Episode 5 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 5 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

صبح میری آنکھ کھلی تو ابھی اندھیرا تھا۔ میں کچھ دیر بیڈ پر کسمساتا رہا‘ پھر اٹھ کر باتھ روم میں گھس گیا۔ میں فریش ہو کر یہ سوچ ہی رہاتھا کہ کچن تک جاؤں اور چائے بنا کرپئیوں۔ اتنے میں دلجیت کور اندر آئی ‘ اس کے ہاتھ میں جوس کاگلاس تھا‘ جبکہ دوسرا وہ خود پی رہی تھی۔ اس نے وہ جوس کا گلاس میری جانب بڑھادیا تو میں نے پوچھا۔
”تجھے کیسے معلوم کہ اس وقت مجھے کچھ پینے کی طلب ہو رہی تھی۔
“ یہ کہہ کر میں نے گلاس تھام لیا۔
”صبح اٹھنے کے بعد ہر بندے کوبھوک لگتی ہے۔ یہ فطری سی بات ہے۔ انار کا جوس ہے پی لو۔“ اس نے کہااور صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس وقت بھی وہ انتہائی مختصر لباس پہنے ہوئے تھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”اور تجھے معلوم ہوگیا کہ میں اٹھ گیا ہوں؟“
”یہ عمارت میرے کنٹرول میں ہے‘ یہاں جو ہوتا ہے‘ مجھے معلوم ہوتا ہے‘ خیر۔

(جاری ہے)

! تم یہ جوس انجوائے کرکے ڈرائنگ روم میں آؤ۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھ گئی‘ میں ہلکے ہلکے سپ لیتا ہوا کھڑکی میں آن کھڑا ہوا‘ باہر صبح کی سپیدی نمودار ہو رہی تھی۔ میں نے بڑے سکون سے جوس ختم کرکے گلاس سائیڈ ٹیبل پررکھااور ڈرائنگ روم کی طرف چل دیا۔ دلجیت کور گیروں رنگ کے شلوار قمیص میں کھڑی تھی۔ سر پردوپٹہ تھا‘ وہ مجھے اشارہ کرکے سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔
میں اس کے پیچھے لپکا‘ وہ ایک ہال نما کمرے میں داخل ہوئی۔ سامنے ہی ایک سکھ گیانی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے چند نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بیٹھے ہوئے تھے۔ لڑکے ایک طرف جبکہ لڑکیاں دوسری جانب۔ میں بھی لڑکوں کی طرف بیٹھ گیا۔ وہ تقریر کررہاتھا کہ ایک دم خاموش ہوگیا۔ میری جانب اس نے گہری نگاہوں سے دیکھا‘ پھر بولتا چلا گیا۔
”برصغیر کی تاریخ کیا ہے؟ لیکن ذرا ٹھہریے۔
کیا واقعی ہم اسے تاریخ کہہ سکتے ہیں؟ یا پھر برصغیر کے حکمرانوں ‘ سیاست دانوں‘ اور سورماؤں کے منہ پر پوتی ہوئی کالک۔ کسی مذہب یا مت کی اس میں تخصیص نہیں‘ ہر ایک نے دوسرے کی عبادت گاہوں کو گرایا۔ مسمار کیا‘ ملیامیٹ کرکے اپنی فتح کا اعلان کیا‘ کیا ثابت کرنے کے لیے؟کیابرصغیر کی مٹی ہی ایسی ہے؟دوسرے مذہب کی عبادت گاہوں کومسمار کرنے کاموقع نہیں ملا تو اپنے ہی مذہب کے ان لوگوں پر‘ جو کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے کے نظریہ سے اختلاف رکھتے ہیں‘ محاذ آرائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔
گلے کاٹے‘ لہوبہایااور زندہ آگ میں جلادیا گیا۔ انسان ،جو اس دھرتی پرچلتا ہے‘ اسی دھرتی پر پیدا ہوا ۔ کیا اس دھرتی کی مٹی اس قدر ظالم اور لہو کی پیاسی ہے کہ اسکی پیاس بجھتی ہی نہیں۔ مہابھارت سے لے کر عظیم ہجرت1947ء تک ،پھر سانحہ1984ء تک اورپھر آج تک، اس دھرتی نے کتنا لہوپیا؟سوال یہ ہے کہ دھرتی پیاسی ہے یااس دھرتی پرپیدا ہونے والے انسان کی سوچ میں لہو بہانے کی پیاس ہے؟
1947ء میں برصغیر میں لکیر کھینچ دی۔
بے حساب انسانی خون بہا‘ ان دنوں بارشیں‘ اور سیلاب آنے کی وجہ سمجھ میں آئی؟ بلکہ اب بھی سمجھ میں نہیں آتی۔وہ دھرتی کے ماتھے پر کالک کو صاف کرنے کے لیے تھایا لہوبہانے والے ذہنوں پر سے۔ لگتاتھا کہ شاید اب اس دھرتی کے لوگ سنبھل جائیں گے… اتنا لہو…لیکن نہیں‘ لہو پھر بھی بہا‘ لکیر کے اس پار بھی اور لکیر کے اس پار بھی اور اب تک بہہ رہا ہے۔
آسمان حیران ہے‘ دھرتی پریشان ہے‘ یہ سب مذہب کے نام پر ہو رہا ہے؟ وہ سارے مذہب، جو امن‘ آشتی‘ اور بھائی چارے کے علمبردار ہیں۔ کیا مذہبی وچار نہیں سمجھے گئے یا پھر ہم ان اخلاقی ضابطہ حیات کو سمجھنے میں غلطی کررہے ہیں؟ بہتا ہوا لہو… اب بھی یہ سوال کررہا ہے۔یہ دھرتی لہو کی پیاسی ہے یااس دھرتی پر پیدا ہونے والے انسان؟سوال یہ ہے کہ اس سوال کا جواب ہم کس سے لیں۔
کیونکہ سب ہی اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں۔ کوئی بھی خود کو ناحق نہیں سمجھتا۔ سبھی کے پاس دلائل کے انبار ہیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ سبھی‘ اپنے اپنے مذہب سے دلائل لیتے ہیں‘ جو قوم بہکتی ہے وہی لہو کا خراج دیتی ہے۔ یہ تاریخ ہے۔ کیاہم سارے مل کر یہ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ لہو صرف اور صرف منافقت سے بہتا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن منافق ہے… چانکیہ کاپیروکار کون ہے؟ کون سازش کرنے کی تعلیم دیتا ہے؟ کون سا مذہب یا مت منافقت کی باقاعدہ تربیت دیتا ہے؟ جب یہ پہچان لیا جائے تو لہوبہانے والے کی سوچ بھی واضح ہوجائے گی۔
منافق ،اندر سے کچھ اور ہوتا ہے اور باہر سے کچھ اور… وہ اپنوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور دشمن کو بھی یہی شیطانیت ہے… اور ہمیں اس کے خلاف ہی لڑنا ہے… یہاں معاملہ مذہب اور مت کانہیں رہ جاتا… بلکہ انسانیت کا ہے۔ انسان ،جو سچے رب کی سوہنی تخلیق ہے۔“
گیانی کہہ چکا تو چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگیا۔ پھر کچھ دیر سکھ مت کے مطابق بات کرکے اٹھ گیا۔
ناشتے کی میز پر سبھی تھے۔ بالکل خاموش‘ ایک دوسرے سے اجنبی ‘میں نے ایک نظر سب کودیکھا‘ وہ نوجوان لڑکے لڑکیاں تھے جو کچھ دیر پہلے گیانی کی بات سن رہے تھے۔ ناشتہ ختم کرتے ہی دلجیت کور نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”آپ سب لوگ صحافیوں کے روپ میں شہر میں پھیل جائیں گے ۔ پورا امکان ہے کہ شہر میں جلوس نکلے گا‘ احتجاج ہوگا‘ممکن ہے توڑ پھوڑ بھی ہو‘ آپ نے کرنا یہ ہے کہ احتجاجی جلوس نکالنے والے‘ جو چند لوگ ہوتے ہیں‘ان کی تصاویر‘ اور ویڈیو بنانی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو عوام کو حرکت میں لائے ہیں۔“
”ظاہر ہے ان میں پولیس کے علاوہ خفیہ کے لوگ بھی ہوں گے۔ وہ بھی توٹریپ کرنے کے چکر میں ہوں گے۔“ ان میں موجود ایک لڑکے نے کہا جو کافی صحت مند تھا۔
”ہوسکتا ہے وہ خفیہ والے ہی جلوس نکلوائیں۔ یہی تو دیکھنا ہے‘ اور میرے خیال میں ہر صحافی کو چیک نہیں کیا جائے گا کہ وہ آپ لوگوں کو ٹریپ کرلیں۔
کیونکہ آپ لوگوں کاابھی تک کوئی ریکارڈ کہیں پر نہیں ہے۔ “یہ کہہ کر اس نے سب کی جانب دیکھا اور پوچھا۔ ”کوئی سوال ؟“ دل کے پوچھنے پر کسی نے کوئی بات نہیں کی تو اس نے سب کوجانے کااشارہ کیا۔ وہ سب جاچکے تو میری طرف دیکھ کر بولی۔ ”آؤ، تمہیں جالندھر شہر کی سیر کرواکرلاؤں۔“
”چلو۔“ میں نے کاندھے اُچکاتے ہوئے کہااوراس کے ساتھ اُٹھ گیا۔
ہم پورچ میں آئے تو ایک سفید رنگ کی کار وہاں کھڑی تھی۔ بلاشبہ رات والی کار کہیں ٹھکانے لگادی گئی ہوگی۔ ہم اس کار میں بیٹھے اور چل دیئے۔ ڈرائیونگ دلجیت ہی کررہی تھی۔ مین سڑک پر آکر بولی۔
”جمال۔! رات سے فقط پولیس ہی نہیں‘ خفیہ والے پوری شدت سے قاتل کو تلاش کررہے ہیں۔ انہوں نے کئی جگہوں پر چھاپہ مارا ہے۔ اس سے ایک آئیڈیا ہوگیا ہے کہ ان کے دشمن کون ہوسکتے ہیں۔
رات بھر سے مدن لعل خود سب کی کارروائی دیکھ رہا ہے۔ اس کے اپنے بندے بھی پھیل چکے ہیں۔“
”تو سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔“ میں نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔
”وہ تو ہے لیکن اس ہائی الرٹ میں ہم نے ایک بندہ پار کرنا ہے جو اس وقت پارک میں جاگنگ کررہا ہے۔“
”کون ہے وہ؟“ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔“
”مدن لعل کا سیاسی حریف سردار نہال سنگھ۔
اب یہ مت کہنا کہ وہ بے چارہ کیوں مارا جائے گا۔ وہ بے چارہ نہیں ہے‘ یہ سکھ قوم کا وہ ناسور ہے جس نے سکھوں کی جوان نسل کو مروایا۔“ آخری لفظ کہتے ہوئے ا س کے لہجے میں نفرت در آئی تھی۔ میں خاموش رہا۔ اس وقت مجھے عجیب سا محسوس ہو اتھا کہ میں ایسے بندے کو کیوں ماروں جس کامجھ سے براہ راست کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میں یہی سوچ رہاتھا کہ وہ بولی۔
”اور پتہ ہے‘ یہ وہ بندہ ہے جو پاکستانی پنجاب میں ”را“کی دہشت گرد کارروائیوں میں صلاح کار ہے‘ جولوگ پلاننگ کرتے ہیں‘ یہ ان میں سے ایک ہے۔“
”پھر تو اسے اغوا کرکے…“ میں نے کہنا چاہا تووہ بولی۔
”ایسا بھی ہوگا‘ آگ لگ جائے تو جنگل کے بندر اپنے ٹھکانے چھوڑتے ہیں۔ ان میں طرح طرح کے جانور ہوتے ہیں۔ میں بتاؤں گی کہ وہ کون ہے‘ جسے اغوا کرکے تم اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہو‘ لیکن ابھی وہ چھپا ہوا ہے‘ میں بعد میں بتاتی ہوں تفصیل سے۔
”اوکے۔! “ میں نے کہااور اردگرد دیکھنے لگا۔ اس وقت گاڑی شہر کے طویل پل پر سے گزر رہی تھی۔ کافی جدید روپ لے لیا تھا جالندھر شہر نے۔ میں نے اپنا پسٹل دیکھا‘ میگزین نکال کر پھر لگایااور سامنے دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ لڑکیوں کے کالج کے سامنے سے گزری اور پھر آگے ایک پارک آگیا۔
”وہ دیکھو سامنے سفید رنگ کی ماروتی، وہ چھوٹی گاڑی‘ جس کے ساتھ سیاہ گاڑی کھڑی ہے۔
”ہاں۔! اس میں ایک گارڈ بھی بیٹھا ہوا ہے۔“ میں نے غو رسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ایک گارڈ اس کے ساتھ بھی ہے‘ جیسے ہی پارک کے گیٹ سے باہر نکلنے والا ہوگا، اسے شوٹ کر دینا ہے۔ ہم یہاں باہر ہیں،اس طرح ہمیں یہاں سے نکلنے میں آسانی ہوگی۔“ اس نے پلان بتایا۔میں گیٹ کی طرف دیکھنے لگا۔دلجیت نے اپنی ریسٹ واچ دیکھی اور قدرے بے چین ہوگئی پھر اچانک بولی۔
”وہ دیکھو‘ سبز اور نیلے رنگ کے ٹریک سوٹ میں‘ جس نے سیاہ پگڑی پہنی ہوئی ہے۔“
وہ تیزی سے آرہا تھا‘ میں نے اس کانشانہ لیا اور فائر کردیا۔ گولی اس کے سینے پر لگی تھی۔وہ وہیں سینہ پکڑکر بیٹھ گیا۔ تب تک دلجیت کار کو گیئر لگا چکی تھی اور پھر انتہائی تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتی ہوئی لمحہ بہ لمحہ دور ہوتی چلی گئی۔
 کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد اس نے کار ایک شاپنگ سینٹر کے سامنے روکی اور مجھے اترنے کا کہہ کر ایک دوسری گاڑی کی جانب بڑھی‘ جس میں پہلے ہی دو لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں‘ یہ وہی تھیں جنہیں میں نے ناشتے کی میز پر دیکھا تھا۔
واپسی پر بنگلہ دور تھا‘ یا دلجیت ہی کسی لمبے راستے سے لے کر آئی تھی‘ واپس آتے ہوئے کافی وقت لگ گیا۔
اس وقت میں اور دلجیت ایک چھوٹے سے کمرے میں تھے۔ اس کے سامنے ایک لیپ ٹاپ تھا۔ دلجیت تصویریں نکال کر دیکھتی رہی‘ پھر ایک بلیک اینڈ وہائٹ تصویر کی طرف اشارہ کرکے بولی۔
”پہچانو۔! ان میں وہ بندہ کون ہے‘ جسے ابھی شوٹ کیا ہے؟“
میں غور سے دیکھتا رہا‘ پھر ایک بندے پرانگلی رکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے تو یہ لگتا ہے۔“
”بالکل‘ یہی ہے‘ اور یہ چھ بندے بیٹھے ہوئے ہیں ان میں سے تین ختم ہوگئے ہیں اور چوتھا آج ختم ہوگیا ہے۔ باقی دو رہ گئے ہیں جو یہاں نہیں رہتے‘ ان میں سے ایک…یہ والا…رویندر سنگھ ہے‘ تمہارے دوست جسپال کا دشمن۔ان دونوں کی تازہ تصویریں بھی دکھاتی ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے یکے بعد دیگرے دو تصویریں دکھائیں۔
ان میں وہ بوڑھے تھے۔”یہ ہیں وہ دونوں#…“
”ان سب کا آپس میں کیا تعلق ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”یہ سارے ”را “کے لیے کام کرتے ہیں اور یہ مغربی پنجاب میں کارروائیاں کروانے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی جگہ اب مدن لعل گروپ لے رہاتھا۔ اب ان دونوں گروپس کی آپس میں لگ جائے گی اور یہ رویندر سنگھ کے لیے ایک اشارہ ہے کہ جسپال نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ جسپال کا کام نہیں انہی کا کام ہے۔
”تم جسپال کے بارے میں جانتی ہو؟“ میں نے تشویش سے پوچھا۔
”سب کچھ‘ وہ جب بھارت آیاہے‘ تب سے اس پرنگاہ ہے‘ اب اس سے بہت سارا کام لینا ہے۔“
”کیسا کام؟“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”یہ تو اوپر والے ہی جانیں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا‘پھر تحمل سے بولی۔ ”ابھی صرف اس کو بچانا ہے‘ بعد کی پلاننگ کیا ہے وہ ابھی طے نہیں ہے۔
اس کالہجہ عام ساتھا۔ مگر میں سوچ میں پڑگیا کہ یہ کون لوگ ہیں اور جسپال کے بارے میں اتنی گہرائی سے جاننے والی یہ کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ یہ لوگ تو جسپال کو بلیک میل بھی کرسکتے ہیں۔ یہ کہیں آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکنے والی بات تو نہیں ہوگئی؟ تاہم اگلے ہی لمحے میری نگاہوں میں مہرخدابخش کاچہرہ گھوم گیا ‘وہ جو وسوسہ میرے دماغ میں آیا تھا‘ ایک دم سے ختم ہوکررہ گیا۔
”دلجیت‘میں نہیں جانتا کہ تم اس گروہ میں کیا اہمیت رکھتی ہو‘ اور کن لوگوں سے تمہارا تعلق ہے لیکن میں…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ میری بات کاٹ کر بولی۔
”غلط مت سوچو،میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ ایک معمولی سی کارکن ہوں‘ مجھے یہ ساری معلومات دی گئی ہیں اور وہ بھی فقط جالندھر کی حد تک۔ یہاں کام مکمل ہوتے ہی ممکن ہیں ہم دوبارہ نہ مل پائیں۔
اس لیے جو بھی ٹاسک دیاجاتا ہے‘ اسے مکمل کرنا ہے‘ باقی فقط چار دن رہتے ہیں۔“
”ان میں کیا کرنا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”یہ آج شام پتہ چلے گا۔ اس وقت کے لیے تم آرام کرسکتے ہو‘ یا پھر چاہو تو میرے ساتھ وقت گزار سکتے ہو کہ تم مجھے جیت چکے ہو۔“ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگادیا۔ میں نے اس پر توجہ نہیں دی اور اس کے پاس سے اٹھنے لگا تووہ بولی۔
”ابھی کچھ دیربیٹھو‘ میں تمہیں کچھ سمجھانا چاہتی ہوں‘ لیکن چلو پہلے کچھ کھاپی لیں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے دیوار کے ساتھ لگابٹن دبایا پھر لیپ ٹاپ پر دیکھتے ہوئے بولی۔ ”کیالوگے…“
”جو بھی۔“ میں نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرادی اور بولی۔
”کاش میں تیرے ساتھ بہت سارا وقت گزار سکتی۔“ اس کے یوں کہنے پر میں مسکرادیا۔
                                …###…

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط