادیوں کی طرف سے مخالفت کے باوجود، اوباما انتظامیہ نے مختلف بیلسٹک میزائل دفاعی نظام کے لئے 10 ارب ڈالرز سے زائد رقم فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور ایف 35 جوائنٹ اسٹرائیک فائٹر کے منصوبے کے لیے فنڈز کی مد میں ایک اور 10 ارب ڈالرز کا وعدہ کرنے والی ہے۔
اور اس طرح کے پروگرام بہت کم آسان فوائد کے حامل ہوتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز کے زیر اہتمام معروف ماہرین پر مشتمل مشترکہ ٹاسک فورس نے حال ہی میں نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امریکی حکومت آٹھ مختلف پروگراموں کے حوالے سے 2012 کے دفاعی بجٹ میں 77 بلین ڈالر سے زیادہ کمی کر سکتی تھی۔نئی آبدوزوں اور گیارہویں امریکی طیارہ بردار جہاز … کسی بھی دوسرے ملک کے پاس ایک سے زیادہ ایسا طیارہ بردار جہاز نہیں ہے…کی تیاری کے لیے ابتدائی ادائیگیاں کسی بھی طرح 5 ارب ڈالر خرچ کرنا کا بہترین طریقہ نہیں ہو سکتیں۔
اسی طرح، اگلے دس سال کے دوران امریکی جوہری ہتھیاروں کو بہتر بنانے پر 100 ارب ڈالر خرچ کرنے سے کسی مخالف کے اندازوں میں مثبت تبدیلی نہیں آسکے گی۔
دفاعی اخراجات میں گہری کمی ، پنٹاگان کو وہی کرنے پر مجبور کرے گی جو باقی امریکہ پہلے ہی کررہا ہے…یعنی ایک بدلتی دنیا میں ملک کے کردار پر نظر ثانی۔ خریداری کے موجودہ منصوبوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ بعض مقاصد کے لیے بنیادی اسٹریٹجک جواز…جیسے بحریہ کے لئے 320۔
جہازوں کا بیڑہ، فضائیہ کے لئے 2200 لڑاکا طیارے…واضح نہیں ہوتا۔ چینی جارحیت کے خلاف بین الاقوامی تجارتی راستوں کی حفاظت کو اکثر اس طرح کے فوجی پروگراموں کے لئے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بات کی وضاحت شاذ و نادر ہی کی جاتی ہے کہ امریکہ اپنے تیسرے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر کے ساتھ جھگڑ کر اپنی معیشت کی حفاظت کیسے کرے گا۔
 نئے ہتھیاروں کے نظام کے اخراجات اور فوائد کے حوالے سے واضح اندازوں کی کمی بھی سنگین غلطیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
امریکہ پہلے ہی طیارہ بردار بحری جہاز، چوتھی نسل کے جنگی جہازوں، اور مشینی نظام سے لیس زمینی افواج کے لحاظ سے بہت زیادہ برتری رکھتا ہے۔چنانچہ ہتھیاروں کے نظام کو تبدیل کرنے پر،جو پہلے ہی ہر حریف سے برتر ہیں، وسائل مختص کرنے کی بہت کم وجوہات ہیں۔مزید برآں، ٹیکنالوجیکل تبدیلیوں کی تیز رفتار، خاص طور پر جب اعلیٰ درجے کے انٹی شپ اور فضائی دفاع کی صلاحیتوں کے حوالے سے بات کی جائے، وہ ایسے ہتھیاروں کے نظام پر پیسہ خرچ کرنے کی عقل و دانش پر شبہات کھڑے کردیتی ہے، کہ جب وہ تیاری کے مرحلے میں پہنچیں تو ہوسکتا ہے کہ اس وقت تک وہ متروک ہو چکے ہوں۔
اس کے برعکس، ثابت صلاحیتوں پر ایک محدود سرمایہ کاری، اہم علاقوں میں امریکہ کے دفاع کو مضبوط بنائے گی اور امریکہ کو مستقبل کے خطرات کا جواب دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ لچک دے گی۔ اس مقصد کے لئے، تھیٹر اور بحریہ کے زیر اہتمام بیلسٹک میزائل دفاعی نظام، میں سرمایہ کاری کو جاری رکھنا چاہئے،جو میزائل خطرات کے خلاف امریکہ کے اتحادیوں کی حفاظت کے سب سے بہترین طریقے رہے ہیں۔
پنٹاگان کو موجودہ نظام کے لیے سستے متبادل تلاش کرنا چاہئیں،جیسے کہ بڑی تعداد میں بغیر پائلٹ ہوائی گاڑیاں(ڈرونز)۔ کانگریس کو تحقیق اور ترقی کے لیے فنڈز کی فراہمی جاری رکھنی چاہیے، لیکن اتنے ہی جو اس بات کو یقینی بناسکیں کہ جب واضح اور فوری ضرورت پیش آئے تو نئی ٹیکنالوجی کو فوری طور پر پیش کیا جا سکے۔ خریداری کے منصوبوں میں ان تبدیلیوں، اور ان کے ساتھ افغانستان اور عراق سے فوجوں کی تیزی سے واپسی اور کسی حد تک امریکی فوج اور میرین کور (بحریہ) کے حجم میں کمی، سے امریکہ کو سالانہ کم از کم 90 ارب ڈالر کی کی بچت ہو سکے گی۔
اس قسم کی بچت تخفیف کی حکمت عملی کے ثمرات کا حصہ ہوگی ، جسے امریکی معیشت کو دوبارہ مضبوط بنانے پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ تخفیف کی حکمت عملی، خارجہ پالیسی کے وسائل میں کمی کے ساتھ شروع ہوتی ہے، لیکن یہ ختم صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب بچائے گئے وسائل ملک کے اندر خرچ کیے جائیں۔ اگرچہ فوجی اخراجات ایک فائدہ مند سرمایہ کاری ہیں، مگر وہ لامتناہی یا ہر چیز سے بڑھ کر تو نہیں ہیں۔
اورجب دفاعی اخراجات کا ذکر آتا ہے تو امریکہ پہلے ہی کم سے کم فائدے کے مقام سے گزر چکا ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ ایسے اقدامات کو ترجیح دے جوامریکی معیشت کی براہ راست حوصلہ افزائی کریں اور اسے زیادہ مسابقتی بناسکیں۔اس منزل کو کس طرح یقینی طور پر حاصل کیا جاسکتا ہے، یہ ضرور شدید بحث کا موضوع بنا رہے گا۔یہ بحث اسی وقت زیادہ بامعنی ہوسکتی ہے جب تخفیف کی حکمت عملی کے محاصل کو خرچ کرنے کے مقصد کو سامنے رکھ کر کی جائے۔
 امریکی طاقت کی معمولی کمی نے ایک نسبتاً مہربان بین الاقوامی ماحول کے ساتھ مل کر، امریکہ کواپنی خارجہ پالیسی کے منصوبوں کو محتاط انداز میں محدود کرنے کا منفرد موقع فراہم کیا ہے۔ اس کام کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لئے، واشنگٹن کے پالیسی سازوں کو، عالمی معاملات پر امریکہ کی کمزور گرفت کو سخت کرنے کے مطالبات کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے، ساکھ میں کمی کی گھسی پٹی تنبیہ کو نظر انداز کرنا چاہیے، اور کھا کھا کر پھولی ہوئی بیوروکریسی کے تھکے ہوئے احتجاجی مظاہروں پر قابو پانا چاہیے۔
مستقبل کے حوالے سے فوجوں کی تعیناتی کو کم کرکے،اپنے اتحادیوں کے ساتھ بوجھ کا اشتراک کرکے، دُور دراز خطوں میں لڑائی کو محدود کرکے، اور غیر ضروری ہتھیاروں پر بیکار خرچ کو ختم کرکے، امریکہ نہ صرف اپنے زوال کی رفتار کو سُست کرسکتا ہے بلکہ اپنی بحالی کے بیج بھی بو سکتا ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط