Episode 67 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 67 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

اس سارے ہنگامہ نے بیسویں صدی میں ترقی پسند (پروگریسو)قانون سازی کی لہر کی منظوری کی راہ ہموار کرنے میں مدد دی۔ اس قانون سازی کے ثمرات میں، کارکنان کے معاوضہ سے متعلق قوانین، چائلڈ لیبر کو محدود کرنے، باقاعدہ فیکٹری معائنہ کی ضرورت، اور یونینز کے لیے بڑھتی ہوئی رواداری شامل تھے۔لیکن اس طرح کی اصلاحات اس معیار سے بہت کم تھیں ،جواصلاح پسندچاہتے تھے۔
1901 میں قائم ہونے والی سوشلسٹ پارٹی، امریکی تاریخ کی کسی بھی مارکسزم پر یقین رکھنے والی پارٹی سے زیادہ بڑی جماعت بن گئی اور سینکڑوں منتخب مقامی حکام اور کانگریس کے دو ارکان کو منتخب کرانے میں کامیاب رہی۔ لیکن یہ اپنے جیسی یورپی جماعتوں کے اثر و رسوخ اور حجم تک کبھی نہیں پہنچ سکی۔
اس کے بعد، عظیم کساد بازاری کی وجہ سے اقتصادی نا انصافی کے بارے میں پرانے الزامات پھر فوری توجہ طلب لگنے لگے۔

(جاری ہے)

اس بحران نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو ایک بے مثال موقع فراہم کردیا۔جس چیز نے عظیم کساد بازاری کو ”عظیم بنایا وہ یہ تھی کہ اس نے … کارکنوں، صارفین، سرمایہ کاروں سمیت تقریباً ہر کسی کو متاثر کیا تھا، اور یہ پوری ایک دہائی تک جاری رہی۔خوداعتمادی پر مبنی،سائنسی طریقہ جس کے ذریعے مارکسزم کے پیروکار،بحران کے اثرات کے حوالے سے بہت سے صحافیوں اور دانشوروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے مگر ششدر عوام کو تباہ کن صورتحال کی وضاحت میں ناکامی کا تجزیہ کرتے ہیں۔
 
اس وقت کمیونسٹ پارٹی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی غالب جماعت تھی ،یہ ایسی حقیقت تھی جس نے اس جماعت کو اُجرت کمانے والوں کی امداد میں مدد بھی دی اور اس کی صلاحیت میں رکاوٹ بھی ڈالی تھی۔ اس کی سرگرمیاں لینن کے بتائے نظم و ضبط سے متاثر تھیں اور اسے وسیع سوویت یونین میں قائم ایک عالمی تحریک سے تعلق ہونے کی وجہ سے ایندھن ملتا تھا، (سوویت یونین …جہاں ریاست زیادہ تر شہریوں کو ملازمتیں دیتی تھی، اگرچہ مایوس کن اُجرت پر)۔
پارٹی کے ارکان نے بے روزگاروں کی کونسلیں قائم کیں اور ان یونینوں کے اہم ترین انتظام کرنے والے بن گئے جنہوں نے آٹو، سٹیل، اور بجلی کی صنعتوں میں نشو و نما پائی۔ انسداد غلامی کی تحریک کے بعد سے کسی بھی سفید قیادت رکھنے والے گروپ سے زیادہ، امریکی کمیونسٹوں نے نسلی عدم مساوات کے خاتمے کے لئے خود کو وقف کردیا۔ لیکن سٹالن کی قیادت کے لئے ان کی عقیدت نے اُنھیں اسکی متشدد آمریت کی حمایت پر مجبور کردیا۔
اس طرح کے نقطہ نظر پر اصرار کی وجہ سے جیسے ہی سرد جنگ شروع ہوئی تو اس نے بنیادی طور پر امریکی سیاسی زندگی میں پارٹی کی اہمیت ختم کرکے رکھ دی۔
عظیم کساد بازاری کے سات دہائیوں بعد، 2008 کے مالیاتی بحران اور اس کے نتیجے میں گہری کساد بازاری نے اصلاح پسندوں کو طبقاتی تقسیم سے متعلق شکایات کو عوامی بحث کا مرکز بنانے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا۔
2011 کے موسم خزاں کے آخرمیں، رائے عامہ کے اعدادوشمار نے ظاہر کیا کہ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد وال سٹریٹ پر قبضہ کی باغیانہ تحریک سے ہمدردی رکھتی تھی…یہ دراصل سڑکوں پر احتجاج اور دھرنوں کی وہ لہر تھی جو اسی سال ستمبر میں وال سٹریٹ کے قریب شروع ہوئی تھی۔ 1930 کی دہائی کے بعد پہلی بار، دولت کی عدم مساوات ایک بار پھرپُرجوش محرک اور ایک نظرانداز نہ کیے جاسکنے والا سیاسی مسئلہ بن گیا ۔
ماضی کی روایات کے برعکس، بہرحال یہ قبضہ مہم ایک مکمل تحریک کی شکل اختیار نہ کرسکی: احتجاج زیادہ دیر جاری نہیں رہا۔بہت سے نوجوان شرکاء کی ان خیالات کے لیے پسندیدگی کی وجہ سے جنہیں وہ ”افقی horizontalist“ خیالات کا نام دیتے تھے، انھوں نے اتفاق رائے کی بنیاد پر، بناء کسی لیڈر کے انقلاب کو فروغ دینے کا ارادہ کیا…جس سے ان کے احتجاج کو موثر بنانے میں مدد ملی۔
لیکن ان خیالات نے انھیں جلد ہی پولیس کے ساتھ لامتناہی اجلاسوں اور لڑائیوں میں پھنسادیا۔ شہری علاقوں کے پارکوں میں ڈیرہ ڈالے بہت سے احتجاجی شرکاء نے خاص حکمت عملی رکھنے والے خودمختار، اپنی ذات پر خود حکمران طبقات کے رومانوی تصور کو اُلجھادیا…ایسی حکمت عملی جو کارپوریٹ نظام کو کمزور بلکہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مزدور یونینز اور کچھ لبرل ڈیموکریٹس نے قابضین کی حوصلہ افزائی کی اور اُنھیں” 99فیصد“ لوگوں کی نمائندگی کرنے والے قرار دیا۔
لیکن موجودہ اداروں سے خوفزدہ اور اپنے کیمپوں کو قائم رکھنے کے متمنی ان نوجوان بنیاد پرستوں نے اس حمایت کو ایک وسیع تر اتحاد قائم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔
اصلاح پسند سے معمول کی زندگی کی طرف سفر
 مزدور تحریک کی تاریخ، بائیں بازو کے امریکیوں کی ناکامی نہیں تو کم ازکم کمزوریوں کی نشاندہی ضرور کرتی ہے۔ امریکی اصلاح پسندوں نے جو سب سے زیادہ اہم مقصدحاصل کیا… کم از کم روایتی عقل ودانش کے مطابق…وہ بڑی جماعتوں کو اس بات کے لیے ڈرانا یا دباؤ میں لانا تھا کہ وہ مزید انقلابی تبدیلیوں کی صلاحیت کو کمزور کرنے کے لئے معمولی اصلاحات کریں۔
کچھ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بڑے ترقی پسند اتحادوں، میں معمولی شراکت دار بن گئے، جن میں وہ اتحاد بھی شامل تھے جنہوں نے ،ووڈرو ولسن کی نیو فریڈم تحریک، فرینکلن روزویلٹ کی نیوڈیل تحریک، اور لنڈن جانسن کی گریٹ سوسائٹی تحریک کی حمایت کی۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں نے کامیاب بڑی تحریکوں کے لیے بہت بڑے پیمانے پر کام کیا، لیکن اس کا صلہ بہت کم پایا ہے، جس کی کچھ حد تک وجہ یہ خوف تھا کہ اگر انہوں نے اپنے حقیقی مقاصد کا اعلان کیا تو انھیں مسترد یا کچل دیا جائے گا۔
حتیٰ کہ امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ قابل احترام تحریکی رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر بھی جمہوری سوشلزم پر اپنے ذاتی یقین کے اظہار میں محتاط تھے۔اگرچہ انھوں نے محنت کش طبقے کے سفید فاموں اور سیاہ فاموں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان عظیم کوششوں کے باوجود ، امریکی انقلاب پسند اپنے حتمی مقاصد (جن میں بڑے پیمانے پر دولت کی ازسر نو تقسیم، پیداوار اور ریاست پر کارکنوں کا اختیار، اور مطلق نسلی اور صنفی مساوات بھی شامل ہیں) کے حصول میں ناکام رہے تھے۔
وہ بڑے پیمانے پر تحریک شروع کرنے یا اپنے مقاصد کے لئے وقف ایک سیاسی جماعت بنانے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے تھے۔
لیکن سیاست ہی معاشرے کو مخصوص شکل دینے والے طاقت کے عدم توازن میں تبدیلی کا واحد راستہ نہیں ہے۔ اگرچہ امریکی اصلاح پسند سیاسی عمل کے ذریعے بڑی تبدیلی پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں،مگر وہ امریکی ثقافت پر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے بالواسطہ طور پر ایسی تبدیلی کی حوصلہ افزائی میں قابل ذکر طور پر کامیاب رہے ہیں۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے، امریکی زندگی کی اب عام ،اگرچہ پھر بھی متنازعہ سمجھے جانے والی خصوصیات متعارف کروانے میں نمایاں رہے ہیں: ناول، فلمیں، اور نغمات کے بول جنھوں نے کاروبار مخالف اور عام لوگوں سے متعلق پیغامات کو آگے بڑھایا؛ خواتین، نسلی اقلیتوں، اور ہم جنس پرستوں کے لئے مساوی مواقع کا خیال؛ افزائش نسل کے عمل سے جُڑے بغیر جنسی لذت کی خوشی کا اظہار، اور ایسا تعلیمی نظام جو نسلی اور صنف کے اعتبار سے ظلم کے بارے میں حساس ہو اور اس تصور کو قبول کرے جسے اب ”ملٹی کلچرلزم“کہا جاتا ہے۔
برطانوی موٴرخ جے ایف سی ہیریسن نے 1969 میں لکھا تھا کہ،”ایک سماجی تحریک کا سب سے زیادہ پائیدار پہلو ہمیشہ اس کے ادارے نہیں ہوتے،بلکہ وہ ذہنی روئیے ہوتے ہیں جو اس تحریک کو متاثر کرتے ہیں اور جو اس کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔“
امریکی ثقافت پر انمٹ نقوش چھوڑنے والے اصلاح پسندوں کی فہرست طویل اور شاندار ہے۔ہیریٹ بیچر سٹو کا غلامی کی ہولناکیوں کو بے نقاب کرنے والا شاہکار ناول ”Uncle Tom's Cabin“ جو 1852میں شائع ہوا، اس نے انیسویں صدی کے امریکہ میں کسی بھی دوسرے ناول کی نسبت زیادہ فروخت کے ریکارڈ قائم کیے۔
1888 میں شائع ہونے والے مثالی ناول”Looking Backward“ کے مصنف ایڈورڈ بیلامی نے مسیحی سوشلسٹ اصولوں پر چلنے والی مستقبل کی قوم کا نقشہ کھینچا، اور اس کے ذریعے بے شمار قارئین کو مزدوروں کے حقوق اور نجی دولت پر پابندی کی حمایت پر اکسایا۔ ڈسٹ باؤل(ڈسٹ باؤل دراصل 1930کی دہائی کے اس دور کو کہتے ہیں جب امریکہ اور کینیڈا میں آنے والے ریت کے طوفان کے نتیجے میں بڑی تباہی آئی تھی اور اس سے متاثرہ علاقوں کے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے تھے) نقل مکانی کرنے والوں کے شاعر ووڈی گوتھرائی ،جنہوں نے باب ڈیلان سے لیکربروس سپرنگ سٹین تک بے شمار نغمہ نگاروں کو متاثر کیا، وہ کمیونسٹ پارٹی کے قریب تھے۔
اور مصنف ایلن گنزبرگ ، جو ہم جنس پرست تھے، انھوں نے1950کی دہائی میں اُس روایتی تنگ نظری سے آزادی کے اعلان کے لیے اپنی شاعری کا سہارا لیا جو اُن کے اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے خیال میں قوم کا گلا گھونٹ رہی تھی۔عوامی سطح پر اچھی طرح فروغ فحاشی کا مقدمہ جیت کر، گنزبرگ نے عدالتوں کو بھی آرٹ کے اخلاقی سرپرست کے طور پر اپنا کردار ختم کرنے پر قائل کرنے میں مدد دی۔
ایسے فنکاروں اور دانشوروں کے ثقافتی کارناموں نے امریکیوں کو بائیں بازوں کی جماعتوں اور تحریکوں کے سیاسی پروگراموں کی نسبت زیادہ راغب کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ مختلف طریقے اختیار کرنے والوں کے عزم کی سطح میں فرق ہے۔کسی اصلاح پسند جماعت یا تحریک میں شامل ہونے کی نسبت ، کسی اصلاح پسند پیغام کو دیکھنا، سُننا،پڑھنا یا گنگنانا اکثر زیادہ آسان اور باعث خوشی ہوتا ہے۔
آسکر وائلڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک بار شگفتہ انداز میں کہا تھا کہ بائیں بازو کے نظرئیات سے اپنی ہمدردی کے باوجود وہ سوشلزم کو پسند نہیں کریں گے کیونکہ اس کے لیے اُن کی کئی حسین شامیں لگ جائیں گی۔ ثقافت کو استعمال کرنا ، فعال سیاسی شرکت سے کم خطرناک ہے اوراس میں وقت بھی کم لگتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ، اس طرح ثقافت کا استعمال رویوں کو تبدیل کر سکتا ہے، اور نئے رویے نئے سیاسی حقائق کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
تنظیموں کے بغیر اتحاد
آج، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امریکیوں کو ایک مختلف قسم کے مخمصے کا سامنا ہے۔ اصلاح پسندوں نے جن تبدیلیوں کو لانے میں مدد کی ہے، امریکیوں کی اکثریت ان میں سے کچھ کو اپناتی ہے۔لیکن زیادہ تر امریکی اس بات سے لاعلم ہیں کہ کوئی اصلاح پسند تحریک اب بھی موجود ہے، خاص طور پر جب سے قبضہ کرنے کی باغیانہ تحریک کا خاتمہ ہوا ہے۔
سیاست سے متعلق بحث اس عدم موجودگی کو ظاہر کرتی ہے۔موجودہ عام زبان میں، ”بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں“ میں امریکی سینیٹ میں اعتدال پسند اکثریتی رہنما ہیری ریڈ سے لیکرمشہور زمانہ ماہر لسانیات اور حکومت دشمن نوم چومسکی (جو امریکی خارجہ پالیسی کے بے باک نقاد ہیں)تک سب شامل ہیں۔
2012 کے گیلپ سروے کے مطابق، تقریباً 40 فیصد امریکی سوشلزم کے بارے میں مثبت نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
تقریباً اُن لوگوں کی تعداد کے برابر جنہوں نے کہا کہ وہ صدر باراک اوباما کی کارکردگی کے بارے میں اچھا سوچتے تھے۔ لیکن یہ مماثلت شاید اس نظرئیہ کے مواد کی حقیقی تفہیم سے زیادہ کنزرویٹوز کے ان الزامات کی وجہ سے ہے کہ صدر کی پالیسیاں سوشلسٹ نظرئیہ پر مبنی ہیں۔اس کا یہ معنی نہیں کہ ایک سیاست دان جو معیشت کی اجتماعی ملکیت اور انتظام کے حق میں ہے، وہ جلد ہی کسی وقت قومی دفتر پر چڑھائی کردے گا۔
برنی سینڈرز، جو ورمونٹ سے ایک آزاد سینیٹر ہیں، کبھی کبھار خود کو ایک جمہوری سوشلسٹ کہتے ہیں۔ لیکن وہ جو موقف اختیار کرتے ہیں وہ بہت زیادہ حد تک ایک لبرل ڈیموکریٹ کے جیسا ہوتا ہے، اور وہ ہیری ریڈ کی پارٹی کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔
 ایک مربوط تحریک کی عدم موجودگی کے باوجود، بائیں بازو کے خیالات کو پیروی کرنے والے مل رہے ہیں۔اس کی سب سے اہم مثال اقتصادی عدم مساوات پر عدم اطمینان کا بڑھنا ہے۔
امریکہ میں سیاسی کامیابی کے لیے دولت بہت کم رکاوٹ رہی ہے، کم ازکم ان اوقات میں جب زیادہ تر امریکی خود کو نسبتاً محفوظ محسوس کرتے تھے۔ہربرٹ ہوور، نیلسن راکفیلر، اور مائیکل بلوم برگ کے انتخابات… سب اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔ پھر 2012 میں، اوباما نے، بڑے کاروبار اور امیر کے غیراخلاقی نمونے کے خلاف محنتی اکثریت کے مفادات اور اقدار کا دفاع کرنے کا وعدہ کرکے دوسری مدت صدارت کے لیے فتح حاصل کی۔
اور اوباما کے اشتہارات میں اُن کے مخالف مٹ رومنی پر عام کارکنوں کو ملازمتوں سے فارغ کرکے منافع کمانے کا الزام لگایا گیا۔
جسے طبقاتی تقسیم سے متعلق ایک نرم شعور بھی کہا جاسکتا ہے،اس کا اظہار بھی2013 کے خوب تشہیر کردہ انتخابات میں کیا گیا۔بل ڈی بلاسیو نے اس عدم مساوات کے مسئلہ کو حل کرنے کا وعدہ کرکے، جس نے”بگ ایپل“ کو ”دو شہروں کی داستان“ میں تبدیل کردیا تھا،بھاری اکثریت سے نیویارک کے مئیر کا عہدہ جیت لیا۔
بوسٹن اور سیٹل میں ووٹرز نے نئے چیف ایگزیکٹو منتخب کیے ، جنھوں نے اسی مشن کا اعلان کیا۔ چند ماہ بعد، فرانسیسی ماہر اقتصادیات تھامس پکیتی کی ایک کتاب”Capital in the Twenty-first Century“ کی قابل ذکر مقبولیت نے، عدم مساوات کے بارے میں بڑھتی ہوئی مقبول تشویش کو نمایاں کیا۔
لیکن اس تشویش نے، جو اگرچہ بڑے پیمانے پر پھیلی تھی، ازخودکوئی حل برآمد نہیں کیا۔
سنہرے دور کے دوران، نہ توہنری جارج کے کام کے لئے بڑی تعریف نے …نہ اپنے دن پر پکیتی نے… اور نہ ہی ہڑتالی کارکنوں کے غصے اور متوسط طبقے کی ہمدردی نے، بلکہ عام شہری باشندوں کی زندگی بہتر بنانے کے لئے پروگریسوز نے بہت کچھ کیا۔امریکہ میں ایک محدود فلاحی ریاست بنانے کے لیے ایک طاقتور صنعتی مزدور تحریک کی ضرورت پڑی، جسے،1930اور 1940کی دہائیوں میں،کمیونسٹ ،سوشلسٹ، اور ان کے ساتھ ساتھ کچھ لبرل ڈیموکریٹس نے منظم کیا تھا۔
اداروں…یعنی یونینوں اور پارٹیوں… دونوں نے ہی فرق پیدا کیا۔
آج امریکہ میں زیادہ تر یونینوں کے زوال اور سیاسی طور پر کمزوری نے عدم مساوات پر لوگوں کی بڑی تعداد کی بے چینی کو اہم تبدیلی کی شکل دینا مشکل بنادیا ہے۔ مسئلہ خیالات کی کمی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس… مختلف ماہرین نے، ایک زیادہ پروگریسو ٹیکس نظام، سیاسی مہمات پر کارپوریٹ عطیات کو سختی سے روکنے، کم سے کم اُجرت میں بہت نمایاں اضافے،غیرقانونی تارکین وطن کے لیے قانونی راستہ،اور کسی یونین سے منسلک ہونے کے حق کو ازسرنو ترتیب دینے، گویا اسے سماجی حق بنادیا جائے(جو یونین بنانے والے کارکنوں کو سزا دینے سے آجروں کو روکے)،جیسے مطالبات پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔
زیادہ تریونینوں کے عہدیدار اس طرح کی اصلاحات کی حمایت کرتے ہیں،اور ان کے لیے لابی کرنے کے لیے وہ جو کرسکیں کرتے ہیں۔لیکن مزدوروں اور ان کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے پاس پیسہ ہے اور نہ ہی ایسی اقتصادی مراعات جن کے ذریعے وہ امریکی چیمبر آف کامرس اور نمایاں روایت پسند سیاسی عطیہ دہندگان میں شامل اپنے مخالفین کے خلاف جوابی کارروائی کرسکیں۔
یونینوں کی کمزوری ایک اور وجہ سے بھی اہمیت رکھتی ہے: مزدور تحریک کبھی سیاسی تعلیم کا ایک اہم ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ 1930 کی دہائی کی ورکنگ کلاس تحریک کو منظم کرنے میں ایک خاص کردار ان مردوں اور عورتوں کا تھاجنہوں نے بروک ووڈ لیبر کالج نیویارک، اور ہائی لینڈر فولک سکول ٹینیسی جیسے اداروں سے تاریخ، معاشیات اور انتظامی امورکی تعلیم حاصل کی تھی۔
1950 اور 1960کی دہائیوں میں، والٹر روتھر (جماعتی وابستگی نہ رکھنے والے سوشلسٹ رہنما) کی قیادت میں،یونائٹڈ آٹو موبائل ورکرز نے اپنے مقامی حکام کی تربیت کے لئے ان اور دوسرے مضامین سے متعلق جامع پروگرام شروع کیا۔ یہ روایت اب بھی ”ورکنگ امریکہ“ میں تھوڑی بہت جاری ہے، جو ملک کی سب سے بڑی فیڈریشن، AFL-CIO کے ساتھ منسلک ایک گروپ ہے۔یہ تنظیم اپنے تین ملین ارکان کو مزدور دوست اقتصادی ایجنڈے میں تربیت دیتی ہے اور پھر انہیں ان سیاستدانوں کے لیے مہم چلانے کیلئے منظم کرتی ہے جو اس کی حمایت کرتے ہیں۔
صحافی ہیرالڈ میرسن لکھتے ہیں کہ، یونینوں سے تعلق رکھنے والے سفید مرد اور عورتیں اپنے جیسے اُن سفید مرد اور عورتوں کی نسبت جو یونینوں سے وابستہ نہیں ہیں،مختلف مسائل کے حوالے سے ترقی پسند خیالات اور ڈیموکریٹس کے لئے ووٹ ڈالنے کی زیادہ حمایت کرتے ہیں۔ یہ بات 2010میں بھی سچ تھی، جب معیشت کی بُری حالت نے ریپبلکنز کو امریکی ایوان نمائندگان پر قبضہ میں مدد کی تھی۔
اس سال، وہ سفید فام ووٹرز جن کے پاس کالج کی ڈگری تو نہ تھی لیکن وہ یا تو ایک یونین سے تعلق رکھتے تھے یا ان کے گھر کا کوئی فرد یونین کا رکن تھا…وہ ”ڈیموکریٹک پارٹی“ کو ووٹ ڈالنے کی طرف 24فیصدزیادہ مائل تھے ،بہ نسبت اُن سفید فام ووٹروں کے جن کا یونین سے تعلق نہیں تھا۔ (بے شک زیادہ تر افریقی نژاد امریکی، رنگ دار نسلوں سے تعلق رکھنے والے، اور ایشیائی امریکی پہلے ہی لبرل پارٹی کی زیادہ حمایت کررہے تھے۔
محنت برائے مساوات
بالفرض اگرمنظم مزدوروں کو معمولی بحالی حاصل ہوئی ہے تب بھی، عام امریکیوں کو ایسے اداروں کی ضرورت ہوگی جو ان کے اقتصادی عدم اطمینان کے بارے میں بات کرسکیں اور ان کی بڑھتی مایوسی اور وحشت کے لئے موثر متبادل پیش کر سکیں۔ LGBT تحریک کی متاثر کن کامیابیاں محض ایسے اداروں ہی کی وجہ سے پروان چڑھی تھیں۔ مساوات فیڈریشن، شادی کرنے کی آزادی، اور انسانی حقوق کی مہم جیسے گروپوں نے اپنے مقاصد کے دفاع کے لیے کافی سرمایہ اکٹھا کیا اور اپنے مطالبات کو عدالتوں اور ریاستی اسمبلیوں میں آگے بڑھانے کے لئے وکلاء کے متاثر کن نیٹ ورک تشکیل دئیے۔
سرگرم کارکنوں نے ایک اخلاقی کیس بھی تیار کیا، ویسا ہی جیسا کہ ”بلیک فریڈم موومنٹ(سیاہ فاموں کی تحریک آزادی)“ نے تیار کیا تھا…اور اسے کچھ ایسا عنوان دیا گیا کہ،اقلیتوں کے لیے مکمل شہری مساوات کا پھیلاؤامریکہ کو سب کے لیے ایک آزاد اور مہربان معاشرہ بنادے گا۔
ان کارکنوں کے کام کی وجہ سے، ہم جنس پرست کے طور پر شناخت امریکہ میں ایک غیرمتنازعہ سماجی حقیقت بننے کے راستے پر گامزن ہے۔
اس بات کے درست اعتراف کے لیے کہ LGBT گروپوں نے کس قدر پیش رفت کی ہے… اورمزدور یونینز کس حد تک اس کامیابی کے نزدیک پہنچ پائی ہیں…ہمیں”میری کے ہنری“ اور ”رینڈی وین گارٹن“ کے معاملات پر غور کرنا چاہیے، یہ دونوں ملک کی سب سے بڑی دو یونینوں کی موجودہ صدر ہیں۔ میری کے ہنری، سروس امپلائز انٹرنیشنل یونین کی سربراہ ہیں، جس کے 2.5 ملین اراکین ہیں۔
جبکہ وین گارٹن امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز کی سربراہ ہیں، جو 1.5 ملین اساتذہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ دونوں خواتین ہم جنس پرست عورتوں کے طور پربھی آزادانہ رہ رہی ہیں،اور وہ طویل عرصہ سے یونین کے معاہدوں میں ایک ہی جنس میں شادی اور غیر امتیازی شقوں کی ترجمانی کررہی ہیں۔
اُن کی لیبر یونینز ملک کی سب سے زیادہ متنازعہ یونینز میں شامل ہیں۔
ناقدین مریم کے ہنری کی تنظیم پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ووٹرز کو فراڈ پر اکسانے میں ملوث ہے اور اس میں شامل نہ ہونے والے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔وین گارٹن فیڈریشن کے مخالفین اس پر یہ الزام لگا کر اسکی مذمت کرتے ہیں کہ یہ تنظیم مبینہ طور پر نااہل اساتذہ کو تحفظ فراہم کرتی ہے اوروالدین کو یونین نہ رکھنے والے سکولوں کے قیام سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان یونینز کے سخت ترین مخالف بھی شاذو نادر ہی ان یونینز کی سربراہ خواتین کے جنسی رجحان کا ذکر کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جو امریکی بائیں بازو کے نظرئیات کے پھیلاؤ کو ناپسند کرتے ہیں،وہ دوسرے، زیادہ فتح یاب مقاصد کی طرف،آگے یا شاید واپس چلے گئے ہیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط