Episode 73 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 73 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” یہ تو ہے ۔“ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا
” زندگی سدا سے تھی اور سدا رہے گی۔ لیکن تمہیں اس کا احساس اس لئے نہیں ہے کہ یہ حقیقت تم سے اوجھل ہے۔ تم خود اعتراف کر رہے ہو کہ تم نے اس بارے کبھی سوچا ہی نہیں۔“
”بالکل ،مجھے بتایا ہی نہیں کسی نے۔“ میں نے اعتراف کر لیا تو وہ دھیمے سے لہجے میں بولے
” اگرمیں تمہیں بتاؤں کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے؟ تو باتیں دو ہی ہو گیں۔
ایک بات تو یہ ہوگی کہ تم میری بات مان جاؤ گے اور دوسری یہ کہ نہیں مانو گے۔ ماننے اور نہ ماننے کی آخر کوئی نہ کوئی تو وجہ ہوگی نا۔“ اس نے میری طرف دیکھ کر اپنی بات کی تائید چاہی۔
” جی بالکل ، ایسا ہی ہے ، ویسے یہ وجہ ہے کیا؟“میں نے گہری سانس لے کر کہا تو وہ بولے
”کسی بات کو ماننے اور نہ ماننے کا معیار انسان کے اندر لاشعوری طوربنتا چلا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس کے اندر معیار بنتا چلا جارہا ہے ۔ ظاہر ہے اس کی توجہ باہر کی دنیا میں ہے۔وہ باہر دیکھ رہا ہے ۔ باہر ہی کے حالات اس کا معیار بناتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے اندر کیا کچھ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔وہ اپنے اندر جھانکتا ہی نہیں کہ وہ معیار ،جس پر اس نے فیصلے کرنے ہیں ، وہ درست بھی ہیں یا نہیں؟“
” مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میرے اندر جو معیار ہیں وہ درست ہیں یا غلط؟“ میں نے پوچھا
” ہاں۔
! یہی تو بات ہے کہ ہم سوچیں، اپنے اندر جھانک کر دیکھیں کہ جوکچھ میرے اندر ہے، وہ کیا ہے ۔ میں اپنے اندر کیاکچھ لئے پھرتا ہوں ؟“یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لئے خاموش ہوئے ،پھر کہتے چلے گئے۔” جمال ،یہ ساری باتیں تو بعد کی ہیں، پہلے کی بات تو یہ ہے کہ زندگی کہاں سے آئی؟ زندگی کو دیکھتا کون ہے ؟کیسے پتہ چلتا ہے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ؟“
” ظاہر ہے ، زندگی کو زندہ لوگ ہی دیکھتے ہیں۔
“ میں نے تیزی سے کہا تو وہ دھیرے سے مسکرا دئیے اور بولے
” بالکل۔ زندگی کو زندہ لوگ ہی دیکھیں گے اور وہ سمجھیں گے کہ اصل میں زندگی ہے کیا۔ اسی طرح زندہ ہی یہ دیکھ پاتے ہیں کہ مردہ کون ہے؟ مثال کے طور پر سامنے اگر ایک لاش پڑی ہے ۔ اس میں سب علامتیں وہی ہیں، جو زندہ کی ہوتی ہیں، ایک روح ہی نہیں ہوتی ، جو بذات خود دکھائی نہیں دیتی۔
کیا کوئی مردہ آ کر گواہی دے گا کہ یہ مرا ہوا یا زندہ بتائے گا کہ یہ اب محض جسد خاکی ہے ، یہ زندہ نہیں۔ “
” ہاں یہ بات تو سمجھ میں آگئی، اصل میں آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔“ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا
”میں کہنا یہ چاہتا ہوں ، جب باہر کی دنیا بارے ہم کوئی بھی فیصلہ اپنے اندر پڑے معیار سے کرتے ہیں، تو کیا ہمیں یہ نہیں چاہیے کہ ہم اس معیار کو پر کھ لیں کہ وہ کیسا ہے؟ درست بھی ہے یا غلط؟“ اس نے سنجیدگی سے کہا تو میں بولا
”وہی تو میں پوچھ رہا ہوں کیسے، کیسے پرکھیں؟“ میں نے پوچھا تو گویاہوا
” ظاہر ہے اس کے لئے بھی ہمیں کوئی نہ کوئی معیار ، کوئی کسوٹی تو لینا ہوگی۔
جس سے ہم اپنے اندر کو پرکھ سکیں۔ کسی بھی چیز بارے ہم فیصلہ کر سکیں کہ وہ ہمارے لئے درست ہے یا غلط۔“یہ کہہ کو وہ ایک لمحہ کو رکے ، پھر بولے،” یہ بات اپنی جگہ، لیکن اس سے پہلے ہم یہ غور نہ کر لیں کہ انسان کے اندر وہ کون سی چیز ہے ، جس کی وجہ سے یہ ساری کشمکش ہے ؟“ 
” میرے خیال میں تو وہ روح ہے، جو انسان میں موجود ہے تو وہ زندہ ہے ، اس میں کشمکش ہے ، یہ ہنگامے ہیں، وہ دیکھ اور بول سکتا ہے۔
“ میں نے جوش سے کہا
” رُوح…! چلو ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ اس میں روح ہے، لیکن اس میں کوئی کشمکش نہیں ہے، وہ دیکھ اور بول بھی نہیں سکتا۔ اور پھر ہم روح کی بات کیوں کریں جسے ہم نے دیکھا نہیں ۔ جس پر ہم بات نہیں کر سکتے ، وہ کیسی ہے ۔ ہم تو اس پر بات کرتے ہیں ،جو دکھائی دیتی ہے ۔“ وہ بولے تو میں نے کہا
 ” روح کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔
روح جب نہیں ہوتی تو وہ ختم ہو جاتا ہے ۔“
” اگر میں یہ کہوں کہ روح کے بغیر بھی انسان زندہ رہتا ہے تو کیا تم مان لو گے۔ وہ بھی جسمانی لحاظ سے ، میں کوئی روحانی بات نہیں کر رہا ہوں۔“
” وہ کیسے ؟“ میں نے حیرت سے پوچھا
” دیکھو، ہمیں وہاں سے غور کرنا ہوگا، جب انسان محض ایک ایسے قطرے کی صورت میں ہوتا ہے جو باپ کی پشت سے نکلتا ہے اور وہ ماں کے رحم میں جاتا ہے تو نمو پاتا ہے ۔
اس کی افزائش شروع ہو جاتی ہے ، اس کا وجود ظاہر ہوتا ہے پھر ایک وقت کے بعد اس میں روح آتی ہے۔ پہلے دن سے لے کر روح آنے تک وہ کون سی شے ہے، جس سے ایک قطرہ پورا وجود، پوری صورت بن جاتا ہے ، روح تو بعد میں آتی ہے۔“
” وہ کیا چیز ہے؟“میں نے پوچھا
” تم اسے جان سمجھ لو ۔یعنی یہ گوشت پوست ، بنا روح کے بھی پروان چڑھتا ہے ۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوا،پھر بڑبڑاتے ہوئے بولا،” روح ہوتے ہوئے بھی ، انسان ، انسان نہیں رہتا ، حیوان بن جاتا ہے ، اس پر کبھی غور کیا تم نے؟“
”ہاں اس کی تو مجھے کافی سمجھ ہے۔
انسان کس قدر درندگی پہ اتر آتا ہے ، حیوانیت ہی کا روپ ہے نا یہ ۔“میں نے کہا تو میری آنکھوں کے سامنے کئی منظر گھوم گئے۔ 
” میرا سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ، جبکہ رَبّ تعالی نے تو اسے احسن تقوم پر پیدا کیا۔ اسے بہت اچھا بنایا۔ اس خالق کا شاہکار ہے یہ انسان۔“ اس نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا ۔
” آپ بتائیں،یہ کیا تبدیلی ہے؟“ میں نے دھیمے سے لہجے میں بولا
” انسان میں تخلیق کی قوت پیدا ہو جاتی ہے۔
جیسے ایک بیج لگایا تو اس سے درخت بن گیا۔ جس سے ہزار ہا نئے بیج بن جاتے ہیں۔اس تخلیقی صلاحیت کے ساتھ رَبّ تعالی نے اس کے وجود میں بہت کچھ رکھ دیا ، جس کا خود انسان کو ادراک نہیں، آہستہ آہستہ وہ اپنے بارے جانتا چلا جا رہا ہے ۔ یہ اسی وقت جانتا ہے جب وہ اپنے بارے میں جانے گا کہ اس کے اندر کیاپڑا ہے۔“
” اسے کیسے پتہ چلے گا کہ اس کہ اندر کیا ہے؟“ میں نے پوچھا
” تمہیں کس نے بتایا کہ ماں کا دودھ کیسے پیتے ہیں؟ پرندے کو کس نے اڑنا سکھایا؟یا مچھلی کو کس نے تیرنا بتایا۔
یہ جبلت ہے انسان کی ۔جب اس پر کوئی موقعہ آتا ہے ۔اسے ضرورت ہوتی ہے تو اس معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے۔“اس نے دھیمے لہجے میں کہا تو میں الجھتے ہوئے بولا
” بات آپ نے اندر کے معیار سے شروع کی اور کہاں تک لے آئے۔ کہیں ہم اُلجھ تو نہیں گئے؟“
” نہیں اُلجھے نہیں ،بلکہ میں تمہیں بتارہا ہوں کہ آدمی ، انسان سے حیوان کیسے بن جاتا ہے۔
“ انہوں نے سکون سے کہا
” وہ تو آپ نے بتا دیا کہ اس کے اندر کے معیار سے۔“ میں نے انہیں یاد دلایا تو وہ ذرا سا مسکرا دئیے اور بولے 
” ہاں، اس کے اندر کے معیار ہی سے ،لیکن یہ نہیں سمجھو گے کہ یہ اندر کا معیار بنتا کیسے ہے ؟“
” جی یہ تو سمجھنا چاہوں گا۔“ میں نے تیزی سے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے بولے
” چلو ، یہ بات آج رات ہی کو سہی ۔
سکون سے سمجھاؤں گا۔ فی الحال،تم اندر جا کر دوا کھا لو اور آرام کرو۔باتیں تو ہوتی رہیں گی اور تمہیں یہ بھی بتاناہے کہ انسان اپنی راہ میں رکاوٹ کیسے ہے۔“
یہ کہتے ہوئے انہوں نے میرا کاندھا دبایا اور ہاتھ پکڑ کر اُٹھنے کا اشارہ کیا۔میں اُٹھ گیا تو وہ مجھے اندر کی جانب لے کر بڑھ گیا۔
                                 #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط